گزشتہ سال 13 ستمبر کوشمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں یو اے پی اے کے تحت اسٹوڈنٹ لیڈر عمر خالد کو گرفتار کیا تھا۔ یو اے پی اے کے ساتھ ہی اس معاملے میں ان کے خلاف فساد برپا کرنے اور مجرمانہ طور پر سازش کرنے کے بھی الزام لگائے گئے ہیں۔
عمر خالد۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@MuhammedSalih)
نئی دہلی: ملک کی متعددمعروف شخصیات نے سوموار کوایک سال سے قیداسٹوڈنٹ لیڈرعمر خالدکی رہائی کا مطالبہ کیا۔پی ایچ ڈی کی پڑھائی کر رہے اور شہریت قانون(سی اےاے)کےخلاف بے باک کارکن کے طور پر پہچانے جانے والے خالد کو 13 ستمبر 2020 کو دہلی پولیس کی اسپیشل برانچ نے پوچھ تاچھ کے لیے بلایا تھا اورشمال-مشرقی دہلی میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات کے سلسلے میں گرفتار کیا تھا۔
اس کے بعد خالد کویو اے پی اے کے تحت ملزم بنایا گیا۔
پلاننگ کمیشن کی سابق رکن اورحقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی سماجی کارکن سیدہ حمید،سپریم کورٹ کےوکیل پرشانت بھوشن، رکن پارلیامنٹ منوج جھا، صحافی سدھارتھ وردراجن نے راجدھانی دہلی میں ہوئے ایک پروگرام کے دوران الزام لگایا کہ مشتبہ شواہد کا استعمال خالد جیسےباصلاحیت نوجوانوں کی آزادی چھیننے کے لیے کیا جا رہا۔
حمید نے کہا،‘ان کی(عمر خالد)واحد غلطی آئین کو بنائے رکھنا اور سی اےاے،این پی آر و این آرسی کی مخالفت کرنا ہے۔ انہوں نے امراوتی میں شاہین باغ کی عورتوں کو سلام کیا اور گاندھی جی کےنظریات کو بنائے رکھنےکی اپیل کی۔’
حمید نے الزام لگایا،‘انہوں نے ان خواتین کو سلام کیا، جو جامعہ کے طلباپر وحشیانہ ظلم کے خلاف سڑکوں پر نکلیں اور 101 دنوں تک باہر رہیں۔حکومت اس حوصلے سے ڈر گئی تھی۔ ان کے لیے ایک تعلیم یافتہ مسلمان آنکھ کا کانٹا بن گیا ہے۔’
صحافی سدھارتھ وردراجن نے خالد کے خلاف داخل چارج شیٹ پر سوال اٹھاتے ہوئےالزام لگایا کہ سرکار دہلی دنگے کے قصورواروں کو بچانے کے لیے سی اے اےمخالف مظاہرین کو مجرم بنا رہی ہے۔
وکیل پرشانت بھوشن نے الزام لگایا کہ یہ سازش کی جانچ نہیں ہے، بلکہ قصورواروں کو بچانے کے لیے بےگناہوں پر الزام عائد کرنے کی سازش ہے۔بھوشن نے کہا، ‘یہ ضروری ہے کہ معاملے کی جانچ کرنے والی پولیس کو جوابدہ ٹھہرایا جائے۔’
بھوشن نے کہا کہ یہ قابل ذکر ہے کہ 2006 میں سپریم کورٹ نے پولیس اصلاحات کی ہدایت دی تھی، جس میں کہا گیا تھا کہ نظم ونسق نافذ کرنے والی پولیس فورس کو جانچ کرنے والوں سے الگ ہونا چاہیے۔
آر جے ڈی ایم پی منوج جھا نے کہا، ‘اس مشکل وقت میں آپ ہیروز کو فلموں میں نہیں، بلکہ سلاخوں کے پیچھے پائیں گے، جو سرکار کے خلاف بولتے ہیں۔’انہوں نے الزام لگایا،‘سرکار شاہین باغ(احتجاج)کو سنبھال نہیں سکی،اس لیے اس نے اس کو غلط انداز میں پیش کرنا شروع کر دیا۔’
اس پروگرام میں دہلی اقلیتی کمیشن کے سابق صدرظفرالاسلام خان، سینئر صحافی بھارت بھوشن اور کسان رہنما جسبیر کور نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔
یو اے پی اے کے تحت گزشتہ سال 13 ستمبر کو عمر خالد کو گرفتار کیا گیا تھا۔ یو اے پی اے کے ساتھ ہی اس معاملے میں ان کے خلاف فساد برپا کرنے اور مجرمانہ طور پر سازش کرنے کے بھی الزام لگائے گئے ہیں۔
پولیس نے دعویٰ کیا ہے کہ شہریت قانون (سی اےاے)اور این آرسی کے خلاف احتجاجی مظاہروں میں شامل عمر خالد اوردیگر نے دہلی میں دنگوں کی سازش کی تاکہ دنیا میں مودی سرکار کی امیج کو خراب کیا جا سکے۔
دہلی پولیس کے مطابق، خالد نے مبینہ طور پر دو الگ الگ مقامات پر اشتعال انگیز تقریرکی تھی اور لوگوں سے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کےہندوستان دورے کے دوران سڑکوں پر آنے اور سڑکوں کو بندکرنے کی اپیل کی تھی تاکہ بین الاقوامی سطح پر لوگوں کو پتہ چلے کہ ملک میں اقلیتوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا جا رہا ہے۔
بتا دیں کہ دہلی فسادات کو لےکر پولیس کی جانچ تنقید کے گھیرے میں رہی ہے۔فسادات کی سازش کرنے کے لیے کارکنوں اور طلبا کی گرفتاری کو لےکر بھی پولیس کی تنقید ہوتی رہی ہے، جبکہ پولیس نے کپل مشراجیسے بی جے پی رہنما کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی، جس نے تشددسے کچھ گھنٹے قبل ہی ہیٹ اسپیچ دی تھی۔
عدالتوں نے بھی دہلی فسادات سےمتعلق کچھ معاملوں کی جانچ کی نکتہ چینی کی ہے۔
معلوم ہو کہ 24 فروری، 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں شہریت قانون کےحامیوں اور مظاہرین کے بیچ فرقہ وارانہ تشدد ہوئے تھے۔اس تشدد میں تقریباً53 لوگ مارے گئے تھے اور لگ بھگ 200 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)