سماج میں مسلم مخالف تعصب تو پہلے سے ہی موجود تھا، آر ایس ایس کی نگرانی میں ان کے خلاف مسلسل چلائی گئی مہم کو اب لہلہانے کے لئے زرخیززمین مل گئی ہے۔
بڑے پیمانے پر ہونے والے تشدد کے بارے میں لکھنا کافی پیچیدگی بھرا کام ہے۔ صحافیوں کے لئے، خاص طور پر جو غیر جانبدارانہ اور صحیح طریقے سے ‘واجب ‘ لفظوں کا استعمال کرتے ہوئے رپورٹ کرنا چاہتے ہیں، ان کے لئے یہ ایک مشکل صورت حال ہے۔رپورٹر کے لئے بھی اس طرح کے اصطلاحات کو مستقل طور پراستعمال کرنا کٹھن ہوتا ہے ، جو قارئین کے مزاج اور رویےکے مطابق نظریات سے یکسر پاک ہو۔ اکثر اوقات کوشش ہوتی ہے کہ اس طرح لکھیں کہ نظریےسے لدے ہوئے الفاظ ضرورت سے زیادہ نہ ہوں۔
سوشل میڈیا پر اس بارے میں تبصرے کیے گئے ہیں کہ کیوں دہلی میں ہونے والے تشدد کو ‘فساد’ نہیں کہا جانا چاہئے۔ ایک نے کہا کہ عوامی تشددکے لئے فساد لفظ کا استعمال نوآبادیاتی طاقتوں کے ذریعے کیا جاتا تھا۔ایک قاری نے کہا کہ اپنے بڑے حصے میں یہ تشدد یکطرفہ تھااور مسلمانوں کو اس کا خاص طور پر نشانہ بنایا گیا۔ اس لئے اس کو صرف ہندوتواوادیوں کے ذریعے کئے گئے تشدد کا نام دیا جانا چاہیے۔ ‘
کچھ لوگوں کے ذریعے’قتل عام ‘ لفظ کا بھی استعمال کیاگیا ہے۔ یہ سب دلچسپ تبصرے ہیں، مگر ان میں سے کوئی بھی مسائل سے خالی نہیں ہے۔دراصل میڈیا رپورٹنگ میں مختصر سے کام چلایا جاتا ہے اورفساد سب سے زیادہ استعمال کی جانے والی اصطلاح ہے، بھلےہی اس لفظ سےپولیس-انتظامیہ کے ذریعے بیچ-بچاؤ کی کوششوں کے باوجود دو فریقوں کے ذریعے آپس میں مارکاٹ کرنے کی امیج ابھرتی ہے۔ لیکن ہمیں معلوم ہے کہ دہلی میں ایسا نہیں ہوا۔
کوئی بھی تجربہ کار پولیس اہلکار آپ کو بتائے گا کہ اگرپولیس چاہے تو ، وہ چند گھنٹوں میں اس طرح کے تشدد پر قابو پاسکتی ہے۔ اس معاملےمیں-اور ہندوستان میں ماضی میں ہوئے ایسے کئی معاملوں میں پولیس بس تماشائی بنکرنہیں بلکہ اس نے بے بس اور بے گناہ لوگوں کے خلاف تشدد کرنے والوں کا کھل کرساتھ دیا ہے۔
جہاں تک عام آدمیوں کو متاثر کرنے والے تشدد اور جدو جہدکو مختصرلفظوں میں پیش کرنے کی بات ہے، تو ‘ فساد ‘ لفظ سے کام چلایا جا سکتا ہے،حالانکہ یہ آئیڈیل نہیں ہے۔ لیکن ضرورت محض میڈیا رپورٹس سے ماورا ہو کر اس پر غورکرنے کی ہے کہ آخر دہلی میں ہوئے تشدد کا تعلق کس چیز سے ہے؟اس سے پہلے بھی ہتھیاربند گروپوں کے ذریعے منظم طریقے سےاقلیتی کمیونٹی کے خلاف تشدد کرنے کے واقعات ہوئے ہیں۔ 1984، 1992-93 اور 2002کی یادیں ہندوستانیوں کے دل سے آج تک مٹی نہیں ہیں۔
ان تمام معاملوں میں، یہاں تک کہ ان معاملوں میں بھی جن میں پلٹ وار کیا گیا-جیسا کہ 1992-93 میں دیکھا گیا، آخر میں اموات، گھروں کےتوڑپھوڑ، دکانوں اور کاروبار کو جلانے کے معاملے میں سب سے زیادہ نقصان اقلیتی کمیونٹی کو اٹھانا پڑا۔دہلی کے تشدد میں بھی اسی پیٹرن کو دوہرایا گیا ہے-مقصدصرف مارنا یا معذور بنانا نہیں ہے، بلکہ ان کی عبادت گاہوں پر اور خاص طور پر ان کے کام کرنے کی جگہوں پر حملہ کرنا اور اس طرح سے ان کو معاشی طور پر تباہ کر دیناہے۔ یہ سب بڑی ہوشیاری سے کیا جاتا ہے-اکثر حملہ آور گروپوں کے پاس مسلم گھروں اوردکانوں کی فہرست ہوتی ہے۔
پھر بھی دہلی کے فسادات کافی الگ ہیں۔ اسے پچھلے چھ سالوں میں جو کچھ ہوا ہے، اور خاص طور پر پچھلے ایک سال میں جو ہوا ہے، اس کےتناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔یہ ‘مسلمانوں کا مسئلہ ‘ کا ہمیشہ کے لئے علاج کرنے کی بڑی کوشش کا حصہ ہے، جو آر ایس ایس اور اس کے ماتحت کام کرنے والی ہندوتووادی طاقتوں اور ان کے بےشمار حمایتیوں کا سالوں سے سنجویا ہوا خواب ہے۔
تقریباً ایک صدی سے آر ایس ایس رہنماؤں کی ساری سوچ اس بات پر مرکوز رہی ہے کہ مسلمانوں کو کس طرح سے ماتحت بنایا جائے کہ وہ دوئم درجےکے حقوق سے محروم شہری بن جائیں کیونکہ اپنی تمام چاہتوں کے باوجود ان سے پوری طرحسے چھٹکارا پانا مشکل ہے۔پچھلے ستر سالوں میں سنگھ مرکزی اقتدار سے باہر رہا،لیکن جب اور جہاں اس کو موقع ملا، مثلاً گجرات میں، اس نے ان کو ختم کرنے کی ہرممکن کوشش کی۔ آج اس ریاست میں مسلمان ہونے کی وجہ سے ہر روز ذلت کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ان کو یہ مسلسل یاد دلایا جاتا ہے کہ ان کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
سنگھ پریوار کو جس گھڑی کا انتظار سالوں سے تھا، وہ گھڑی2014 میں آئی جب نریندر مودی-جن کی نگرانی میں گجرات میں مسلم مخالف تشدد کو بلاروک ٹوک انجام دیا گیا-وزیر اعظم بنے۔ان کی پہلی مدت کار میں بڑے پیمانے پر قتل عام کا کوئی واقعہ تو نہیں ہوا، لیکن اس دوران ملک میں لنچنگ کے بےشمار واقعات ہوئے اور مسلم مخالف تشدد کے علاوہ بی جے پی رہنماؤں کے ذریعے ہیٹ اسپیچ میں اضافہ صاف طور پر دیکھا گیا۔
اس نے ایک ایسا ماحول بنایا جس میں اقلیتوں کے بارے میں بےحد گھناؤنی باتیں کرنا عام بات ہو گئی۔ یہاں تک کہ مودی نے بھی انتخابی مہم کےدوران وزیر اعظم کا اپنا لباس اتار پھینکا۔مسلم مخالف تعصب تو تھوڑا بہت پہلے سے ہی موجود تھا۔ایسے میں ان کے خلاف مستقل طور پر چلائی گئی اس مہم کو لہلہانے کے لئے زرخیز زمین مل گئی۔
2019 میں بھاری اکثریت کے ساتھ مودی کی واپسی کا صاف طور پر یہ مطلب تھا کہ ان کے حامیوں کےلئے فرقہ پرستی کوئی مسئلہ نہیں تھی، بلکہ انہوں نے اس کو ہندوتووادی منصوبہ پر مہرلگنے کے طور پر دیکھا۔ اور پارٹی اور ا س کے رہنماؤں نے مایوس نہیں کیا ہے۔
آسام میں شہریوں کے این آر سی جس کومسلمانوں کی چھننی کے مقصد سے تیار کیا گیا تھا، مگر جس سے بڑی تعداد میں ہندوباہر رہ گئے، سے لےکر کشمیر میں 80 لاکھ لوگوں پر بٹھا گئی پہرےداری تک، جس میں تمام آئینی اہتماموں کی دھجیاں اڑا دی گئیں، سے لےکر اب دہلی کے تشدد تک-ان سبھی کا مقصد مسلمانوں کو حاشیے پر دھکیلنا رہا ہے۔
مسلم شناخت رکھنے والے تعلیمی ادارے جیسےجامعہ ملیہ اسلامیہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو نشانہ بنایا گیا ہے اور شہریت ترمیم قانون(سی اے اے)-این آر سی کی قواعد پورے ملک میں کئے جانے کا منصوبہ ہے۔ہو سکتا ہے کہ احتجاج اور مظاہرہ نے اس کی تاریخ کو تھوڑاآگے کھسکا دیا ہو، لیکن کیا کسی کو اس نظام کے آخری ہدف کو لےکر کوئی شک ہو سکتاہے؟
واقعات کا سلسلہ، اگر مقبول عام اصطلاح کا استعمال کرتےہوئے کہیں، تو ‘کرونولاجی’اہم ہے۔ دہلی کا تشدد کسی مقامی مسئلے کے ہاتھ سے نکل جانے کی وجہ سے ہوا خودبخود دھماکہ نہیں ہے۔دہلی انتخابی تشہیر کے دوران مرکزی حکومت میں وزیرانوراگ ٹھاکر نے ‘ گولی مارو ‘ جیسے نعروں سے عوام کو اکسایا تھا، جس کا نشانہ صاف طور پر شاہین باغ کے مظاہرین تھے۔ انتخاب کے ٹھیک بعد کپل مشرا (جو کبھی عام آدمی پارٹی میں تھا)نے مظاہرین کو ہٹانے کے لئے دہلی حکومت کو الٹی میٹم دیا۔
تشدد کی شروعات اس کے ٹھیک بعد ہوئی اور نہ ہی ٹھاکر اورنہ مشرا کی جوابدہی طے کی گئی۔ وزیر اعظم نے ایک پتھریلی خاموشی اوڑھ رکھی ہے۔ امت شاہ کا جارحانہ انداز قائم ہے اور پولیس کی طرف سے مسلمانوں کے خلاف تشدد جاری رکھنے کی چھوٹ ملی ہوئی ہے۔ان سب کے درمیان انصاف کے مندر کے رکھوالوں نے مداخلت کرنے کی کوئی جلدبازی نہیں دکھائی ہے اور انہوں نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ عدالتوں سے تشدد کو ہونے سے روکنے کی امید نہیں کی جا سکتی ہے۔ ادھر سرکاری میڈیا الگ الگ طریقوں سے ہندوؤں پر مسلمانوں کے ظلم کی کہانیاں سنا رہا ہے۔
یہ سب-مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنانا، ان سے ان کی شہریت چھیننے کے لئے تمام قانونی اوزاروں کا استعمال کرنا، لاکھوں لوگوں کے حقوق اور ان کی زمین چھینکر ان پر پہرے لگانا، اور اب کمیونٹی کے سب سے کمزور طبقوں کےخلاف منصوبہ بند تشدد کرنا-اس کمیونٹی کو تباہ کرنے کے بڑے منصوبےکی طرف ہی اشارہ کرتے ہیں۔نسل کشی کی روایتی شکلوں میں جسمانی تشدد کے کئی مرحلےہو سکتے ہیں، جیسا کہ روانڈا یا بوسنیا میں دیکھا گیا، جس کا خاتمہ ہزاروں لوگوں کی موت پر ہوتا ہے۔ عالمی کمیونٹی ان کو ہونے سے نہیں روک پائی، لیکن اس نے ان سےسبق لیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ غیر جانبدار ہو سکتے ہیں، لیکن کئی ممالک، جن میں ایران جیسے دوست ملک بھی ہیں، نے اپنی گہری تشویش ظاہر کی ہے۔اقوام متحدہ کا ہندوستانی عدالت میں عرضی لگانا، ہندوستان کی تاریخ میں ہوا ایسا پہلا واقعہ ہے۔ہندوستان میں جو ہم آج دیکھ رہے ہیں وہ نسل کشی کاہندوستانی ایڈیشن ہے۔ ہندوستان جیسے بڑے ملک میں، جس کی بنیاد جمہوریاداروں پر ٹکی ہے اور جہاں ایک مضبوط وفاقی ڈھانچہ ہے،تنوع کے بارے میں کوئی بات نہیں کرنا، 20 کروڑ مسلمانوں سے چھٹکارا پانا کوئی آسان کام نہیں ہوگا۔
لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آر ایس یاس اس سمت میں کوشش کرنا چھوڑ دےگا۔ پارلیامنٹ ا س کے قابو میں ہے، حکومت وہ چلا رہا ہے اوردوسرے ادارے بھی ا س کے اثر میں ہیں۔ اور کئی ریاستوں میں اس کے پاس شاہی حکومت کی اصلی طاقت ہے۔ سب سے بڑی بات، اس کے پاس صبر ہے۔ میڈیا اس کے پروپیگنڈہ محکمہ کےطور پر کام کرتا ہے۔ وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے-ایک دن شاید لوگ آر ایس ایس کے اس کام کےلئے کھڑے ہوںگے۔
دہلی کا تشدد رک گیا ہے لیکن اقلیتوں کو ختم کرنے کاہندستووادی منصوبہ تو ابھی بس شروع ہی ہوا ہے۔