شمال مشرقی دہلی کے شیو وہار میں گزشتہ دنوں ہوئے فسادات کے بعد سینکڑوں مسلم فیملی نے مصطفیٰ آباد میں پناہ لی ہے۔ متاثرین کو ڈر ہے کہ اگر وہ واپس جائیںگے، تو ہندوتوا تنظیم کے لوگ ان پر حملہ کر سکتے ہیں۔
نئی دہلی: دہلی کے فساد متاثرہ مصطفیٰ آباد کی اندرا وہار میں گلی نمبر 4 کی ایک تین منزلہ عمارت کے باہر سی آر پی ایف کے 6 جوان اپنے ہتھیار لئے کھڑے ہوئے تھے۔ گھرکے اندر سے رونے کی آوازیں آ رہی تھیں اور چاروں طرف افرا تفری کا ماحول بنا ہواتھا۔ جب ہم ایک اندھیرے کمرے سے ہوتے ہوئے تقریباً15 سیڑھیاں چڑھکر اوپر پہلی منزل پر پہنچتے ہیں تو وہاں 50-60 مسلم فیملی اپنے چھوٹے-موٹے سامان سمیٹے ہوئے غمگین بیٹھے ہوئے تھے۔
یہ فیملی یہاں سے تقریباً 500 میٹر دور واقع شیو وہار سے اپنی جان بچاکر بھاگکےرآئی ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ تقریباً 700-800 فیملی کو اس علاقے میں ہجرت کرنی پڑی ہے۔لوگوں کے گھروں، دکانوں، گاڑیوں میں اس طرح سے آگ لگائی گئی ہے کہ ایک ٹکڑاتک نہیں بچا ہے۔ ڈر کا عالم اس قدر تھا کہ لوگ صرف اپنے بچوں کو ہی ساتھ لاسکیں، باقی سب کچھ پیچھے چھوٹ گیا۔
اس کمرے میں کوئی پنکھا نہیں ہے اور گرمی بڑھتی جا رہی۔ بھیڑ کی وجہ سےسانس لینے میں بھی مشکل ہوتی ہے۔ زمین پر بچھائی گئی دری میں مٹی اور گندگی کاڈھیر جمع ہوا ہے۔ خواتین اپنے چھوٹے بچوں کو چپ کرانے کی کوشش کر رہی تھیں کیونکہ ان کو کئی دنوں سے صحیح سے کھانا اور دودھ نہیں ملا ہے۔کمرے کے ایک کونے میں خالی جگہ دیکھکر کچھ بچے وہاں آپس میں کھیلنا شروع کرتے ہیں، تبھی ایک خاتون آتی ہیں اور ان کو ڈانٹکر بھگا دیتی ہیں۔ خاتون نےکہا، یہ میرا کونا ہے۔ جاؤ اپنے ماں باپ کو ڈھونڈو۔ یہاں سے ہٹو فوراً۔ ‘
اس عمارت کے باہر کھڑے سی آر پی ایف کے جوان جہاں شیو وہار کے لوگوں نےپناہ لے رکھی ہے۔ (فوٹو : دی وائر)
اسی بیچ کچھ لوگ راحت کا سامان لےکر آتے ہیں اور لوگ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ہرکوئی اپنے لئے زیادہ سے زیادہ سامان اکٹھا کر لینا چاہتا ہے۔ ان کو ڈر ہے کہ پتہ نہیں پھر کب ان کا نمبر آئےگا۔ سامان باٹنے والا غصے میں آ جاتا ہے اور کہتاہے،’بند کرو یہ سب۔ کسی کو کچھ نہیں ملےگا۔ ایسے ہی بیٹھے رہو تم سب۔ ’59 سالہ شکیل احمد 1994 سے ہی شیو وہار کے تراہا پرایل (L) شیپ میں بنے اپنے 50 گز کے تین منزلہ گھر میں رہتے تھے۔ تشدد کے وقت احمد نے پاس میں واقع ایک شیو مندر کو بچایاتھا۔ حالانکہ ایسا کرنا بھی شرپسندوں کے جذبات میں تبدیلی نہیں لا سکا اور انہوں نے ان کے پورے گھر کو جلاکر راکھ کر دیا۔
شکیل احمد اور ان کی فیملی(فوٹو : دی وائر)
اس وقت شکیل احمد نے اپنی پوری فیملی کے ساتھ مصطفیٰ آباد میں اپنے ایک دوسرے بیٹے کے یہاں پناہ لے رکھی ہے۔اس دن کے پورے واقعہ کو بیان کرتے ہوئے شکیل احمد کے 38 سالہ بیٹےجاوید خان نے کہا، 24 فروری کے دن چار گھنٹے تک ہم اپنے گھر میں ڈرے سہمے بیٹھے رہے۔ ہمیں لگایہ شور اب ختم ہو جائےگا، اب ختم ہو جائےگا۔ لیکن شور بند نہیں ہوا اورپھر ایک وقت ایسا آیا کہ ہماری دکان کے شٹر کا تالا توڑ دیا گیا اور اس میں آگ لگادی گئی۔
انہوں نے آگے کہا، ہم اپنے بچوں کو دکھاکر گزارش کر رہے تھے کہ یہاں ہماری فیملی رہتی ہے، چلے جاؤ۔ لیکن ان کو رحم نہیں آیا اور انہوں نے پتھر مارناشروع کر دیا۔ ‘خان کی موٹرسائیکل کے اسپیئر پارٹس کی دکان تھی۔ شرپسندوں کی پہچان کےبارے میں پوچھے جانے پر شکیل احمد کہتے ہیں کہ تمام حملہ آور باہر کے رہنے والےتھے۔ انہوں نے کہا، ‘میں اتنے سالوں سے یہاں رہ رہا ہوں۔ اگر حملہ کرنے والا کوئی بھی آدمی یہاں کا ہوتا تو پہچان میں آ جاتا۔ ‘
24 فروری کی شام کو جاوید خان اپنےبھائیوں اور پڑوسیوں کی مدد سے بھاگکر مصطفیٰ آباد آ گئے تھے۔ اگلے دن جب جاکرانہوں نے دیکھا تو ان کے گھر میں صرف راکھ کا ڈھیر بچا تھا۔ ان کے گھر کے سامنےہندوؤں کے بھی تین گھر تھے جس کو جلا دیا گیا ہے۔خان اس دن اپنی بیوی اور بچوں کے علاوہ گرو نام کے ایک ہندو بچے کے ساتھ گھر میں چھپے ہوئے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ وہ ہمارے یہاں موٹرسائیکل کا کام سیکھتاتھا۔ اس کو ہم اپنے ساتھ لے آئے اور اگلے دن باعزت اس کو اس کے گھر پہنچایا۔ ‘
جاوید خان کا گھر جلنے سے پہلے اور بعد کی حالت۔
جاوید خان کی بیوی شمع اپنے گھر کی پہلے کی تصویریں دکھاتے ہوئے رونے لگتی ہیں۔ انہوں نے کہا، ایک ایک چیز جوڑکر اتنے سالوں میں ہم نے گھر بنایا تھا۔میرے شوہر کی پوری جوانی کٹ گئی سامان اکٹھا کرتے-کرتے۔ لیکن ایک لمحہ میں ہی انہوں نے خاک کر دیا۔ اپنے بچے کے علاوہ میں کچھ بھی اپنے ساتھ نہیں لا سکی۔ہمارے گھر میں سامان نہیں ہے، اب صرف ڈھانچہ بچا ہے۔ ہم نے ایک بار بھاگنا شروع کیا تو بھاگتے رہے، پیچھے مڑکر دیکھنے کا موقع نہیں تھا ہمارے پاس۔ ‘
شمع نے بتایا کہ وہ نہ تو اپنے زیور سمیٹ پائیں اور نہ ہی گھر کی دیگرچیزیں لا پائیں۔ انہوں نے کہا، ‘ جینے کے لئے اب ہمارے پاس کچھ بھی نہیں بچا۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ہم کہاں سے شروعات کریں۔ حکومت نے جتنی رقم دینے کا اعلان کیا ہے اتنےمیں میرے باورچی خانہ کا سامان بھی نہیں آ سکتا ہے۔ گھر بنانا اتنا آسان نہیں ہوتاہے۔ اللہ کے علاوہ ہمیں کسی پر بھی یقین نہیں ہے۔
شکیل احمد ہندو اور مسلمانوں کے درمیان اچھے تعلقات ہونے کا دعویٰ کرتے ہوئےکہتے ہیں کہ ان کا ایک دوسرے کے یہاں آنا-جانا اور کھانا پینا ہے۔ خان کے بچے جس راجدھانی پبلک اسکول میں پڑھتے تھے، اس کو بھی جلا دیا گیا ہے۔پچھلے 20 سال سے خاتون شیو وہار کے ایک ہندو آدمی کے مکان میں کرائے پر رہتی تھیں۔ 24 فروری کو شام میں ان کے شوہر مزدوری سے واپس آئے تھے، لیکن تشدد کے ڈر سے بغیر کھائے-پیے چھےلوگوں کی فیملی کے ساتھ وہ مصطفیٰ آباد میں آ گئیں اور تب سے ایک بار بھی واپس نہیں گئی ہیں۔
ان کو نہیں پتہ کے ان کے گھر میں کیا کچھ بچا بھی ہے لیکن ان کو اس کی خوشی ہے کہ ان کی جان بچ گئی۔ اسی طرح 50 سالہ محمد شکیل بھاگیرتھی وہار میں اپنی بیوی اور تین لڑکوں کے ساتھ ایک کمرے کے گھر میں رہتے تھے۔ کمرے کاکرایا 2500 روپے فی مہینے تھا۔شکیل اپنی بیوی شائرہ کے ساتھ ٹھیلا پر چائے اور کھانا بیچنے کا کام کرتےتھے۔ شرپسندوں نے شکیل کی کمائی کا واحد ذریعہ اس کا ٹھیلا اور ان کی ایک موٹرسائیکل جلاکر راکھ کر دی۔
شیو وہار سے ہجرت کرکے آئی خواتین(فوٹو : دی وائر)
اس واقعہ کے بعد سے ہی انہوں نے پوری فیملی کے ساتھ مصطفیٰ آباد میں ایک جاننے والے آدمی کے گھر میں پناہ لے رکھی ہے۔ ایک پھیری لگانے والے آدمی نے ایک کمرے کے گھر میں ان کو رہنے کی جگہ دی ہے۔وہ کہتے ہیں، یہ کتنے دن چل پائےگا۔ کسی نہ کسی دن تو ہمیں جانا ہوگا۔اب کچھ بچا ہی نہیں ہے۔ وہاں پر اور لوگوں کے بھی بائیک تھے لیکن انہوں نے میری ہی بائیک جلائی۔ ‘ جس عمارت میں شکیل رہتے تھے اس میں سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے تھے،لیکن شرپسندوں نے اس کو بھی توڑ دیا۔
شائرہ نے بتایا کہ شرپسندوں نے ان کے زیورات اور تمام قیمتی سامان کو چرالیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ میرے بڑے بیٹے وکیل کا رشتہ لگ گیا تھا۔ اس کی شادی کےلئے کافی سامان خریدکر رکھا تھا۔ لیکن وہ سب اٹھا لے گئے۔ ہم جس کپڑے میں گھر سےنکلے تھے اسی کپڑے میں ابھی تک ہیں۔ ‘شائرہ نے اپنا ہاتھ آگے بڑھاکر کچھ پیسے دکھاتے ہوئے کہا، ‘یہ ڈیڑھ سوروپے ہیں، نیچے ایک دکان والے نے دیا ہے۔ کل ملاکر اتنے ہی پیسے ہیں میرے پاس۔ ‘ حملہ آوروں کے بارے میں پوچھے جانے پر انہوں نے کہا، ‘ یہ ہم نہیں بتا سکتے ہیں، ہماری جان کو خطرہ ہے۔ ‘
اسی عمارت میں شکیل والی منزل پر ہی بہار سے آنے والی رخسانہ رہتی تھیں۔تین سال پہلے دل کا دورہ پڑنے سے ان کے شوہر کی موت ہو گئی تھی۔ رخسانہ کے تین لڑکے اور دو لڑکیاں ہیں۔ وہ گھروں میں جھاڑو-پوچھا لگانے کا کام کرتی ہیں، جس کےلئے ایک گھر سے 2000 روپیے فی مہینے ملتے ہیں۔سسرال سے کوئی رشتہ نہیں ہے۔ کبھی کوئی ان کا حال جاننے نہیں آتا ہے۔کئی دنوں کی محنت کے بعد انہوں نے 8000 روپے کماکر رکھا تھا، لیکن حملہ آوروں نے یہ سب لوٹ لیا۔ اس کے علاوہ گیس سلینڈر، راشن کا سامان، برتن وغیرہ بھی لوٹا گیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ پہلے سے ہی میری حالت بہت خراب ہے۔ مائیکے والا بھی میرا ساتھ نہیں دیتے ہیں۔ اب کیسے پھر سےسب کچھ بنا پاؤںگی میں۔ پولیس نے ابھی تک میری شکایت نہیں لکھی ہے۔
‘انہوں نے آگے کہا، ‘میرے بچے بہت چھوٹے ہیں۔ بہت ڈرے ہوئے ہیں۔ کل ہی 150 روپے کی دوالےکر آئی ہوں۔ ہر پل روتے رہتے ہیں۔ جو بھی راحت کاسامان بانٹا جا رہا ہے وہ بھی مجھے نہیں مل پا رہا ہے۔’
ذوالفقار اور ان کی بیوی(فوٹو : دی وائر)
شیو وہار کی رہنے والی 70 سالہ نورجہاں اپنے سب سے چھوٹے بیٹے عاقب کی شادی کرنے کی تیاری کر رہی تھیں۔ بڑے بیٹے سے کوئی خاص رشتہ نہیں ہے اس لئے ان کو اس بیٹے کی شادی کےکافی سپنے پال رکھے تھے، حالانکہ وہ اس کو مکمل نہیں کر پائیں۔فسادات کی وجہ سے ان کو پورا گھر-بار چھوڑکر مصطفیٰ آباد میں آنا پڑا ہے۔انہوں نے کہا، ‘ ایک وقت تھا کہ ہم غریبوں کی مدد کیا کرتے تھے، لیکن آج ہم کھانےکے محتاج ہو گئے۔’
نورجہاں بات کرتے-کرتے ہانپنے لگتی ہیں۔ وہ بلڈ پریشر کی مریض ہیں۔ انہوں نے کہا، ‘ بیٹا، میں اپنی دوا بھی نہیں لا پائی۔ ایک ہی کپڑے پچھلے تین-چار دن سےپہن رکھے ہیں۔ اس عمر میں میں اب کہاں جاؤںگی۔ ایسا نفرت کا ماحول کبھی نہیں دیکھا میں نے۔ ’60 سال کے ذوالفقار ای-رکشہ چلاکر اپناگزارا چلاتے تھے، لیکن تین مہینے پہلے ایک حادثہ میں ان کا ایک پیر ٹوٹ گیا، جس کی وجہ سے ان کو اپنے پیر میں راڈ ڈلوانی پڑی۔
ابھی بھی ان کی حالت کافی خراب ہے اور بنا کسی سہارا کے چل پانا ناممکن ہے۔ بیوی نسیمہ کی بھی حالت ٹھیک نہیں ہے۔ بیچ-بیچ میں ان کو دورے پڑتے ہیں۔ وہ کرایہ کے گھر میں رہتے تھے۔ تشدد کی وجہ سے ان کو پورا گھر-بار چھوڑکر مصطفیٰ آبادآنا پڑا۔ان کے ای-رکشہ کو بھی شرپسندوں نے جلا دیا اور گھر کا تالا توڑکر ساراسامان لوٹکر لے گئے۔ ذوالفقار کو ابھی بھی ڈر ہے کہ اگر وہ واپس جاتے ہیں تو ان پر حملہ ہو سکتا ہے۔
کئی پناہ گزینوں کا کہنا ہے کہ ان کے کئی اہم دستاویز آدھار کارڈ، ووٹرکارڈ، پین کارڈ وغیرہ یا تو جل گئے یا پھر شرپسندوں نے اس کو پھینک دیا، ایسی حالت میں وہ کیسے معاوضہ کا فائدہ اٹھا پائیںگے کیونکہ معاوضہ فارم میں یہ سارےدستاویز دینے ہوںگے۔