رہا ہونے کے بعد دیوانگنا کلیتا نے کہا کہ ہم ایسی خواتین ہیں، جو سرکار سے ڈرتی نہیں ہیں۔ سرکار لوگوں کی آواز اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کر رہی ہے۔ نتاشا نروال نے کہا کہ ہمیں جیل کے اندر زبردست حمایت ملی ہے اور ہم یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔ آصف اقبال تنہا نے کہا کہ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف لڑائی جاری رہےگی۔
دہلی کی تہاڑ جیل سے جمعرات شام کو آصف اقبال تنہا، دیوانگنا کلیتا اور نتاشا نروال کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: نتاشا نروال، دیوانگنا کلیتا اور آصف اقبال تنہا جمعرات کی شام تہاڑ جیل سے رہا کر دیے گئے اور انہوں نے اپنا جدوجہد جاری رکھنے کا عزم کیا ہے۔جیل سے ان کے باہر آنے کے کچھ ہی گھنٹے پہلے ایک عدالت نے شمال- مشرقی دہلی فسادات‘سازش’معاملے میں فوراً ان کی
رہائی کا حکم دیا تھا۔
گزشتہ15جون کو دہلی ہائی کورٹ نے یواے پی اے کے تحت پچھلے سال مئی میں گرفتار نروال، کلیتا اور تنہا کو
ضمانت دے دی تھی۔ ڈائریکٹر جنرل (دہلی جیل) سندیپ گوئل نے تصدیق کی ہے کہ تینوں کو رہا کر دیا گیا ہے۔
جسٹس سدھارتھ مردل اور جسٹس اے جے بھمبھانی کی بنچ نے ضمانت دیتے ہوئے کہا تھا، ‘ہم یہ کہنے کے لیے مجبور ہیں کہ اختلاف رائے کو دبانے کی عجلت میں حکومت نے احتجاج کے آئینی حق اور دہشت گردانہ سرگرمیوں کے فرق کو ختم سا کر دیا ہے۔ اگر یہ ذہنیت زور پکڑتی ہے تو یہ جمہوریت کے لیے افسوسناک دن ہوگا۔’
دراصل ضمانت دیےجانے کے بعد بھی دہلی پول س نے انہیں رہا کرنے کے سلسلے میں مزید وقت مانگا تھا۔
لائیولاء کے مطابق، پولیس نے ہائی کورٹ کو بتایاتھا،‘تمام ملزمین کے باہری مستقل پتے کی تصدیق زیر التوا ہے اور وقت کی کمی کی وجہ سے پورا نہیں کیا جا سکا۔ پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ضمانت داروں کے آدھار کی تفصیلات کی تصدیق کرنے کے لیے اسے یوآئی ڈی اےآئی کی ضرورت ہے۔’
دہلی پولیس نے ہائی کورٹ سے کہا تھا کہ ان کے پتے کی تصدیق کے لیے اسے 21 جون تک کاوقت چاہیے۔
اس پر دہلی کی کڑکڑڈوما عدالت میں ایڈیشنل سیشن جج رویندر بیدی نے پتے اورضمانت داروں کی تصدیق میں تاخیر کو لےکر پولیس کی سرزنش کرتے ہوئے کہا، ‘میں کہوں گی کہ یہ اپنے آپ میں ایک صحیح وجہ نہیں ہو سکتی ہے کہ جب تک اس طرح کی رپورٹ داخل نہیں ہو جاتی، تب تک ملزم کو جیل میں رکھا جائے۔’
اس بیچ، پولیس نے بدھ کو سپریم کورٹ کا بھی دروازہ کھٹکھٹاکر دہلی ہائی کورٹ کے ضمانتی حکم پر فوراًروک لگانے کی گزارش کی۔بہرحال تینوں طلبا- کارکنوں کے دوست اور اہل خانہ ان کی رہائی سے پہلے تہاڑ جیل کے باہر جمع ہوئے تھے۔
جواہر لال نہرویونیورسٹی(جے این یو)کی اسٹوڈنٹ نتاشا نروال اور دیوانگنا کلیتا نے جیل میں سال بھر رہنے کے دوران ملی حمایت کو لےکر اپنے دوستوں اورخیرخواہوں کا شکریہ ادا کیا۔ ان میں سے کئی لوگ ان کی رہائی کے موقع پر جیل کے باہر جمع ہوئے تھے۔
‘پنجرہ توڑ’ مہم کی دونوں کارکنوں کے تہاڑ سے باہر آتے ہی ‘لال سلام’، ‘نتاشا زندہ باد’، ‘دیوانگنا زندہ باد’ کے نعروں کے ساتھ ان کا استقبال کیا گیا۔پنجرہ توڑ تنظیم دہلی یونیورسٹی کے ہاسٹلوں میں خواتین کے لیے امتیازی کرفیو ٹائمنگ کی مخالفت کرنے کے ساتھ کالج کی خواتین کے مدعے وقت وقت پر اٹھاتی رہتی ہے۔
نتاشا کے والد مہاویر نروال کی یاد میں بھی نعرے لگائے گئے، جن کی پچھلے مہینے کووڈ 19 سے موت ہو گئی تھی۔تنہا جیل کے ایک الگ دروازے سے باہر آئے۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کے اس اسٹوڈنٹ نے ماسک پہن رکھا تھا، جس پر ‘نو سی اے اے ، نو این آرسی، نو این پی آر’ لکھا تھا۔
تنہا نے جیل سے باہر آنے پر کہا کہ انہیں امید تھی کہ ایک دن وہ رہا ہو جائیں گے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سی اے اے ، ن این آرسی اور این پی آر کے خلاف لڑائی جاری رہےگی۔
جیل کے باہر جمع طلبا بینر لیے ہوئے تھے، جن پر جے این یو کے سابق طلبہ رہنما عمر خالد سمیت دیگر سیاسی قیدیوں کو رہا کرنے اور یواے پی اے کو رد کرنے کی مانگ کی گئی تھی۔ اسی قانون کے تحت تینوں طلبا کارکنوں کو گرفتار کیا گیا تھا۔
نروال نے صحافیوں سے کہا، ‘ہمیں جیل کے اندر زبردست حمایت ملی ہے اور ہم یہ جدوجہد جاری رکھیں گے۔’
ضمانت دینے کے دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کااستقبال کرتے ہوئے پنجرہ توڑ مہم کی کارکن نروال نے کہا کہ جب انہیں گرفتار کیا گیا تھا، تب انہیں یہ یقین کرنے میں کئی مہینے لگ گئے کہ وہ اس طرح کے سنگین الزامات میں جیل میں قید ہیں۔
معاملے کے اب تک عدالت میں زیر سماعت ہونے کا ذکر کرتے ہوئے کلیتا نے کہا، ‘ہم جس چیز میں یقین رکھتے ہیں، اسے قائم رکھنے کے لیے ہم دہلی ہائی کورٹ کا شکریہ ادا کرنا چاہیں گے۔ اس طرح کا کوئی مظاہرہ جو ہم نے کیا ہے، دہشت گردی نہیں ہے۔ یہ خواتین کی قیادت میں ایک جمہوری احتجاج تھا۔’
سرکار پر حملہ کرتے ہوئے کلیتا نے کہا کہ اپنی آواز اٹھانے کو لےکر لوگ جیل میں قید ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘یہ سرکار کی مایوسی کوظاہر کرتا ہے۔ ہم ایسی خواتین ہیں، جو اس سے نہیں ڈرتی ہیں۔ وہ(سرکار) لوگوں کی آواز اور اختلاف رائے کو دبانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ہمیں لوگوں سے بے انتہا حمایت ملی، جس نے ہمیں جیل کے اندر زندہ رہنے میں مدد کی۔’
تنہا نے کہا، ‘انہیں امید تھی کہ ایک دن وہ رہا ہو جائیں گے۔ انہوں نے زور دیتے ہوئے کہا کہ سی اے اے ، این آرسی اور این پی آر کے خلاف لڑائی جاری رہےگی۔ مجھے خوشی ہے کہ عدالت نے کہا کہ ہمارے پرامن اورجمہوری مظاہروں کا دنگوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ مجھے امید ہے کہ شنوائی تیزی سے ہوگی اور ہم جلد ہی بری ہو جائیں گے۔’
تنہا اسٹوڈنٹس اسلامک آرگنائزیشن آف انڈیا کے رکن ہیں۔
دیگر قیدیوں کی رہائی کی مانگ کرتے ہوئے انہوں نے سرکار سے جیل میں کووڈ سےمتعلق صورتحال میں بہتری لانے کی بھی اپیل کی۔ہائی کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہائی میں دیر ہونے پر کلیتا نے کہا کہ یہ ناقابل اعتماد ہے، کیونکہ انہیں دو تین دن پہلے ضمانت مل گئی تھی۔
انہوں نے کہا، ‘اب تک ہم جیل میں تھے۔ میں ہمیشہ ہی امید کرتی رہی کہ کچھ پولیس افسر آئیں گے اور مجھے رہا کریں گے۔’
جیل کے ایک سینئر افسر نے بتایا کہ کلیتا اور نروال کو شام 7:00 بجے اور تنہا کو 7:30 بجے رہا کیا گیا۔ تینوں طلبا کارکنوں کے پتے اور مچلکے کی تصدیق میں تاخیر کی وجہ سے جیل سے ان کی رہائی میں دیری ہو رہی تھی۔
دہلی کی ایک عدالت نے تینوں کی فوراً رہائی کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ پولیس کے ذریعے تصدیق کے عمل میں تاخیر ملزمین کو جیل میں رکھنے کی قابل قبول وجہ نہیں ہو سکتی۔ ہائی کورٹ سے ضمانت لینے کے بعد کارکنوں نے جیل سے فوراًرہائی کے لیے نچلی عدالت کا رخ کیا تھا۔
ان سب پر پولیس نے شمال -مشرقی دہلی میں فروری 2020 میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے لیے سازش کرنے کا الزام لگایا ہے۔کئی کارکنوں ، بین الاقوامی ایجنسیوں اور آبزرور کا ماننا ہے کہ یہ معاملہ متنازعہ سی اے اےاور این آرسی قانون کی مخالفت کرنے والوں کو نشانہ بنانے کا ایک طریقہ ہے۔
دی وائر نے بھی اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ عوامی طور پر بھڑکاؤ بیان دینے والے اور تشددکے لیے اکسانے والے کئی رائٹ ونگ رہنماؤں پر کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔معلوم ہو کہ دہلی دنگوں سے جڑی ایف آئی آر 59 کے تحت اب تک کل پندرہ لوگوں کو ضمانت مل چکی ہے۔
غورطلب ہے کہ 24 فروری 2020 کو شمال مشرقی دہلی میں شہریت قانون کے حامیوں اور مخالفین کے بیچ تشدد کے واقعات رونما ہوئے ، جس نے فرقہ وارانہ تصادم کی صورت اختیار کرلی تھی۔ تشدد میں کم از کم 53 لوگوں کی موت ہو گئی تھی اورتقریباً 200 لوگ زخمی ہو گئے تھے۔ ان تینوں پر اس کی ‘سازش ’ کرنے کاالزام ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)