عوام کی طرف سے فساد متاثرین کے لئے جو بھی کوششیں کی جارہی ہیں وہ قابل تعریف ہے، لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ فسادات میں سب کچھ کھو دینے والے بے گناہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے قابل احترام مدد ملنی چاہیے تھی کہ ان کو سماج کے عطیات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
مصطفیٰ آباد میں فساد متاثرین کے لئے بنا راحت کیمپ۔(فوٹو : پی ٹی آئی)
ملک کی راجدھانی دہلی بدترین انسانی المیہ کے دور سے گزررہی ہے۔ نفرت سے پیدا ہونے والے تشدد اور اس سے نمٹنے میں سرکاری اداروں کی ناکامی نے عام لوگوں کو مایوس کیا ہے۔ اس فساد میں ہزاروں خاندانوں کے گھر، کاروبار،امیدیں اور خواب مکمل طور پر تباہ ہوگئے ہیں ایسے وقت میں ریاستی حکومت کی کیا ذمہ داری ہے؟
جب بات دہلی کی ہو تو ذمہ داری کو لےکر نئے سرے سے غورکیا جاتا ہے کیونکہ یہاں پولیس ریاستی حکومت کے ماتحت نہیں ہے۔ گزشتہ دنوں دہلی میں جو فساد ہوا، آزادی کے بعد ہندو اور مسلمانوں کے درمیان ایسی جنگ دہلی نے نہیں دیکھی تھی۔اس فساد کے زخموں کو بھرپانا ناممکن ہے، پھر بھی اگرریاستی حکومت اپنی ہمت اور اخلاقیات کا مظاہرہ کرے اور متاثرین کی مدد کرے توفسادات کے زخموں کو مرہم مل سکتا ہے۔
ہم سب جانتے ہیں کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کے بڑے رہنما کچھ عرصے سے مسلسل دہلی میں اشتعال انگیز تقریریں کرتے رہے تھے۔ ایسی صورتحال میں،دہلی حکومت کو ریاست کے ایل جی اور پولیس کمشنر سے اس معاملے میں اپنی تشویش کا اظہار کرنا چاہیے تھا۔حکومت بڑے پیمانے پر تشدد پھیلانے کے امکانات کا بھی ان اعلی عہدیداروں کے سامنے اظہار کرتی۔ کلکٹروں سے ان کے ضلع میں ہتھیاروں اور بھیڑکی آمد کے بارے میں جانکاری لینی چاہیے تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ ریاستی حکومت کو پولیس پر دباؤ ڈالنا چاہیے تھا کہ وہ فسادیوں کے خلاف کارروائی کریں اور صورتحال خراب نہ ہونے دیں۔ لیکن، حکومت نے ایسا کچھ نہیں کیا۔
خیر جب تشدد پھوٹ پڑا، تب ریاستی حکومت کی ذمہ داری تھی کہ وزیراعلیٰ سے لےکر ہر ایم ایل اے اور وزیر فساد متاثرہ علاقوں کا دورہ کرتےاور امن کی اپیل کرتے۔آزادی کے بعد جب ملک میں خوفناک فسادات ہوئے تھے تب جواہرلال نہرو خود ان فسادات کے درمیان جاکر فسادیوں کے خلاف کھڑے ہوتے اوراقلیتوں کو بچانے کے لئے ڈھال بنتے تھے۔ کلکٹر رہتے ہوئے میں نے بھی اپنی سطح سےایسے ہی قدم اٹھائے تھے۔
پنڈت نہرو اور میں نے کوئی بہادری کا کام نہیں کیا تھا۔یہ تو اعلیٰ سطح کے ہرایک رہنما-افسر کی کم سے کم ذمہ داری ہے۔ مجھے یقین ہے کہ فرقہ وارانہ فسادات کے دوران اس طرح کے اقدامات کرنے سے نفرت کمزور ہوتی ہے اورپولیس پر کارروائی کا دباؤ بڑھ جاتا ہے۔اس سے متاثرین کے حوصلے اور اعتماد میں اضافہ ہوتا ہے۔بے شک اس کام میں ایک خطرہ ہے، لیکن تباہی و بربادی کے ماحول میں اعلیٰ قیادت کو اس خطرے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
فسادات کے بعد، ریاستی حکومت کو ترجیحات کےساتھ بچاؤ کےکام کے لئے متحرک ہونا چاہئے تھا۔ شمال مشرقی ضلع میں ایک کنٹرول روم قائم کرکےچنندہ بہترین افسروں کو اس کی ذمہ داری دینی چاہیے تھی۔ سوشل میڈیا کے ذریعےکنٹرول روم کا نمبر بڑے پیمانے پر نشر کرنا چاہیے تھا۔
نوجوان افسروں اور ڈاکٹروں کو لےکر بڑے پیمانے پر موبائل ریسکیو ٹیم کی تشکیل کرنی چاہیے تھی۔ کہیں سے بھی ایمرجنسی کال آنے پر یہ ٹیم فوراً اس جگہ پر پہنچتی اور متاثرین کو محفوظ مقام پر پہنچاکر ان کی مدد کرتی۔ہرایک ریسکیو ٹیم اور ایمبولینس کو جی پی ایس سے لیس رکھا جاتا تاکہ ان کا لائیولوکیشن کا پتہ لگایا جا سکے۔
دہلی حکومت کے تحت آنے والے تمام سرکاری ہسپتال اورمحلہ کلینک کو ہائی الرٹ پر رکھا جاتا۔ دہلی کے سرکاری ہسپتالوں کے ملازمیناور محلہ کلینک کے پرائیویٹ ڈاکٹروں کو الگ الگ ہسپتالوں میں تعینات کیا جاتا تاکہ کسی بھی ایمرجنسی میں ڈاکٹروں کی کمی نہ ہو۔
ڈاکٹروں کو مجبور کیا جاتا کہ وہ ہرایک مریض کی جانب چانے میں کوئی کسر نہ چھوڑیں۔ ہسپتالوں کو ہدایت دینی چاہیے تھی کہ مرنے والوں کے رشتہ داروں کی موجودگی میں ہی پوسٹ مارٹم ہو اور اس کی ویڈیو ریکارڈنگ کرائی جائے تاکہ آگے قانونی کارروائی کے لئے کافی مقدار میں ثبوت موجود ہوں۔ محلہ کلینک کو ایمرجنسی ہیلتھ پوسٹ میں تبدیل کرنا چاہیے تھا۔
بچاؤ کام کے ساتھ دہلی حکومت کو فسادات کے فورا بعد ہی امدادی کاموں میں مصروف ہونا چاہیے تھا۔ سول سروس کے ہرایک افسر کو یہ تربیت ملی ہوتی ہے کہ آفت یا فرقہ وارانہ فسادات کے وقت امدادی کام کو کیسے انجام دیا جائے۔سب سے پہلے ہمیں محفوظ جگہوں کی پہچان کرنی ہوتی ہے اورپھر فساد متاثرین کو اس جگہ پر لے آنا ہوتا ہے۔ جس وقت میں سول سروس میں تھا،چھوٹے چھوٹے شہروں میں بھی ہم ایسی محفوظ جگہ تلاش کر لیتے تھے اور ان کو راحت کیمپ میں تبدیل کردیتے تھے۔
لیکن آج 2020 میں ملک کی راجدھانی دہلی میں راحت کیمپوں کی کمی خل رہی ہے۔ ریاستی حکومت کو فساد متاثرہ علاقوں کے آس پاس کے اسکول، کالج،اسٹیڈیم یا سرکاری دفتروں میں راحت کیمپ بنانا چاہیے تھا۔ ریسکیو ٹیم کے لوگ متاثرین کو اس راحت کیمپ میں لےکر آتے۔
کیمپ میں بڑی تعداد میں لوگوں کے رہنے، کھانے، پانی،کپڑے، دوائیاں اور دیکھ بھال کی سہولت یقینی طور پر ہونی چاہیے تھی۔ راحت کیمپ نہیں ہونے کی وجہ سے دہلی فسادات کے متاثرین نے اپنے رشتہ داروں کے یہاں یا دورگاؤوں میں پناہ لی ہے۔ متاثرین کی ریاستی حکومت سے زیادہ مدد تو مسلم سماج کے مقامی لوگ کر رہے ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں امدادی سامان تقسیم کرتےشہری گروپس۔ (فوٹو : پی ٹی آئی)
ہم نے دیکھا ہے کہ معمولی فیملی کے 20 سے 50 لوگ ملکرمتاثرین کے رہنے-کھانے کا انتظام کر رہے ہیں۔ کچھ چھوٹےچھوٹے ریستوراں اپنا شٹر بندکرکے متاثرین کے لئے کھانے پکا رہے ہیں۔ گرودوارہ اور خالصہ ایڈ کے رضاکاروں نےبھی متاثرین کے کھانے کا انتظام کیا ہے۔
عام لوگوں کی طرف سے کی جا رہی یہ تمام کوشش قابل تعریف اور دل کو بھرنے والے ہیں، لیکن یہ کوئی مستقل حل نہیں ہے۔ فسادات میں اپنا سب کچھ کھو چکے بے گناہ لوگوں کو حکومت کی طرف سے قابل احترام مدد ملنی چاہیے تھی کہ ان کو سماج کے عطیات پر انحصار نہ کرنا پڑے۔
فسادات کے کئی دنوں بعد اب ہمیں جانکاری ملی ہے کہ ریاستی حکومت نے 9 شیلٹر ہوم کو راحت کیمپ بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ حکومت کا یہ قدم مجھے کئی معنوں میں خوف زدہ کرتا ہے۔شیلٹر ہوم بے گھر لوگوں کے رہنے کے لئے بنائے گئے ہیں،نہ کہ فسادات میں متاثر اور پوری طرح ٹوٹ چکے لوگوں کے لئے۔ پھر بھی اگر بے گھرلوگوں کو ہٹاکر فساد متاثرین کو بسایا جاتا ہے تو بمشکل 900 لوگوں کے رہنے کاانتظام ہو پائےگا جبکہ فساد متاثرین کی تعداد ہزاروں میں ہے۔
شیلٹر ہوم میں متاثرہ فیملیوں کی حفاظت کی گارنٹی کون لےگا؟دہلی کے شیلٹر ہوم کی حالت تو اتنی بری ہے کہ یہاں بے گھر لوگ بھی ڈھنگ کی زندگی نہیں جی پاتے۔ کیا فساد متاثرین کو رکھنے کا یہی آخری اختیار دہلی حکومت کےپاس بچا تھا؟کیمپ میں کچھ بنیادی سہولیات یقینی طور پر ہونی چاہیے۔پانی، صفائی، 24 گھنٹے صحت سہولیات، خواتین-بچوں کے لئے الگ اور محفوظ رہنے کاانتظام اور نفسیاتی اورسماجی مشاورتی خدمات بھی دی جانی چاہیے۔
فسادات میں اپنی ساری جائیداد گنوا چکے لوگوں کو ایک کٹ دی جانی چاہیے جس میں ضرورت کے تمام سامان جیسے کہ کپڑے، سینیٹری نیپکن اور بچوں کے لئے دودھ دستیاب ہوں۔ فسادات کی تکلیف جھیلکر آئے بچے اس صدمے سے باہر آسکیں، اس کے لئے ان کی تفریح کا انتظام کرنا بھی حکومت کی ذمہ داری ہے۔
ہر کیمپ میں متاثرین کو قانونی مدد دینے کا انتظام بھی ہونا چاہیے۔ اس کے لئے تربیت یافتہ وکیلوں کے ساتھ لا ءکے طالب علموں کی ٹیم ہرکیمپ میں موجود ہو۔ ان وکیلوں کی ذمہ داری ہو کہ گمشدہ لوگوں کی تلاش کے لئے رپورٹ درج کرائیں اور تشدد کے تمام معاملوں کے لئے الگ الگ ایف آئی آر درج ہو۔
فرقہ وارانہ تشدد کے مقدموں کے پچھلے تجربات سے ہم نےجانا ہے کہ ایف آئی آر میں حقائق کی گڑبڑی کی وجہ سے ہی متاثرین کو انصاف نہیں مل پاتا ہے۔ پولیس سینکڑوں لوگوں کی درخواست کو ایک ساتھ ملاکر ایف آئی آر درج کرلیتی ہے۔اس طرح کی ایف آئی آر حقائق کی رو سے کمزور ہوتی ہیں جس کی وجہ سے قصورواروں کو سزا نہیں مل پاتی۔ راحت کیمپ میں متاثرین کو قانونی مدد ملنےسے یہ مسئلہ ختم ہو سکتا ہے۔
ملک میں این آر سی جیسے قانون کی چرچہ کے بعد دستاویزوں کو لےکر لوگوں کی تشویش بڑھ گئی ہیں۔ ایسے میں دہلی فسادات کے ویسے متاثرین جن کی جائیداد کے ساتھ-ساتھ دستاویزوں کو بھی فسادیوں نے جلا دیا ہے، ریاستی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان کے دستاویزوں کو پھر سے مفت بنانے کا انتظام کرے۔
دہلی فسادات کے وقت سی بی ایس ای کے امتحان چل رہے تھے۔سی بی ایس ای نے شمال مشرقی دہلی کے طالب علموں کے لئے یہ امتحان رد نہیں کیاتھا۔ اس لئے سی بی ایس ای کی ذمہ داری ہے کہ کچھ مہینے بعد یہ امتحان پھر سے منعقدکئے جائیں اور اور امتحان کی تیاری کے لئے طالب علموں کو سمر کیمپ کا انعقاد کرکےپڑھایا جائے۔
فسادات کے بعد اب دہلی حکومت کو چار پوائنٹس پر کام کرناچاہیے۔ یہ چار پوائنٹ ہیں-بچاؤ، راحت، بازآبادکاری اور اصلاحات۔ میں نے اس مضمون میں بس شروعاتی دو پوائنٹس پر گفتگو کی ہے۔بازآبادکاری اور اصلاحات کے لئے لمبی بحث کی ضرورت ہے،جس پر میں آگے بات کروںگا۔ بازآبادکاری اور اصلاحات کا ہدف ہونا چاہیے کہ فسادمتاثرین کو اس سے بہتر زندگی دی جائے جسے وہ فساد کے پہلے جی رہے تھے۔ اس کا مقصدسماج میں اعتماد اور یکجہتی قائم کرنا ہونا چاہیے۔اس کے ساتھ ساتھ لوگوں کے اندر اعتماد پیدا ہو کہ سب ایک ساتھ ملکر رہ سکتے ہیں۔ میں نے یہ مضمون کسی پر انگلی اٹھانے کے لئے نہیں لکھا ہے۔ دہلی فسادات کے بعد سے میں تکلیف میں ہوں، لیکن بڑی امید اور اعتماد کےساتھ اپنے خیالات کو پیش کر رہا ہوں۔
حکومت اور سماج کے ذریعے پھیلائے گئے اس فرقہ وارانہ نفرت نے جو زخم دئے ہیں، اس کو شاید ہی کبھی بھرا جا سکے۔ اپنے رشتہ داروں اورزندگی کی ساری کمائی کھو چکے لوگوں کا زخم بھرنا ممکن نہیں۔ پر پھر بھی ریاست کے مثبت رویے سے اس زخم کو مرہم مل سکتا ہے۔ کیا دہلی کی بے بس عوام اپنی چنی ہوئی حکومت سے اس مرہم کی امید بھی نہیں کر سکتی؟
(ہرش مندر سابق آئی اے ایس افسر اور سماجی کارکن ہیں۔ )