گزشتہ سال فروری میں شمال-مشرقی دہلی میں ہوئےتشددکے دوران گوکل پوری اوردیال پوری علاقوں میں آگ زنی اور توڑ پھوڑ کے معاملوں کے تین ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے مقامی عدالت نے کہا کہ ان کے نام نہ ایف آئی آر میں ہیں اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی خصوصی الزام ہیں۔
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے پچھلے سال فروری میں شہر کے شمال-مشرقی حصہ میں ہوئے دنگوں سے جڑے دو معاملوں میں تین لوگوں کو ضمانت دے دی۔عدالت نے کہا کہ پولیس کے گواہ کے ذریعےملزمین کی پہچان کرنے میں کی گئی تاخیر کی وجہ سےشاید ہی کوئی نتیجہ نکلا ہے۔
ایڈیشنل سیشن جج ونود یادو نے محمد طاہر، شیبو خان اور حمید کو 20-20 ہزار روپے کے مچلکے اور اتنی ہی رقم کی ضمانت پر راحت دے دی۔
طاہر کو گوکل پوری علاقے میں دنگائی بھیڑ کے ذریعےمبینہ طور پر ایک دکان میں کی گئی توڑ پھوڑ اور آگ زنی سے جڑے معاملے میں ضمانت دی گئی ہے جبکہ خان اور حمید کو دیال پور علاقے میں ایک گنے کے گودام میں آگ لگانے کے معاملے میں راحت دی گئی ہے۔
عدالت نے کہا،‘پولیس افسر(جو واقعہ کےوقت علاقےمیں بیٹ افسر کےطورپرتعینات تھا)کے ذریعے درخواست گزاروں(خان، طاہر اور حمید)کی پہچان سے شاید ہی کوئی نتیجہ نکلے، کیونکہ عدالت یہ نہیں سمجھ پا رہی ہے کہ بیٹ افسر نے اپنا بیان درج کرانے تک کا انتظار کیوں کیا جبکہ اس نے 24 فروری، 2020 کو دنگوں میں شامل عرضی گزاروں کو صاف طور پر دیکھ لیا اور پہچان لیا تھا۔’
عدالت نے دو معاملوں میں ایک جیسےفیصلوں میں کہا، ‘یہ پولیس کے گواہ کی صداقت پرشدید شبہ پیدا کرتا ہے۔’ساتھ ہی عدالت نے یہ بھی کہا کہ ملزمین کا نام نہ ایف آئی آر میں ہے، نہ ہی ان کے خلاف خصوصی الزام ہیں۔ اس کے علاوہ عدالت نے کہا کہ طاہر کسی بھی سی سی ٹی وی فوٹیج میں نہیں دکھ رہا ہے۔
عدالت نے یہ بھی کہا کہ دونوں معاملوں میں کئی معاون ملزمین کو ضمانت مل گئی ہے جن کا رول بھی ان افراد سے ملتا جلتا تھا۔شنوائی کے دوران ملزمین نے دعویٰ کیا کہ انہیں پھنسایا جا رہا ہے۔ پولیس کے خصوصی سرکاری وکیل نے ضمانت کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ ملزم مبینہ طور پرعلاقے میں دنگا کرنے میں شامل تھے۔
غورطلب ہے کہ پچھلے سال 24 فروری کو شہریت قانون (سی اےاے)کے حامیوں اور مخالفین میں ہوئی جھڑپ فرقہ وارانہ تشدد میں تبدیل ہو گیا تھا جس میں53 لوگوں کی موت ہوئی ہے اور کئی زخمی ہو گئے تھے۔اس سے پہلے گزشتہ ہفتے دنگوں میں آگ زنی سے متعلق معاملے میں دو ملزمین کو ضمانت دیتے ہوئے بھی ایسی ہی بات کہی تھی۔ عدالت نے تب بھی پولیس گواہوں کی صداقت پرشکوک وشبہات کا اظہار کیا تھا۔
وہ معاملہ بھی گوکل پوری علاقے میں دنگے کے دوران ایک دکان میں مبینہ توڑ پھوڑ اور آگ زنی کرنے سے جڑا ہوا تھا۔
اس معاملے میں بھی عدالت کا کہنا تھا کہ پولیس اہلکاروں کے ذریعےکی گئی شناخت کا بہ مشکل کوئی مطلب ہے، کیونکہ بھلے ہی وہ واقعہ کے وقت علاقے میں تعینات تھے، پر انہوں نے ملزمین کا نام لینے کے لیے اپریل تک کا انتظار کیا، جبکہ انہوں نے صاف طور پر کہا ہے کہ انہوں نے ملزمین کو 25 فروری، 2020 کو دنگے میں مبینہ طور پر شامل دیکھا تھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)