خصوصی مضمون: شمال مشرقی دہلی میں فروری میں ہوئےفرقہ وارانہ تشدد کو ‘لیفٹ جہادی نیٹ ورک’کے ذریعےکروایا‘ہندو مخالف’فساد بتاکر پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ لیکن سچائی کیا ہے؟
(یہ مضمون فروری، 2020 میں ہوئے دہلی فسادات پر لکھے گئے پانچ مضامین کی پہلی قسط ہے۔)
رواں سال
11مارچ کو دانشوروں اور ماہرین تعلیم(جی آئی اے)کے ایک گروپ نے ‘
دہلی رائٹس 2020:رپورٹ فرام گراؤنڈ زیرو– دی شاہین باغ ماڈل ان نارتھ ایسٹ دہلی: فرام دھرنا ٹو فساد’عنوان سے 48 صفحات کی ایک رپورٹ مرکزی وزیر جی کشن ریڈی کو سونپی۔
دانشوروں اورماہرین تعلیم کے اس گروپ میں سپریم کورٹ کی وکیل مونیکا اروڑہ بھی تھیں۔ اس رپورٹ میں 23 سے 26 فروری کے بیچ شمالی مشرقی دہلی میں ہوئی آگ زنی، لوٹ پاٹ اور خون خرابے میں‘اربن نکسل جہادی نیٹ ورک’کا ہاتھ بتایا گیا ہے۔اربن نکسل جہادی نیٹ ورک ایک ایسی اصطلاح ہے،جس کا استعمال مرکزکی مقتدرہ پارٹی کی جانب سے مخالفین،سول سوسائٹی/ماہرین تعلیم کو بدنام کرنے کے لیے بنائی گئی ، لیکن حقیقت میں اس کی کوئی بنیاد نہیں ہے۔
قابل ذکر ہے کہ 29 مئی کو اسی طرح کال فار جسٹس (سی ایف جے)نام کےایک گروپ کی طرف سے تیار کی گئی‘دہلی دنگے : سازش کا پردہ فاش 23.02.2020 سے 26.02.2020 کے بیچ شمال مشرقی دہلی میں ہوئے فسادات پر ایک فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کی رپورٹ’، عنوان سے 70 صفحات کی رپورٹ
وزیر داخلہ امت شاہ کو سونپی گئی ۔
اس رپورٹ کو سی ایف جے کی طرف سے بامبے ہائی کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج، جسٹس امباداس کی قیادت والی چھ رکنی کمیٹی کے ذریعے تیار کیا گیا تھا۔
اہم نتائج
دونوں ہی رپورٹ نتائج کو لےکر بالکل صاف تھیں۔ جی آئی اے کی رپورٹ کا نتیجہ:
‘دہلی 2020 دنگے منصوبہ بند تھے۔ اس کے ثبوت ہیں کہ دہلی میں ان فسادات کے پیچھے لیفٹ جہادی انقلاب کا ماڈل تھا، جس کو دیگرمقامات پر بھی دہرانے کی سازش تھی۔’
‘دہلی فسادات کسی خاص کمیونٹی کو نشانہ بناکر کیا گیاقتل عام نہیں ہے۔ یہ دہلی کے یونیورسٹیوں میں متحرک لیفٹ اربن نکسل نیٹ ورک کے ذریعے اقلیتوں کی منظم اورمرحلہ وار شدت پسندی کا نتیجہ ہے۔’[پیراگراف 1 اور2،ص:1]
اس طرح کے نتائج کے حوالے سے
آر ایس ایس کے ماؤتھ آرگن‘آرگنائزر’ نے کہا؛
‘دہلی کے فسادزدہ علاقوں سے گراؤنڈ رپورٹ آنے سے پہلے ہی میڈیا کے ایک بڑے طبقےاور مغربی میڈیا نے ہندوستان میں اپنے سپہ سالاروں کی مدد سے ان فسادات کی جانبدارانہ تصویر اتاری اور ملزمین کو متاثرین کی طرح پیش کیا۔
ہندوؤں کی تکالیف کو جان بوجھ کر نظر انداز کیا گیا اور صرف مسلمانوں کے ہی بیان درج اور شائع کیے گئے۔ اب دانشوروں اور ماہرین تعلیم(جی آئی اے)گروپ کی ایک فیکٹ فائنڈنگ ٹیم کی رپورٹ سے ہندو مخالف فسادات کے پیچھے کی سازش اور میڈیا کے شیطان یرویے کا پردہ فاش ہوا ہے۔’
جی آئی اے کی اس رپورٹ کا حوالہ دےکر آرگنائزر نے بنا تاخیرکیےیہ نتیجہ نکالا کہ ‘ہندوستانی اور مغربی میڈیا کے ایک بڑے طبقےنے ملزمین کو متاثرین بنا دیا۔’حالانکہ، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان فسادات میں ملزم اور متاثرین دونوں ہیں لیکن کون ملزم ہے اور کون متاثر ابھی اس کا فیصلہ نہیں ہوا ہے۔
اتفاق سے، اعداوشمار کے لحاظ سے دیکھیں تو اس تشدد کے دوران 53 لوگ مارے گئے۔حالاں کہ 52لاشوں میں سے جن کی شناخت ہوئی، ان میں39یعنی 75 فیصدی لاش اقلیتوں کی تھی۔یہ حقیقت بذات خود ہندو مخالف فسادات کی قلعی کھول کر رکھ دیتی ہے۔وزیر داخلہ کو سونپی گئی سی ایف جے رپورٹ کا ماحصل بھی جی آئی اے کی اس رپورٹ کے عین مماثل ہے۔
اس رپورٹ کے مطابق :
ان گروپس نے (‘ملک مخالف، شدت پسند اسلامی گروپس اور دیگر شدت پسند گروپس’)نے مل کر ایک سازش رچی اور ایک منصوبہ بنداور منظم طریقے سے ہندو کمیونٹی کو نشانہ بناکر حملہ کیا، جن کی تفصیلات آگے دی گئی ہیں…’[ص:1]
ہندو کمیونٹی کو نشانہ بناکر ان پر حملہ کیا گیا۔ ہندو کمیونٹی ان حملوں سے پوری طرح سے انجان تھی جبکہ حملہ آور مسلم کمیونٹی کے لوگ تھے۔ جنہوں نے بےحدمنصوبہ بندطریقے سے نہ صرف لوگوں اور دیگر وسائل کو اکٹھا کیا بلکہ بڑی ہوشیاری سے حملے کاوقت طے کیا اور کہاں کہاں حملہ کرنا ہے، اس کا بھی منصوبہ بنایا۔ [ص: 8]
جئےویر سنگھ نے اپنے درج بیان میں کہا ہے، ‘مسلمانوں کی جانب سے پہلے سے ہی کثیر منزلہ گھروں کی چھتوں پر جمع کیے گئے پتھروں اور پٹرول بموں کا استعمال ہندو کمیونٹی کے لوگوں پر حملہ کرنے کے لیے کیا گیا۔’ [ص:23]
‘ہندو کمیونٹی پر منصوبہ بند طریقے سے حملہ کیا گیا۔ حملے کو لےکرتمام تیاریاں پہلے سے کی گئیں، کن کو نشانہ بنانا ہے، یہ بھی پہلے سے طے کیا گیا اور حملے کے وقت کو اس طرح سے طے کیا گیا کہ کم سے کم رکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے۔ [ص: 51]
گواہیوں اور دوسرے شواہد سے یہ اجاگر ہوا ہے کہ حملے ہندو علاقوں میں کیے گئے اور ان لوگوں کو خاص طور پر نشانہ بنایا گیا، جو امیر یابااثر ہیں۔ انہیں لوگوں کے گھروں کو زیادہ نقصان پہنچا ہے۔’[ص: 52]
کیا کہتے ہیں کال ریکارڈس
ایک
سرکارحامی ویب سائٹ کے مطابق :
‘دہلی پولیس نے وزارت داخلہ کو مطلع کیا کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ہندوستان دورے کے پہلے دن یعنی 25 فروری کو دہلی کے ہندو مخالف فسادات کے مدنظر ان کے کنٹرول روم کو 4000 کال کیے گئے۔ یہ کال مقامی لوگوں نے تشدد، آگ زنی اور جھڑپ کے خوفناک واقعات کی جانکاری دینے کے لیے کیے تھے۔’
دراصل تشدد کے دوران پولیس کی مدد کے لیےفریادکرنے والوں کی تعداد زیادہ تھی۔
ہندستان ٹائمس (دہلی)کی پانچ مارچ، 2020 کی رپورٹ کے مطابق، ‘صرف 24 اور 25 فروری کو ہی، جب شمال مشرقی دہلی کے کئی حصوں میں فرقہ وارانہ تشدد اپنی انتہا پر تھا،پولیس کنٹرول روم کو فسادات سے متعلق13000 سے زیادہ فون کال کیے گئے۔’
پولیس کنٹرول روم کو مدد کے لیے کی گئی کال 4000 ہو یا13000سچائی یہ ہے کہ مرکز کی بی جے پی حکومت کے تحت آنے والی دہلی پولیس نے ان کال کے بعد بھی فوراً کارروائی نہیں کی۔آپ انڈیا کی رپورٹ میں بھی کہا گیا کہ پولیس نے ہندو مخالف فسادات کو روکنے کے لیےفوراً کوئی کارروائی نہیں کی، جس وجہ سے تشدد، آگ زنی اور جھڑپ ہوئی۔
این ڈی ٹی وی نے فسادمتاثرہ علاقوں کے دوپولیس تھانوں کے ریکارڈس دیکھے، جس سے پتہ چلا کہ تشدد سے متعلق زیادہ تر فون کال پرپولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ان میں ان ‘
ہندو اداروں اور گھروں’کے ممبروں کے کال بھی شامل ہیں، جن کوآپ انڈیا کے دعوے کے مطابق، ‘اسلامسٹ گروہوں کے ذریعے نشانہ بنایا گیا۔’
دو مثالوں سے فسادات کو لےکرپولیس کی غیر فعالیت کا پتہ چلتا ہے۔ پہلاواقعہ فسادزدہ علاقے کے دو اسکولوں میں لوٹ پاٹ اور آگ زنی کا ہے، جن کی چہار دیواری آپس میں ملتی ہے۔ان میں سے ایک اسکول کا مالک ہندو اور ایک کا مسلمان ہے۔ شیو وہار کے ڈی ا ٓرپی کانونٹ اسکول کے دھرمیش شرما نے
این ڈی ٹی وی کو بتایا کہ انہوں نے گھبراہٹ میں کئی بارپولیس کو فون کیے۔
انہوں نے کہا، ‘اسکول 24 گھنٹے تک جلتا رہا۔ فائر بریگیڈ تک موقع پر نہیں پہنچی۔ ظاہری طور پر دمکل’اہلکاروں پر بھی حملہ کیا گیا۔’
سی ایف جے رپورٹ سے بھی تصدیق ہوتی ہے:
‘24 فروری، 2020 کو ڈی آرپی پبلک اسکول پر تین حملے ہوئے، جس کی اطلاع پولیس کو دی گئی لیکن پولیس اگلے دن یعنی 25 فروری، 2020 کو رات کے آٹھ بجے موقع پر پہنچی۔’[ص: 26]ڈی آرپی کانونٹ اسکول کی چہار دیواری راجدھانی کانونٹ پبلک سینئر سیکنڈری اسکول سے ملتی ہے۔ اس اسکول کے مالک فیضل فاروق کی شکایت بھی کچھ ایسی ہی تھی۔
انہوں نے
این ڈی ٹی وی کو بتایا،‘انہوں نے ہم پر 24 فروری کو حملہ کیا۔ دوپہر دو بجے تک تمام طلبا اوراسٹاف جا چکے تھے اور شام کو لگ بھگ 4-5 بجے کے قریب یہ حادثہ ہوا۔ ہم پولیس کو فون کرتے رہے، لیکن وہاں سے بس یہی جواب ملتا رہا کہ ‘ہم آ رہے ہیں،’ لیکن وہ کبھی نہیں آئے۔’
تشدد کے بعد ایک اسکول۔ (فوٹو: رائٹرس)
کراول نگرپولیس تھانے کے کال لاگ سے بھی فسادات کے دوران مدد کے لیے آئے فون کال پرپولیس کی غیر فعالیت کا پتہ چلتا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، ‘شیو وہار کراول نگرپولیس اسٹیشن کے تحت آتا ہے۔’‘پولیس اسٹیشن کی کال لاگ سے پتہ چلتا ہے کہ 24 فروری کو دوپہر 3.54 بجے دو کال کیے گئے، جس میں کہا گیا کہ اسکول پر حملہ کیا گیا ہے۔ کال لاگ میں ان دونوں کال کے سامنے کے کالم میں کارروائی کے طور پرالتوا لکھا ہوا ہے۔
‘پولیس تھانے کے کال لاگ میں درج دیگر کال کے سامنے والے کالم میں بھی التوا لکھا ہوا ہے۔’پولیس کی غیرفعالیت کی ایک دوسری مثال کے سلسلے میں،
این ڈی ٹی وی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں برج پوری کے ارون ماڈرن سینئر سیکنڈری اسکول (جس کے مالک ایک ہندو ہیں)کی خزانچی نیتو چودھری نے مدد کے لیےپولیس کو کئی کال کی لیکن پولیس نے کوئی کارروائی نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ 25 فروری کو شام چار بجے اسکول کو آگ لگائی گئی لیکن فائر بریگیڈ موقع پر چار گھنٹے دیری سے پہنچی۔ تب تک آگ سے بہت نقصان ہو چکا تھا۔
سی ایف جے رپورٹ میں بھی اس واقعہ کا ذکر کیا گیا ہے۔
ارون ماڈرن اسکول چلانے والے ابھیشیک شرما نے بتایا کہ 25 فروری، 2020 کو بھیڑ نے اسکول پر قبضہ کر لیا۔ مقامی لوگوں کے ذریعےپولیس سے مدد مانگی گئی لیکن پولیس نے آرڈر نہیں ہونے کا حوالہ دےکر ہاتھ کھڑے کر دیے۔ [پیراگراف (ایف)،ص: 25]
سرکار حامی ویب سائٹ آپ انڈیا نے بھی یہ قبول کیا ہے کہ فسادات کے دوران پولیس کو ہزاروں کالس کیے گئے لیکن جی آئی اے رپورٹ میں اس کا صرف ایک جگہ کی ذکر ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ 23 فروری کو دوپہر لگ بھگ تین بجے مقامی لوگوں نے پی سی آر کو فون کیا۔
ان دونوں ہی رپورٹ میں دہلی پولیس سے یہ پوچھنے سے بچا گیا ہے کہ پولیس آخر کیوں ان فون کال کا جواب دینے میں ناکام رہی۔ یہ بہت پیچیدہ ہے۔ایک خاص سیاق میں جہاں پولیس تنظیموں کومتعصب مانا جاتا ہے، ایسے میں اسکول کے مسلم مالک کے فون کال کو نظر انداز کرنا سمجھ میں آتا ہے لیکن دیگر دو اسکولوں کے ہندو مالکوں کے ذریعے مدد کے لیے لگاتار کی جا رہی فون کال پر کوئی کارروائی نہیں کرنا سمجھ سے پرے ہے۔
جب ‘ہندو’متاثرین کو مبینہ طور پر ‘اسلامی گروپس’کے ذریعے نشانہ بنایا جا رہا تھا اور وہ مدد کی فریادکر رہے تھے، تب مرکز کی بی جے پی حکومت کے تحت آنے والی دہلی پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھرے کیوں بیٹھی رہی؟کیا اس کا کوئی براہ راست مقصد تھا؟ یا حقیقت ان دونوں ‘فیکٹ فائنڈنگ’رپورٹس کے دعووں سے بالکل الگ ہے؟
کیا ایسا امکان ہے کہ پولیس کوغیر فعال رہنے کے ہی ہدایت دیے گئے تھے کیونکہ ان فسادات میں زیادہ تر آگ زنی، لوٹ اور قتل کو ہندو بھیڑ نے ہی انجام دیا تھا۔یہ تھوڑا سا عجیب ہے کہ ہندو مخالف فسادیوں نے 14 مسجد اور درگاہ جلا ڈالی جبکہ پورے علاقے میں
چھوٹے اور بڑے کئی مندروں کے ہونے کے باوجود ایک بھی مندر کو نشانہ نہیں بنایا گیا۔
تشدد کے واقعات
قابل ذکر ہے کہ 23 فروری، 2020 کی صبح یعنی شاہین باغ میں شہریت ترمیم قانون(سی اے اے)، 2019 کے خلاف جاری مظاہروں کو لےکر سپریم کورٹ میں ایک اہم شنوائی سے ٹھیک ایک دن پہلے سی اے اے مخالف مظاہرین کے ایک گروپ، جو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے پاس اپنا دھرنا مظاہرہ کر رہا تھا، نے اچانک اسٹیشن کے ٹھیک باہر جعفرآباد کی مین سڑک کو بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ [ص: 8،جی آئی اے رپورٹ]
یہ پوری طرح سے ایک غیر ضروری قدم تھا کیونکہ سپریم کورٹ پہلے ہی احتجاج کے لیے عوامی سڑک کو بند کرنے کی دلیل پر سوال اٹھا رہی تھی۔کیا جعفرآباد کے مظاہرین کچھ مفاد پرستوں کے ذریعے غیرذمہ دارانہ قدم اٹھانے کے لیے گمراہ کیے گئے تھے جن کا مقصد ان مظاہروں میں شامل ہوکر اپنا الو سیدھا کرنا تھا؟
اس تحریک کا مقصد اس مسئلے کے لیےحساس ہونا اورحمایت حاصل کرنا تھا۔ اس کا مقصد دوسروں کو الگ تھلگ کرنا یا ان کو بھڑکانا نہیں تھا۔ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ اس قدم سے پہلے شاہین باغ میں بھی امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی تھی، جو کامیاب نہیں ہوئی تھی۔
(اگر سلفی مدرسوں کا کوئی اثر ہے، جیسا کہ
جی آئی اے رپورٹ [ص:44]میں اشارہ کیا گیا ہے، تو ایسے گروپس کی یقینی طور پرتنقید کی جانی چاہیے۔ حالانکہ، ہر سی اے اے مخالف کو ‘جہادی’ قرار دینے کی کوشش مکاری ہے۔)
این ڈی ٹی وی کی23 فروری کی ایک رپورٹ کے مطابق، مظاہرین بھیم آرمی چیف چندرشیکھر آزاد کے ذریعے کیے گئے ملک گیر ہڑتال کی اپیل کی بھی حمایت کر رہے ہیں۔ اس وقت جعفرآباد سڑک کو بند کرنے کی جو بھی وجہ رہی ہو، آخرکار جعفرآباد اور علاقے کی دوسری جگہوں کے مظاہرین کو اس کا سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا۔
جی آئی اے رپورٹ کے ص؛8 پر ‘واقعات کی ٹائم لائن’کے تحت کہا گیا ہے کہ 23 فروری کو 9 بجے صبح سے سی اے اے حامی(جنہیں رپورٹ میں مقامی لوگ کہا گیا ہے)موج پور چوک پر جمع ہونا شروع ہو گئے، جو جعفرآباد میٹرو اسٹیشن کے سی اے اے مخالف مظاہرہ کے نزدیک تھا، جس کا نتیجہ دونوں گروپ(سی اے اے مخالفوں اور سی اے اے بیچ)کے بیچ آپسی ٹکراؤ کے پہلے دورکے طور پر سامنے آیا۔
اس کے بعد اسی دن بی جے پی رہنما کپل مشرا وہاں پہنچے اور انہوں نے سی اے اے حامیوں کے ایک گروپ کے سامنے تقریرکی۔ لیکن جی آئی اے رپورٹ نے اس بات کا ذکر تک نہیں کیا ہے کہ کپل مشرا کاخطاب اور ان کا ٹویٹ بھڑکاؤ تھا۔
انڈیا ٹو ڈے (دہلی، 27 فروری، 2020)کے مطابق شمالی مشرقی دہلی کے ڈی ایس پی وید پرکاش کے ساتھ کھڑے ہوکر دیے گئے اس خطاب کا خلاصہ کافی کچھ صاف کر دینے والا ہے :
کپل مشرا نے اتوار کو دہلی پولیس کو الٹی میٹم بھی دیا تھا کہ وہ سڑکوں پر اتر کر مظاہرہ کر رہے سی اے اے مخالف مظاہرین سے راستہ خالی کرائیں۔
کپل مشرانے ٹوئٹ کرکے کہا تھا، ‘دہلی پولیس کو تین دن کا الٹی میٹم: جعفرآباد اور چاند باغ کی سڑکیں خالی کروائیں۔ اس کے بعد ہمیں مت سمجھائیے گا، ہم آپ کی بھی نہیں سنیں گے، صرف تین دن۔’
کپل مشرا نے اپنے ٹوئٹ کے ساتھ ایک ویڈیو بھی شیئرکرکےکہا تھا،‘جب تک ڈونالڈ ٹرمپ ہندوستان میں ہیں، ہم امن بنائے رکھیں گے، اس کے بعد اگر راستہ خالی نہیں ہوتا، تو ہم پولیس کی بھی نہیں سنیں گے۔ ہمیں سڑک پر اترنے کے لیے مجبور ہونا پڑےگا۔’
ڈی ایس پی سوریہ جو اس وقت وہاں سے چپ چاپ چلے گئے، بنا کپل مشرا کو یہ وارننگ دیےکہ ایسی کوئی دھمکی نہ دیں، جس سے تشدد بھڑک سکتا ہو۔اگر سی اے اے مخالفین کے ذریعے سڑک کو بند کرنا غلط تھا، تو نظم ونسق بنائے رکھنے کی ذمہ داری پولیس کی تھی۔
موج پور لال بتی کے قریب ڈی سی پی(نارتھ-ایسٹ)وید پرکاش سوریہ کےساتھ بی جے پی رہنما کپل مشرا(فوٹو : ویڈیو اسکرین گریب/ٹوئٹر)
جہاں تک سی اے اے حامیوں کا سوال ہے، ان کے پاس سڑک کو اس طرح سے بند کرنے کے خلاف شکایت کرنے کا پوراحق تھا، لیکن سی اے اے مخالفین کو دھمکا کر اپنے رخ کو ثابت کرنا قطعی سہی طریقہ نہیں تھا۔
جی آئی اے کی رپورٹ میں کپل مشرا کے بھڑکاؤ بیان کو نظر انداز کر دیا گیا لیکن
سی ایف جے کی رپورٹ میں اس بارے میں کہا گیا:
‘دوپہر لگ بھگ تین بجے بی جے پی رہنما کپل مشرا موج پور چوک پہنچے اور وہاں اکٹھا لوگوں کو مخاطب کرکے بھڑکاؤبیان دیتے ہوئے کہا کہ اگر پولیس جعفرآباد اور چاندباغ میں مظاہرہ کی جگہ خالی نہیں کراتی ہے تو ان کے لوگ سڑکوں پر اتر کر انہیں خالی کرائیں گے۔
انہوں نے دھمکی دی کہ امن وامان تبھی تک قائم رہے گا، جب تک امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ ملک سے رخصت نہیں ہو جاتے۔’ [ص: 46]
کارواں میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، موج پور میں اس بھڑکاؤ بیان سے پہلے کپل مشرا نے محض دو کیلومیٹر دور کردم پوری میں بھی ایک بھڑکاؤ بیان دیا تھا۔ اس سلسلے میں دہلی پولیس نے دو شکایتیں درج کی ہیں:‘شکایت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ 23 فروری کی دوپہر کپل مشرانے کردم پوری میں ایک بھڑکاؤ بیان دیا تھا اور بھیڑ سے علاقے میں مسلم اور دلت مظاہرین پر حملہ کرنے کے لیے کہا تھا۔ ایک شکایت گزارنے مشرا پر بھیڑ کو بھڑ کانے کے ساتھ ساتھ بندوق بھی ہوا میں لہرانے کا الزام لگایا۔’
کپل مشراکی کھلے عام دی گئی دھمکی نے فوراً اثر دکھا۔
ٹائمس آف انڈیا کے ذریعے حاصل کی گئی جانکاری کے مطابق:
‘23 فروری کو ممکنہ تشدد کی وارننگ دیتے ہوئے دہلی پولیس کو چھ الرٹ بھیجے گئے تھے۔ بی جے پی رہنما کپل مشرا کے دہلی کے موج پور میں بیان کے بعدپولیس کی تعیناتی بڑھانے کو بھی کہا تھا۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ پولیس کی اسپیشل برانچ اور انٹلی جنس ونگ نے وائرلیس ریڈیو پیغام کے ذریعے شمالی مشرقی ضلع اورپولیس کو کئی الرٹ بھیجے تھے۔
پہلا الرٹ کپل مشرا کے دوپہر 1.22بجے کیے گئے اس ٹوئٹ کے بعد بھیجا گیا، جس میں مشرا نے لوگوں سے سی اے اے کی حمایت میں دوپہر تین بجے موج پور چوک پر اکٹھا ہونے کو کہا تھا۔’
این ڈی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق، 23 فروری کو ہی دہلی پولیس کو لگ بھگ 700 ایمرجنسی کال کیے گئے، جو شمال مشرقی دہلی میں ماحول کے خطرناک ہونے کا صاف اشارہ تھا۔کسی بھی وقت فساد بھڑکنے کے اشاروں کے باوجود دہلی پولیس نےحالات کو قابو میں کرنے کے لیے کوئی احتیاطی قدم نہیں اٹھائے۔
سی این این نیوز 18 کے نامہ نگار ساحل مرلی مین گھانی نے 23 فروری 2020 کو موج پور سے رات آٹھ بجے ایک ٹوئٹ کیا، جس میں انہوں نے بتایا کہ سی اے اے حامی بہت ہی بھڑکاؤ نعرے لگا رہے تھے۔کپل مشرا اور ان کے حامیوں نے سڑکوں پر اتر کر سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے لوگوں سے بھڑکر اس دھمکی کو شرمندہ تعبیرکیا جس نے ان پرتشددواقعات کو بھڑ کانے کے لیے گھی کا کام کیا۔
انڈیا ٹو ڈے (دہلی، 24 فروری، 2020) کی شام 4:25 بجے کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے:‘23 فروری کی شام کو دہلی کے موج پور میں اس وقت کشیدگی بڑھ گئی، جب لوگوں کے ایک گروپ نے سی اے اے کے خلاف مظاہرہ کر رہے دوسرے گروپ پر پتھراؤکیا۔’
ہندستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق:
23 فروری کی رات کو، موج پور میں سی اے اےحامی اور مخالف گرپوں کے بیچ جھڑپیں ہوئیں۔23 فروری کی رات تک حالات بد سے بدتر ہو گئے تھے اور 24 فروری کی صبح تک یہ صاف ہو گیا تھا کہ اب حالات قابو سے باہر ہیں۔
کارواں کی رپورٹ کے مطابق، اس معاملے میں درج تیسری شکایت میں کہا گیا کہ کپل مشرا کےبیان کے بعد اگلے دن پولیس افسروں نے ان کی ہدایت پر چاندباغ میں مظاہرین پر حملہ کیا۔
کپل مشرا نےپولیس کو سی اے اےمخالف مظاہرین پر حملہ کرنے کے لیے اکسایا تھا یا نہیں اس بات کا فیصلہ صحیح جانچ کے بعد ہی کیا جا سکتا ہے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہوا، اس پر کوئی شک نہیں ہے۔
انڈیا ٹو ڈے (دہلی، 24 فروری، 2020) کے مطابق:
‘جعفرآباد، موج پور، چاندباغ، کھریجی خاص اور بھجن پورہ میں سی اے اے حامی اور سی اے اے مخالف گروپوں کے بیچ جھڑپیں شروع ہونے پرپولیس نے آنسو گیس کے گولے چھوڑے اور لاٹھی چارج بھی کیا۔
‘اےسی پی گوکل پوری کے آفس میں کام کرنے والے ہیڈ کانسٹبل رتن لال (42) کی گوکل پوری میں پتھربازی کے دوران ذخمی ہونے سے موت ہو گئی تھی۔
‘اس دوران کم سے کم 11 پولیس اہلکار مظاہرین کو روکنے کی کوشش کے دوران زخمی ہو گئے، جس میں شاہدہ کے ڈپٹی کمشنر آف پولیس (ڈی ایس پی) امت شرما بھی اور اےسی پی(گوکل پوری) انج کمار بھی شامل ہیں۔‘
اس کو ثابت کرنے کے لیے
ویڈیو ثبوت ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ 24 فروری کو دوپہر لگ بھگ 12.40 بجےپولیس پر حملہ ہوا تھا۔ ہیڈ کانسٹبل رتن لال کی بدقسمتی اس حملے میں موت ہو گئی تھی۔اس کے بعد جو ہوا وہ بے حد عجیب تھا:ایک ہیڈ کانسٹبل کی موت کے باوجود، کئی پولیس اہلکاروں کے زخمی ہونے اور جی آئی اے کی رپورٹ کے مطابق جہادی بھیڑ کے مشتعل ہو جانے کے باوجود دہلی پولیس اور وزارت داخلہ کے اعلیٰ افسروں نے تشدد پھیلانے والوں کو گرفتار کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں دکھائی۔
تشددزدہ علاقے میں خاطرخواہ پولیس فورسز کی تعیناتی تک نہیں کی گئی تھی جبکہ پولیس لگاتار
ڈرونس کی مدد سے واقعات پر نظر بنائے ہوئے تھی۔ مندرجہ ذیل واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آخر کیسے اور کیوں حالات تیزی سے بگڑتے چلے گئے:24 فروری کو شام 4.20 بجے انڈیا ٹو ڈے کی رپورٹر
تنوشری پانڈے نے ٹوئٹ کرکے کہا:
‘شمال مشرقی دہلی کے موج پور میں ناقابل یقین مناظر۔ سی اے اے مخالف اورحامی مظاہرین سینکڑوں سکیورٹی اہلکاروں کے قابو سے باہر ہو رہے ہیں۔ دونوں طرف کے مظاہرین پتھر پھینک رہے ہیں، گولیاں چلا رہے ہیں اور گاڑیوں اور دکانوں میں آگ لگا رہے ہیں۔ قومی راجدھانی میں اتنے بڑے پیمانےپرتشدد کبھی نہیں دیکھا۔’
24 فروری کو شام 4:46 بجے:دہلی پولیس نے ٹوئٹ کرکے کہا، ‘شمال مشرقی دہلی کے متاثرہ علاقوں میں دفعہ144 لگا دی گئی اور شرپسندوں اور غیر سماجی عناصروں پر سخت کارروائی کی جائےگی۔حالانکہ، دفعہ144 کو سختی سے لاگو کرنے کے لیےپولیس کی طرف سے تھوڑی بہت ہی کوشش کی گئی۔ یہ بےحد عجیب رہا کہ مختلف گروپوں کے بیچ جھڑپ روکنے کے لیے کرفیو لگانے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔
24 فروری شام 5: 20 بجے: انڈیا ٹو ڈے کے ارویند اوجھا نے اپنی رپورٹ میں کہا تھا، ‘حالانکہ شمال مشرقی دہلی میں دفعہ144 لگی ہوئی ہے، لیکن موج پور میں سی اے اے حامی اور سی اے اے مخالف مظاہرین کے بیچ جھڑپ شروع ہو گئی ہے، دونوں طرف کے مظاہرین ابھی بھی سڑک پر ہیں۔پولیس مظاہرین کوچپ کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔’
24 فروری شام 5:46 بجے: انڈیا ٹو ڈے نے اپنی رپورٹ میں کہا،‘موج پور، گھونڈا، چاندباغ علاقوں میں جہاں جھڑپیں شروع ہوئی تھیں، وہاں کوئی پولیس کہیں تعینات نہیں تھی۔’سی اے اے حامی اور سی اے اے مخالف مظاہرین کے بیچ جھڑپ کے انتہاپر پہنچنے پر دونوں طرف کے مظاہرین کو خاموش کرانے کی کوشش کے بعدپولیس متاثرہ علاقے سے پیچھے ہٹ گئی لیکن کس کے آرڈر پر اور کس کے فائدے کے لیےپولیس نے اس طرح کا قدم اٹھایا؟
پولیس کے ہاتھ پیچھے کھینچنے کے فیصلے، جس نےتشدد پر آمادہ گروپس کو تشدد کرنے کی کھلی چھوٹ دے دی، کا نتیجہ سامنے آنے میں دیر نہیں لگی۔یقیناً فروری، 2020 میں شمال مشرقی دہلی میں ہوئی فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں کافی سچائیاں ابھی باہر نہیں آئی ہیں۔ یہ مضمون ان دونوں فیکٹ فائنڈنگ رپورٹس کا تجزیہ کرنے کے ساتھ ساتھ اس بات کی بھی تحقیقات کرنے کی کوشش ہے کہ آخر کیوں تشدد سے جڑے کچھ اہم سوال ابھی تک سلجھے نہیں ہیں۔
(این ڈی جئےپرکاش دہلی سائنس فورم سے وابستہ ہیں۔)