دہلی ہائی کورٹ میں عرضی دائر کرکے وزیر اعظم دفتر کے اس جواب کو چیلنج دیا گیا ہے، جس میں اس نے کہا تھا کہ پی ایم کیئرس فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھیں:پی ایم کیئرس فنڈ کو لے کر اتنی رازداری سے کیوں کام لے رہی ہے حکومت؟
وکیل دیبوپریو مولک اور آیوش شریواستو کی جانب سے دائر عرضی میں کہا گیا ہے کہ کووڈ 19وبا سے نپٹنے کے لیے اٹھائے گئے ایک قدم کے تحت پی ایم او نے 28 مارچ کو ایک پریس ریلیز کے ذریعے پی ایم کیئرس فنڈکی تشکیل کااعلان کیاتھا۔پی ایم او نے پریس ریلیزمیں کووڈ 19وبا کے صحت اور اقتصادی اثرات کے مد نظرشہریوں سے پی ایم کیئرس فنڈ میں چندہ دینے کی اپیل کی تھی۔ عرضی میں کہا گیا ہے کہ ایک مئی کو عرضی گزارنے ایک آر ٹی آئی دائر کیا تھا اور پی ایم کیئرس فنڈ کی ‘ٹرسٹ دستاویز’ کی ایک کاپی، فنڈ سے متعلق دستاویز یاخط اور پوری فائل کی ایک کاپی مانگی تھی، جس میں فنڈ کی تشکیل کا فیصلہ لیا گیا۔حالانکہ پی ایم او کے سی پی آئی او نے اس بنیاد پر دو جون کو جانکاری دینے سے انکار کر دیا کہ پی ایم کیئرس فنڈ آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت کوئی پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔ اس فیصلہ کو عرضی میں چیلنج دیا گیا ہے۔ وزیر اعظم، وزیر داخلہ اوروزیر خزانہ پی ایم کیئرس فنڈ کے عہدیدار ٹرسٹی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں:کیوں پی ایم او کا یہ دعویٰ غلط ہے کہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے؟
اس بیچ پی ایم کیئرس فنڈ کو لےکر دائر ایک دیگرعرضی واپس لیے جانے پرچیف جسٹس ڈی این پٹیل اور جسٹس پرتیک جالان نے اسے خارج کر دیا کیونکہ عرضی گزارنے آر ٹی آئی قانون کے تحت درخواست کیے بغیر ہی عدالت میں یہ عرضی دائر کی تھی۔وکیل سریندر سنگھ ہڈا نے عرضی دائر کرکے آر ٹی آئی ایکٹ کے تحت پی ایم کیئرس فنڈ کے بارے میں جانکاری دینےکی اپیل کی تھی۔ اس کے علاوہ عرضی گزارنے اس فنڈ میں ملے رقم کی تفصیلات دینے کے لیے ہدایت جاری کرنے کی گزارش کی تھی۔ اسی بارے میں بامبے ہائی کورٹ میں بھی ایک عرضی دائر کرکے پی ایم کیئرس فنڈ کے بارے میں جانکاری عوامی کرنے اور کیگ سے آڈٹ کرانے کی مانگ کی گئی ہے۔معلوم ہو کہ مرکزی حکومت پی ایم کیئرس فنڈ کو لےکر اعلیٰ سطحی رازداری برت رہی ہے اور اسے لےکر دائر آر ٹی آئی درخواستوں کو اس بنیاد پر خارج کر دیا جا رہا ہے کہ پی ایم کیئرس آر ٹی آئی ایکٹ، 2005 کے تحت پبلک اتھارٹی نہیں ہے۔ اس فنڈ کے کام کرنے کے طریقے کو خفیہ رکھنے کی سرکار کی کوششوں کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیر اعظم دفتر نے آر ٹی آئی کے تحت یہ جانکاری بھی دینے سے بھی منع کر دیا ہے کہ کس تاریخ کو اس فنڈ کو ٹرسٹ کےطور پر رجسٹر کیا گیا اور کس تاریخ سے اس کو چالو کیا گیا۔ (خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)