آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے رکھی گئی پدم ایوارڈیافتہ آرٹسٹ ایم ایف حسین کی دو پینٹنگ کو دہلی ہائی کورٹ کے ایک وکیل نے ‘قابل اعتراض’ بتاتے ہوئے شکایت درج کرائی تھی۔ اب عدالت نے انہیں ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔
ایم ایف حسین (فائل فوٹو بہ شکریہ: gallery16.in)
نئی دہلی: سوموار (20 جنوری) کو قومی دارالحکومت کی ایک مقامی عدالت نے شہر کی ایک آرٹ گیلری سے ملک کے نامور مصور اور پدم ایوارڈ یافتہ مقبول فدا حسین کی مبینہ قابل اعتراض مصوری کو ضبط کرنے کا حکم دیا ہے۔
خبروں کے مطابق،یہ پینٹنگ ہندو دیوی دیوتاؤں کی ہیں اور دہلی آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے رکھی گئی تھیں۔ ان میں ہندو بھگوان ہنومان اور گنیش کو دکھایا گیا ہے۔
بتایا گیا ہے کہ پٹیالہ ہاؤس کورٹ نے یہ ہدایت دہلی ہائی کورٹ کی وکیل امیتا سچدیوا کی شکایت پر دی ہے۔ امیتا کا کہناتھا کہ یہ ‘قابل اعتراض’ ہیں اور انہیں گیلری سے ہٹا دیا جانا چاہیے۔
شکایت کنندہ نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹ میں کہا تھا کہ انہوں نے 4 دسمبر 2024 کو دہلی آرٹ گیلری 22اے، ونڈسر پلیس، کناٹ پلیس واقع دلی آرٹ گیلری میں نمائش کے لیے رکھی گئی ‘قابل اعتراض’ پینٹنگ کی تصویریں کلک کی تھیں اور 9 دسمبر کو سنسد مارگ پولیس اسٹیشن میں شکایت درج کرائی تھی۔
اب پٹیالہ ہاؤس کورٹ کے جوڈیشیل مجسٹریٹ (فرسٹ کلاس) ساحل مونگا کی طرف سے جاری حکم میں کہا گیا ہے کہ مذکورہ حقائق اور حالات کے پیش نظر درخواست کی اجازت دی جاتی ہے۔ اور ‘تفتیشی افسر (آئی او) کو ہدایت کی گئی ہے کہ وہ مذکورہ پینٹنگ کو ضبط کریں اور 22.01.2025 کو رپورٹ درج کریں۔’
امیتا نے اپنی پوسٹ میں یہ بھی کہا تھا کہ جب وہ 10 دسمبر 2024 کو آئی او کے ساتھ دہلی آرٹ گیلری گئی تھیں تو ان پینٹنگز کو ہٹا دیا گیا تھا اور یہ جھوٹا دعویٰ کیا گیا تھا کہ انہیں کبھی نمائش کے لیے رکھا نہیں گیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ دہلی پولیس نے ابھی تک ہندو دیوتاؤں کی برہنہ پینٹنگ کو نمائش میں رکھنے کے لیے دہلی آرٹ گیلری اور اس کے ڈائریکٹرز کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کی ہے۔
امیتا نے ایکس پر اپنی پوسٹ میں مزید کہا، ‘یہ واضح نہیں ہے کہ پولیس نے 4 سے 10 دسمبر تک کی سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ کیا ہے یا نہیں، جیسا کہ میری درخواست میں کہا گیا تھا، تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ پینٹنگ کس نے اور کیوں ہٹائی۔
انہوں نے بتایا کہ اس کے بعد انہوں نے انڈین سول سیکورٹی کوڈ (بی این ایس ایس) ایکٹ کی دفعہ 175 (3)، 223 اور 94 کے تحت عرضی دی، جس میں مذکورہ معاملے پر ایف آئی آر کے اندراج اور دہلی آرٹ گیلری سے 4 سے 10 دسمبر 2024 تک کی مدت کے لیے سی سی ٹی وی فوٹیج کو محفوظ رکھنے کا مطالبہ کیا گیا۔
جنوری کے مہینے میں کیس کی عدالتی سماعت کے دوران پولیس نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر نے دہلی آرٹ گیلری کے سی سی ٹی وی فوٹیج اور نیٹ ورک ویڈیو ریکارڈر کو پہلے ہی قبضے میں لے لیا ہے۔
اس پر جج نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘اے ٹی آر میں مزید کہا گیا ہے کہ پینٹنگ کی ایک فہرست دہلی آرٹ گیلری نے دی تھی، جس میں زیر بحث پینٹنگ کا سیریل نمبر 6 اور 10 پر ذکر ہے۔ تحقیقاتی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ نمائش ایک نجی جگہ پر منعقد کی گئی تھی اور مذکورہ پینٹنگ کا مقصد صرف مصنفین/فنکاروں کے کام کی نمائش کرناتھا۔’
اس دوران دلی آرٹ گیلری نے منگل کو ایک
بیان جاری کیا ہے ۔ اس میں کہا گیا ہے کہ حالیہ نمائش میں ایم ایف حسین کے کچھ منتخب کاموں کے حوالے سے زیر التواء تحقیقات کی وجہ سے وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ وہ ابھی تک کسی عدالتی کارروائی میں بطور فریق شامل نہیں ہیں اور پیش رفت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے ہی کوئی اپ ڈیٹ ملے گا اسے شیئر کر دیا جائے گا۔
قابل ذکر ہے کہ حسین کی تخلیقات کے حوالے سے تنازعہ کوئی نیا نہیں ہے۔ جب وہ زندہ تھے، تب بھی لوگوں کے ایک طبقے نے ان کی پینٹنگ کو قابل اعتراض قرار دیتے ہوئے مخالفت کی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اپنے آخری دنوں میں حسین کو ہندوستان چھوڑنے پر مجبور ہونا پڑا اور دوحہ اور لندن میں وقت گزارا۔ 95 سال کی عمر میں ہندوستان کے اس نامور فنکار کاانتقال 9 جون 2011 کو لندن میں ہوا۔
المیہ یہ ہے کہ ملک میں مصوروں/فنکاروں کو مجرم قرار دینا بھی کوئی نئی بات نہیں ہے۔ پچھلے سال بھی ایسا ہی ایک معاملہ سامنے آیا تھا، جب بامبے ہائی کورٹ کو کسٹم ڈپارٹمنٹ کے افسران کو مشہور فنکاروں ایف این سوزا اور اکبر پدمسی کے سات ضبط شدہ فن پارے واپس کرنے کا
حکم دینا پڑا تھا ۔ کسٹم حکام نے ان فن پاروں کو ‘فحش مواد’ قرار دے کر ضبط کیا تھا۔
سال 2022 میں محکمہ کسٹم نے فحاشی کا حوالہ دیتے ہوئے ممبئی کے ایک تاجر کی اسکاٹ لینڈ سے نیلامی میں خریدی گئی سات پینٹنگ ضبط کی تھیں۔ اس میں چار شہوانی پینٹنگ کا ایک فولیو بھی شامل تھا، جس میں سوزا کی ‘لورز’ پینٹنگ بھی تھی، جسے ‘فحش’ قرار دیا گیا تھا۔ تین دیگر فن پارے جو اسی وجہ سے روکے گئے تھے ان میں ‘نیوڈ’ نام کی ایک پینٹنگ اور اکبر پدمسی کی دو تصاویر تھیں۔
عدالت نے کسٹم افسران کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ جنسی تعلقات کی عکاسی کرنے والی ہر عریاں پینٹنگ یا آرٹ ورک کو فحش نہیں کہا جا سکتا۔