دہلی کی ایک عدالت نے جے این یو کے سابق طالبعلم شرجیل امام کو سیڈیشن کے معاملے میں ضمانت دی ہے، جس میں ان پر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اپنی تقریر کے ذریعےدنگا بھڑکانے کا الزام تھا۔ تاہم دہلی فسادات سے متعلق مقدمات کی وجہ سے انہیں فی الحال جیل میں ہی رہنا پڑے گا۔
شرجیل امام، فوٹو بہ شکریہ ، فیس بک
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے جمعہ کو جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے سابق طالبعلم شرجیل امام کوسیڈیشن کے ایک کیس میں ضمانت دے دی ہے، جس میں ان پر 2019 میں جامعہ میں دنگا بھڑکانے کا الزام لگایا تھا۔
تاہم، امام کو جیل میں ہی رہنا پڑے گا، کیونکہ انہیں دہلی کے فرقہ وارانہ فسادات کی سازش کے معاملے میں ابھی تک ضمانت نہیں ملی ہے۔
تقریباً ڈھائی سال کی قید کے بعد شرجیل کو ضمانت دیتے ہوئے عدالت نے 22 اکتوبر 2021 کے اپنے تبصرے کا بھی حوالہ دیا کہ امام کی تقریر سننے کے بعد کارروائی کرنے کا کوئی ثبوت نہیں ملا تھا۔
ایڈیشنل سیشن جج انج اگروال نے کہا،اس کے پیش نظر اور موجودہ کیس کی میرٹ پر تبصرہ کیے بغیر درخواست گزار یا ملزم شرجیل امام کو 30000 روپے کی ضمانت رقم کے ساتھ ہی اتنی ہی رقم کی نجی مچلکے پرضمانت دی جاتی ہے۔
جج نے کہا کہ ضمانت اس شرط پر دی جاتی ہے کہ امام ہمیشہ موبائل پر دستیاب رہیں گے اور ایڈریس میں تبدیلی کے بارے میں متعلقہ انکوائری آفیسر (آئی او) کو مطلع کریں گے۔
ان کے بھائی مزمل امام نے ٹوئٹر پر بتایا کہ شرجیل کے خلاف دہلی میں اب بھی دو مقدمات درج ہیں۔
قابل ذکر ہے کہ اس سال مئی میں منظور کیے گئے ایک عبوری حکم میں، سپریم کورٹ نے ایک بے غیر معمولی فیصلے کے تحت ملک بھر میں سیڈیشن کے مقدمات کی تمام کارروائیوں پر اس وقت تک روک لگا دی تھی جب تک کہ کوئی ‘مناسب’ سرکاری فورم اس پر نظر ثانی نہیں کرلیتا۔
سپریم کورٹ نے مرکزی اور ریاستی حکومتوں کو یہ بھی ہدایت دی تھی کہ آزادی سے پہلے کے اس قانون کے تحت کوئی نئی ایف آئی آر درج نہ کریں۔
اس وقت کے چیف جسٹس این وی رمنا، جسٹس سوریہ کانت اور جسٹس ہیما کوہلی کی بنچ نے فیصلہ دیا تھا کہ ایف آئی آر درج کرانے کے علاوہ ملک بھر میں سیڈیشن سے متعلق جاری تحقیقات، زیر التوا مقدمات اور م تمام کارروائیوں پر بھی روک رہےگی۔
دہلی کی ایک عدالت نے جمعہ کو کہا کہ اس نےتعزیرات ہند کی دفعہ 124اے (سیڈیشن) اور 153اے(طبقوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے) کے تحت الزامات کو مدنظر رکھتے ہوئے امام کی عرضی کو خارج کر دیاتھا۔
جج نے کہا کہ ملزم 31 ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں ہے اور انہیں موجودہ کیس میں 17 فروری 2020 کو گرفتار کیا گیا تھا۔
کرائم برانچ نے اس سے قبل 28 جنوری 2020 کو بہار کے جہان آباد سے امام کو ان کی مبینہ اشتعال انگیز تقریرکے ذریعے جامعہ میں دنگا بھڑکانے کے الزام میں گرفتار کیا تھا۔
امام پر شہریت (ترمیمی) ایکٹ (سی اے اے) اور نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) پر حکومت کے خلاف اشتعال انگیز تقریر کرنے کا الزام ہے، خاص طور پر دسمبر 2019 میں جامعہ ملیہ اسلامیہ یونیورسٹی میں ان کی تقریر، جس کی وجہ سے یونیورسٹی کے باہری علاقے میں مبینہ طور پر تشدد ہوا تھا۔
دہلی پولیس اس معاملے میں چارج شیٹ داخل کر چکی ہے۔ اس نے الزام لگایا ہے کہ امام نے یہ تقریر مرکزی حکومت کے خلاف لوگوں میں نفرت، نافرمانی اور عدم اطمینان پیدا کرنے کے لیے کی تھی، جس کی وجہ سے دسمبر 2019 میں تشدد ہوا تھا۔
شرجیل کے خلاف یو اے پی اے کے تحت بھی الزامات درج ہیں۔
امام پر آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت بھی الزام لگایا گیا تھا، جس میں فسادات، مہلک ہتھیاروں سے لیس، سرکاری ملازم کو ڈیوٹی سے روکنے کے لیےحملہ یا مجرمانہ طور پر طاقت کا استعمال، قتل کی کوشش شامل ہیں۔ ان پر پریوینشن آف ڈیمیج ٹو پبلک پراپرٹی ایکٹ اور آرمس ایکٹ کی متعلقہ دفعات بھی لگائی گئی تھیں۔
اس سال جولائی کے شروع میں امام نے دہلی ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا اور دعویٰ کیا تھا کہ جیل میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔
معلوم ہوکہ اس سال جنوری میں دہلی کی ایک عدالت نے شرجیل امام کے خلاف سال 2019 میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف مظاہروں کے دوران اشتعال انگیز تقاریر کرنے کے الزام میں سیڈیشن کا الزام طے کیا تھا۔
استغاثہ کے مطابق شرجیل امام کی جانب سے 13 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ اور 16 دسمبر 2019 کو علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی گئی تقریروں میں مبینہ طور پرآسام اور بقیہ شمال مشرق کو ہندوستان سے الگ کرنے کی دھمکی دی گئی تھی۔
امام کو ان مبینہ تقریروں کے لیے یو اے پی اے اورسیڈیشن کے تحت ایک اور کیس میں بھی گرفتار کیا گیا تھا۔
دسمبر 2021 میں شرجیل کو جامعہ تشدد کیس میں ضمانت ملی تھی۔ اس کے علاوہ امام کو جنوری 2020 میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں کی گئی تقریر کے لیے ان کے خلاف درج سیڈیشن کے مقدمے میں ضمانت مل چکی ہے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)