دہلی پولیس کی جانب سے آلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر کے خلاف درج چار سال پرانے ٹوئٹ کیس میں ضمانت دیتے ہوئے دہلی کی عدالت نے کہا کہ صحت مند جمہوریت کے لیے اختلاف رائے ضروری ہے۔ کسی بھی سیاسی پارٹی کی تنقید کے لیے آئی پی سی کی دفعہ 153اے اور 295 اے استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
محمد زبیر۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر/@zoo_bear)
نئی دہلی: دہلی کی ایک عدالت نے چار سال پرانے ایک ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کے معاملے میں آلٹ نیوز کے شریک بانی اور صحافی محمد زبیر کو جمعہ کو ضمانت دے دی۔
ایڈیشنل سیشن جج دیویندر کمار جانگلا نے 50000 روپے کے مچلکے اور اتنی ہی رقم کی ایک ضمانت پر زبیر کو راحت دی۔ ساتھ ہی عدالت نے زبیر سے کہا کہ وہ ان کی پیشگی اجازت کے بغیر ملک سے باہر نہیں جائیں گے۔
ایک مجسٹریل عدالت نے 2 جولائی کو اس کیس میں ان کی ضمانت کی عرضی مسترد کر دی تھی اور انہیں 14 دن کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔
رپورٹ کے مطابق، جمعہ کو ان کو ضمانت دیتے ہوئے جج جانگلا نے کہا ، جمہوریت ایک ایسی حکومت ہے جو آزادی خیال سے چلتی ہے۔ جب تک لوگ اپنے خیالات کا اظہار نہیں کرتے تب تک کوئی جمہوریت نہ تو ترقی کر سکتی ہے اور نہ ہی صحیح طریقے سے کام کرسکتی ہے۔ ہندوستانی آئین کا آرٹیکل 19(1)(اے) اپنے شہریوں کو بولنے اور اظہار رائے کی آزادی دیتا ہے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اظہار رائے کی آزادی ایک جمہوری معاشرے کی بنیاد ہے۔ آزادی خیال کا تبادلہ، بغیر کسی پابندی کے علم کی ترسیل، گفتگو، بحث، مختلف نقطہ نظر کی تشکیل اور اظہار ایک آزاد معاشرے کی علامت ہے۔
موجودہ معاملے میں جس ٹوئٹ پر اعتراض درج کیا گیا ہے اس کے بارے میں انہوں نے کہا کہ ٹوئٹ سے مذہبی جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچنا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ‘ہندو مذہب قدیم ترین مذاہب میں سے ایک اور سب سے زیادہ روادار ہے۔ ہندو مذہب کے پیروکار بھی روادار ہیں… کسی بھی ادارے، سروس یا تنظیم یا بچے کا نام ہندو دیوتا کے نام پر رکھنااب تک آئی پی سی کی دفعہ 153اے اور 295اے کی خلاف ورزی نہیں ہے، جب تک کہ یہ بدنیتی یا مجرمانہ ارادے سے نہ کیا گیا ہو۔ مذکورہ فعل تبھی جرم کے دائرے میں آئے گا جب وہ جرم کرنے کی نیت سے کیا گیا ہو۔
جج نے یہ کہتے ہوئے کہ اپنے ٹوئٹ میں زبیر حکمراں جماعت پر تبصرہ کر رہے تھے، کہا؛ہندوستانی جمہوریت میں سیاسی جماعتیں تنقید سے بالاتر نہیں ہیں۔ سیاسی جماعتیں اپنی پالیسیوں پر تنقید کا سامنا کرنے سے پیچھے نہیں ہٹ رہی ہیں۔ صحت مند جمہوریت کے لیے اختلاف رائے ضروری ہے۔ اس لیے کسی سیاسی پارٹی پر تنقید کرنے کے لیے آئی پی سی کی دفعہ 153اےاور 295اےکا استعمال کرنا مناسب نہیں ہے۔
جج نے یہ بھی کہا کہ پولیس اس ٹوئٹر صارف کی شناخت کرنے میں ناکام رہی ہے، جو اس مقدمے میں شروعاتی شکایت گزار تھا، جس نے زبیر کے ٹوئٹ سے جذبات کو ٹھیس پہنچنے کا دعویٰ کیا تھا۔
عدالت نے یہ بھی جوڑا کہ زبیر کی طرف سے جمع کرائے گئے دستاویز پہلی نظر میں ان کے ذریعے ‘ایف سی آر اے کی دفعہ 39 کی مناسب تعمیل کو ظاہر کرتے ہیں’۔
زبیر کو اس معاملے میں 27 جون کو گرفتار کیا گیا تھا اور تب سے وہ حراست میں ہیں۔ چیف میٹروپولیٹن مجسٹریٹ اسنگدھا سروریا کی جانب سے 2 جولائی کو ان کی عرضی مسترد ہونے کے بعد انہوں نے ضمانت کے لیے سیشن کورٹ سے رجوع کیا تھا۔
اس وقت زبیر کئی مقدمات میں گرفتاری کا سامنا کر ر ہے ہیں۔ جمعہ کے فیصلے کے ساتھ اب انہیں دو معاملوں میں ضمانت مل گئی ہے۔ یوپی کے لکھیم پور کھیری میں ان کے خلاف درج تیسرے کیس میں ان کی ضمانت کی سماعت سنیچر کو ہونی ہے۔ اس سے پہلے انہیں سیتا پور کیس میں 7 ستمبر تک عبوری ضمانت دی گئی تھی۔
جمعرات کو زبیر نے اپنے ٹوئٹ کے بارے میں اتر پردیش پولیس کی طرف سے درج کی گئی چھ ایف آئی آر کو رد کرنے کی مانگ کرتے ہوئے
سپریم کورٹ کا رخ کیا ہے۔
معلوم ہو کہ محمد زبیر کو گزشتہ 27 جون کو آئی پی سی کی دفعہ 295 اے (کسی بھی طبقے کے مذہب یا مذہبی عقیدے کی توہین کرنے ان کے مذہبی جذبات کو مجروح کرنے کے لیے جان بوجھ کر اور بدنیتی سے کیا گیا کام) اور 153 (مذہب، ذات پات، جائے پیدائش، زبان وغیرہ کی بنیاد پر مختلف گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا) کے تحت دہلی پولیس نے معاملہ درج کرکے گرفتار کیا تھا۔
گزشتہ 2 جولائی کو دہلی پولیس نے زبیر کے خلاف ایف آئی آر میں مجرمانہ سازش اورثبوت کوضائع کرنے اور فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ کی دفعہ 35 کے تحت نئے الزامات شامل کیے ہیں۔ یہ الزامات انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) کے لیے تحقیقات میں مداخلت کا دروازہ کھولتے ہیں۔
زبیر کی گرفتاری 2018 کے اس ٹوئٹ کے سلسلے میں ہوئی تھی ، جس میں 1983 کی فلم ‘کسی سے نہ کہنا’ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا گیا تھا۔
زبیر کے خلاف پولیس میں درج ایف آئی آر میں کہا گیاتھا کہ، ہنومان بھکت نامی ٹوئٹر ہینڈل سے محمد زبیر کے ٹوئٹر ہینڈل سے کیے گئےایک ٹوئٹ کو شیئر کیا گیا تھا ۔ اس ٹوئٹ میں زبیر نے ایک تصویرپوسٹ کی تھی۔ جس میں سائن بورڈ پر ہوٹل کا نام ‘ہنی مون ہوٹل’ سے بدل کر ‘ہنومان ہوٹل’ دکھایا گیا تھا۔ تصویر کے ساتھ زبیر نے ‘2014 سے پہلے ہنی مون ہوٹل… 2014 کے بعد ہنومان ہوٹل…’ لکھا تھا۔
اس سلسلے میں دہلی پولیس کی ایف آئی آر کے مطابق، ٹوئٹر صارف ہنومان بھٹ نے سال 2018 میں زبیر کی جانب سے شیئر کیے گئے ایک فلم کے اسکرین شاٹ والے ٹوئٹ کے بارے میں لکھا تھا کہ ، ہمارے بھگوان ہنومان جی کو ہنی مون سے جوڑا جا رہا ہے جو کہ ہندوؤں کی براہ راست توہین ہے کیونکہ وہ (بھگوان ہنومان) برہمچاری ہیں۔ پلیز اس شخص کے خلاف کارروائی کریں۔
بعد میں اس ٹوئٹر ہینڈل کو
ڈیلیٹ کر دیا گیا۔
اب یہ ہینڈل دوبارہ ایکٹیویٹ کر دیا گیا ہے ،تاہم زبیر سے متعلق ٹوئٹ کو ڈیلیٹ کر دیا گیا ہے۔
گزشتہ 2 جولائی کو ایک ہندو دیوتا کے بارے میں مبینہ طور پر ‘قابل اعتراض ٹوئٹ’ کرنے کے الزام میں محمد زبیر کوعدالت نے 14 دنوں کی عدالتی حراست میں بھیج دیا تھا۔
دریں اثنا،
دی وائر کی ایک تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جس ٹوئٹر اکاؤنٹ نے زبیر کے خلاف شکایت درج کروائی ہے وہ ٹیک فاگ ایپ اور گجرات کے بی جے وائی ایم لیڈر سے منسلک ہے۔
زبیر کی گرفتاری گجرات میں ہندو یووا واہنی کے ریاستی صدر اور بھارتیہ جنتا یوا مورچہ (بی جے وائی ایم) کے کنوینر وکاس اہیر سے جڑے گمنام اور غیرمصدقہ اکاؤنٹ کے ایک نیٹ ورک کی برسوں سے جاری مہم کا نتیجہ ہے۔
(خبررساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)