دہلی کی ایک عدالت نے کہا کہ حال اور مستقبل میں امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر پچھلی غلطیوں کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ہے۔عرضی میں کہا گیا ہے کہ محمد غوری کے ایک جنرل قطب الدین ایبک نے شری وشنو ہری مندر اور 27 جین مندروں کو مسمار کرکے احاطہ کے اندر ایک اندرونی حصہ بنایا تھا۔عربی زبان میں مندر احاطہ کا نام بدل کر ‘قوۃ الاسلام مسجد’ کر دیا گیا ۔
نئی دہلی: ایودھیا زمینی تنازعہ کے فیصلے کا ذکر کرتے ہوئے دہلی کی ایک عدالت نے قطب مینار کے احاطہ میں ہندو اور جین دیوتاؤں کی پوجا کے حق کے لیےدائرایک دیوانی مقدمہ کو خارج کر دیا ہے۔
عدالت نے کہا کہ حال اور مستقبل میں امن وامان کی صورتحال کے پیش نظر پچھلی غلطیوں کو بنیاد نہیں بنایا جا سکتا ہے۔
جین دیوتا تیرتھنکر بھگوان رشبھ دیو اور ہندو دیوتا بھگوان وشنو کی جانب سے دائر مقدمے میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ محمد غوری کی فوج میں جنرل رہے قطب الدین ایبک نے 27 مندروں کو جزوی طور پرمسمار کرکے ان کی اشیاکا دوبارہ استعمال کرکے احاطہ کے اندر قوۃالاسلام مسجد بنائی تھی۔
اس عرضی کو خارج کرتے ہوئے سول جج نہا شرما نے کہا، ‘ثقافتی اعتبار سےہندوستان کی تاریخ ثروت مندہے۔ اس پر کئی شاہی خاندانوں کی حکومت رہی ہے۔ شنوائی کے دوران مدعی کے وکیل نے زور دےکر اس کو قومی شرم کا باعث بتایا۔ حالانکہ کسی نے بھی اس بات سے انکار نہیں کیا کہ ماضی میں غلطیاں کی گئی تھیں، لیکن اس طرح کی غلطیاں ہمارے حال اور مستقبل کے امن و امان کو خراب کرنے کی بنیاد نہیں ہو سکتی ہیں۔’
جج نے کہا، ‘ہمارے ملک کی ایک ثروت مند تاریخ رہی ہے اور اس نے مشکل وقت دیکھا ہے۔ پھر بھی تاریخ کو مجموعی طور پر قبول کرنا ہوگا۔ کیا ہماری تاریخ سے اچھے حصہ کو برقرار رکھا جا سکتا ہے اور برے حصہ کو مٹایا جا سکتا ہے؟’
انہوں نے سال 2019 میں سپریم کورٹ کے ایودھیا فیصلے کا ذکر کیا اور اپنے فیصلے میں اس کے ایک حصہ پر روشنی ڈالی، جس میں کہا گیا تھا، ‘ہم اپنی تاریخ سے واقف ہیں اور ملک کو اس کا سامنا کرنے کی ضرورت ہے، آزادی ایک اہم لمحہ تھا۔ ماضی کے زخموں کو بھرنے کے لیےقانون کو اپنے ہاتھ میں لینے والے لوگوں کے ذریعےتاریخی غلطیوں کو حل نہیں کیا جا سکتا ہے۔’
عرضی میں کہا گیا ہے کہ دیوتا تیرتھنکر بھگوان رشبھ دیو اور بھگوان وشنو، بھگوان گنیش، بھگوان شیو، دیوی گوری، بھگوان سوریہ، بھگوان ہنومان سمیت 27 مندروں کے دیوتاؤں کوعلاقےمیں مبینہ مندر احاطہ میں دوبارہ قائم کرنے اور پوجا کرنے کا حق ہے۔
وکیل وشنو ایس جین کے اس مقدمے میں ٹرسٹ ایکٹ1882 کے مطابق،مرکزی حکومت کو ایک ٹرسٹ بنانے اور قطب علاقےمیں واقع مندر احاطہ کا انتظام و انصرام اور اس کو سونپنے کے لیے لازمی ہدایات جاری کرنے کی گزارش کی گئی تھی۔
حالانکہ، عدالت نے کہا کہ مدعی کی ‘اس دلیل میں کوئی دم نہیں ہے’کہ عقیدت مندوں کو آئین ہند کے آرٹیکل25 اور 26 کے تحت فراہم اپنےمذہب پر عمل کرنے اور یہ یقینی بنانے کا حق ہے کہ دیوتاؤں کو ان کی اصل جگہ پر احترام کے ساتھ نصب کیا جائے۔
جج نے کہا کہ جب کسی ڈھانچےکو قومی یادگارقرار دیا گیا ہے اور یہ سرکار کی ملکیت میں ہے تومدعی یہ مانگ نہیں کر سکتے ہیں کہ ایسی جگہ پر عبادت گاہ بناکر مذہبی رسومات ادا کی جائیں۔
اس عرضی میں یہ دلیل دی گئی تھی کہ دہلی پر سال 1192 تک مشہور ہندو راجاؤں کی حکومت تھی، جب محمد غوری نے 1192 عیسوی میں جنگ میں راجہ پرتھوی راج چوہان پر حملہ کیا اور انہیں ہرایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ اس کے بعد محمد غوری کے ایک جنرل قطب الدین ایبک نے شری وشنو ہری مندر اور 27 جین مندروں کو مسمار کرکے احاطہ کے اندر ایک اندرونی حصہ بنوایاتھا۔ عربی زبان میں مندر احاطہ کا نام بدل کر‘قوۃ الاسلام مسجد’ کر دیا گیاتھا۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)