ہلاک ہونے والوں میں سے دو کسان اور ایک گاڑی مکینک تھے۔ کسان تنظیموں نے متاثرہ فیملی کو نوکری اور معاوضہ دینے کی مانگ کی ہے۔ پنجاب اور ہریانہ سمیت دیگر ریاستوں سے آئے کسان مرکز کے متنازعہ زرعی قوانین کو لےکر مظاہرہ کر رہے ہیں۔
نئی دہلی میں غازی پور بارڈر پر فورس کے سامنے ڈٹے بھارتیہ کسان یونین کے ممبر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی:مرکز کے متنازعہ زرعی قوانین کے خلاف پچھلے چھ دنوں سے چل رہے کسانوں کے مظاہرہ کے دوران کم سے کم تین لوگوں کی موت ہو گئی۔گزشتہ29 نومبر کی رات کو لدھیانہ کے 55 سالہ کسان گجن سنگھ کی بہادر گڑھ کے پاس دہلی بارڈر پر موت ہو گئی۔ ان کے ساتھ کے کسانوں نے بتایا کہ ہارٹ اٹیک کی وجہ سے ان کی موت ہوئی ہے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق گجن سنگھ کے پاس تین ایکڑ زمین تھی اور وہ اکتوبر سے ہی زرعی قوانین کےخلاف ہو رہے مظاہروں میں شامل ہو رہے تھے۔اسی طرح گزشتہ اتوار کو ہی ایک گاڑی میں آگ لگنے کی وجہ سے جنک راج اگروال (55) کی موت ہو گئی۔ اگروال اسی گاڑی میں آرام کر رہے تھے۔
پنجاب کے دھانولا میں مکینک کا کام کرنے والے جنک راج اگروال کسانوں کے ٹریکٹر اور ٹرکوں کو ٹھیک کرنے کے لیے مظاہرہ میں شامل ہوئے تھے۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق 12:30 رات میں گاڑی میں آگ لگی تھی۔ ویسے تو کسانوں نے انہیں بچانے کی ہرممکن کوشش کی، لیکن وے ناکام رہے۔ جھجر پولیس کے ایس پی نے اخبار کو اس بات کی تصدیق کی کہ کسی بھی غیرقانونی کام کے ثبوت نہیں ملے ہیں اور کار میں آگ لگنے کی وجہ سے آرام کر رہے اگروال کی نیند میں ہی موت ہو گئی۔
رپورٹ کے مطابق، اگروال کسانوں کی مدد کر رہے تھے اور جب سے پنجاب میں ان متنازعہ قوانین کے خلاف مظاہرہ شروع ہوئے ہیں، تب سے وہ ان کے ساتھ لگے ہوئے تھے۔
پنجاب کی سب سے بڑی کسان تنظیموں میں سے ایک بھارتیہ کسان یونین(اگرہن)نے مرکز اور پنجاب سے مانگ کی ہے کہ ان کا پورا لون معاف کیا جائے اور متاثرہ فیملی کے کسی ایک شخص کو نوکری اور10 لاکھ روپے کا معاوضہ دیا جائے۔
بی کے یو اگرہن کی جانب سے اس دن جاری پریس ریلیز میں اگروال کو خراج عقیدت پیش کیا گیا تھا اور انہیں ‘شہید’ کہا گیا، جنہوں نے اپنی ڈیوٹی پر قربانی دی۔‘دلی چلو’مظاہرہ کے دوران
سب سے پہلی موت پنجاب کے مانسہ ضلع کے رہنے والے کسان دھانا سنگھ کی ہوئی تھی۔ ہریانہ کے بھوانی میں ایک سڑک حادثہ میں سنگھ کی موت ہوئی۔
بھارتیہ کسان یونین(ڈاکونڈا)نے الزام لگایا ہے کہ کسانوں کے مارچ کو روکنے کے لیے ہریانہ سرکارکی جانب سے کی گئی ناکہ بندی کی وجہ سےیہ حادثہ ہوا ہے۔ اس حادثے میں دو اور کسان زخمی ہو گئے۔ مظاہرین نے دھانا سنگھ کے اہل خانہ کو 20 لاکھ روپے کا معاوضہ دینے کی مانگ کی ہے۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق دھانا سنگھ کسان تحریک میں لگاتار حصہ لے رہے تھے اورمتنازعہ قوانین کے خلاف لوگوں کو اکٹھا کرنے میں انہوں نے بڑارول ادا کیا تھا۔ اس حادثہ کے بعد ان کی لاش کو ان کے گھر بھیج دیا گیا اور ساتھی کسان دلی مارچ کرتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔
بتا دیں کہ کسانوں کا مظاہرہ دلی بارڈر پر لگاتار جاری ہے اور انہوں نے سرکار سے بنا شرط کسانوں سے بات چیت کرنے کی مانگ کی ہے۔ اس کو لےکرمرکزی وزیر نریندر سنگھ تومر نے
کہا ہے کہ آج (منگلوار)شام تین بجے سرکار کسانوں سے بات چیت کرےگی۔
معلوم ہو کہ مرکزی حکومت کی جانب سے زراعت سے متعلق تین بل– کسان پیداوارٹرید اور کامرس(فروغ اور سہولت)بل، 2020، کسان (امپاورمنٹ اورتحفظ) پرائس انشورنس کنٹریکٹ اور زرعی خدمات بل، 2020 اور ضروری اشیا(ترمیم)بل، 2020 کو گزشتہ27 ستمبر کو صدر نے منظوری دے دی تھی، جس کے خلاف کسان مظاہرہ کر رہے ہیں۔
کسانوں کو اس بات کا خوف ہے کہ سرکار ان قوانین کے ذریعےایم ایس پی دلانے کے نظام کو ختم کر رہی ہے اور اگراس کو لاگو کیا جاتا ہے تو کسانوں کو تاجروں کے رحم پر جینا پڑےگا۔
دوسری جانب مرکز میں بی جے پی کی قیادت والی مودی سرکار نے باربار اس سے انکار کیا ہے۔ سرکار ان قوانین کو ‘تاریخی زرعی اصلاح’ کا نام دے رہی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ زرعی پیداوار کی فروخت کے لیے ایک متبادل نظام بنا رہے ہیں۔