کیوں بند ہو گیا دہلی کی پہچان رہا سنڈے بک مارکیٹ

04:00 PM Sep 09, 2019 | ریتو تومر

نئی دہلی واقع دریاگنج کے مشہور سنڈے بک مارکیٹ کو ٹریفک پولیس کی عرضی پر دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد بند کر دیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد یہاں کتاب کی دکان لگانے والے کاروباریوں کے سامنے روزگار کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔

دہلی ہائی کورٹ کے حکم کے بعد دریا گنج کے نیتا جی سبھاش مارگ پر مظاہرہ کرتے کتب فروش۔ (فوٹو: دی وائر)

نئی دہلی: گزشتہ 24 اگست کو ہریانہ کے ہسار سے کتابیں خریدنے دریاگنج کے سنڈے بک مارکیٹ پہنچے اجیت مایوس ہیں کیونکہ ان کو پتہ ہی نہیں تھا کہ دہلی ہائی کورٹ کے ایک حکم کے بعد اس بازار کو بند کر دیا گیا ہے۔ اجیت کی طرح نہ جانے کتنے لوگ ہیں، جو سنڈے بک مارکیٹ بند ہونے سے انجان ہیں اور یہاں پہنچنے کے بعد مایوسی  کے ساتھ گھر لوٹ رہے ہیں۔

پچھلے 50 سالوں سی پرانی دہلی کے دریاگنج واقع نیتا جی سبھاش مارگ پر گولچہ سے لےکر ڈی لائٹ سینما تک لگنے والا یہ بازار دنیا کے ان بہترین پٹری کتاب بازاروں میں سے ایک ہے، جہاں نہ صرف سستی بلکہ نایاب کتابیں بھی ملتی رہی ہیں، یہی وجہ رہی کہ یہاں بڑے-بڑے ادیبوں سے لےکے رہنما اور سرکاری افسروں کا آنا-جانا لگا رہتا تھا۔

اس بیچ دہلی ہائی کورٹ نے 26 جولائی کو دریاگنج کے ہفتہ وار سنڈے بک مارکیٹ کو بند کرنے کا حکم دیا، دراصل یہ فیصلہ دہلی ٹریفک پولیس کی اس رپورٹ کے بعد دیا گیا، جس میں کہا گیا تھا کہ پٹری پر لگنے والے اس مارکیٹ سے ٹریفک سے متعلق کئی طرح کی دقتوں سے لوگوں کو جوجھنا پڑ رہا ہے۔

اس بازار کے بند ہونے سے تقریباً 272 کتب فروش کے سامنے روزگار کا مسئلہ پیدا ہو گیا ہے۔ ان میں سے کئی کتب فروش کئی نسلوں سے اسی پٹری پر بیٹھ‌کر اپنی روزی-روٹی چلا رہے تھے۔

کئی نسلوں سے دریاگنج کی پٹری پر کتابیں بیچ رہے لوگ

کتب فروش سبھاش چند اگروال(فوٹو: دی وائر)

سبھاش چند اگروال نام کے کتب فروش کا کہنا ہے، ‘ کورٹ کے اس حکم سے ہم ٹوٹ گئے ہیں۔ میں 72 سال کا ہوں۔ دل کا دورہ پڑنے سے میرے بیٹے کی موت ہو گئی۔ میرا پوتا 19 سال کا ہے۔ پوری فیملی کی ذمہ داری میرے اوپر آ گئی ہے۔ اس عمر میں میں کس طرح سے اپنی فیملی کا پیٹ پال پاؤں‌گا۔ کورٹ کو بازار بند کرنے سے پہلے ہماری تکلیفوں کے بارے میں سوچنا چاہیے تھا۔ ‘

ایک اور کتب فروش بلا کہتے ہیں،’ہمارے بازار سے کسی کو کوئی دقت نہیں ہے۔ ایک طرح کی غلط فہمی پھیلائی جا رہی ہے کہ بازار کی وجہ سے ٹریفک کا مسئلہ ہو رہا تھا۔ اس بازار سے کتابیں خرید‌کر پڑھنے سے نہ جانے کتنے لوگ آئی اے ایس، آئی پی ایس افسر بنے ہیں۔ ہمارے پاس سے بڑے-بڑے افسر کتاب لینے آتے تھے۔ سونیا گاندھی تک یہاں آکر کتاب لےکر گئی ہیں۔ یہ ایک طرح کا ریکارڈ ہے کہ ہر اتوار صبح چھ بجے سے لےکر رات کے آٹھ بجے تک ایک لاکھ لوگ یہاں آتے تھے۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’ایک بار معروف قلمکار خوشونت سنگھ یہاں آئے تھے، انہوں نے کہا تھا کہ میں نے پورا ملک چھان مارا لیکن جو کتاب مجھے چاہیے تھی وہ مجھے کہیں نہیں ملی، صرف یہیں دریاگنج میں ملی۔ انہوں نے اس بازار کو ‘سونے کی چڑیا’کے بازار کا نام دیا تھا۔ ‘

اس بازار میں ایسے کئی کتب فروش ہیں، جن کی کئی نسلیں یہاں کتابیں بیچتی آئی ہیں، انہی میں سے ایک ہیں روشن لال۔

کتب فروش عارف علی(فوٹو: دی وائر)

روشن لال کہتے ہیں،’میرے والد اور ان سے پہلے دادا بھی یہیں پر کتابیں بیچتے آئے ہیں۔ ہماری تیسری پشت یہاں پر کتاب بیچ رہی ہے۔ ان 50 سالوں میں کبھی عدالت یا انتظامیہ کو نہیں لگا کہ بازار لگنے سے ٹریفک کا مسئلہ ہو رہا ہے؟ اچانک ٹریفک کی دقت لگنے لگی۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’ہمارا تو روزگار چھن گیا ہے۔ ہم نہ تو اب کتاب خریدنے لائق رہ گئے ہیں اور نہ ہی بیچنے لائق۔ ‘

40 سال کے عارف علی کہتے ہیں کہ وہ 20 سال کی عمر سے یہاں کتابیں بیچ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،’میں کوئی اور کام نہیں کرتا ہوں۔ اسی سے گھر چلتا ہے۔ اس فیصلے سے ہم 272 لوگوں کی روزی روٹی ختم ہو گئی ہے۔ سمجھ نہیں آ رہا کہ آگے کیا کروں‌گا۔ ‘

کتب بازار شفٹ کرنے کے تین راستے

دہلی ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد سے دریاگنج میں نیتا جی سبھاش مارگ پر سنڈے بک مارکیٹ لگنی بند ہو گئی ہے لیکن عدالت نے اس بازار کو کہیں اور شفٹ کرنے کا حکم بھی این ڈی ایم سی کو دیا ہے، جس کے بعد این ڈی ایم سی نے ان کتب فروش کو تین اختیار دئے۔

کتب فروش کو دہلی کے رام لیلا میدان، ماتا سُندری روڈ پر ہنومان مندر کے پاس جمنا بازار اور چاندنی چوک‌کے کچا باغ علاقے میں سے کسی ایک جگہ سنڈے بک مارکیٹ لگانے کو کہا ہے لیکن کتب فروش نے دریاگنج کی جگہ کسی اور جگہ بازار لگانے سے صاف انکار کر دیا ہے۔

دریاگنج پٹری سنڈے بک مارکیٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر قمر سعید(فوٹو : دی وائر)

اس کو لےکر ان کے اپنے خدشات ہیں۔ دریاگنج پٹری سنڈے بُک مارکیٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر قمر سعید کہتے ہیں،’رام لیلا میدان ایک تاریخی میدان ہے، جہاں آئے دن ریلیاں اور عوامی جلسے ہوتے ہیں، جو زیادہ تر اتوار کے دن ہی ہوتے ہیں۔ ایسے میں وہاں بازار لگانا ممکن ہی نہیں ہے۔ رام لیلا میدان میں بارش کے وقت پانی بھرا رہتا ہے۔ وہاں پانی کے بھراؤ کا مسئلہ رہتا ہے تو ایسے میں وہاں بازار کیسے چل سکتا ہے۔ ‘

پچھلے 10 سالوں سے دریاگنج میں کتابیں بیچ رہے سُمِت اگروال کہتے ہیں،’چاندنی چوک‌کے کچاباغ علاقے میں ایک کمیونٹی ہال کی فصیل کی پٹری پر ہمیں کتاب بازار لگانے کو کہا جا رہا ہے، ہم نے وہاں کا معائنہ کیا اور پایا کہ وہ بہت چھوٹی جگہ ہے، جہاں بازار نہیں لگ سکتا ہے۔ وہ جگہ بھی ایک کونے میں ہے، جہاں گراہک ہی پہنچ نہیں پائیں‌گے، ایسے میں بازار لگانے کا کیا فائدہ؟ ‘

کتب فروش سبھاش چند اگروال کہتے ہیں،’رام لیلا میدان میں نشہ کرنے والے لوگ بھی بیٹھے رہتے ہیں، اس لئے وہ جگہ محفوظ بھی نہیں ہے۔ ‘

جمنا بازار میں کتاب بازار نہیں لگانے کی وجہ بتاتے ہوئے وہ کہتے ہیں،’بازار ایسی جگہ پر لگتا ہے، جہاں تک پہنچنا لوگوں کے لئے آسان ہو۔ رام لیلا میدان کو چھوڑ‌کر باقی جو دو اختیار دئے گئے ہیں، وہاں تک لوگوں کی پہنچ نہیں ہے، وہ علاقے کے ایک کونے میں ہے، جو تحفظ کے نظریے سے بھی صحیح نہیں ہے۔ رام لیلا میدان کی دقت الگ طرح کی ہے، وہاں میدان کے ایک چھوٹے سے کونے میں ہمیں بازار لگانے کو کہا جا رہا ہے، جو صحیح نہیں ہے۔ ‘

دریاگنج سنڈے بک مارکیٹ پر لندن کی ایس او ایس  یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کر رہیں انوپریا کہتی ہیں،’مجھے ان لوگوں کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے ایک مہینہ ہو گیا ہے۔ کچھ پالیسیاں اور باتیں ٹالنے کی وجہ سے یہ کنفیوز بنی ہوئی ہیں۔ ‘

لندن کی ایس او ایس  یونیورسٹی سے دریاگنج سنڈے بک مارکیٹ پر پی ایچ ڈی کر رہیں طالبہ انوپریا (فوٹو : دی وائر)

وہ کہتی ہیں،’دراصل 2007 میں سپریم کورٹ نے دریاگنج سنڈے بک مارکیٹ کو ہیریٹیج مارکیٹ قرار دیا تھا، جس کے تحت اگر یہ علاقہ نان اسکیٹنگ(کسی جگہ پر غیر قانونی طریقے سے قبضہ)اور غیر تجارتی علاقہ بھی ہے تو ان کتب فروش کو یہاں وینڈنگ کی منظوری ہونی چاہیے لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ان کتب فروش کی کمائی ہفتہ وار ہے، یہ پوری طرح سے اسی بازار پر منحصر ہے تو ان کی باتیں سننی چاہیے۔ ‘

کتب فروش پنکج اگروال کہتے ہیں،’ہماری انتظامیہ سے گزارش ہے کہ جب تک ٹاؤن وینڈنگ کمیٹی (ٹی وی سی) نہیں بنتی ہے تب تک ہمیں یہیں پر بیٹھنے دیا جائے۔ ہم نے 45 سال سے کوئی گناہ نہیں کیا ہے۔ ہم تو  ردی-کاغذ بھی بازار بند ہو جانے کے بعد اٹھاکرلےجاتے ہیں۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’بازار کی وجہ سے ٹریفک ہونے کا جو الزام لگتا ہے، وہ ہماری آڑ میں سڑک پر کپڑا بازار لگانے والوں کی وجہ سے لگتا ہے۔ ٹریفک کباڑ بازار کی وجہ سے لگتا ہے۔ ‘

پنکج کہتے ہیں،’اس پر دہلی ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا تھا کہ کباڑ بازار کو ہٹا دیا جائے لیکن این ایم سی ڈی نے نیتا جی سبھاش مارگ کا بہانہ لگاکر کتاب بازار کو بھی ہٹا دیا۔ ہمارا ابھی کوئی فیصلہ نہیں آیا ہے۔ ‘

اسٹریٹ وینڈرس قانون کی خلاف ورزی

کتب فروش کا کہنا ہے کہ یہ حکم اسٹریٹ وینڈرس قانون 2004 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ قانون نیچرل مارکیٹ کو ہیریٹیج مارکیٹ کا درجہ دیتا ہے۔ نیچرل مارکیٹ ان بازاروں کو کہا جاتا ہے، جو تقریباً 50 سالوں سے وجود میں ہو۔ اس طرح دریاگنج سنڈے بک مارکیٹ ایک نیچرل اور ہیریٹیج بک مارکیٹ ہے۔

دریاگنج میں لگنے والا سنڈے بُک مارکیٹ(فائل فوٹو بہ شکریہ: فیس بک / اکشے ہندوستانی)

دریاگنج پٹری سنڈے بک مارکیٹ ویلفیئر ایسوسی ایشن کے صدر قمر سعید کا کہنا ہے کہ نیتا جی سبھاش مارگ کو ‘نو ہاکنگ ایریا’ کہہ‌کر بک مارکیٹ کو بند کیا گیا ہے جبکہ سپریم کورٹ اس بازار کو ہیریٹیج مارکیٹ کا درجہ دے چکا ہے، ایسے میں اس کو ہٹایا نہیں جا سکتا۔

وہ کہتے ہیں،’این ایم سی ڈی نے 2011 میں اس بازار کو قانونی  قرار دیا تھا اور 15 روپے کی پرچی کاٹنی شروع کی تھی۔ این ایم سی ڈی کی 2004 کی اسٹیٹ وینڈرس پالیسی میں اس بازار کو نیچرل بازار کا درجہ دیا گیا ہے۔ ایسے میں اگر بازار کو ہٹایا بھی جاتا ہے تو اصولوں کے تحت اس کے لئے تین نوٹس دینے ہونے ہوتے ہیں لیکن ایسا نہیں کیا گیا۔ ‘

انوپریا کہتی ہیں،’اس طرح کے نیچرل اور ہیریٹیج مارکیٹ کو سرکاری کارروائیوں کی پیروی کئے بغیر نہیں ہٹایا جا سکتا۔ مثلاً اس بازار کو ہٹانے کے لئے 30 دنوں کی نوٹس دینا ہوتا ہے، جو ان کو نہیں دیا گیا ہے۔ ‘

این ڈی ایم سی پر بلی کا بکرا بنانے کا الزام

کتب فروش کا کہنا ہے کہ این ڈی ایم سی نے نیتا جی سبھاش مارگ پر لگنے والے کباڑ بازار کی آڑ میں سنڈے بک مارکیٹ کو بلی کا بکرا بنایا ہے۔

کتب فروش پنکج اگروال کہتے ہیں،’این ڈی ایم سی نے کباڑ بازار اور کپڑا بازار کی آڑ میں ہمیں نشانے پر لیا ہے۔ دہلی ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ بنیادی طور پر کباڑ بازار کے لئے تھا۔ ہمارا فیصلہ تو 25 ستمبر کو آنے والا ہے۔ ‘

کتب فروش سمت ورما(فوٹو : دی وائر)

کتب فروش سُمِت ورما کہتے ہیں،’نیتا جی سبھاش مارگ پر پورا ڈھائی کلومیٹر کا اسٹریچ ہے، جس میں تقریباً دو کلومیٹر میں کباڑی بازار چلتا تھا اور 500 میٹر میں سنڈے بک مارکیٹ لگتا تھا۔ ہمیں تو ہٹا دیا گیا لیکن گولچہ سینما سے لےکر لوہے کے پل تک کباڑی بازار لگا ہوا ہے، پوری سڑک پر غیرقانونی قبضہ ہے لیکن اب کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ ‘

وہ کہتے ہیں،’ان کو بس کتاب بازار سے دقت تھی۔ ہم نے این ڈی ایم سی سے شکایت کی تھی لیکن گولچہ سینما سے لےکر لوہا کے پل کے درمیان ہمیں تو ہٹا دیا گیا تھا لیکن اس کے بعد بھی وہاں پر کپڑے والے اور دوسرے کاروباری بیٹھ رہے تھے، ہم نے ثبوت کے ساتھ انتظامیہ کے سامنے اس کی شکایت کی تھی لیکن انتظامیہ اپنی ناکامی چھپانے کے لئے ہمیں قربان کر رہا ہے۔ ‘

اس پورے معاملے پر این ایم ڈی سی کے کمرشیل افسر ایس کے بھاردواج کا کہنا ہے، ‘حال ہی میں دریاگنج پٹری سنڈے بک بازار ویلفیئر ایسوسی ایشن کے ایک وفد نے ملاقات کی تھی۔ ہم ان لوگوں کے رابطہ میں ہیں۔ ان کا مسئلہ سلجھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ ٹاؤن وینڈنگ کمیٹی (ٹی وی سی) اس کا سروے کرے‌گی اور جو بن پڑے‌گا، ہم کریں‌گے۔ ‘

حالانکہ، اس کے ساتھ ہی بھاردواج نے یہ بھی کہا، ‘ آپ ہر کسی کو مطمئن نہیں کر سکتے۔ انتظامیہ اپنے طریقے سے کام کرتی ہے۔ یہ عدالت کا فیصلہ ہے۔ ‘

وہیں، این ڈی ایم سی کے کمشنر ورشا جوشی نے اس پورے معاملے پر بات کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ابھی معاملہ عدالت میں زیر سماعت ہے تو ایسے میں وہ اس پر کسی طرح کا تبصرہ نہیں کرنا چاہیں‌گی۔