دہلی کے قریب بساہڑا گاؤں میں دس سال پہلے محمد اخلاق کو پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اخلاق کے چھوٹے بیٹے دانش بھی شدید زخمی ہو گئے تھے۔ لیکن ایک دہائی بعد بھی یہاں کے لوگوں کو قتل کے اس واقعہ پر کوئی افسوس نہیں ہے۔ اگر کچھ ہے، تو صرف ملزمین کے لیے ہمدردی اور یوگی آدتیہ ناتھ کے لیے شکریہ کے کلمات۔
بساہڑا میں اخلاق کا ویران پڑا گھر۔ (تمام تصویریں: سونیا/دی وائر)
دادری: نیلے اور سرخ رنگ میں رنگا لکڑی کا ایک چھوٹا سا دروازہ ، جس پر برسوں کی دھول جمع ہے۔ دو کھڑکیاں، جن پر لگی جالیاں اب پھٹ چکی ہیں، دیوار پر دراڑیں ہیں، اور گھر کے آس پاس گھاس کا ڈھیر۔ یہ خستہ حال مکان محمد اخلاق کا ہے، جس کے دروازے کی کنڈی کھلی ہوئی ہے، اور اس کی ویرانی ایک دہائی قبل پیش آنے والے المناک واقعے کی کہانی بیان کررہی ہے۔
تقریباً دس سال قبل دادری کے ٹھاکر اکثریتی گاؤں بساہڑا میں 52 سالہ محمد اخلاق کو پیٹ-پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس حملے میں اخلاق کے چھوٹے بیٹے دانش بھی شدید زخمی ہوگئے تھے۔ گائے کے ذبیحہ سے متعلق ماب لنچنگ کا یہ ملک کا پہلا بڑا واقعہ تھا۔ لیکن، ایک دہائی بعد بھی، یہاں کے لوگوں میں قتل کےاس واقعہ پر کوئی افسوس یا ندامت نہیں ہے۔ ملزمین کے لیے ہمدردی ضرور ہے۔
بساہڑا گاؤں کا داخلی دروازہ، جہاں راجپوت راجا مہارانا پرتاپ کا مجسمہ نصب ہے۔
معلوم ہو کہ گزشتہ ماہ اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت نے ‘سماجی ہم آہنگی’ کا حوالہ دیتے ہوئے گوتم بدھ نگر کی
ہائی سیشن کورٹ میں دائر ایک عرضی میں ضابطہ فوجداری کی دفعہ 321 کے تحت مقدمہ واپس لینے کی درخواست کی ہے۔
حکومت کے اس اقدام نے پرانے زخم کو پھر سےتازہ کر دیا ہے۔ اگر ہندو اسے ایک نئی امید کے طور پر دیکھ رہے ہیں کہ اب ملزم بری ہو جائیں گے، تو مسلمان خوفزدہ ہیں۔
بساہڑا کے لوگوں میں میڈیا کے حوالے سے بہت غصہ ہے کہ وہ ملزمین سے ہمدردی نہیں دکھاتے ۔ لوگ میڈیا سے بات کرنے کو تیار نہیں ہیں، تصویریں کھینچنا تو دور۔ کئی جگہوں پر لوگ گالی گلوچ اور مار پیٹ کرنے کو آمادہ ہیں۔
پنچایت کے ایک سینئر رکن کے مطابق، گاؤں کی آبادی تقریباً 35,000 ہے، جس میں تقریباً 6,000-7,000 مسلمان ہیں۔ ہندوؤں میں زیادہ تر گھر ٹھاکروں کے ہیں، اور زیادہ تر گھر کے باہر سسودیا لکھا ہوا ہے۔
سنیچر (22 نومبر) کی صبح گاؤں کے پردھان کے گھر بہت سے لوگ موجود تھے، جنہوں نے اخلاق لنچنگ کے بارے میں ڈھیر ساری باتیں کیں، لیکن وہ کیمرے پر بولنے کو تیار نہیں تھے، ‘ابھی تو ہمارے بچوں کے ساتھ کچھ ٹھیک ہونے جا رہا ہے، ایسے میں کچھ گڑ بڑ ہوگئی تو۔’
بساہڑا میں سڑک اور نکاسی آب کا نظام بری حالت میں ہے۔
ہمارے لڑکوں کی زندگی خراب ہوگئی: مقامی لوگ
کئی لوگوں کا کہنا تھا کہ ملزم لڑکوں کی زندگی برباد ہوگئی۔ ایک کی سرکاری لگی لگائی نوکری چھن گئی، اور دوسروں کی اب سرکاری نوکری کی عمر نہیں بچی۔ ان لڑکوں کے ساتھ بہت غلط ہوا ہے۔ یہ سب سیاست کا شکار ہو ئے ہیں۔
یہ پوچھے جانے پر کہ اخلاق کے ساتھ جوا ہوا کیا وہ غلط نہیں تھا، لوگوں کا کہنا ہے کہ’مندر کے مائیک سے گائے کے گوشت کا اعلان ہونے کے بعد ایک ہجوم اکٹھا ہوا جس میں گاؤں کے لوگ اور راہگیر بھی شامل تھے۔ بچوں کا خون گرم ہوتاہے، اب غصے میں کس نے کیا کیا کس کو پتہ۔ لیکن ان لڑکوں کی تو پوری زندگی خراب ہو گئی ہے۔’
کچھ لوگ مزید کہتے ہیں کہ ہمارے مذہب میں گائے کو ماں کے طور پر پوجا جاتا ہے۔ اب اگر کوئی اس گائے کو مار دے تو کوئی کیا کر سکتا ہے۔آپ کا خون نہیں ابلے گا۔ یہ سب اسی کا نتیجہ ہے۔
گاؤں کے پردھان کے گھر سے متصل ایک مکان کی چھت پر بیٹھے ایک نوجوان نے کہا، ‘یہ سب سماج وادی حکومت کی دین تھی، ہمیں جیل بھیج دیا گیا اور ان لوگوں کو پیسےسے مالامال کر دیا گیا۔’
اس نوجوان نے خود کواس کیس میں ایک ملزم بتایا۔ وہ تین سال جیل میں تھے اور اب ضمانت پر باہر ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اخلاق کے خاندان کو خوب پیسے مل گئے، اور ہماری زندگی جہنم بن گئی۔
‘یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ہمارے ساتھ سب صحیح کرنا چاہتی ہے‘
وہاں موجود دیگر لوگوں نے یہ بھی کہا کہ یوگی آدتیہ ناتھ حکومت ان کے ساتھ سب صحیح کرنا چاہتی ہے۔ ‘سماج وادی پارٹی کی اکھلیش حکومت، جو اعظم خان کے اشاروں پر چلتی تھی، نے اس پورے معاملے کو اپنے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔’
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اعظم خان یا اخلاق کے خاندان کی یہاں کے لوگوں سے کوئی خاص دشمنی تھی، جس کی وجہ سے انہوں نے ایسا کچھ کیا تو یہاں کے لوگوں کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں تھا۔
اسی دوران، اخلاق کے گھر کی خستہ حالی بتا رہی تھی کہ کس طرح ایک آباد گھر اینٹوں کے کھنڈر میں تبدیل ہو چکا ہے۔
اخلاق اور ان کے بھائیوں کا گھر جہاں اب کوئی نہیں رہتا۔
لوگوں نے بتایا کہ اخلاق کی موت کے دسویں دن ان کا پورا خاندان گاؤں چھوڑ کر چلا گیا اور اس کے بعد کبھی واپس نہیں لوٹا۔
اس گھر کے بالکل پیچھے اور آگے اخلاق کے تین اور بھائیوں کے گھر ہیں، جو خالی پڑے ہیں۔ وہاں کوئی نہیں رہتا۔ فرش پر گھاس اُگ آئی ہے اور بعض مقامات پر کچرے کے ڈھیر لگے ہوئے ہیں۔
کچھ لوگ کہتے ہیں کہ اخلاق کے دو بھائیوں نے اپنا گھر بیچ دیا اور وہاں سے چلے گئے۔ تاہم دی وائر اس کی تصدیق نہیں کر سکا۔
اخلاق کے بھائی جان محمد کا گھر۔
اس گلی سے تھوڑا آگے وہ مندر ہے جہاں سے گائے کے گوشت رکھنے کا اعلان کیا گیا تھا۔ اس مندر کے آس پاس کے کئی گھروں کے نوجوان اس مقدمے میں ملزم ہیں اور چند سال جیل میں گزارنے کے بعد ضمانت پر باہر آئے ہیں۔
گائے کے گوشت کا اعلان کرنے والے مندر کے پجاری اور چیلے فرار
ایک ملزم کے رشتہ دار نے بتایا کہ ان دنوں مندر میں کوئی بھاگوت یا کتھا کا پروگرام چل رہا تھا، جس کی وجہ سے مائیک اور لاؤڈ اسپیکر کا انتظام کیا گیا تھا۔
وہ مندر جہاں سے گائے کے گوشت کا اعلان کیا گیا تھا۔
وہ مزید بتاتے ہیں کہ واقعہ کی رات تقریباً ساڑھے نو بجے مندر کے احاطے میں رہنے والے مندر کے پجاری نے مائیک پر اعلان کیا کہ ایک گائے کو ذبح کیا گیا ہے اور گائے کا گوشت ذخیرہ کرکے کھایا جا رہا ہے۔ اس نے ایک ہجوم کو اکٹھا کرنے اور اخلاق کے گھر پر حملہ کرنے پر اکسایا، جو مندر کی گلی سے تھوڑے فاصلے پر واقع ہے۔
کئی لوگ کہتے ہیں کہ اس رات کے بعد وہ پجاری اور ان کا چیلا دونوں یہاں سے بھاگ گئے۔ وہ کبھی پولیس کے ہاتھ بھی نہیں آئے اور نہ ہی وہ اس گاؤں میں واپس آئے۔
مندر کے پجاری کا گھر جس پر تالا لگا ہوا ہے۔
اس وقت مندر کے چاروں طرف تناؤ کا ماحول ہے۔ لوگ میڈیا والوں کو دیکھ کر اپناآپا کھو رہے ہیں۔ اور ان پر اپنے بچوں کی زندگیاں برباد کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
لوگوں کو لگتا ہے کہ اگر حکومت کی جانب سے مقدمہ واپس لینے کی خبریں زیادہ سرخیوں میں رہیں تو ان کے بچوں کو دوبارہ جیل جانا پڑ سکتا ہے۔
مندر کے بالکل سامنے کی گلی، جہاں کئی گھروں کے لڑکے اس معاملے میں ملزم ہیں۔
اس مندر سے تھوڑے فاصلے پر ایک چھوٹی سی مسجد ہے۔ لوگوں نے بتایا کہ وہاں روزانہ نماز پڑھی جاتی ہے۔ مسجد کے آس پاس مسلمانوں کے چند گھر ہیں لیکن وہاں سناٹا نظر آتا ہے۔
اس وقت اس گاؤں میں ایس آئی آر کا کام بھی جاری ہے۔
ایک چارپائی پر بیٹھے کچھ لوگ ہمیں ملے، جنہوں نے ہمیں بتایا کہ علاقہ مکمل طور پر پرامن ہے۔ واقعہ سے پہلے اور بعد میں سب کچھ ٹھیک تھا۔ ہندو مسلم کشیدگی نہیں تھی۔ لوگ شادیوں اور تہواروں کے لیے ایک دوسرے کے گھر جاتے ہیں اور ساتھ رہتے ہیں۔
تاہم، یہاں کوئی بھی اخلاق کی موت پر غمزدہ نظر نہیں آتا۔ سب کو تشویش ہے کہ ملزم لڑکوں کو بری کر دیا جائے اور ان کے خلاف مقدمہ خارج کر دیا جائے۔
مسجد، جہاں ایس آئی آر کا عمل جاری ہے۔
مسلمانوں میں خوف اور تناؤ کا ماحول
قریب ہی کھڑے 20 یا 22 سال کے ایک نوجوان مسلمان نے کیمرے پر ہمیں بتایا کہ اس علاقے میں ہم آہنگی کا ماحول ہے۔ سب میں بھائی چارہ ہے اور سب مل جل کر رہتے ہیں۔ لیکن تھوڑی دیر بعد جب کیمرہ بند ہوا اور وہ کچھ فاصلے پر ہم سے دوبارہ ملے تو انہوں نے کہا کہ ‘بہت ڈر کا ماحول ہے ان لوگوں کے سامنے بولنا پڑتا ہے کہ سب ٹھیک ہے ورنہ یہاں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔’
کچھ مسلمانوں نے ہمیں بتایا کہ انہیں اپنی جان بچانی ہے۔ سب ٹھیک بولنا ہی مجبوری ہے۔ یہاں کسی پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ماحول خراب ہے، گاؤں برباد ہو گیا ہے۔ اوپر سے نیچے تک ان کی سرکار ہے۔
مسلمانوں کے گھروں کے اردگرد کی گلیاں سنسان ہیں۔
یہ مسلمان آج تک اخلاق کی موت کو بھلا نہیں پائے ہیں اور وہ بھی یہاں سے چلے جانا چاہتے ہیں، لیکن ان کے پاس کہیں اور ٹھکانہ نہیں ہے۔ ان کے پاس اپنے گھروں میں رہنے اور خاموشی سے اپنے چھوٹے کاروبار چلانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔
ایک 50-55 سال کے بزرگ بتاتے ہیں، ‘اخلاق کی موت سے تقریباً تین چار دن پہلے بقرعید تھی، ایسے میں گھر میں بکرے کا گوشت ہونا کوئی بڑی بات نہیں ہے، لیکن اس گوشت کے لیے انہیں جس طرح مارا گیا وہ خوفناک ہے۔ یہاں شاید ہی کوئی اس واقعہ کو بھولے گا۔’
کئی گھروں پر تالے لٹکتے دیکھے گئے۔
کیس کی تفتیش کرنے والے
پولیس افسر نے تصدیق کی تھی کہ اخلاق کے گھر سے کبھی گوشت کے ٹکڑے کا کوئی نمونہ نہیں لیا گیا۔ ٹیسٹ کے لیے جو نمونہ لیا گیا تھا وہ اس کے گھر سے چند میٹر کے فاصلے پر لیا گیا تھا، جہاں انہیں مارا پیٹا گیا تھا۔
واضح ہو کہ جائے وقوعہ سے برآمد ہونے والے گوشت کو ابتدائی طور پر مقامی ویٹرنری ڈاکٹر نے بکرے کے گوشت کے طور پر شناخت کیا تھا۔ اس کے متھرا کی ایک لیب اس کو گائے کا گوشت بتایا تھا۔
تاہم، اخلاق کے اہل خانہ نے اس کی تردید کی تھی اور کہا تھا کہ ان کے گھر میں گائے کا گوشت نہیں تھا۔
غورطلب ہے کہ دسمبر 2015 میں پولیس نے 28 ستمبر 2015 کی رات پیش آنے والے واقعے کے سلسلے میں چارج شیٹ داخل کی ، جس میں 15 لوگوں کو ملزم نامزد کیا گیا تھا۔ اس میں ایک نابالغ اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے مقامی رہنما سنجے رانا کا بیٹا وشال رانا شامل تھا۔ بعد میں کیس میں ملزمان کی کل تعداد 19 ہوگئی۔
اس معاملے میں ایک ملزم
روین سسودیا کی 2016 میں جیل میں موت ہو گئی تھی۔
اس کیس کی سماعت 2021 میں شروع ہوئی تھی۔ اخلاق کے خاندان کی نمائندگی کرنے والے وکیل محمد یوسف سیفی کا کہنا ہے کہ عدالت کے سامنے اب تک صرف ایک گواہ نے گواہی دی ہے۔
ملزمان پر تعزیرات ہند کی متعدد دفعات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی تھی، جن کی جگہ اب بھارتیہ نیائے سنہتا نے لے لی ہے، جن میں 302 (قتل)، 307 (قتل کی کوشش)، 323 (چوٹ پہنچانا)، 504 (جان بوجھ کر توہین کرنا) اور 506 (مجرمانہ دھمکی) شامل ہیں۔
اخلاق کی لنچنگ کو ایک خوفناک مثال کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس نے ہجومی تشدد، عدم برداشت اور گائے کے گوشت کے استعمال پر ملک گیر بحث کو جنم دیا۔ اس واقعے کے بعدایسے متعدد واقعات بھی رونما ہوئے ہیں جہاں خود ساختہ ‘گئو رکشکوں’نے گئو رکشا کے نام پر گائے ذبح کرنے یا مویشیوں کی نقل و حمل کے الزام میں مسلمانوں کو نشانہ بنایا ۔
آج بساہڑا کو دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ ‘ہندو گاؤں میں مسلمان کے قتل سے کسی کو فرق نہیں پڑتا۔’