کووڈ-19 کے حوالے سے حکومتی رہنما خطوط کے درمیان ماہرین کا کہنا ہے کہ کچھ ممالک میں بڑھتے ہوئے کووڈ کیسز کے پیش نظر چوکسی اور احتیاط ضروری ہے۔ ایمس، دہلی کے سابق ڈائریکٹر رندیپ گلیریا کا کہنا ہے کہ چین میں انفیکشن کے لیے ذمہ دار اومیکرون بی ایف7 سب –ویرینٹ پہلے ہی ملک میں پایا جا چکا ہے اور ملک میں کووِڈ کے سنگین معاملات میں اضافے اورمریضوں کے اسپتال میں داخل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔
نئی دہلی: وائرولوجسٹ گگن دیپ کانگ نے کہا ہے کہ ہندوستان میں اومیکرون کےسب–ویرینٹ ‘ایکس بی بی’ اور ‘بی ایف 7’ کے چند کیسز رپورٹ ہوئے ہیں، لیکن ان میں تیزی سے اضافہ نہیں ہوا ہے، اس لیے انہیں کووِڈ معاملوں میں اضافہ کا خدشہ نہیں ہے۔
چین سمیت کئی ممالک میں اومیکرون کی انتہائی متعدی شکلوں – خاص طور پر بی ایف 7 کی وجہ سے کورونا وائرس کے انفیکشن کے کیسز میں بہت زیادہ اضافے کے درمیان یہ بات کہی۔
کرسچن میڈیکل کالج کے ‘گیسٹرو انٹسٹائنل سائنسز’ کے شعبہ کی پروفیسر کانگ نے جمعہ کو ٹوئٹ کیا، وہ اومیکرون کی دیگر سب–ویرینٹ کی طرح ہیں، جومدافعتی نظام کو چکمہ دےکرکے لوگوں کو متاثر کرنے کے معاملے میں توبہت آگے ہیں، لیکن ڈیلٹاسے زیادہ سنگین انفیکشن کا باعث نہیں بن رہے ہیں۔
But will we be able to detect a new variant or a surge? We have ample sequencing capacity & if sequencing is done in real-time, absolutely we can. When hospitals begin to see severe cases, we will know. Need to & can understand & measure both the virus & the disease. 21/n
— G Kang (@GKangInd) December 23, 2022
کانگ نے کہا کہ ‘اس وقت ہندوستان میں صورتحال ٹھیک ہے لیکن وائرس کے رویے میں کسی بھی تبدیلی کی علامات کا پتہ لگانے کے لیے نگرانی کو یقینی بنایا جانا چاہیے’۔
بی ایف7، اومیکرون کے مختلف ویرینٹ بی اے5 کا سبسٹرین ہے اور انتہائی متعدی ہے۔ اس کی ‘انک یوبیشن’ کی مدت مختصر ہے۔ اس میں ان لوگوں کو دوبارہ انفیکشن کرنے یا یہاں تک کہ ان لوگوں کو متاثر کرنے کی بھی اعلیٰ صلاحیت ہے جنہیں (اینٹی کووڈ)ویکسین لگائی جا چکی ہے۔
کانگ نے کہا کہ ‘فی الحال جو انفیکشن پھیلا رہے ہیں وہ اومیکروں کے سب–ویرینٹ ہیں، جو ان لوگوں کے درمیان پنپنے ہیں جنہیں ویکسین لگائی گئی ہے اس لیے یہ انتہائی متعدی ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ چین کی زیادہ تر آبادی کو ویکسین کی دو خوراک دی جا چکی ہیں۔
کانگ نے کہا، ‘اس وقت ہندوستان اچھی پوزیشن میں ہے۔ ہمارے پاس کچھ کیسز آئے ہیں، ہمارے یہاں کچھ وقت کے لیےایکس بی بی اوربی ایف 7 کے کیسزسامنے آئے ہیں، لیکن ہندوستان میں ان سے انفیکشن کی تعداد میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے۔ مجھے انفیکشن کے معاملات میں اضافے کی توقع نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ اومیکرون کو متاثرہ افراد کی تعداد کے لحاظ سے تو سنگین کہا جا سکتا ہے، لیکن یہ اتنا سنگین انفیکشن نہیں پھیلاتا جتنا کہ ڈیلٹا ویرینٹ پھیلاتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ کم مؤثر نہیں ہے لیکن یہ نچلی سانس نلی کے مقابلے اوپری سانس کی نلی کو زیادہ متاثر کرتا ہے۔
خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، انہوں نے کہا، ‘ہر نیاسب–ویرینٹ صرف اسی صورت میں پھلتا پھولتا ہے جب یہ پچھلے والے کے مقابلے میں قوت مدافعت سے بچنے میں بہتر ہو۔ لہذا، نئے ویرینٹ سے زیادہ انفیکشن کوئی خبر نہیں ہے۔
کانگ نے کہا کہ یہ ویرینٹ کو سنبھالنے اور کلینکل نگرانی کو برقرار رکھنا ضروری ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ ‘وائرس کے رویے میں کسی بھی قسم کی تبدیلی کی علامات کا پتہ چل جائے۔’
انہوں نے مزید کہا، ‘یہ ایک عوامی صحت کا نظام ہے جہاں نگرانی چلتی رہتی ہے اور ابھرتے ہوئے خطرات کی روشنی میں نگرانی کو بڑھا دیا جاتا ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ رینڈم ٹیسٹنگ کو بڑھانے کا زیادہ فائدہ نہیں ہے۔ کانگ نے کہا، “آنے والے مسافروں کی جانچ کے لیے خطرے پر مبنی فریم ورک کی ضرورت ہوتی ہے، لیکن ‘ایکس فیصد’ سیمپل لینے کا مطلب یہ بھی ہے کہ آپ قبول کرتے ہیں کہ ہر آنے والے کیس کا پتہ نہیں چلے گا۔دوسرے لفظوں میں، جانچ کو بڑھانے کے لیے ایک اسٹریٹجک نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔
انہوں نے ٹوئٹ میں یہ بھی کہا، ‘ہماری آبادی کو پرائمری سیریز کا ٹیکہ لگایا گیا ہے اور انفیکشن کی اعلیٰ شرح (اندازے کے مطابق 90 فیصد ہے) ہے۔ زیادہ تر انفیکشن اومیکروں کے دوران تھے، اور یہ ہمیں ہائبرڈ قوت مدافعت دیتا ہے۔ یہ کب تک چلے گا اور ویکسین؟
ہندوستان کو بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگانے یا لاک ڈاؤن لگانے کی ضرورت نہیں: ماہرین
حکومتی رہنما خطوط کے درمیان ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان میں کووڈ کے موجودہ منظر نامے کے پیش نظر بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگانے یا لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی ضرورت نہیں ہے،لیکن کچھ ملکوں میں معاملات میں اضافے کے پیش نظر نگرانی اور چوکسی کو مضبوط کرنا ناگزیر ہے۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ کووڈ 19 کے سنگین معاملات اور مریضوں کے اسپتال میں داخل ہونے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ ہندوستان میں لوگوں میں ‘ہائبرڈ امیونٹی’ تیار ہوچکی ہے۔
آل انڈیا انسٹی ٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (ایمس)، دہلی کے سابق ڈائریکٹر رندیپ گلیریا نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا،مجموعی طور پر کووڈ کے معاملات میں کوئی اضافہ نہیں ہوا ہے اور ہندوستان اس وقت اچھی حالت میں ہے۔موجودہ حالات میں بین الاقوامی پروازوں پر پابندی لگانے یا لاک ڈاؤن نافذ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
واضح ہوکہ سنیچر کو مرکزی وزارت صحت نے بتایا ہے کہ گزشتہ ایک دن میں کووڈ-19 انفیکشن کے 201 نئے کیسز سامنے آئے ہیں اور زیر علاج مریضوں کی تعداد یعنی ایکٹیو کیسز 3397 ہیں۔ اس دوران کوئی موت نہیں ہوئی ہے۔
ڈاکٹر گلیریا نے کہا کہ پہلے کے تجربات سے پتہ چلتا ہے کہ انفیکشن کے پھیلاؤ کو روکنے میں پروازوں پر پابندی کارگر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا،اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ چین میں انفیکشن کے تیزی سے پھیلاؤ کے لیے ذمہ دار اومیکرون کا بی ایف 7 ویرینٹ ہمارے ملک میں پہلے ہی پایا جا چکا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا آنے والے دنوں میں لاک ڈاؤن کی ضرورت ہے، ڈاکٹر گلیریا نے کہا، کووڈ کے شدید کیسز اور مریضوں کے ہسپتال میں داخل ہونے کا امکان نہیں ہے،کیوں کی ٹیکہ کاری کی اچھی شرح اور قدرتی طور پر انفیکشن ہونے کی وجہ سے ہندوستانیوں میں ہائبرڈ قوت مدافعت (امیونٹی )پہلے ہی تیار ہو چکی ہے۔
انہوں نے کہا، موجودہ صورتحال اور لوگوں میں ہائبرڈ امیونٹی کی بلند شرح کو دیکھتے ہوئے ایسا لگتا ہے کہ لاک ڈاؤن کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
صفدرجنگ اسپتال میں پھپپھڑے اور انتہائی نگہداشت کے شعبہ کے پروفیسر ڈاکٹر نیرج گپتا نے کہا کہ ہندوستان کو چین اور کچھ دوسرے ممالک میں کووِڈ-19 کے کیسز میں اضافے کے پیش نظر زیادہ محتاط رہنے کی ضرورت ہے، لیکن ‘ ہندوستان کے موجودہ منظرنامہ کو دیکھتے ہوئے مستقبل قریب میں لاک ڈاؤن جیسی صورتحال کا تصور نہیں کیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ‘ہائبرڈ امیونٹی’ انسان کو مستقبل میں ہونے والے انفیکشن کے خلاف زیادہ محفوظ بناتی ہے۔
ڈاکٹر گپتا نے یہ بھی کہا کہ چین اس وقت زیادہ کمزور حالت میں ہے، جس کی وجہ کم قدرتی قوت مدافعت،ٹیکہ کاری کی ناقص حکمت عملی ہو سکتی ہے، جس میں بزرگ اور کمزور آبادی کے مقابلے نوجوان اور صحت مند لوگوں کو ترجیح دی گئی۔ اس کے ساتھ ہی چینی ویکسین کو انفیکشن سے بچاؤ میں کم مؤثر بھی پایا گیا ہے۔
ویکسینیشن سے متعلق نیشنل ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ کے چیئرمین ڈاکٹر این کے اروڑہ نے کہا کہ ہندوستان میں کووڈ کی موجودہ صورتحال قابو میں ہے اور گھبرانے کی کوئی بات نہیں ہے۔
تاہم، انہوں نے کہا کہ لوگوں کو کووڈ کے مطابق پروٹوکول کو اختیارکرانا چاہیے اور ویکسین کی احتیاطی خوراک لینی چاہیے۔
جاپان، امریکہ، جنوبی کوریا، برازیل، فرانس اور چین میں بڑھتے ہوئے کیسوں کے درمیان ہندوستان نے نگرانی اورکووڈ سے متاثرہ نمونوں کے جینوم ترتیب کے عمل کو تیز کر دیا ہے۔
اعدادوشمار کے مطابق، ہندوستان کی 97 فیصد اہل آبادی نے کووڈ 19 ویکسین کی پہلی خوراک لی ہے، جبکہ 90 فیصد نے دوسری خوراک لےلی ہے۔ صرف 27 فیصد آبادی نے احتیاطی خوراک حاصل کی ہے۔
چین، جاپان، جنوبی کوریا، ہانگ کانگ، تھائی لینڈ سے آنے والوں کے لیے آر ٹی– پی سی آر لازمی
دریں اثنا، مرکزی وزیر صحت من سکھ منڈاویہ نےسنیچر کے روز کہا کہ چین، جاپان، جنوبی کوریا، ہانگ کانگ اور تھائی لینڈ سے ہندوستان آنے والے مسافروں کے لیے آر ٹی –پی سی آر ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا جائے گا تاکہ کورونا وائرس کے انفیکشن کا پتہ چل سکے۔
منڈاویہ نے کہا کہ ان ممالک کے کسی مسافر میں کورونا وائرس کے انفیکشن کی علامات پائی جاتی ہیں یا جانچ میں انفیکشن کی تصدیق ہوتی ہے تو انہیں الگ رکھا جائے گا۔
منڈاویہ نے نامہ نگاروں کو بتایا، ‘چین، جاپان، سنگاپور اور بنکاک (تھائی لینڈ) کے مسافروں کی ‘ایئر سہولیات’ پورٹل کے ذریعے نگرانی کی جا رہی ہے۔ وبائی صورتحال کے پیش نظر چین، جاپان، جنوبی کوریا، سنگاپور اور بنکاک سے آنے والے مسافروں کو اپنی آر ٹی –پی سی آر رپورٹ پہلے سے اپ لوڈ کرنی ہوگی۔ ہندوستان آنے کے بعد ان کی ‘تھرمل اسکریننگ’ بھی کی جائے گی۔
وزیر نے کہا، ‘ہم نے ان ممالک کے مسافروں کو انفیکشن یا بخار ہونے کی صورت میں ملک میں الگ تھلگ رکھنے کا حکم جاری کیا ہے۔’
مرکزی وزارت صحت نے پہلے ہی شہری ہوا بازی کی وزارت سے کہا ہے کہ وہ سنیچرسے ہر بین الاقوامی پرواز پر ہندوستان آنے والے دو فیصد مسافروں کی ہوائی اڈے کووڈ جانچ کو یقینی بنائے، تاکہ ملک میں وائرس کے کسی بھی نئے ویرینٹ کے پھیلنے کے خطرے کو کم کیا جا سکے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)