مرکز نے اگست سے دسمبر کے بیچ2.2ارب ٹیکے دستیاب کروانے کی بات کہی ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ ان میں سے کتنے ملک میں بنیں گے اور کتنے امپورٹ کیے جائیں گے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ٹیکوں کی موجودہ قلت نومبر 2020 سے جنوری 2021 کے بیچ کمپنیوں کو ویکسین کا پری آرڈر دینے میں مودی سرکار کی ناکامی کا نتیجہ ہے۔
24 مئی2021 کو دہلی کا ایک ویکسینیشن سینٹر۔ (فوٹو: پی ٹی آئی)
اپنی غفلت بھری ویکسین پالیسی کی وجہ سےوزیر اعظم نریندر مودی کو ابھی مزید بین الاقوامی شرمندگی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ملک کے 29صوبوں کو الگ الگ عالمی ویکسین بنانے والوں سے براہ راست ویکسین خریدنے کی اجازت دینے کا ان کا فیصلہ جسے زیادہ تر لوگوں کے ذریوے اپنی ذمہ داری سے پلہ جھاڑنے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے
ہندوستان میں الٹا پڑنے والا ہے۔
فائزر، ماڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن جیسی عالمی کمپنیوں کی ہندوستانی صوبوں کے ساتھ الگ الگ بات چیت کرنے میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے کسی سنگل ایجنسی کے ساتھ ہی بات کرنے کی خواہش کااظہار کیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ چاہتی ہیں کہ مرکزی حکومت ہی ہندوستانی صوبوں کی ضروریات کو جوڑکر اس حساب سے ان کی طرف سے بات چیت کرے۔
اس کا پہلااشارہ اس وقت سامنےآیا جب مہاراشٹر جیسےصوبوں کے ذریعے منگائے گئے ٹینٹدروں پر کوئی ردعمل نہیں آیا۔ امریکی دواساز کمپنی ماڈرنا نے پنجاب سے کہا کہ وہ صوبے کی جانب سے جاری ٹینڈر پر جواب دینے کے بجائے براہ راست
مرکز سے بات کرنا پسند کرےگی۔
عالمی ٹینڈر کاعمل خریداروں کے بازار میں کافی مؤثر ہوتا ہے، جس میں بڑے خریدارمحدود تعدادمیں ہوتے ہیں اور بیچنے والوں کی تعداد زیادہ ہوتی ہے، جو اپنے پروڈکشن کو بیچنے کے لیے ایک دوسرے سے مقابلہ کرتے ہیں۔ لیکن ویکسین کے معاملے میں بازار کی نوعیت بدل چکی ہے، جس میں150 سے زیادہ ملک اپنی عوام کی جتنی جلدی ہو سکے ٹیکہ کاری کروانے کے لیے ٹیکے کی خریداری کے لیےبے چین ہیں۔
عالمی سطح پر بیچنے والوں کی تعداد کم ہے اور تیز رفتاری سے بڑی آبادی کی ٹیکہ کاری کے لحاظ سے پروڈکشن کی صلاحیت محدود ہے۔ ان حالات میں عالمی ویکسین کمپنیوں کے پاس الگ الگ ہندوستانی صوبوں سے ویکسین کاسودا کرنےکے لیے صبرنہیں ہے۔ وہ صرف خودمختار حکومتوں کے ساتھ براہ راست سودا کرنے کو ہی ترجیح دے رہی ہیں۔
یہ بےحد عجیب اور سمجھ سے بالاترہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان واحد ایسا ملک ہے جہاں ایک خودمختار ریاست نے خود کو 29 اکائیوں میں تقسیم کر دیا ہے اور ہر اکائی ویکسین خریدنے کے لیے الگ الگ ویکسین کمپنیوں کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہے۔
اس کے برعکس افریقی ممالک نے ایک افریقی یونین ٹرسٹ کاقیام کیا ہے جو جانسن اینڈ جانسن سے 22 کروڑ تک ٹیکے خریدنے کے لیےاجتماعی طور پر بات چیت کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ یورپی یونین بھی یونین کے 27ممالک کی طرف سے ویکسین کی خریداری کے بارے میں بات چیت کر رہا ہے۔ لیکن وزیر اعظم نریندر مودی الٹی راہ پر گامزن ہیں اور اب عالمی ویکسین کمپنیاں انہیں اپنا غیرمعقول رویہ چھوڑنے اور سمجھداری دکھانے کے لیے مجبور کر رہی ہیں۔
ہندوستان کے وزیر خارجہ امریکی کاروباری یونینوں کے ساتھ اس تعطل پر چرچہ کرنے کے لیے
امریکہ میں ہیں، جنہوں نے ‘آتم نربھر’ ہندوستان کو کووڈ کی مہلک لہر سے نمٹنے میں مدد کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس کا قیام کیا ہے۔
امریکی ویکسین کمپنیاں اپنے ملک کی آبادی کی ضروریات کو پورا کرنے، جس میں ویکسین کا ایک بڑا اسٹاک تیار کرنا بھی شامل ہے، کے عمل میں ہیں۔ ان کی صلاحیت کو خالی ہونے میں چندمہینے لگ ہی جائیں گے۔ مستقبل قریب میں ہندوستان کو کو ویکسین، کووی شیلڈ اور سپتنک کی موجودہ سپلائی سے ہی کام چلانا پڑےگا۔
ابھی بھی اس بات کو لےکر بہت کم وضاحت ہے کہ مرکزاگست سے دسمبر کے بیچ 2.2 ارب ٹیکے کیسےدستیاب کروائےگا، جس کا
اعلان نیتی آیوگ کے ممبر(صحت) وی کے پال نے حال میں کیاہے۔سرکار کی طرف سے کسی نے بھی اس بات کو لےکرکوئی وضاحت نہیں دی ہے کہ 2.2ارب خوراکوں میں سے کتنے کی تیاری ملک میں کی جائےگی اور کتنے کا امپورٹ کیا جائےگا؟
حساب لگانے کے کام کو مودی سرکار کسی بوجھ کی طرح دیکھتی ہے اور بیورو کے معاملے میں اس کی توجہ بتانے سے زیادہ چھپانے کی طرف رہتی ہے۔
پچھلے مہینے جو ایک چارٹ جاری کیا گیا تھا، اس میں حیران کن طریقےسے ایسے ٹیکوں کو بھی شامل کیا گیا تھا جو ابھی ٹرائل اور ڈیولپ کیے جانے کی حالت میں ہی ہیں۔ ایسے اعدادوشمار کو غور سے دیکھنا اور جواب مانگناشہریوں کا حق ہے، کیونکہ ان کی زندگی اس پر منحصر کرتی ہے۔
کچھ دانشمندانہ اندازے لگائے جا سکتے ہیں۔ بھارت بایوٹیک کے شریک پرموٹر سچترا ایلا نے گزشتہ ہفتے
انڈیا ٹو ڈے کو بتایا کہ ان کی کمپنی آنے والے کچھ مہینوں میں حیدرآباد، بنگلورو اور انکلیشور میں ویکسین پروڈکشن اکائی قائم کرکے اسے شروع کر دےگی۔
ان میں ایک سال میں کو ویکسین کی ایک ارب سے زیادہ خوراک کا پروڈکشن ہوگا۔ مہینے کے حساب سے یہ 10 کروڑ خوراک فی ماہ کے پروڈکشن کے برابر ہے۔ ہم تصور کر سکتے ہیں کہ یہ کام آنے والے کچھ مہینوں میں ہو جائےگا۔
مرکزی وزیر نتن گڈکری نے کہا کہ انہیں یہ
اطلاع ملی ہے کہ سرکار کے پاس کو ویکسین کا پروڈکشن کرنے کے لیے 12 کے قریب اکائیاں ہوں گی۔ یہاں یہ نوٹ کیا جا سکتا ہے کہ بھارت بایوٹیک کی پرموٹر نے صرف تین اکائیوں کے بارے میں بات کی ہے اور دیگر سات یا آٹھ اکائیوں کو ٹکنالوجی ٹرانسفر کے ذریعےلائسنسی پروڈکشن کرنے کی اجازت دینے کے بارے میں کچھ نہیں کہا ہے۔
ہو سکتا ہے بھارت بایوٹیک اور مرکز کے بیچ کچھ بات چیت چل رہی ہو، جس کے بارے میں ہمیں جانکاری نہیں ہے۔ یہ عالمی وباکے بارے میں ان کئی دیگر چیزوں میں سے ایک ہے، جس کی ہمیں جانکاری نہیں ہے۔
سیرم انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے بھی جولائی کے بعد فی مہینے12 کروڑ خوراک تک پروڈکشن بڑھانے کی بات کی ہے۔ اگر ہم ابھی یہ مان لیں کہ بھارت بایوٹیک اور سیرم انسٹی ٹیوٹ دونوں ہی فی مہینے کے حساب سے 10 کروڑ سے زیادہ خوراکوں کا پروڈکشن شروع کر دیتے ہیں تو بھی سال کے آخر تک ٹیکہ کاری کے ہدف کو پورا کرنے کے لیے ہمیں سپتنک اور دوسرے ویکسین کے امپورٹ کی ضرورت ہوگی۔
اگست سے دسمبر کے بیچ وعدے کے مطابق 2.2ارب خوراک دستیاب کرانے کے لیے ہمیں فی مہینے 40 کروڑ سے کچھ زیادہ خوراکوں کی ضرورت ہوگی۔ ہمیں اس بات کی واضح جانکاری نہیں ہے کہ ہندوستان میں سپتنک کے کتنے خوراکوں کا پروڈکشن کیا جائےگا۔
اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندوستان کو اگر 5 مہینے میں2.2ارب خوراک دستیاب کرانے کے وعدے کو پورا کرنے کے لیے امریکی فارما کمپنیوں سے ٹیکوں کی کئی کروڑ خوراک خریدنی ہوگی۔ یہ ایک مشکل ہدف دکھائی دیتا ہے۔ وزیر خارجہ امریکی فارما کمپنیوں سے کیا خبر لاتے ہیں، یہ دیکھنے کے لیے ہمیں انتظار کرنا ہوگا۔
لیکن اگر جئےشنکر کو آنے والے مستقبل قریب میں کچھ فراہمی کی یقین دہانی مل بھی جاتی ہےتو بھی اگلے دو تین مہینوں میں ویکسین کی قلت کا کہیں کوئی حل نظر نہیں آتا ہے۔
اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ قلت نومبر، 2020 سے جنوری،2021 کے بیچ ویکسین کمپنیوں کو ویکسین کا پری آرڈر کرنے میں مودی کی ناکامی کا براہ راست نتیجہ ہے۔ اور مودی چاہے جتنی بھی کوشش کریں، اس سچائی کو کبھی بھی جھٹلا نہیں سکیں گے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)