انٹرویو: کورونا وائرس کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن میں غریبوں کی ا مداد کے لیے مرکزی حکومت کی جانب سے پردھان منتری غریب کلیان پیکیج کا اعلان کیا گیا تھا، جس کو زمین پر اتارنے کا ذمہ وزارت برائے صارفین امور، غذا اورعوامی تقسیم کو ملا تھا۔ اس بارے میں وزیررام ولاس پاسوان سے بات چیت۔
رام ولاس پاسوان(فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: کووڈ 19انفیکشن کو روکنے کے لیے پچھلے تین مہینوں میں اقتصادی سرگرمیوں پر الگ الگ طرح کی پابندیاں لگائی گئی تھیں، جس کےنتیجے میں ملک میں روز کمانے کھانے والے طبقےکے لاکھوں لوگوں کے سامنے مشکلیں کھڑی ہوئیں۔ان مسائل میں سب سے اہم رہاغذائی تحفط (فوڈ سیکورٹی)۔ اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے سرکار نے سب سے بڑا اعلان یہ کیا کہ اپریل، مئی اور جون کے مہینوں میں نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ (این ایف ایس اے)کے لگ بھگ 800 ملین مستحقین کو 5 کیلواضافی اناج (گیہوں یا چاول)مفت فراہم کرایا جائےگا۔
اس کے علاوہ مرکز نے یہ بھی کہا تھا کہ راشن کارڈ رکھنے والی ہر فیملی کو ہر مہینے1 کیلودال بھی پہنچائی جائےگی۔اس اعلان کو زمین پر اتارنے کی ذمہ داری وزارت برائے صارفین امور ، غذا اورعوامی تقسیم(کنزیومر افیئرز فوڈ اینڈ پبلک ڈسٹری بیوشن) کو ملی، جس کو رام ولاس پاسوان سنبھالتے ہیں۔
لاک ڈاؤن کے دوران مرکزکی اسکیم کو عمل میں لانے، اس میں وزارت کو درپیش چیلنجز اور پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کو لےکر دی وائر نے ای میل کے ذریعے پاسوان سے بات چیت کی۔
کیا لگتا ہے کہ پردھان منتری غریب کلیان پیکیج(پی ایم جی کےپی)کے تحت اضافی غلہ اور دالوں کو دستیاب کرانے کے چیلنج سے نپٹنے میں آپ کی وزارت کتنی کامیاب رہی؟ بالخصوص جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے سپلائی چین میں آئی رکاوٹوں کے تناظر میں بات کریں تو…
کووڈ19کے دوران میری وزارت پر بہت بڑی ذمہ داری آئی، جس میں ہمیں این ایف ایس اے اور پی ایم جی کےوائی کے تحت پو رے ملک میں اناج اور دال مطلوبہ مقدار میں فراہم کرانا تھا، تاکہ ملک کے کسی بھی کونے میں اشیائے خوردونوش کی کمی نہ ہو۔مجھے یہ بتاتے ہوئے بہت اطمینان ہے کہ فوڈ کارپوریشن آف انڈیا(ایف سی آئی)اور نیشنل اگریکلچر کوآپریٹو مارکیٹنگ فیڈریشن آف انڈیا(این اے ایف ای ڈی)نے اس ذمہ داری کو مکمل سپردگی کے ساتھ نبھایا ہے۔
لاک ڈاؤن کے دوران پورے ملک میں 4819 ریل ریکوں کے ذریعےاب تک 134.93 لاکھ میٹرک ٹن غلہ اٹھایا گیا اورمنتقل کیا گیا ہے، دوردراز کے علاقوں میں اشیائے خوردونوش پہنچانے کے لیے ہیلی کاپٹر اور پانی کے جہازوں کا بھی استعمال کیاگیا۔ایف سی آئی نے ریل، سڑک، ہوائی اور پانی کے راستوں سےکل 273 لاکھ میٹرک ٹن غلہ لاک ڈاؤن کے دوران ملک کے مختلف حصوں میں پہنچایا ہے۔ یہ عام دنوں کے مقابلے دوگنا سے بھی زیادہ ہے۔
اس میں ایف سی آئی کے لگ بھگ 1 لاکھ ملازمین اورمزدور لگے ہوئے ہیں۔ اس سے 80 کروڑ سے زیادہ افراد تک غلہ پہنچایا گیا۔اس کے علاوہ ریاستی حکومتوں اوررضاکارانہ تنظیموں(این جی اوز)کے مطالبات کے مطابق ایف سی آئی نے اس کو پورا کیا۔ہمارے سامنےلاک ڈاؤن کی مدت میں ملک کے ہر کونے میں ہر آدمی تک اناج پہنچانے کا چیلنج تھا کیوں کہ پہلےاین ایف ایس اے اوردیگر فلاحی منصوبوں کے تحت اہل افرادکو جس مقدار میں غلہ ملتا تھا، کووڈ 19کی وجہ سے ہوئے لاک ڈاؤن میں وزیر اعظم کی جانب سے اعلان کیے گئے پی ایم جی کےوائی اور آتم نربھر بھارت پیکیج کے تحت ہر آدمی کو اضافی 5 کیلواناج فراہم کرانا تھا، جو اب دوگنا ہو گیا تھا۔
ہم نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس کوکامیابی کے ساتھ پورا بھی کیا۔ پورے ملک کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے پاس کافی مقدار میں اسٹاک موجود ہے۔آج تک ایف سی آئی کے پاس 816.49 لاکھ میٹرک ٹن اشیائے خوردونوش موجود ہے اور ابھی خریداری جاری ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا ہے کہ لاک ڈاؤن کے دوران پورے ملک میں اب تک 273 لاکھ میٹرک ٹن اناج پہنچایا گیا ہے، اس لیے مجھے پورا اعتماد ہے کہ ہم پورے ملک کی فوڈ سکیورٹی کو ضرور یقینی بنائیں گے۔
پچھلے تین مہینوں میں پی ایم جی کےپی کے تحت اضافی غلہ اور دالوں کے ڈسٹری بیوشن میں کچھ تاخیر بھی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر اپریل کے مہینے میں جو راشن ملنا تھا وہ اپریل میں 200 ملین لوگوں کو نہیں ملا۔ کیاوجہ رہی ہے؟
اس سوال کا جواب نہیں دیا گیا۔
راشن کارڈ ہولڈرس کو پی ایم جی کےپی کے تحت اضافی اناج فراہم کرانے کی مدت اب جون میں ختم ہونے جا رہی ہے۔ اس وقت ہندوستان کے پاس ریکارڈ97 ملین میٹرک ٹن اناج دستیاب ہے۔ کئی ریاستوں نے گزارش بھی کی ہے کہ پی ایم جی کےپی کے تحت اضافی اناج کو جون سے آگے بڑھایا جائے۔ اس پر سرکار کا کیا خیال ہے؟
سرکار نے لاک ڈاؤن کے دوران اوپن مارکیٹ سیلز اسکیم(او ایم ایس )کی پالیسی میں تبدیلی کی، جس کے تحت ریاستی حکومت اورریلیف کیمپ چلا رہے این جی او یا دیگر رضاکارانہ تنظیمیں 21 روپے فی کیلو گیہوں اور 22 روپے فی کیلو چاول سیدھے ایف سی آئی سے خرید سکتے ہیں۔
اس کے تحت ایف سی آئی کے ذریعے ابھی تک 5.67 لاکھ میٹرک ٹن گیہوں اور 9.89 لاکھ میٹرک ٹن چاول کی بکری کی گئی ہے۔این جی او اور اوردیگررضاکارانہ تنظیموں نے 1198 میٹرک ٹن گیہوں اور 9373 میٹرک ٹن چاول کی خریداری کر لی ہے۔پی یم جی کےوائی کے تحت ریاستوں کو تین مہینے کے لیے 120 لاکھ میٹرک ٹن اناج مختص کیا گیا، جس میں سے ان کے ذریعے اب تک 115.52 لاکھ میٹرک ٹن اناج اٹھاکر 99.32 لاکھ میٹرک ٹن کا بٹوارہ کر دیا گیا ہے۔
اسی طرح ریاستوں کو اب تک 5.87 لاکھ میٹرک ٹن دالوں کا مختص کیا جا چکا ہے اور 5.74 لاکھ میٹرک ٹن دال بھیجی جا چکی ہے۔ ریاستوں کےذریعے5.51 لاکھ میٹرک ٹن دال حاصل کر لی گئی اور 4.14 لاکھ میٹرک ٹن دال تقسیم کی جا چکی ہے۔آپ جانتے ہی ہیں کہ ملک میں ابھی کورونا کا قہربڑھ رہا ہے۔ سرکار نے اس کے لیے پہلے بھی راحت کا اعلان کیا ہے اور آگے بھی جتنا ضروری ہوگا، سرکار کی جانب سے اس سمت میں وقت پر مناسب فیصلہ لیا جائےگا۔
گیارہ ریاستوں نے پی ایم جی کےوائی اسکیم کو 3 مہینے بڑھانے کی مانگ کی ہے۔حالات کو دیکھتے ہوئے سرکار اس پر فیصلہ لےگی۔
اپریل میں سرکار نے اعلان کیا کہ اب الکوحل والے ہینڈ سینٹائزر بنانے کے لیے سرپلس چاول کو اتھینال میں بدلنے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس کے لیے کس مقدار میں چاول مختص کیا جائےگا اور کس قیمت پر؟ کیا سرکار کو یہ قدم ایسے وقت میں اٹھانا چاہیے جب لاک ڈاؤن کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کوروزگارکا نقصان ہوا ہے اور ان پر غریبی اور اشیائے خوردونوش کو لے کرمشکلات کا سامنا ہے؟
جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا کہ پورے ملک کی فوڈ سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے ہمارے پاس 2 سال کے لیے کافی مقدار میں اناج کا اسٹا ک موجود ہے۔ اس کے علاوہ بھی اناج کی خریداری جاری ہے۔آج کے حالات میں ہر آدمی کی کوروناانفیکشن سے حفاظت ضروری ہے۔ سینٹائزر صرف امیر یا پیسہ والوں کے لیے ہے، یہ سوچ بدلنی ہوگی۔
سرکار چاہتی ہے کہ ہر آدمی کے لیے سینٹائزر آسانی سے دستیاب ہو۔ اس کے لیے سینٹائزر کا پروڈکشن بڑھانا ضروری ہے۔ جب آپ خود کہہ رہے ہیں کہ سرپلس چاول، تو پھر اس سے غریبوں کو چاول کی کمی کیسے ہوگی۔ایک ایک شہری کو کھانافراہم کرانا سرکار کی ذمہ داری ہے تو انہیں انفیکشن سے بچانے کی ذمہ داری بھی سرکار کی ہی ہے۔
آتم نربھر پیکیج کے تحت سرکار نے اعلان کیا تھا کہ 8 کروڑ مہاجر مزدوروں کو مئی اور جون کے مہینوں کے لیے فی کس کے حساب سے5 کیلوگرام اناج فراہم کیا جائےگا۔ ایسے کتنےمزدوروں کی پہچان کی گئی اور کتنوں کو ان دو مہینوں میں اناج فراہم کرایا گیا؟
آتم نربھر بھارت پیکیج کے تحت ریاستوں کو 8 لاکھ میٹرک ٹن اناج مختص کیا گیا، جس میں سے ان کے ذریعے 6.39 لاکھ میٹرک ٹن اناج اٹھاکر 92909 میٹرک ٹن کا بٹوارہ کر دیا گیا ہے۔اسی طرح ریاستوں کو مختص39000 میٹرک ٹن چنا میں سے 33968 میٹرک ٹن چنا بھیجا جا چکا ہے۔ ریاستوں کے ذریعے31564 میٹرک ٹن چنا حاصل کر لیا گیا ہے۔
تمام ریاستوں میں اس کے تحت ضرورت مندوں کی پہچان کر کے ان کے بیچ ڈسٹری بیوشن کا کام جاری ہے۔
پچھلے تین مہینوں میں اپنی وزارت کے کام سے کتنےمطمئن ہیں؟
مارچ مہینے میں جب ملک میں کورونا وائرس کے انفیکشن کا خطرہ بڑھنے لگا، تو اس کو پھیلنے سے روکنے کے لیے وزیر اعظم نے 24 مارچ سے پورے ملک میں لاک ڈاؤن کا اعلان کر دیا۔سارے کاروباری ادارے، کل کارخانے اور مینوفیکچرنگ کے کام پوری طرح ٹھپ ہو گئے۔ ایسے میں غریب اور روز کمانے کھانے والے کروڑوں عوام کے سامنے فیملی کے لیے کھانےکے انتظام کی پریشانی کھڑی ہو گئی۔
حالات کو دیکھتے ہوئے وزیر اعظم نے فوراً پردھان منتری غریب کلیان ان یوجنا کا اعلان کیا جس میں این ایف ایس اے کے تحت آنے والے 81 کروڑ غریب مستحقین کے لیے 3 مہینے کے لیے 5 کیلو اناج فی کس ہر ماہ اور 1 کیلو دال ہر فیملی کو ہر ماہ مفت دینے کا اہتمام کیا گیا۔
سرکار کے ان اسٹاکس میں اشیائے خوردونوش کی کوئی کمی نہیں تھی لیکن سب سے بڑاچیلنج تھا اس اسکیم کو پورا کرنے کے لیے جلد سے جلد ملک کے کونے کونے تک اناج اور دال پہنچانے کا،بالخصوص120 لاکھ ٹن اناج پہنچانے کا۔ایف سی آئی نے اس چیلنج کو قبول کیا اور اس کے ایک لاکھ سے زیادہ مزدور اور اہلکارکورونا انفیکشن کے خطرے کا سامنا کرتے ہوئے جنگی پیمانے پر دن رات اپنے کام میں لگ گئے۔
دہلی واقع ہیڈکوارٹر میں وار روم قائم کیا گیا، ہر ریاست میں نوڈل افسر کی تقرری کی گئی اور زبردست مینجمنٹ کی مثال پیش کرتے ہوئے ملک بھر میں پھیلے ایف سی آئی کے 2000 سے زیادہ گوداموں سے اناج کی ڈھلائی شروع ہو گئی۔ریل، سڑک، سمندری اور ہوائی راستے تک سے اناج ملک کے کونے کونے، دوردراز اورنارسا علاقوں تک پہنچنے لگا۔ ایف سی آئی کی اس غیرمعمولی مہم کی وجہ سے ہی ایک ایک آدمی تک وقت پر اناج کی فراہمی یقینی ہو پائی اور ملک کے کسی کونے میں کبھی اناج کی کوئی کمی نہیں ہونے دی گئی۔
پوری دنیا میں اتنی بڑی قواعد اتنی کامیابی سے آج تک کبھی نہیں ہوئی۔ یہ یقینی طور پر ہمارے لیے فخرکی بات ہے۔