کووڈ19وبا کے دوران میڈیا کو لےکر جاری رائٹس اینڈ رسک انالسس گروپ کی رپورٹ کے مطابق 25 مارچ سے 31 مئی، 2020 کے بیچ مختلف صحافیوں کے خلاف 22 ایف آئی آر درج کی گئیں، جبکہ کم سے کم 10 کو گرفتار کیا گیا۔ اس مدت میں میڈیااہلکاروں پر سب سے زیادہ 11 حملے اتر پردیش میں ہوئے۔
نئی دہلی: گزشتہ 25 مارچ سے 31 مئی، 2020 کے بیچ ملک گیر لاک ڈاؤن کے دوران کورونا وائرس پر خبر کرنے یا اظہار رائے کی آزادی کے استعمال پر ملک بھر کے کم سے کم 55 صحافیوں کو گرفتاری، مقدمے، سمن یا وجہ بتاؤ نوٹس، جسمانی استحصال، مبینہ طور پر ملکیت کے نقصان یا دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑا۔
یہ جانکاری دہلی کے ‘رائٹس اینڈ رسک انالسس گروپ’ کی اس ہفتے جاری‘
انڈیا: میڈیا کریک ڈاؤن ڈیورنگ کووڈ 19 لاک ڈاؤن’ نام کی رپورٹ میں سامنے آئی ہے۔گروپ نے ایک پریس نوٹ میں کہا کہ اس مدت میں میڈیااہلکاروں پر سب سے زیادہ11 حملے اتر پردیش میں ہوئے۔اس کے بعد میڈیا اہلکاروں پر جموں وکشمیر (چھ)، ہماچل پردیش (پانچ)، تمل ناڈو،مغربی بنگال، اڑیسہ اور مہاراشٹر میں چار چار حملے ہوئے۔
وہیں، پنجاب، دہلی، مدھیہ پردیش اور کیرل سے دودو معاملے اور آسام، اروناچل پردیش، بہار، گجرات، چھتیس گڑھ، ناگالینڈ، کرناٹک، انڈمان اور نکوبار اور تلنگانہ سے ایک ایک معاملے سامنے آئے ہیں۔بتا دیں کہ،
ہماچل پردیش میں مقامی اخبار ‘دویہ ہماچل’ کے 38 سالہ رپورٹر اوم شرما اور ‘نیوز 18 ہماچل’ کے 34 سالہ رپورٹر جگت بینس پر تین تین ایف آئی آر درج کرائی گئی ہیں۔
وہیں، منڈی کے 44 سالہ فری لانس صحافی اشونی سینی کے خلاف لاک ڈاؤن کے دوران پانچ معاملے درج کیے گئے ہیں۔ منڈی میں پنجاب کیسری کے صحافی سوم دیو شرما کے خلاف بھی ایک معاملہ درج کیا گیا ہے۔ایک نیشنل نیوز چینل سے جڑے ڈلہوجی کےصحافی وشال آنند کے خلاف دو ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ ان پر دوسری ایف آئی آر، پہلی ایف آئی آر درج کیے جانے پر انتظامیہ کی تنقید کرنے کی وجہ سے درج کی گئی۔
ان سبھی صحافیوں پر لگ بھگ ایک جیسی دفعات میں معاملہ درج کیا گیا ہے۔ ان میں جھوٹی وارننگ کے لیے سزا کا اہتمام کرنے والے ڈیزاسٹر مینجمنٹ ایکٹ، 2005 کے آرٹیکل 54، آئی پی سی کی دفعات 182(جھوٹی جانکاری)، 188(ایک سرکاری افسر کی حکم عدولی)، 269(ایک خطرناک بیماری کا انفیکشن پھیلانے کے لیے لاپرواہی سے کام کرنے کا امکان)، 270 (کسی جان لیوا بیماری کو پھیلانے کے لیے کیا گیا مہلک یا پھر نقصاندہ کام)اور 336(زندگی یا دوسرے کی جان کو خطرے میں ڈالنا)، آئی ٹی ایکٹ ، 2000 کی دفعہ 66 سمیت کئی دوسری دفعات شامل ہیں۔
گروپ کے ڈائریکٹرسہاس چکمہ نے کہا، ‘بھلے ہی 31 مارچ کو سپریم کورٹ نے وبا کے بارے میں آزادانہ بحث میں دخل دینے سے انکار کر دیا، لیکن اپنی جان کو خطرے میں ڈال کر پیغام پہنچانے کا کام کرنے والے اور مختلف بد انتظامیوں، خامیوں، بدعنوانیوں، مہاجر مزدوروں یا بدحال شہریوں کی بھوک، اور اسپتالوں میں ڈاکٹروں کے لیے مطلوبہ تعدادمیں پی پی ای کی کمی کی خبر کرنے والے صحافیوں کوفوراً ہی سرکار کی طرف سےہراسانی کا سامنا کرنا پڑا۔’
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس مدت کے دوران مختلف صحافیوں کے خلاف 22 ایف آئی آر درج کی گئیں، جبکہ کم سے کم 10 کو گرفتار کیا گیا تھا۔وہیں، اس مدت کے دوران اپنے فرائض کو نبھانے والے چار دوسرے صحافیوں کو سپریم کورٹ نے گرفتاری سے راحت دی تھی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس دوران سات صحافیوں کو سمن یا وجہ بتاؤ نوٹس بھیجے گئے۔ کم سے کم نو صحافیوں کی پٹائی کی گئی، جن میں دو پولیس حراست میں تھے۔اڑیسہ میں ایک گاؤں کے سرپنچ کے ذریعے ایک صحافی کو قیدی بنا لیا گیا تھا جبکہ ایک دوسری رپورٹ (کووڈ 19 سے متعلق)کی وجہ سے دوسرے صحافی کے گھر کو مبینہ طور پر منہدم کر دیا گیا تھا، جس میں تلنگانہ میں ایک حکمراں پارٹی کے ایم ایل اے شامل تھے۔
وہیں، لاک ڈاؤن کے دوران اروناچل پردیش میں جنگلی جانوروں کے شکار میں اضافہ سے متعلق ایک خبر شائع کرنے پر ایک خاتون صحافی کو دھمکی دی گئی تھی۔گروپ نے کہا ہے کہ پریس کونسل آف انڈیا نے ایسے چار معاملوں کو از خود نوٹس میں لیا تھا۔بتا دیں کہ ورلڈ پریس انڈیکس میں ہندوستان لگاتار نیچے جا رہا ہے۔ پیرس واقع رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرس کی جانب سے جاری سال 2020 کے انڈیکس میں ہندوستان پڑوسی ممالک نیپال، بھوٹان اور سری لنکا سے نیچے 142ویں مقام پر ہے۔
وہیں، ریٹنگ کو بہتر کرنے کی کوشش کے تحت مرکزی وزیر پرکاش جاویڈکر نے حال ہی میں ایک انڈیکس مانیٹرنگ سیل کی تشکیل کا اعلان کیا، جووزارت اور ریاستی حکومتوں کو 2021 کے انڈیکس میں ہندوستان کی صورت حال بہتر کرنے کے لیے صلاح دےگی۔