کو رونابحران کے دوران فرقہ واریت کی نئی مثال وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے ہوم ڈسٹرکٹ نالندہ کے بہار شریف میں دیکھنے کو ملا ہے، جہاں مسلمانوں کا الزام ہے کہ ہندو دکاندار ان کو سامان نہیں درہے اور ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔
عالمی وبا کو رونا کے مشکل وقت میں بھی ملک میں فرقہ واریت کا وائرس تیزی سے پھیل رہا ہے اور ہندو مسلمان کے بیچ کی کھائی کو اور گہرا کر رہا ہے۔ملک کے کئی حصوں میں مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کے واقعات کے سامنے آنے کے بعد اس بار فرقہ واریت کے اس وائرس کی دستک بہار کے ایک حصہ سے سنائی دے رہی ہے۔
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار کے اپنے ضلع نالندہ میں بہار شریف کے مسلمانوں کاالزام ہے کہ انہیں یہ کہہ کر الگ تھلگ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ وہ کو رونا پھیلا رہے ہیں۔ان کے مطابق، سڑکوں پر آتے جاتے ان پر پھبتیاں کسی جا رہی ہیں اور دکاندار اور سبزی والے انہیں ضروری سامان دینے سے منع کر رہے ہیں۔
گزشتہ ہفتے نالندہ ریاست کا نیا ہاٹ اسپاٹ بن کر ابھرا تھا۔ سوموار یعنی 27 اپریل تک یہاں کو رونا پازیٹو مریضوں کی تعداد 34 ہو گئی ہے۔محکمہ صحت کے اعدادوشمارکے مطابق ریاست میں کو روناانفیکشن کی کل 274 ہو چکی ہے۔گزشتہ سوموار کو ضلع میں کو رونا کے ایک ساتھ 17 پازیٹو معاملے سامنے آئے تھے۔
ان سبھی 34 مریضوں میں ایک ڈاکٹر بھی شامل ہیں، جو کو رونا مریض کے رابطہ میں آنے سے متاثر ہو گئے تھے۔بہار شریف کے مسلم علاقے شیخانہ کے رہنے والے محمد شمی کہتے ہیں، ‘ماحول اتنا بگڑ چکا ہے کہ جیسے مسلمانوں کو بنا ٹرائل کے دہشت گرد قرار دے دیا جاتا ہے، ویسے ہی اب ہمیں کو رونا متاثر بتا دیا جاتا ہے۔’
ان کے محلے میں چار کو رونا متاثرین کے ملنے کے بعد کو 22 اپریل کو مقامی انتظامیہ نے اس کو سیل کر دیا تھا اور یہاں ضرورت کی سامانوں کے دکان کھولنے پر بھی پابندی لگا دی گئی۔انتظامیہ کا کہنا ہے کہ سیل علاقوں میں ضرورت کے سامان انتظامیہ کی طرف سے دستیاب کرائے جا رہے ہیں۔
لیکن ان علاقوں میں انتظامیہ کی طرف سے مقرر کیے گئےرضاکار ہی انتظامیہ کے انتظام کو صرف دکھاوا بتا رہے ہیں۔سیل علاقے میں تعینات ایک رضاکار نے نام نہ چھاپنے کی شرط پر کہا، ‘انتظامیہ نے ایک بینر لگوا دیا اور اس میں وہاٹس ایپ نمبر دے دیا کہ جن کو بھی سامان کی ضرورت ہو وہ میسیج کریں۔ دیکھنے میں اچھا تو ضرور لگتا ہے کہ مقامی انتظامیہ اتنا ایکٹو ہے لیکن یہ صرف دکھاوا ہے، زمینی حقیقت کچھ اور ہے۔ جب ہم رضاکار طے شدہ مقام پر ضرورت کے سامان لانے جاتے ہیں تو وہاں کچھ نہیں ہوتا۔ نہ دودھ اور نہ سبزی۔’
انتظامیہ کے انتظام ناکافی ہیں، ایسے میں محلے کے لوگوں کے لیے یہ دوہری مار کی طرح ہے۔ اس بیچ علاقے کے ہندو مسلمانوں کے بیچ ٹکراؤ کی حالات پیدا ہو گئی ہے۔اصل میں شیخانہ محلہ سے سٹے محلے غیر مسلموں کے ہیں۔ ایسے میں محلے کی سرحدوں پر ماحول کشیدہ ہیں۔
مقامی باشندہ محمد شہزاد بتاتے ہیں، ‘ماحول میں تناؤ اتنا بڑھ گیا ہے کہ گزشتہ منگل کو ہندو اور مسلمان بھائیوں کے بیچ جھڑپ جیسی حالت پیدا ہو گئی تھی۔’حالانکہ انتظامیہ کو اس بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔شہزاد کا کہنا ہے، ‘جب بھی ہماری ماں بہنیں بازار جاتی ہیں تو انہیں ‘کو رونا’ کہہ کر چڑھایا جاتا ہے۔’
وہ بتاتے ہیں کہ ان کے محلے کا راستہ ہندوؤں کے محلے سے ہوکر گزرتا ہے اور اسی راستے میں بازار بھی ہے۔ جب بھی ان کے علاقے کے لوگ ہندوؤں کی دکانوں سے سامان کی لینے جاتے ہیں، تو انہیں سامان دینے سے انکار کردیا جاتا ہے۔
محلے کی ایک مسلم خاتون نے نام نہ بتانے کی شرط پر بتایا، ‘دو دن پہلے میں اپنی بیٹی کے ساتھ ضروری سامان لانے کے لیے اس دکان میں گئی تھی، جہاں میں اکثر جایا کرتی تھی۔ میں برقع میں تھی۔ میں نے دکاندار سے آٹا کے لیے پوچھا تو انہوں نے یہ کہتے ہوئے منع کر دیا کہ اسٹاک ختم ہو گیا ہے۔ جیسے ہی میں نے چینی کی مانگ کی تو دکاندار نے اس کے لیے بھی جھٹ سے منع کر دیا۔ ان کے سلوک سے لگا کہ وہ ہمیں سامان دینا نہیں چاہتے ہیں۔’
بہار شریف کے ہر دس میں سے ایک مسلمان فیملی کا کوئی نہ کوئی خلیجی ممالک میں نوکری کرتا ہے۔ بہار میں مواقع اور نوکریوں کی کمی کی وجہ سے وہ باہر جانے کو مجبور ہیں۔ضلع کے ایک مریض کو چھوڑ دیا جائے تو باقی سبھی دبئی سے لوٹے شخص کے انفیکشن چین کا حصہ ہیں، حالانکہ اس شخص نے بھی لمبے علاج کے بعد کو روناانفیکشن کو ہرا دیا ہے۔
وہیں دوسری طرف سماجی طور پرفعال منتوش کمار مسلمانوں کے ان الزامات کو پوری طرح صحیح نہیں مانتے ہیں۔آر ایس ایس سے جڑے منتوش کہتے ہیں، ‘یہ بات صحیح ہے کہ مسلمانوں کو کچھ پریشانیاں ہو رہی ہیں کیونکہ ضلع کے اکثر کو رونا مریض مسلمان ہیں، ایسے میں لوگوں میں یہ تصور بن گیا ہے کہ یہ کو رونا پھیلا رہے ہیں۔ لیکن ان کاسماجی بائیکاٹ نہیں کیا جا رہا ہے۔’
منتوش کہتے ہیں کہ سبھی کو رونا مریض ایک ہی انفیکشن چین کا حصہ ہیں۔ اگر ان سے ہندو بھائی متاثر ہوتے تو ا ن کے ان الزامات کوصحیح کہا جا سکتا تھا۔
دکاندار قبول کرتے ہیں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی بات
منتوش کی بات کے الٹ ہندو دکانداروں نے بھی اس بات کو قبو ل کیا کہ ان کے پاس سامان ہوتے ہوئے بھی وہ مسلمانوں کو اس کے لیے منع کر رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ مسلمانوں سے انہیں انفیکشن کا خطرہ ہے۔حالانکہ ایک مقامی دکاندار نے یہ بھی بتایا کہ وہ مسلمانوں کو سامان دینا چاہتے ہیں پر کچھ مقامی غنڈت انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہیں۔
دکاندار نے بتایا، ‘ہندو ہی نہیں، مسلمان بھی ہمارے کسٹمر رہے ہیں۔ ہم انہیں سامان دینا بھی چاہتے ہیں تو ہمیں دینے نہیں دیا جاتا۔ آس پاس کے لوگ ہم پر یہ دباؤ بناتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر ہم نے مسلمانوں کو سامان دیا تو ہمیں دکان کھولنے نہیں دیا جائےگا۔ آپ ہی بتائیے، ہم کیا کریں؟’
محلے سے نکلنے والے مین بازار کے چوراہے پر صبح پانچ بجے سے سبزی والوں کے ٹھیلے لگتے ہیں۔ سبزی بیچنے والوں میں ایک خاتون نے بھی کچھ ایسے ہی دباؤ کی بات قبول کی اور کہا، ‘آس پاس کے دوسرے سبزی والے ہمیں مسلمانوں کو سامان دینے سے مان کرتے ہیں۔ ہم کیا کر سکتے ہیں، ہمیں رہنا تو اسی منڈی میں ہے نہ۔’
خاتون نے یہ بھی بتایا کہ جب بھیڑ زیادہ ہوتی ہے تو وہ مسلمانوں کو سبزی دے دیتی ہیں کیونکہ وہ مانتی ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں۔راجیش کرانہ دکان چلاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ان کے اکثر گراہک ہندو ہیں لیکن اگر کوئی مسلمان ان کی دکان پر آئےگا تو وہ سامان دینے سے منع کر دیں گے۔
وہ کہتے ہیں، ‘مسلمان خود ہی نفرت کی وجہ بن رہے ہیں۔ آپ دیکھیے کہ مسلم علاقوں میں میڈیکل پیشہ وروں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ انہیں یہ لگتا ہے کہ سرکار این آرسی کے لیے ان سے پوچھ تاچھ کر رہی ہے۔ اس طرح کی سوچ رہے گی، تو کھلے طور پر لوگ ان کابائیکاٹ نہ بھی کریں، تو اندر ہی اندر نفرت ضرور کریں گے۔”
شہر کی ایک گلی میں سبزی کا ٹھیلہ لےکر گزر رہے جوگندر سے جب پوچھا کہ کیا آپ اپنی سبزیاں مسلمانوں کو بیچتے ہیں، تو وہ کہتے ہیں، ‘سبزی بکے یا نہ بکے، لیکن خطرہ مول نہیں لینا ہے۔’ جلدی میں دکھ رہے جوگندر اتنا بول کر چلے جاتے ہیں۔
کیوں ہیں مسلمان نشانے پر
بہار شریف کے باشندہ کنہیا کمار کو رونامتاثرہ مسلم علاقے میں رہتے ہیں۔ پیشہ سے بینکر کنہیا کہتے ہیں کہ مسلمانوں کے لیے عام لوگوں کی نفرت اس لیے بڑھ رہی ہے کیونکہ وہ اس انفیکشن کو لے کر سنجیدہ نہیں دکھتے ہیں۔ان کا کہنا ہے، ‘عام بازار کی کہانی چھوڑیے، ہمارے بینک میں بھی جب کوئی مسلمان گراہک آتا ہے تو ہمارے سبھی ساتھی محتاط ہو جاتے ہیں۔ ایک ڈر کا ماحول پیدا ہو جاتا ہے۔ چوں کہ ہم بینکر ہیں اور سرکار کے ضابطوں سے بندھے ہیں، ہم انہیں منع نہیں کر سکتے۔ اس لیے ہم کوشش کرتے ہیں کہ جلدی سے ان کا کام نپٹا دیا جائے تاکہ وہ چلا جائے۔ ان کے جانے کے بعد ہم اپنے برانچ کو سینٹائزکرتے ہیں۔’
کنہیا کمار بتاتے ہیں کہ بہار شریف میں اکا دکا مریض کو چھوڑکر سبھی مسلمان ہیں اور ایسے میں یہ ڈر لازمی ہے۔ آخر سوال زندگی اور موت کا ہے۔
ایک دوسرے مقامی راجیش گپتا کہتے ہیں، ‘ہمیں چین اور امریکہ سے مطلب نہیں ہے لیکن یہاں کون پھیلا رہا ہے یہ بیماری؟ جیسے آم کی ٹوکری سے سڑے ہوئے آم کو الگ کر دیا جاتا ہے، اسی طرزپر اکثر لوگ ان سے دور رہنا چاہتے ہیں۔’سینئر صحافی سجیت ورما بھی بتاتے ہیں کہ بہار شریف کے کئی علاقوں میں میڈیکل پیشہ وروں کا بائیکاٹ یہ سوچ کر کیا جا رہا ہے کہ انہیں یہ لگتا ہے کہ سرکار این آرسی کے لیے ان کا ڈیٹا اکٹھا کر رہی ہے۔
انتظامیہ کا انکار
عوام کی اتنی شکایتوں کے باوجود انتظامیہ ان سے اب تک انجان ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ انہیں اس طرح کی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔ڈی ایم یوگیندر سنگھ کہتے ہیں،‘اس طرح کی کوئی شکایت نہیں ملی ہے۔ اگر شکایت ملتی ہے تو کڑی کارروائی کی جائےگی۔ کچھ لوگوں پر افواہ پھیلانے کے الزام میں معاملے بھی درج کئے گئے ہیں۔’
کیا میڈیا پھیلا رہا ہے نفرت؟
سال 2011 کی مردم شماری رپورٹ کے مطابق بہار شریف کی آبادی تقریباً تین لاکھ ہے، جن میں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 33 فیصدی ہے۔ملی جلی آبادی والا یہ علاقہ صوفی سنتوں کی دھرتی رہا ہے۔ تاریخ میں یہاں کئی صوفی سنت آئے اور امن و اتحاد کا پیغام دے گئے۔ شہر میں آج بھی کئی نشانیاں اس بات کی تصدیق کرتی ہیں۔
لیکن ان کا امن کا پیغام اب اپنا مطلب کھو چکا ہے۔ اس طرح سے نفرت بڑھنے کی کیا وجہ ہے؟ سجیت جواب دیتے ہیں، ‘اکثر اس طرح کی نفرت کے پیچھے سیاست سے جڑے لوگوں کا ہاتھ ہوتا ہے، لیکن اس بار ایسا نہیں ہے۔وہ کہتے ہیں، ‘اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ بہار شریف میں دونوں سماج کے بیچ دراریں پیدا ہو رہی ہیں۔ کو رونا کے اکثر معاملے مسلمانوں سے جڑے ہیں۔ ایسے میں لوگوں میں یہ تصور بن گیا ہے کہ مسلمان ہی کو رونا پھیلا رہے ہیں۔’
سجیت ایک دوسری وجہ کو بھی گناتے ہیں،‘یہ کہیں نہ کہیں فیک نیوز اور ٹی وی چینلوں کے ذریعےپھیلائے جا رہے پروپیگنڈہ کا بھی نتیجہ ہے۔’محمد شمی بھی ہندو مسلمان کے بیچ درار کی وجہ میڈیا اور فیک نیوز کو مانتے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ شروعات میں پورے ملک میں تبلیغی جماعت اور نظام الدین مرکز کے نام پر مسلمانوں کو جو بدنام کرنا شروع کیا گیا، اس سے بہار شریف کے مسلمان بھی اچھوتے نہیں رہے۔
شمی آگے کہتے ہیں، ‘میڈیا والوں نے مسلمانوں کے محلوں کو بدنام کیا ہے۔ ہمیں مرکز سے جوڑا جاتا ہے۔’ ان کے ان الزامات پر دوسرےلوگوں نے بھی اتفاق کیا۔ایک دوسرے نے کہا، ‘آج سے کچھ دس بارہ دن پہلے مسلمانوں کے محلے سے مقامی مرکز سے جڑے پانچ لوگوں کو شک کی بنیاد پر انتظامیہ اٹھا کر لے گئی تھی۔ تب ٹی وی چینلوں میں یہ دکھایا گیا کہ بہار شریف ریاست کا ‘نظام الدین’ بن گیا ہے۔ علاقائی ٹی وی چینل انہیں متاثربتا رہے تھے، جبکہ انہیں صرف جانچ کے لیے لے جایا گیا تھا۔ بعد میں جانچ میں سبھی کے سیمپل نگیٹو پائے گئے۔’
شمی کہتے ہیں، ‘فیک نیوز تو پھیلا دیا گیا لیکن بعد میں جو سچائی سامنے آئی اسے دکھایا نہیں گیا، جس نے ہمارے ہندو بھائیوں میں اندر شک اورشبہ پیدا کیا۔ موبائل پر بھی فیک نیوز والا ویڈیو خوب سرکلیٹ کیا گیا۔نفرت بھرے ماحول کے بارے میں سجیت رپورٹنگ کے دوران کا اپنا ایک تجربہ بیان کرتے ہیں، ‘ایک ہندو محلے میں کچھ میڈیکل پیشہ ور جانچ کے لیے ڈور ٹو ڈور جا رہے تھے۔ ایک ہندو نوجوان نے ان کو چاقو لےکر کھدیڑ دیا اور کہا کہ جاؤ پہلے مسلمانوں کے محلے میں جانچ کرو۔’
بہار شریف میں دکانوں پر لگے بھگوا جھنڈے۔ (فوٹو: Special Arrangement)
کیا بہار شریف میں ہوا تھا تبلیغی جماعت کا اجتماع؟
مارچ کی 13 اور 14 تاریخ کو شہر کے ایک مقامی مرکز میں تبلیغی جماعت سے جڑے لوگوں کا اجتماع ہوا تھا۔ ہر تین مہینے میں ریاست کے مختلف اضلاع میں اس کا اجتماع ہوتا ہے۔اس سے آٹھ دن بعد 22 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی کے کے ذریعے جنتا کرفیو کی اپیل کی گئی تھہ۔ اس دن کو رونا سے ریاست میں ہوئی پہلی موت کے بعد بہار سرکار نےآٹھ دنوں کے لیے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا۔
بہار شریف کے جامع مسجد کے سکریٹری میر ارشد حسین کہتے ہیں،‘دہلی کے نظام الدین کا معاملہ آنے کے بعد مقامی اخبار ہمارے اجتماع کو دہلی کے مرکز سے جوڑ کر دیکھنے لگے اور اس بارے میں خبر چھاپنے لگے۔’وہ کہتے ہیں، ‘بہار شریف کے مرکز میں ہوئے اجتماع کا دہلی کے اجتماع سے کوئی لینا دینا نہیں تھا۔ یہ ریاستی اجتماع تھا۔ محض نام ایک طرح کا ہونے کی وجہ سےمقامی اخباروں میں ہمارے بارے میں غلط خبردی گئی اور سنسنی پھیلائی گئی۔’
مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کا اپنا ذاتی تجربہ بیان کرتے ہوئے حسین کہتے ہیں کہ ایسا ہو رہا ہے لیکن اس میں سبھی ہندو بھائی شامل نہیں ہیں۔وہ بتاتے ہیں، ‘ہمارے علاقے میں کچھ دن پہلے کچھ دکانوں میں بھگوا جھنڈا ٹانگ دیا گیا اور یہ پیغام دینے کی کوشش کی گئی تھی کہ ان دکانوں سے مسلمانوں کو سامان نہیں ملےگا۔ لیکن کچھ ہندو بھائی ایسے بھی ہیں جن کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا ہے، وہ مدد کے لیے تیار رہتے ہیں۔’
حسین آگے کہتے ہیں، ‘جب تک میڈیا اپنی ذہنیت نہیں بدلےگا تب تک ایسے حالات پنپتے رہیں گے۔ آپ دیکھیے کیسے صبح سے رات تک ٹی وی پر ہندو مسلم ہوتا رہتا ہے۔ آخر دن بھر ایک ہی چیز سنتے دیکھتے رہیں گے تو نتیجہ اور کیا ہو سکتا ہے؟’ضلع کے اساتذہ اور سماجی کارکن وکاس کمار میگھل کہتے ہیں کہ وقت کے ساتھ ہم کو رونا پر جیت تو پا لیں گے، پر اس دوران جو نفرت کے بیج بوئے گئے ہیں، اس کا اثرمستقبل میں دیکھنے کو مل سکتا ہے۔
وکاس کہتے ہیں،‘انتظامیہ اس سمت میں کام کر رہی ہے اور افواہ پھیلانے والوں پر کارروائی کی جا رہی ہے، لیکن عام لوگوں کو شہر اور ضلع میں امن بنائے رکھنے کے لیے کمیونٹی کو مل کر کام کرنا ہوگا۔’حسین بھی مانتے ہیں کہ کو رونا کا بحران ختم ہونے کے بعد دونوں کمیونٹی کے لوگوں کو سڑکوں پر آنا ہوگا اور امن کا پیغام دینا ہوگا۔
(مضمون نگار آزاد صحافی ہیں۔)