گجرات سرکار کی جانب سے جس کمپنی کے ‘دس دنوں’ میں کووڈ مریضوں کے لیے وینٹی لیٹرس بنانے کا دعویٰ کیا گیا تھا، جنہیں ریاست کے ڈاکٹروں نے معیارات پر کھرا نہ اترنے کی بات کہی تھی، اس کمپنی کے پرموٹرس اسی کاروباری فیملی سے وابستہ ہیں، جنہوں نے سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کا نام لکھا سوٹ تحفے میں دیا تھا۔
دھمن 1 کو لانچ کرتے وزیر اعلیٰ وجئے روپانی اورنائب وزیر اعلیٰ نتن پٹیل۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: کو رونا انفیکشن سے نپٹنے کے لیے مرکز کی مودی حکومت نے راجکوٹ کی جس فرم سے 5000 وینٹی لیٹر خریدنے کا آرڈر دیا ہے، اس کی جانب سے سپلائی کی گئی سانس لینےسے متعلق مشینوں کو احمدآباد کے سب سے بڑے کووڈ 19 ہاسپٹل کے ڈاکٹروں نے معیارات کے مطابق نہیں پایا ہے۔
اس فرم کے موجودہ اورسابق پرموٹرس کے سینئربی جےپی رہنماؤں سے نزدیکی رشتے ہیں اور ان میں سے کم سے کم ایک کاروباری کی فیملی وزیر اعظم نریندر مودی کو تحفے میں ملے ان کے نام کے مونوگرام والا مہنگے سوٹ سے کو لےکر ہوئے تنازعہ سے جڑی ہوئی ہے۔
گجرات سرکار کی چیف ہیلتھ سکریٹری
جینتی روی کے مطابق، 5000 وینٹی لیٹرس کا یہ آرڈر سرکار کے ذریعےچلائے جا رہے ایچ ایل ایل لائف کیئر کے ذریعے دیا گیا ہے۔
ایساممکن ہے کہ اس کے لیے رقم
پی ایم کیئرس فنڈ سے دی گئی ہو، جس کے بارے میں اس مہینے کی شروعات میں بتایا گیا تھا کہ فنڈ کے دو ہزار کروڑ روپیوں کا استعمال 50000 میڈ ان انڈیا وینٹی لیٹر خریدنے کے لیے کیا جائےگا۔گزشتہ کچھ ہفتوں سے احمدآباد سول ہاسپٹل میں سو میڈ ان انڈیا وینٹی لیٹرس سپلائی کرنے کو لےکر جیوتی سی این سی آٹومیشن لمٹیڈ چرچہ میں ہے۔ اس کے چیف اور مینجنگ ڈائریکٹر پراکرم سنگھ جڈیجہ کو وزیر اعلیٰ وجئے روپانی کا قریبی مانا جاتا ہے۔
حالانکہ کچھ وقت بعد اس کمپنی کے ذریعے بھیجے گئے وینٹی لیٹر دھمن 1 کو اس ہاسپٹل کے ڈاکٹروں نے کووڈ 19 کے مریضوں کے مطابق نہیں پایاتھا، لیکن گجرات سرکار نے اس کو ایک
عظیم کارنامہ کے طور پر مشتہر کیا۔واضح ہو کہ ملک میں کووڈ سے ہوئی سب سے زیادہ اموات کی فہرست میں
احمدآباد (600) دوسرے نمبر پر ہے۔
احمدآباد مرر کے ذریعے اس ہفتے کی شروعات میں ایک رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ گجرات کے سب سے بڑے ہاسپٹل کے ڈاکٹروں کے ذریعے جیوتی سی این سی کی جانب سے بھیجے گئے وینٹی لیٹرس کے ‘مطلوبہ نتیجہ’ نہ دینے کے بعد ریاستی حکومت سے مناسب وینٹی لیٹرس کی مانگ کی گئی تھی۔
اخبار نے یہ بھی بتایا ہے کہ اس بیچ کمپنی کی مشینوں کو لےکر خود وزیر اعلیٰ روپانی نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ سستی مشینیں محض دس دنوں میں تیار کی گئی ہیں۔ لیکن ان کے دعوے کی حمایت گجرات سرکار کے ڈاکٹروں کے ذریعے نہیں کی گئی۔سول ہاسپٹل کے انیستھیسیا محکمہ کے چیف ڈاکٹر شیلیش شاہ نے
خبررساں ایجنسی پی ٹی آئی کو بتایا تھا کہ اب تک دھمن 1 کا استعمال بےحد کم مواقع پر کیا گیا کیونکہ ہائی اینڈ وینٹی لیٹرس کافی تعداد میں تھے۔
انہوں نے آگے کہا تھا، ‘دھمن 1 ہائی اینڈ وینٹی لیٹرس کا اچھا بدل نہیں ہے، لیکن بے حد ایمرجنسی کے وقت اگر آپ کے پاس کچھ نہ ہو تو اس کو استعمال کیا جا سکتا ہے۔’ ڈاکٹر شاہ کا یہ بھی کہنا تھا کہ جس طرح سے کو رونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، ایسے میں ان پر منحصر رہنا سہی نہیں ہوگا۔
اب تک ریاست میں اس طرح کے 900 وینٹی لیٹر لگائے گئے ہیں، جن میں سے 230 صرف احمدآباد سول ہاسپٹل میں ہیں۔ اپوزیشن کانگریس نے اس کے بارے میں
عدالتی جانچ کروائے جانے کی مانگ بھی کی ہے۔ ان کا الزام ہے کہ سرکار نے جان بوجھ کر لوگوں کی جان خطرے میں ڈالی ہے۔
احمدآباد مرر کی رپورٹ کے مطابق ان وینٹی لیٹرس کوملک کے ڈرگ کنٹرولر جنرل سے لائسنس بھی نہیں ملا ہے اور انہیں وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کے ذریعے 5 اپریل کو لانچ کئے جانے سے پہلے ان کا صرف ایک شخص پر ہی تجربہ کیا گیا تھا۔اس بارے میں تنازعہ ہونے کے بعد گجرات سرکار نے دعویٰ کیا ہے کہ انہوں نے کبھی جیوتی سی این سی کی مشینوں کو وینٹی لیٹر نہیں بتایا، حالانکہ ان کے ذریعے جاری
پریس ریلیز میں اسے نو بار ‘وینٹی لیٹر’ کہتے ہوئے ‘نریندر مودی کے میک ان انڈیا پروجیکٹ’ کا ایک ‘اہم کارنامہ’ بتایا گیا ہے۔
ان مشینوں کو لےکر ہوئے پروپیگنڈہ کے بعد کچھ ریاستوں نے کووڈ 19 سے نپٹنے کی تیاری کے مد نظر اس کے آرڈر دیے تھے۔ لیکن 20 مئی کو پدوچیری کے وزیر اعلیٰ وی نارائن سامی نے ٹوئٹر پر لکھا کہ وہ ان کی ریاست کے لیے دیے گئے دھمن 1 مشین کے آرڈر کو رد کر رہے ہیں۔
کیا ہے ایچ ایل ایل ٹینڈر کی کہانی؟
گزشتہ 20 مئی کو ہی گجرات کی ہیلتھ سکریٹری جینتی روی نے ان مشینوں کی پیروی کرتے ہوئے کہا کہ گجرات سرکار کی لیبارٹری سے ان کی تصدیق کی گئی ہے اور یہ مرکز کی خصوصی اختیارات حاصل پروکیورمینٹ(خریداری )کمیٹی کے سبھی معیارات کو پورا کرتی ہیں۔
روی نے یہ بھی بتایا کہ مرکزی حکومت کی کمپنی ایچ ایل ایل لائف کیئر کے ذریعے جیوتی سی این سی کو پانچ ہزار مشینوں کا آرڈر دیا گیا ہے۔
یہ آرڈر ممکنہ طور پر اس ٹینڈرکا حصہ ہو سکتا ہے، جو مارچ 2020 کے آخر میں ایچ ایل ایل کے ذریعے شروع کیا گیا تھا اور اس کا مالی ذریعہ پی ایم کیئرس فنڈ ہو سکتا ہے، جس نے نے مئی 2020 میں 50 ہزار وینٹی لیٹر خریدنے کے لیے دو ہزار کروڑ روپے
الگ رکھنے کی بات کہی گئی تھی۔
دی وائر اس فنڈ سے متعلق کسی بھی شخص سے رابطہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔پی ایم او سے اس بارے میں سوال کرنے کی کوششوں کا کوئی نتیجہ نہیں نکلا۔
کمپنی کاسیاسی کنیکشن
احمدآباد کے سب سے بڑے ہاسپٹل کے ڈاکٹروں کے جیوتی سی این سی کی اس مشین کے بارے میں آئے منفی ردعمل کے باوجود گجرات سرکار کیوں ان متنازعہ مشینوں کے ساتھ کھڑی ہے؟اس کا جواب ہے اس کمپنی کے موجودہ اور سابق پرموٹرس کی وزیر اعلیٰ وجئے روپانی اور وزیر اعظم نریندر مودی سے نزدیکیاں، جن کا ثبوت عوامی طور پر بھی موجودہے۔
ایک
میڈیا رپورٹ کے مطابق روپانی کے ذریعے اس مشین کی کافی تعریف کرتے ہوئے بتایا گیا تھا کہ کیسے راجکوٹ کے ایک بزنس مین نے محض دس دنوں میں کامیابی کے ساتھ وینٹی لیٹرس بنا لیے ہیں۔احمدآباد مرر کے مطابق کمپنی کے چیف اور سی ایم ڈی پراکرم سنگھ جڈیجہ نے بتایا تھا کہ گجرات کے وزیر اعلیٰ انہیں روز کال کرکے حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے۔
جیوتی سی این سی کمپنی سے جڑے کاروباری فیملی میں سے ایک ورانی فیملی ہے، جس نے سال 2015 میں وزیر اعظم نریندر مودی کو انہی کا نام چھپا
مہنگا سوٹ تحفے میں دیا تھا۔یہ تحفہ دینے والے کاروباری
رمیش کمار بھیکھابھائی ورانی سورت کی ورانی فیملی کا حصہ ہیں، جس کی کئی سالوں سے جیوتی سی این سی میں اہم مالی حصے داری ہے۔ کمپنی کی 2003-04 کی فائلنگ کے مطابق بھیکھابھائی ورانی کے دونوں بیٹے انل اور کشور اس کمپنی کے بڑے شیئرہولڈر تھے۔
Jyoti CNC Shareholding (1) by
The Wire on Scribd
ورانی فیملی ملک کے ایک بڑے ہیرا بزنس گروپ کا مالک بھی ہے، جو دوسرے ممالک میں بھی کاروبار کرتا ہے۔دی وائر کے ذریعہ رابطہ کیے جانے پر جیوتی سی این سی کے سی ایم ڈی جڈیجہ نے پہلے بتایا کہ ان کی فرم میں ورانی فیملی کی 46.76 فیصدی کی حصہ داری ہے۔
جب یہ پوچھا گیا کہ کیا یہ وہی ورانی فیملی ہے جس نے وزیر اعظم مودی کو ان کے نام والا سوٹ تحفے میں دیا تھا، تب انہوں نے دعویٰ کیا کہ ورانی فیملی نے حصے داری واپس لے لی ہے اور وہ نئی فائلنگ بھیج دیں گے۔ پھر انہوں نے گاڑی چلانے کی بات کہہ کر فون کاٹ دیا۔
ای میل سے بھیجے گئے جواب میں انہوں نے کہا ہے کہ آج کی تاریخ میں ورانی فیملی کا کمپنی میں کوئی شیئر نہیں ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ فروری 2020 میں جیوتی سی این سی کی شیئرہولڈنگ سے متعلق فائلنگ میں ورانی فیملی کی حصے داری مالی سال 2019 کی ہے۔اس فیملی کی حصے داری ختم کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کا وہ کوئی صاف جواب نہیں دے سکے۔ انہوں نے کہا کہ وہ ڈرائیو کر رہے ہیں اور یہ ورانی فیملی کا ‘اندرونی معاملہ’ ہے۔
دی وائر کے ذریعے ورانی فیملی کے ایک ممبر سمت ورانی، جو ہانگ کانگ میں رہتے ہیں، ان سے رابطہ کیا گیا، جنہوں نے کہا کہ وہ ہندوستان میں نہیں رہتے اور اس بارے میں کوئی تبصرہ نہیں کرنا چاہتے۔جڈیجہ کو اس کے بعد کئے گئے کسی بھی کال کا جواب نہیں ملا، نہ ہی انہوں نے جن فائلنگ کو بھیجنے کی بات کہی تھی، وہ بھیجی گئیں۔ وہیں، کشور ورانی سےرابطہ کرنے پر کہا گیا کہ وہ مصروف ہیں۔