تمل ناڈو کے ایک گاؤں میں ریپ اور تشدد کے 30 سال پرانے کیس میں 215 افسران کو جیل

تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کےآدی واسی گاؤں واچتھی میں 20 جون 1992 کو محکمہ جنگلات اور پولیس کے اہلکاروں نے اسمگل کی گئی صندل کی لکڑی کی تلاش میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران گاؤں والوں پر تشدد کرنے کے علاوہ 18 خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔ مدراس ہائی کورٹ نے ملزمین کوقصوروار ٹھہرانے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کےآدی واسی گاؤں واچتھی میں 20 جون 1992 کو محکمہ جنگلات اور پولیس کے اہلکاروں نے اسمگل کی گئی  صندل کی لکڑی کی تلاش میں چھاپہ مارا تھا۔ اس دوران گاؤں والوں پر تشدد کرنے کے علاوہ 18 خواتین کے ساتھ  ریپ  کیا گیا تھا۔ مدراس ہائی کورٹ نے ملزمین کوقصوروار ٹھہرانے کے سیشن کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے۔

مدراس ہائی کورٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@Chennaiungalkaiyil)

مدراس ہائی کورٹ۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@Chennaiungalkaiyil)

نئی دہلی: ایک تاریخی فیصلے میں مدراس ہائی کورٹ نے گزشتہ جمعہ (29 ستمبر) کو تمام اپیلوں کو خارج کرنے کے سیشن کورٹ کے حکم کو برقرار رکھا۔ سیشن کورٹ نے تمل ناڈو کے دھرم پوری ضلع کے ایک آدی واسی گاؤں واچتھی میں 1992 میں صندل کی لکڑی کی اسمگلنگ کے سلسلے میں چھاپے کے دوران جنسی زیادتی سمیت تشدد کے دیگر واقعات کے لیے 215 لوگوں (تمام جنگل، پولیس اور محصولات کے محکموں کے افسران) کو قصوروار ٹھہرایا تھا۔

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، جسٹس پی ویلمورگن نے اپنے فیصلے میں کہا، ‘اس عدالت نے پایا ہے کہ تمام متاثرین اور استغاثہ کے گواہوں کے ثبوت ٹھوس اورمدلل ہیں، جو قابل اعتبار ہیں۔’انہوں نے کہا کہ استغاثہ نے اپنے شواہدکے ذریعےاپنا معاملہ ثابت کر دیاہے۔

قابل ذکر ہے کہ 20 جون 1992 کو حکام نے اسمگلنگ کی صندل کی لکڑی کی تلاش میں واچتھی گاؤں پر چھاپہ مارا تھا۔ چھاپے کے دوران املاک اور مویشیوں کی بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی اور 18 خواتین کے ساتھ ریپ کیا گیا تھا۔

سال 2011 میں دھرم پوری کی ایک سیشن عدالت نے اس معاملے میں محکمہ جنگلات کے 126 اہلکاروں کو مجرم قرار دیا تھا، جن میں چار انڈین فاریسٹ سروس کے افسران، 84 پولیس اہلکار اور ریونیو ڈپارٹمنٹ کے پانچ اہلکار شامل تھے۔ 269 ملزمان میں سے 54 مقدمے کی سماعت کے دوران انتقال کر گئے اور باقی 215 کو 1 سے 10 سال تک قید کی سزا سنائی گئی تھی۔

فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے ہائی کورٹ نے جمعہ کو سیشن عدالت کو ہدایت کی کہ وہ تمام ملزمان کو ان کی سزا کی باقی مدت پوری کرنے کے لیے فوری طور پر تحویل میں لے۔

جسٹس ویلمورگن نے تمل ناڈو حکومت کو یہ بھی حکم دیا کہ2016 میں ایک  ڈویژن بنچ کے حکم کے مطابق ہر ریپ سروائیور کو فوراً 10 لاکھ روپے کا معاوضہ جاری کیا جائے، اور جرم کے لیے قصوروار ٹھہرائے گئے  مردوں سے 50 فیصدرقم وصول کی جائے۔

عدالت نے حکومت کو ملزمین کو بچانے  کے لیے اس وقت کے ضلع کلکٹر، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی) اور ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر کے خلاف سخت کارروائی کرنے کی بھی ہدایت کی۔

جسٹس ویلمورگن نے اپنے فیصلے میں کہا،’گواہوں کے ثبوتوں سے یہ واضح ہے کہ ضلع کلکٹر، ڈسٹرکٹ فاریسٹ آفیسر اور ایس پی سمیت تمام عہدیداروں کو معلوم تھا کہ اصل مجرم کون تھے، لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور حقیقی مجرمین کے تحفظ کے لیےمعصوم گاؤں والوں کو تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ لہذا، یہ عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ استغاثہ نے ثابت کر دیا ہے کہ تمام اپیل کنندگان نے جرم کیا ہے۔’

جج نے ریاستی حکومت کو یہ بھی ہدایت دی کہ وہ 18 ریپ سروائیور یا ان کے خاندان کے افراد کو مناسب ملازمتیں فراہم کرے۔

انہوں نے حکومت کو ہدایت دی کہ وہ واقعہ کے بعد واچتھی گاؤں میں معاش اور معیار زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اٹھائے گئے فلاحی اقدامات کے بارے میں عدالت میں رپورٹ پیش کرے۔

واچتھی کیس پر ہنگامہ آرائی کے نتیجے میں 1995 میں سی بی آئی تحقیقات ہوئی، جس کے نتیجے میں 269 ملزمان کے خلاف چارج شیٹ دائر کی گئی، جن میں اس وقت کے پرنسپل چیف کنزرویٹر آف فاریسٹ ایم ہری کرشنن اور دیگر سینئر افسران بھی شامل تھے۔

Next Article

ایئر انڈیا حادثہ: پی ایم مودی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا، کئی ممالک کے سربراہان نے تعزیت کا اظہار کیا

جمعرات کو ایئر انڈیا کا طیارہ گر کر تباہ ہونے کے بعد پی ایم مودی نے جمعہ کو جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ دریں اثناء امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، پاکستان، بنگلہ دیش اور مالدیپ سمیت کئی ممالک کے سربراہان نے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

پی ایم مودی جائے حادثہ کا دورہ کرتے ہوئے۔تصویر بہ شکریہ: ایکس

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ (13 جون) کو گجرات کے احمد آباد میں جائے حادثہ کا دورہ کیا، جہاں ایک دن پہلے ایئر انڈیا کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس دوران وزیراعظم نے سول اسپتال کا بھی دورہ کیا، جہاں اس حادثے میں زخمی ہونے والوں  کا علاج کیا جا رہا ہے۔

معلوم ہو کہ جمعرات (12 جون) کو ایئر انڈیا کا  طیارہ لندن کے لیے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، جس کے بعد رات دیر گئے ایئر انڈیا نے طیارے میں سوار 242 میں سے 241 افراد کی موت کی تصدیق کی ۔ طیارے میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔

اس واقعے میں ایک ہندوستانی نژاد برطانوی مسافر بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ وہیں، گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجئے  روپانی  کی بھی موت ہوگئی۔

جمعرات کو واقعہ کے بعد احمد آباد پہنچے  وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا، ‘تقریباً تمام مسافروں کی لاشوں کو نکالنے کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ 1.25 لاکھ لیٹر ایندھن کی  وجہ سے درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ کسی کو بچانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔’

اس حادثے پر ملک اور بیرون ملک سے تعزیت کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ وہ حادثے کی تحقیقات میں ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ، بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس، مالدیپ کے صدر محمد معیزو سمیت کئی سربراہان مملکت نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

وہائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران طیارہ حادثے پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا،’ حادثہ خوفناک تھا، میں نے ان سے کہا ہے کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے، ہندوستان ایک بڑا اور مضبوط ملک ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ اسے سنبھال لیں گے۔’

ایئر انڈیا نے تصدیق کی ہے کہ 12 جون 2025 کو احمد آباد سے لندن گیٹوک جانے والی پرواز اے آئی171حادثے کا شکار ہوگئی۔ 12 سال پرانا بوئنگ 787-8 طیارہ احمد آباد سے دوپہر 1:38 پر روانہ ہوا تھا۔ اس میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔ طیارہ ٹیک آف کے کچھ دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ ہمیں یہ بتاتے ہوئے انتہائی دکھ ہورہا ہے کہ کل 242 میں سے 241 کی موت ہو چکی ہے۔ واحد زندہ بچ جانے والا ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ طیارے میں 169 ہندوستانی، 53 برطانوی، 7 پرتگالی اور 1 کینیڈین شہری سوار تھے۔ زندہ بچ جانے والے ہندوستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔

‘ایئر انڈیا مرنے والوں کے اہل خانہ کے تئیں اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ ہماری توجہ اس وقت متاثرہ افراد، ان کے اہل خانہ اور پیاروں کی مدد پر ہے۔ ضرورت مندوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے ایئر انڈیا کی ایک خصوصی ٹیم احمد آباد میں موجود ہے۔ ہم واقعے کی تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ ایئر انڈیا نے خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے۔ ہندوستان سے باہر سے کال کرنے والوں کے لیے یہ نمبر ہے: +91 8062779200۔’ ایئر انڈیا نے ایکس پر لکھا ہے ۔

ایئر انڈیا نے ایک اور پوسٹ میں کچھ اور معلومات دی ہیں۔ لکھا ہے ، ‘ایئر انڈیا نے احمد آباد، ممبئی، دہلی اور گیٹوک ہوائی اڈوں پر ‘فرینڈز اینڈ ریلیٹیو اسسٹنس سینٹرز’ قائم کیے ہیں، تاکہ فلائٹ اے آئی171 کے مسافروں کے اہل خانہ اور پیاروں کو مدد کی جاسکے۔ ان مراکز کے ذریعے رشتہ داروں کے احمد آباد جانے کے انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں۔’

حادثے کے بارے میں ایئر انڈیا کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے کہا، ‘انتہائی دکھ کے ساتھ میں تصدیق کرتا ہوں کہ احمد آباد سے لندن گیٹوک جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز نمبر 171 آج حادثے کا شکار ہو گئی ہے۔ ہماری تعزیت اس ہولناک حادثے سے متاثر ہونے والوں کے خاندانوں اور پیاروں کے ساتھ ہے۔ اس وقت ہماری ترجیح تمام متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کو امداد فراہم کرنا ہے۔ ہم موقع پر موجود ایمرجنسی ریسپانس ٹیموں کی مدد اور حادثے کے متاثرین کو ضروری مدد فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔’

معلوم ہو کہ ایئر انڈیا کا بی 787 ڈریم لائنر طیارہ جو احمد آباد سے لندن کے گیٹوک ہوائی اڈے کے لیے اڑان بھر رہا تھا وہ ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس طیارے کے مین پائلٹ سمت سبھروال تھے اور کو پائلٹ کلائیو کندر تھے۔ طیارے میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔

ایئر لائن کے مطابق، گر کر تباہ ہونے والے بوئنگ 787-8 طیارے میں 169 ہندوستانی، 53 برطانوی، ایک کینیڈین اور سات ڈچ شہری سوار تھے۔

Next Article

پنجاب کے صحافیوں پر خفیہ پولیس کی دستک، بے وجہ مانگی جا رہی نجی جانکاری

ان دنوں پنجاب پولیس آزاد صحافیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ ان سے تمام طرح کی ذاتی معلومات طلب کی جا رہی ہے۔ اس کے باعث صحافیوں میں غصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔

چنڈی گڑھ: پنجاب کے برنالہ ضلع کے کھڈّی گاؤں کے  صحافی گرپریت کو جب 6 جون کو اسٹیٹ انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے پولیس اسٹیشن بلایا تو انہیں ایک بارکو لگا کہ یہ کوئی عام سی کارروائی ہے۔ لیکن جب افسر نے گرپریت سے سوال پوچھنا شروع کیا تو انہیں تھوڑا شک ہوا۔

اس افسر نے گرپریت سے پوچھا؛


کہاں سےپڑھائی کی ہے؟

صحافت کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟ کس سال حاصل کی؟

زمین کتنی ہے، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات؟

کن کن ممالک کا دورہ کیا ہے؟ پاسپورٹ کی تفصیلات؟

کار کا رجسٹریشن نمبر کیا ہے؟

گھر والے کیا کرتے ہیں؟


افسر انتہائی ذاتی معلومات کے بارے میں تقریباً بیس سوال پوچھتا رہا اور گرپریت سہمے ہوئے جواب دیتے رہے۔ گرپریت گزشتہ 8 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور گزشتہ 4 سالوں سے وہ ‘پنجابی نیوز کارنر’ کے نام سے اپنا ایک آزاد ویب چینل چلا رہے ہیں۔

گرپریت نے دی وائر کو بتایا، ‘یہ پہلا موقع تھا جب اس طرح سے میری ذاتی معلومات مانگی جا رہی تھیں۔ آدھار کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر، خاندان میں کون کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ زمین کتنی ہے؟ ایسے کئی سوالات پوچھے گئے۔’


یہ صرف گرپریت ہی نہیں تھے، جن سے ریاستی انٹلی جنس محکمہ نے ذاتی تفصیلات طلب کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران، پنجاب کے صحافیوں کو پریشان  کرنے والاپیٹرن سامنے آیا ہے، جس میں پنجاب کے مالوا علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ دیگر صحافیوں — منندرجیت سنگھ (لوک آواز)، سکھویندر سنگھ سدھو (لوک ناد)، منٹو گروسریا، سندیپ لادھوکا (اے بی سی پنجاب)، اور جسگریوال (آر ایم بی ٹیلی ویژن) — کی ذاتی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔


مالوا کے بٹھنڈہ ضلع سے اپنا آزاد چینل چلا رہے صحافی منندر سدھو کے دفتر پر 5 جون کو انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے دستک دی  اور چائے پینے کے بعد منندر پر ایسے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

منندر سدھو۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

منندر نے دی وائر کو بتایا، ‘جب انٹلی جنس والےنے مجھ سے سوال پوچھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ سسٹم (ریاست) کے پاس پہلے سے ہی ہماری بنیادی معلومات موجود ہیں، پھر اس کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن سوال جب پڑھائی-لکھائی کے سال ، زمین، پاسپورٹ نمبر تک پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔ آج تک پنجاب میں کسی حکومت نے صحافیوں کی اتنی ذاتی معلومات اکٹھی نہیں کیں۔’

منندر سنگھ گزشتہ چار سالوں سے ‘لوک آواز ٹی وی’ کے نام سے اپنا ویب چینل چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی رپورٹنگ کے لیے مالوا خطے میں کافی مقبول ہیں اور اس سے قبل بھی ریاستی حکومت کے نشانے پر رہے ہیں۔

اس سال فروری میں بھی ان کے خلاف عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے بلکار سنگھ سدھو کے پی اے کی شکایت پر بٹھنڈہ ضلع کے رام پورہ سٹی پولیس اسٹیشن میں بی این ایس کی دفعہ (4)(کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کی گئی جعلسازی) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 66ڈی کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی، لیکن ریاستی سطح پر ہوئے صحافیوں کے احتجاج کے دباؤ میں ایف آئی آر رد کر دی گئی تھی۔

منندر اس واقعے کو صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سی آئی ڈی نے ان صحافیوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں جو نہ تو حکومت سے اشتہار لیتے ہیں اور نہ ہی ان  کے مطابق خبریں کرتے ہیں۔ یہ صرف ہم صحافیوں کو ڈرانے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم سب خاموش  بیٹھ جائیں ۔’

(مائیک تھامے ہوئے) منندر سنگھ سدھو، سکھویندر سدھو، منٹو گرسریا، (نیچے) جسگریوال، سندیپ لادھوکا، گرپریت سنگھ۔ (تصویر: ارینجمنٹ)

بھٹنڈہ سےہی ‘آر ایم بی ٹیلی ویژن’ نامی ویب چینل کے لیے صحافت کرنے والے جسگریوال سے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے  فون پر بات کی، جس میں ایسے ہی سوالات ان سے بھی پوچھے گئے۔ جسگریوال نے کہا، ‘مجھے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کی کال موصول ہونے سے پہلے ہی پتہ چل گیاتھا کہ وہ ہماری معلومات اکٹھا کرتے پھر رہے ہیں۔ دراصل،انہوں نے میرے گاؤں کے لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تھی۔’

افسر نے جس کو دفتر آنے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ پوچھنا ہے، فون پر ہی پوچھ لیجیے۔ اس کے بعد افسر نے ان سے بھی کئی ذاتی سوال  پوچھے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب آر ایم بی ٹیلی ویژن اور اس کے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہو۔ جس بتاتے ہیں، ‘اس سے پہلے بھی حکومت دو بار ہمارے ویب چینل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بند کر چکی ہے۔ ایک بار تو سال بھر کے لیے بند رکھا۔ 2022 کے انتخابات کے دوران بھی مجھے ان کی میڈیا پی آر والی میڈم کا فون آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کو کہا لیکن میں نے منع  کر دیا تھا۔

اسی طرح صحافی سندیپ اور سکھویندر کو بھی فون کرکے ان کی تمام ذاتی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ صحافی سندیپ نے بتایا، ‘انٹلی جنس افسر نے فون پر کہا کہ آپ فاضلکا میں میرے دفتر آئیں تاکہ ہم یہ جانچ سکیں کہ آپ اصلی صحافی ہیں یا نہیں۔ ہم فاضلکا ضلع کے صحافیوں سے تفتیش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں فاضلکا میں کام ہی نہیں کرتا۔ میں چندی گڑھ سے کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ذاتی تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں۔’

سندیپ اس کارروائی کو صحافیوں کو دھمکانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل بھی سندیپ کو پنجاب اسمبلی کی کوریج سے روک دیا گیا تھا اور ان کا پاس لے  لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے ہرمیت سنگھ پٹھان ماجرا نے بھی سندیپ کے ساتھ ایک بار بدسلوکی کی تھی۔

صحافی سکھویندر سدھو کو بھی پچھلے تین سالوں میں کئی بار ہراساں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘حکومت ہماری ذاتی معلومات اکٹھی کرکے کیا کرے گی۔ خیر، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ تقریباًسوا سال پہلے کی بات ہے۔ پٹیالہ پولیس نے مجھے حراست میں لیا تھا، اس وقت ایس ایس پی نے خود مجھ سے کہا کہ بھگونت مان کے بارے میں کچھ بھی رپورٹ نہ کرنے کا تحریری حلف نامہ دیں۔ میں نے صاف منع کر دیا تھا۔


 مالوا کے مکتسر ضلع کے ایک صحافی منٹو گرسریا کی ذاتی معلومات بھی انٹلی جنس اہلکاروں نے اس ہفتے اکٹھی کی ہیں۔


انہوں نے کہا، ‘مجھ سے براہ راست پوچھنے کے بجائے اہلکاروں نے میرے محلے سے میرے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں وہ کس کے نام ہے، میرے پاس کتنی زمین ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کے میرے بینک اکاؤنٹ کی بھی تلاشی لی ہے۔ ایسا ہم نے یوپی میں سنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن تحریکوں سے ابھرنے والی جماعت پنجاب میں یوپی ماڈل کو براہ راست کاپی پیسٹ کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا ہو سکتا ہے؟’

صحافیوں کی حمایت میں اپوزیشن

دریں اثناپنجاب کے ان صحافیوں کی ذاتی معلومات اکٹھا کرنے کے حوالے سے گزشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتوں نے صحافیوں کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔

شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر بادل نے اس معاملے کو نمایاں طور پر اٹھایا اور کہا، ‘حکمران پارٹی اور وزیر اعلیٰ کو پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں سے باز آنا چاہیے۔ پولیس کی جانب سے صحافیوں کے گھروں پر جانے اور ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کرنے کی خبریں انتہائی تشویشناک اور ناقابل قبول ہیں۔ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے چوتھے ستون پر ایک زبردست حملہ ہے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرانے کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پریس کو ہراساں کرنے سے سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سےصرف ان صحافیوں کے عزم کو تقویت ملے گی جو سچ کے لیے پرعزم ہیں۔’

اس معاملے پر دی وائر نے پنجاب میں عام آدمی پارٹی حکومت کے ترجمانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف ایک ترجمان بلتیج پنوں نے ہمارا فون اٹھایا۔ انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے اپنی نااہلی کا حوالہ دیا اور دوسرے شخص کا فون نمبر دیا۔ اس نمبر پر بار بار کال کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

(مندیپ صحافی ہیں اور ‘گاؤں سویرا’ نام کا ویب پورٹل چلاتے ہیں۔)

Next Article

راہل گاندھی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر محروم طبقات کے طلبہ کے ہاسٹل اور اسکالرشپ کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا

راہل گاندھی نے 10جون کو لکھے اپنے خط میں پی ایم مودی سے کہاہے کہ دلت، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے   ہاسٹلوں کی حالت ‘قابل رحم’ ہے۔ اس کے علاوہ ان طلبہ  کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ  کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/انڈین نیشنل کانگریس سے اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، جس میں دلت، درج فہرست قبائل (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے ہاسٹلوں کی’قابل رحم’حالت کی جانب  توجہ مبذول کروائی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، راہل گاندھی نے اپنے خط میں محروم طبقات کے طلبہ کو پوسٹ میٹرک اسکالرشپ فراہم کرنے میں تاخیر کے معاملے کو بھی اٹھایا ہے اور وزیر اعظم سے ان اہم مسائل پر توجہ دینے کی گزارش  کی ہے۔

دی ہندو کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ان طبقات کے 90 فیصد طلبہ کے تعلیمی مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ راہل گاندھی نے یہ خط 10 جون کو لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے، ‘پہلا مسئلہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے رہائشی ہاسٹل کی قابل رحم حالت ہے۔ بہار کے دربھنگہ میں امبیڈکر ہاسٹل کے حالیہ دورے کے دوران طلبہ نے شکایت کی کہ وہاں ایک کمرہ ہے، جس میں 6-7 طلبہ کو رہنے پر مجبور  ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بیت الخلاء گندے ہیں، پینے کا پانی صاف نہیں ہے، میس کی سہولت نہیں ہے اور لائبریری یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔’

راہل گاندھی نے مزید کہا، ‘دوسرا مسئلہ محروم طبقات کے طلبہ کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں تاخیر اور ناکامی ہے۔’

بہار کی مثال دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے دعویٰ کیا کہ وہاں کا اسکالرشپ پورٹل تین سال سے بند ہے اور 2021-22 میں کسی بھی طالبعلم کو اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔

گاندھی نے خط میں لکھا، ‘اس کے بعد بھی اسکالرشپ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے، جو مالی سال 23 میں 1.36 لاکھ سے مالی سال 24 میں 0.69 لاکھ تک پہنچ گئی۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ اسکالرشپ کی رقم ذلت آمیز حد تک کم ہے۔’

راہل گاندھی نے کہا ہے کہ یہ ‘مسئلہ’ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے پی ایم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے ہر ہاسٹل کا آڈٹ کرائیں تاکہ ان طلبہ کے لیے اچھا انفراسٹرکچر، صفائی ستھرائی اور خوراک اور تعلیمی سہولیات کو یقینی بنایا جاسکے اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے مناسب فنڈز مختص کیے جاسکیں۔

اس کے علاوہ راہل گاندھی نے اسکالرشپ کی بروقت تقسیم، اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ پی ایم مودی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہندوستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ محروم طبقات کے نوجوان آگے نہیں بڑھتے۔ انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم سے مثبتردعمل کی توقع ظاہر کی ہے۔

Next Article

مسافروں کو لے کرجا رہا ایئر انڈیا کا طیارہ احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب حادثے کا شکار

لندن جارہا ایئر انڈیا کا طیارہ احمد آباد ایئرپورٹ سے ٹیک آف کے فوراً بعد حادثے کا شکار ہو گیا۔ طیارے میں 242 مسافر سوار تھے۔ ایئر انڈیا نے مسافروں اور ان کے اہل خانہ کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے۔

احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب طیارہ کے حادثے کا شکار ہونے کے بعد منظر، جمعرات، 12 جون، 2025 ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: لندن جانے والا ایئر انڈیا کا طیارہ آج احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب حادثے کا شکار ہو گیا ۔کئی  لوگوں کے ہلاک اور زخمی ہونے کا اندیشہ ہے، حالاں کہ سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔

ریاستی پولیس کنٹرول روم نے بتایا ہے کہ طیارے میں 242 مسافر سوار تھے۔ ٹی وی9گجراتی نے اطلاع دی ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ وجئے روپانی بھی اس میں سوار تھے۔

ڈائریکٹوریٹ جنرل آف سول ایوی ایشن نے کہا ہے کہ طیارہ احمد آباد سے ٹیک آف کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ اس نے تصدیق کی ہے کہ طیارے میں دو پائلٹ اور 10 کیبن کریو سمیت 242 افراد سوار تھے۔ طیارے کی کمانڈ کیپٹن سمت سبھروال اور فرسٹ آفیسر کلائیو کندر کے ہاتھوں میں تھی۔

خبر رساں ادارے روئٹرز نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ 242 افراد میں 217 بالغ اور 11 بچے شامل ہیں۔

ایئر انڈیا نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے کہا ، ‘ آج احمد آباد سے لندن گیٹوک جا رہی فلائٹ اے آئی171 ٹیک آف کے بعد حادثے کا شکار ہوگئی۔ یہ پرواز احمد آباد سے دوپہر 1:38 پر روانہ ہوئی تھی اور  بوئنگ 787-8 طیارے میں کل 242 مسافر اور عملے کے ارکان سوار تھے ۔ ان میں سے 169 ہندوستانی شہری ، 53 برطانوی شہری ، 1 کینیڈین شہری اور 7 پرتگالی شہری تھے۔ زخمیوں کو قریبی اسپتالوں میں لے جایا جا رہا ہے۔ ایئر انڈیا نے مسافروں اور ان کے اہل خانہ کو معلومات فراہم کرنے کے لیے ایک خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے ۔ ایئر انڈیا اس واقعے کی تحقیقات کرنے والے اہلکاروں کے ساتھ مکمل تعاون کر رہا ہے۔ ‘

تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے شہری ہوابازی کے وزیر رام موہن نائیڈو نے ایکس پر لکھا ، ‘احمد آباد میں فلائٹ حادثے کی خبر سے صدمے میں ہوں اور غمزدہ ہوں۔ ہم نے اعلیٰ سطح کی چوکسی اختیار کی ہے۔ میں خود صورتحال کی نگرانی کر رہا ہوں اور تمام ہوا بازی اور ہنگامی اداروں کو فوری اور مربوط کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں موقع پر روانہ کر دی گئی ہیں اور زخمیوں کو فوری طبی امداد اور ریلیف فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے۔ میری تعزیت اور دعائیں طیارے میں سوار تمام لوگوں اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔’

واقعے کے ویڈیو میں میگھانی نگر کے قریب دھارپور علاقے سے شدید دھوئیں کا غبار اٹھتے دیکھا جا سکتا ہے۔ کچھ اکاؤنٹس کا کہنا ہے کہ حادثہ فرانزک کراس روڈ پر پیش آیا۔

گجرات کے وزیر اعلیٰ بھوپیندر پٹیل نے ایکس پر پوسٹ کیا کہ زخمی مسافروں کو علاج کے لیے لے جانے کے لیے گرین کوریڈور کا انتظام کرنے اور اسپتال میں علاج کے تمام انتظامات کو ترجیحی بنیادوں پر یقینی بنانے کی ہدایات دی گئی ہیں۔

پٹیل نے اموات پر غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا، ‘وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی مجھ سے بات کی اور اس طیارہ حادثے میں بچاؤ اور امدادی کارروائیوں کے لیے این ڈی آر ایف ٹیموں اور مرکزی حکومت کے مکمل تعاون کی یقین دہانی کرائی۔’

مرکزی شہری ہوابازی کے وزیر رام موہن نائیڈو کنجراپو نے بھی ایکس پر ایک پیغام پوسٹ کیا ؛ ‘احمد آباد میں ہوائی جہاز کے حادثے کے بارے میں جان کر صدمے میں ہوں۔’

انہوں نے کہا، ‘ہم ہائی الرٹ پر ہیں۔ میں ذاتی طور پر صورتحال کی نگرانی کر رہا ہوں اور تمام ایوی ایشن اور ایمرجنسی رسپانس ایجنسیوں کو فوری اور مربوط کارروائی کرنے کی ہدایت کی ہے۔ ریسکیو ٹیمیں تعینات کر دی گئی ہیں، اور طبی امداد اور راحت کے کام کو جائے وقوعہ پر پہنچانے کو یقینی بنانے کی تمام کوششیں کی جا رہی ہیں۔ میری تعزیت اور دعائیں طیارے میں سوار تمام افراد اور ان کے اہل خانہ کے ساتھ ہیں۔’

ایئر انڈیا کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے بھی غم کا اظہار کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘میں انتہائی دکھ کے ساتھ تصدیق کرتا ہوں کہ احمد آباد سے لندن گیٹوک کے لیے اڑان بھرنے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 آج ایک المناک حادثے کا شکار ہوگئی۔ ہماری تعزیت اس تباہ کن واقعے سے متاثرہ تمام افراد کے اہل خانہ اور پیاروں کے ساتھ ہے۔ اس وقت، ہماری بنیادی توجہ تمام متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کی مدد پر ہے۔’

انہوں نے مزید کہا، ‘ہم سائٹ پر ایمرجنسی رسپانس ٹیموں کی مدد کرنے اور متاثرہ افراد کو تمام ضروری مدد اور دیکھ بھال فراہم کرنے کے لیے اپنے  اختیارات میں ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ جیسے ہی ہمیں مزید تصدیق شدہ معلومات موصول ہوں گی مزید اپڈیٹس کا اشتراک کیا جائے گا۔ ایک ہنگامی مرکز کو فعال کر دیا گیا ہے اور معلومات حاصل کرنے والے خاندانوں کے لیے ایک امدادی ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔’

دریں اثنا، احمد آباد ہوائی اڈے کے آپریٹر اڈانی گروپ نے کہا کہ وہ حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اڈانی گروپ کے چیئرمین گوتم اڈانی نے جمعرات کو کہا کہ احمد آباد ہوائی اڈے کے قریب ایئر انڈیا کے طیارہ  کے حادثے کا شکار ہونے کےبعد گروپ حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

احمد آباد ہوائی اڈہ اڈانی گروپ کے ماتحت چلایا جاتا ہے۔

گوتم اڈانی نے ایکس پر پوسٹ کیا، ‘ایئر انڈیا فلائٹ 171 کے سانحے سے ہم صدمے میں ہیں۔ ہماری تعزیت ان خاندانوں کے ساتھ ہے جنہیں ناقابل تصور نقصان پہنچا ہے۔ ہم تمام حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں اور زمین پر موجود خاندانوں کو مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔’

اس کے ساتھ ہی ایئر انڈیا کے طیارے کے حادثے کی وجہ سے احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر فلائٹ آپریشن کو عارضی طور پر روک دیا گیا ہے۔

ایس وی پی آئی اےکے نمائندے نے اعلان کیا، ‘سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈہ(ایس وی پی آئی اے)، احمد آباد ایئر انڈیا کے طیارے کے حادثے کے نتیجے میں فی الحال کام نہیں کر رہا ہے۔ تمام فلائٹ آپریشنز کو اگلے نوٹس تک عارضی طور پر معطل کر دیا گیا ہے۔’

Next Article

میں نے جو دیکھا اس پر یقین نہیں کر پایا، بس بھاگنے لگا: ایئر انڈیا حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس نے بتایا

احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی فلائٹ 171 کے واحد زندہ بچ جانے والے 40 سالہ وشواس کمار رمیش نے بتایا کہ ٹیک آف کے 30 سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

12 جون 2025 کو احمد آباد میں ایئر انڈیا کے طیارے حادثے میں زندہ بچ جانے والے وشواس کمار رمیش۔ (تصویر: سوشل میڈیا / پی ٹی آئی)

احمد آباد: ٹیک آف سے پہلے 40 سالہ وشواس کمار رمیش کی احمد آباد سے لندن جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز میں کچھ بھی عجیب نہیں  لگ رہاتھا۔ لیکن جیسے ہی جہاز کے پہیے زمین سے اوپراُٹھے سب کچھ بدل گیا۔ اگلے 30 سیکنڈ کے اندر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔

جمعرات (12 جون) کو پیش آنے والے اس سانحے میں بہت سے لوگوں کی ہلاکت کا خدشہ ہے اور وائبس آف انڈیا ابھی تک مرنے والوں کی صحیح تعداد کا انتظار کر رہا ہے، لیکن اس دن کا واحد مثبت پہلو یہ تھا کہ رمیش کو آگ کی لپٹوں سے گھرےبوئنگ 787-8 ڈریم لائنر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھا گیا۔

رمیش کو چوٹیں آئی ہیں۔ وہ فی الحال سول ہسپتال میں زیر علاج ہیں، جہاں انہیں  ابتدائی طبی امداد دی جا رہی ہے۔ وشواس نے کہا، ‘میں بھگوان میں یقین رکھتا ہوں… میں ابھی بھی اپنے بھائی کا انتظار کر رہا ہوں، جو میرے ساتھ سفر کر رہے تھے۔’

‘طیارہ ٹیک آف کرنے کے تیس سیکنڈ بعد ایک تیز آواز آئی اور پھر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا۔ یہ سب بہت تیزی سے ہوا،’ 40 سالہ رمیش نے کہا، جو ایئر انڈیا کی پرواز 171 کے چند زندہ بچ جانے والوں میں سے ایک ہیں – یا شاید واحد زندہ بچ جانے والے شخص ہیں -جو احمد آباد کے سردار ولبھ بھائی پٹیل بین الاقوامی ہوائی اڈے سے جمعرات کی دوپہر تقریباً 1:38 بجے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد گر کر تباہ ہو گئی۔

طیارے میں عملے کے دس ارکان سمیت 242 افراد سوار تھے۔ مرنے والوں کی تعداد کے بارے میں کوئی سرکاری تصدیق نہیں ہوئی ہے اور کچھ لاشیں برآمد ہونا باقی ہیں۔ سٹی پولیس چیف جی ایس ملک نے تصدیق کی ہے کہ 204 لاشیں برآمد ہوئی ہیں۔

طیارہ احمد آباد کے مصروف علاقے میں گر کر تباہ ہوا، جس کااثر شہر کے میگھا نی نگر علاقے میں واقع بی جے میڈیکل کالج کیمپس پرہوا۔

میڈیکل کالج کے ہاسٹل کینٹین میں لنچ کررہے کم از کم پانچ میڈیکل طلباء کی موت ہو گئی۔وہیں  20 لوگوں کو سول اسپتال میں داخل کرایا گیا ہے جو جھلس کر زخمی ہوئے ہیں۔

اسپتال کے احاطے میں رہنے والے بہت سے لوگ، جو ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل اسٹاف کے رشتہ دار ہیں، کی بھی ہلاکت کا خدشہ ہے۔

گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ اور بی جے پی لیڈر وجئے روپانی بھی طیارے میں سوار افراد میں شامل تھے۔ مرکزی کابینہ کے ارکان نے اس حادثے میں ان کی موت کی تصدیق کی ہے ۔

طیارے میں 53 برطانوی شہری، سات پرتگالی شہری اور ایک کینیڈین شہری سوار تھے۔ باقی تمام ہندوستانی شہری تھے۔ مرنے والوں میں پائلٹ سمت سبھروال بھی شامل ہیں، جنہیں 8700  اڑان گھنٹے کا تجربہ تھا۔

چاروں طرف لاشیں تھیں

سیٹ 11اےپر بیٹھے برطانوی شہری رمیش اب سول ہسپتال کے جنرل وارڈ میں داخل ہیں۔ ان کے سینے، آنکھ اور ٹانگوں پر چوٹیں آئی ہیں؛ درحقیقت، جب انہیں  ایمبولینس سے ہسپتال لایا گیا تو وہ  پیدل ہی ہسپتال پہنچے تھے۔

رمیش کچھ دنوں کے لیے اپنے خاندان سے ملنے ہندوستان آئے تھے اور اپنے بھائی 45 سالہ اجئے کمار کے ساتھ برٹن واپس جا رہے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ حادثے کے بعد جب وہ اٹھےتو انہوں نے اپنے اردگرد صرف لاشیں ہی دیکھیں۔

رمیش نے کہا، ‘میں نے جو دیکھا اس پر مجھے یقین نہیں ہوا۔ میں کھڑا ہوا اور بھاگنے لگا۔ میرے چاروں طرف ہوائی جہاز کے ٹکڑے پڑےتھے۔ کسی نے مجھے پکڑ لیااور ایمبولینس میں ڈال کر ہسپتال لے گیا۔’ بتایا جاتا ہے کہ رمیش ہوائی جہاز کے ایمرجنسی دروازے سے کود کر باہر نکل گئے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ وہ 20 سال سے لندن میں مقیم ہیں اور ان کی اہلیہ اور بچے بھی وہیں رہتے ہیں۔ رمیش نے کہا، ‘وہ ڈرے ہوئےتھے، لیکن اب انہیں پتہ  ہے کہ میں زندہ ہوں۔ میں ان تمام لوگوں کے لیے غمزدہ ہوں جو اپنی جانیں گنوا بیٹھے ہیں۔’

اگرچہ دونوں بھائیوں نے اکٹھے بیٹھنے کی درخواست کی تھی، لیکن شدید رش اور آخری لمحات کی درخواست  کی وجہ سے انہیں الگ الگ بٹھایا گیا۔ رمیش سیٹ 11اے پر تھے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی اجئے ہوائی جہاز میں الگ بیٹھے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘ہم دیو گئے تھے۔ وہ میرے ساتھ سفر کر رہے تھے اور اب میں انہیں تلاش کرنے سے قاصر ہوں۔ براہ کرم انہیں ڈھونڈنے میں میری مدد کریں۔’

( انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)