ان دنوں پنجاب پولیس آزاد صحافیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ ان سے تمام طرح کی ذاتی معلومات طلب کی جا رہی ہے۔ اس کے باعث صحافیوں میں غصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔

چنڈی گڑھ: پنجاب کے برنالہ ضلع کے کھڈّی گاؤں کے صحافی گرپریت کو جب 6 جون کو اسٹیٹ انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے پولیس اسٹیشن بلایا تو انہیں ایک بارکو لگا کہ یہ کوئی عام سی کارروائی ہے۔ لیکن جب افسر نے گرپریت سے سوال پوچھنا شروع کیا تو انہیں تھوڑا شک ہوا۔
اس افسر نے گرپریت سے پوچھا؛
کہاں سےپڑھائی کی ہے؟
صحافت کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟ کس سال حاصل کی؟
زمین کتنی ہے، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات؟
کن کن ممالک کا دورہ کیا ہے؟ پاسپورٹ کی تفصیلات؟
کار کا رجسٹریشن نمبر کیا ہے؟
گھر والے کیا کرتے ہیں؟
افسر انتہائی ذاتی معلومات کے بارے میں تقریباً بیس سوال پوچھتا رہا اور گرپریت سہمے ہوئے جواب دیتے رہے۔ گرپریت گزشتہ 8 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور گزشتہ 4 سالوں سے وہ ‘پنجابی نیوز کارنر’ کے نام سے اپنا ایک آزاد ویب چینل چلا رہے ہیں۔
گرپریت نے دی وائر کو بتایا، ‘یہ پہلا موقع تھا جب اس طرح سے میری ذاتی معلومات مانگی جا رہی تھیں۔ آدھار کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر، خاندان میں کون کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ زمین کتنی ہے؟ ایسے کئی سوالات پوچھے گئے۔’
یہ صرف گرپریت ہی نہیں تھے، جن سے ریاستی انٹلی جنس محکمہ نے ذاتی تفصیلات طلب کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران، پنجاب کے صحافیوں کو پریشان کرنے والاپیٹرن سامنے آیا ہے، جس میں پنجاب کے مالوا علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ دیگر صحافیوں — منندرجیت سنگھ (لوک آواز)، سکھویندر سنگھ سدھو (لوک ناد)، منٹو گروسریا، سندیپ لادھوکا (اے بی سی پنجاب)، اور جسگریوال (آر ایم بی ٹیلی ویژن) — کی ذاتی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔
مالوا کے بٹھنڈہ ضلع سے اپنا آزاد چینل چلا رہے صحافی منندر سدھو کے دفتر پر 5 جون کو انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے دستک دی اور چائے پینے کے بعد منندر پر ایسے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

منندر سدھو۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
منندر نے دی وائر کو بتایا، ‘جب انٹلی جنس والےنے مجھ سے سوال پوچھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ سسٹم (ریاست) کے پاس پہلے سے ہی ہماری بنیادی معلومات موجود ہیں، پھر اس کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن سوال جب پڑھائی-لکھائی کے سال ، زمین، پاسپورٹ نمبر تک پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔ آج تک پنجاب میں کسی حکومت نے صحافیوں کی اتنی ذاتی معلومات اکٹھی نہیں کیں۔’
منندر سنگھ گزشتہ چار سالوں سے ‘لوک آواز ٹی وی’ کے نام سے اپنا ویب چینل چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی رپورٹنگ کے لیے مالوا خطے میں کافی مقبول ہیں اور اس سے قبل بھی ریاستی حکومت کے نشانے پر رہے ہیں۔
اس سال فروری میں بھی ان کے خلاف عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے بلکار سنگھ سدھو کے پی اے کی شکایت پر بٹھنڈہ ضلع کے رام پورہ سٹی پولیس اسٹیشن میں بی این ایس کی دفعہ (4)(کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کی گئی جعلسازی) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 66ڈی کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی، لیکن ریاستی سطح پر ہوئے صحافیوں کے احتجاج کے دباؤ میں ایف آئی آر رد کر دی گئی تھی۔
منندر اس واقعے کو صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سی آئی ڈی نے ان صحافیوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں جو نہ تو حکومت سے اشتہار لیتے ہیں اور نہ ہی ان کے مطابق خبریں کرتے ہیں۔ یہ صرف ہم صحافیوں کو ڈرانے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم سب خاموش بیٹھ جائیں ۔’

(مائیک تھامے ہوئے) منندر سنگھ سدھو، سکھویندر سدھو، منٹو گرسریا، (نیچے) جسگریوال، سندیپ لادھوکا، گرپریت سنگھ۔ (تصویر: ارینجمنٹ)
بھٹنڈہ سےہی ‘آر ایم بی ٹیلی ویژن’ نامی ویب چینل کے لیے صحافت کرنے والے جسگریوال سے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے فون پر بات کی، جس میں ایسے ہی سوالات ان سے بھی پوچھے گئے۔ جسگریوال نے کہا، ‘مجھے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کی کال موصول ہونے سے پہلے ہی پتہ چل گیاتھا کہ وہ ہماری معلومات اکٹھا کرتے پھر رہے ہیں۔ دراصل،انہوں نے میرے گاؤں کے لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تھی۔’
افسر نے جس کو دفتر آنے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ پوچھنا ہے، فون پر ہی پوچھ لیجیے۔ اس کے بعد افسر نے ان سے بھی کئی ذاتی سوال پوچھے۔
یہ پہلا موقع نہیں تھا جب آر ایم بی ٹیلی ویژن اور اس کے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہو۔ جس بتاتے ہیں، ‘اس سے پہلے بھی حکومت دو بار ہمارے ویب چینل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بند کر چکی ہے۔ ایک بار تو سال بھر کے لیے بند رکھا۔ 2022 کے انتخابات کے دوران بھی مجھے ان کی میڈیا پی آر والی میڈم کا فون آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کو کہا لیکن میں نے منع کر دیا تھا۔
اسی طرح صحافی سندیپ اور سکھویندر کو بھی فون کرکے ان کی تمام ذاتی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ صحافی سندیپ نے بتایا، ‘انٹلی جنس افسر نے فون پر کہا کہ آپ فاضلکا میں میرے دفتر آئیں تاکہ ہم یہ جانچ سکیں کہ آپ اصلی صحافی ہیں یا نہیں۔ ہم فاضلکا ضلع کے صحافیوں سے تفتیش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں فاضلکا میں کام ہی نہیں کرتا۔ میں چندی گڑھ سے کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ذاتی تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں۔’
سندیپ اس کارروائی کو صحافیوں کو دھمکانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل بھی سندیپ کو پنجاب اسمبلی کی کوریج سے روک دیا گیا تھا اور ان کا پاس لے لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے ہرمیت سنگھ پٹھان ماجرا نے بھی سندیپ کے ساتھ ایک بار بدسلوکی کی تھی۔
صحافی سکھویندر سدھو کو بھی پچھلے تین سالوں میں کئی بار ہراساں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘حکومت ہماری ذاتی معلومات اکٹھی کرکے کیا کرے گی۔ خیر، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ تقریباًسوا سال پہلے کی بات ہے۔ پٹیالہ پولیس نے مجھے حراست میں لیا تھا، اس وقت ایس ایس پی نے خود مجھ سے کہا کہ بھگونت مان کے بارے میں کچھ بھی رپورٹ نہ کرنے کا تحریری حلف نامہ دیں۔ میں نے صاف منع کر دیا تھا۔
مالوا کے مکتسر ضلع کے ایک صحافی منٹو گرسریا کی ذاتی معلومات بھی انٹلی جنس اہلکاروں نے اس ہفتے اکٹھی کی ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘مجھ سے براہ راست پوچھنے کے بجائے اہلکاروں نے میرے محلے سے میرے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں وہ کس کے نام ہے، میرے پاس کتنی زمین ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کے میرے بینک اکاؤنٹ کی بھی تلاشی لی ہے۔ ایسا ہم نے یوپی میں سنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن تحریکوں سے ابھرنے والی جماعت پنجاب میں یوپی ماڈل کو براہ راست کاپی پیسٹ کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا ہو سکتا ہے؟’
صحافیوں کی حمایت میں اپوزیشن
دریں اثناپنجاب کے ان صحافیوں کی ذاتی معلومات اکٹھا کرنے کے حوالے سے گزشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتوں نے صحافیوں کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔
شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر بادل نے اس معاملے کو نمایاں طور پر اٹھایا اور کہا، ‘حکمران پارٹی اور وزیر اعلیٰ کو پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں سے باز آنا چاہیے۔ پولیس کی جانب سے صحافیوں کے گھروں پر جانے اور ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کرنے کی خبریں انتہائی تشویشناک اور ناقابل قبول ہیں۔ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے چوتھے ستون پر ایک زبردست حملہ ہے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرانے کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پریس کو ہراساں کرنے سے سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سےصرف ان صحافیوں کے عزم کو تقویت ملے گی جو سچ کے لیے پرعزم ہیں۔’
اس معاملے پر دی وائر نے پنجاب میں عام آدمی پارٹی حکومت کے ترجمانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف ایک ترجمان بلتیج پنوں نے ہمارا فون اٹھایا۔ انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے اپنی نااہلی کا حوالہ دیا اور دوسرے شخص کا فون نمبر دیا۔ اس نمبر پر بار بار کال کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
(مندیپ صحافی ہیں اور ‘گاؤں سویرا’ نام کا ویب پورٹل چلاتے ہیں۔)