گزشتہ 19 اپریل کو وزارت داخلہ کی جانب سے ریاستوں اوریونین ٹریٹری کے اندر مزدوروں کی آمد ورفت کو ممکن بنانے کے لیے احکامات جاری کیے گئے ہیں۔ حالانکہ ان کے عملی نفاذ پر کئی سوال ہیں۔
گزشتہ 19 اپریل کووزارت داخلہ نے ہر ریاست کے اندر تالابندی کے وقت اپنے گھر سے دور کسی سرکاری شیلٹر میں رہ رہے مزدوروں کے لیے ایک
اسٹینڈرڈ آپریٹنگ سسٹم (ایس اوپی)جاری کیا۔یہ ان مزدوروں پرکسی بجلی گرنے سے کم ثابت نہیں ہوگا جو بھوک، تھکاوٹ، بوریت اور پیسے کی شدید قلت کے بیچ کسی طرح اس امید پر دن کاٹ رہے تھے کہ کب تالابندی ختم ہو اور وہ اپنے گھروں کو لوٹ جائیں اور اس میں حکومت ان کی مدد کرےگی۔
چونکہ 20 اپریل سے کنٹینمنٹ زون کے باہرصنعتی ،مینوفیکچرنگ، تعمیرات، زراعت اور منریگا کی سرگرمیاں شروع ہوئیں، ایسے میں نئے ایس اوپی کے مطابق ان ‘پھنسے’ ہوئے مزدوروں کو کام میں لگایا جا سکتا ہے۔اس سلسلے میں ریاستوں اور یونین ٹریٹری کے اندر ان مزدوروں کی نقل وحرکت کوباقاعدگی سے ممکن بنانے کے لیے ایڈوائزری جاری کی گئی ہے۔
آسان لفظوں میں کہیں تو اس ایڈوائزری کے اہم نکات یہ ہیں:
یہ احکامات ان مزدوروں پر لاگو ہوتے ہیں جو اپنی ریاست یایونین ٹریٹری میں ‘پھنسے’ ہوئے ہیں اور کسی سرکاری ہیلپ سینٹریا شیلٹر میں رہ رہے ہیں۔ ایسے مزدوروں کا مقامی اتھارٹی کے ذریعےرجسٹریشن کیا جائے اور ان کے ہنر کا تجزیہ کرکے پتہ لگایا جائے کہ کون مزدور کس طرح کے کام کے لیے موزوں ہیں۔
اگرمزدوروں کا کوئی گروپ ، شیلٹر سے نکل کر اپنی ریاست کے اندر کام پر لوٹنا چاہتا ہے تو اس کو کام کی جگہ پر پہنچانے کا انتظام کیا جائےگا، بشرطیکہ اسکریننگ میں ان میں کو رونا کےآثار نہ پائے جائیں۔
بس کے سفر کے دوران محفوظ سماجی دوری رکھی جائےگی اور استعمال سے پہلے بسوں کو کو روناکے جراثیم سے محفوظ بنایا جائےگا۔
مقامی اتھارٹی سفر کے دوران ان کے کھانے وغیر ہ کا انتظام کریں گے۔
احکامات /ایڈوائزری جو سوال قائم کرتے ہیں
یہ احکامات جتنا کچھ کہتے ہیں اس سے زیادہ سوال چھوڑ جاتے ہیں۔ ایک عام سا سوال یہ کہ جو مزدور لاک ڈاؤن ختم ہونے تک ہیلپ سینٹروں یا شیلٹروں میں رکنا چاہتے ہیں ان پر کام پر لوٹنے کا دباؤ تو نہیں بنایا جائےگا؟اگر ان کو کام کی جگہوں تک پہنچایا جا سکتا ہے تو جو کام پر لوٹنے کی جگہ اسی ریاست کے اندر اپنے گھر جانا چاہتے ہیں انہیں گھر کیوں نہیں پہنچایا جا سکتا؟
سوال تو یہ بھی کم اہم نہیں ہے کہ بین ریاستی مزدوروں کے بارے میں کوئی ایڈوائزری کیوں نہیں؟ اس میں ریاست کی شرط کیوں اہم ہے؟آخر دہلی جیسی ریاست کی سرحدکا کیا مطلب ہے؟ یا چھوٹی چھوٹی ریاستوں یا بین ریاستی سرحدوں پر ‘پھنسے’مزدوروں پر ریاست کی سرحد کی بندش کا کیا مطلب ہے؟
اور یہ سوال بھی کہ چھوٹی ریاستوں یابین ریاستی سرحدوں پر رکے مزدوروں کو لوٹنے میں مدد کیوں نہیں کی جا سکتی؟یہ سوال دووجہ سےاہمیت کا حامل ہے۔ پہلا سوال جو پہلے بھی پوچھا جا چکا ہے پھر بھی اسے باربار پوچھا جانا چاہیے، وہ یہ کہ جب شروعاتی دور میں انفیکشن کی شرح بہت کم تھی، تب لاک ڈاؤن کے اعلان اور اس کو لاگو کرنے کے بیچ دو تین دنوں کا وقت دےکر مزدوروں کو ان کے گھروں (ریاست کے اندر اور باہر، دونوں) تک پہنچانے کا انتظام کیوں نہیں کیا گیا؟
ریاست یہ کرنے کی صلاحیت ضرور رکھتی ہے۔ اس سے مہاجر مزدوروں اورطلبا کو بڑی راحت مل سکتی تھی۔چلیے، اس سوال کو زیادہ طول نہیں دیتے کیونکہ یہ تو بیتی بات ہو گئی۔ لیکن 3 مئی کو ملک کے بڑے حصے سے لاک ڈاؤن ختم ہو جائے تو جس بڑے پیمانے پر مہاجر لوٹنے کی کوشش کریں گے کیا اس کے انتظام کی کہیں کوئی تیاری ہوتی دکھ رہی ہے؟
کتنی ٹرینیں، کہاں کہاں سے، کتنے لوگوں کو لے کر چلیں گی؟ سارے لوگوں کی اسٹیشن پرا سکریننگ کیسے ہوگی؟ اسٹیشن تک لوگ کیسے پہنچیں گے؟ لوگوں کی بھیڑ کو اسٹیشن پر کیسے سنبھالا جائےگا؟ کہیں اس پر بات ہوتی کیوں نہیں دکھتی؟کیوں ایسا لگتا ہے کہ نہ تو سورس اسٹیٹ اور نہ ہی مرکزی حکومت کسی مزدور کی واپسی کے لیے خواہش مند ہے۔ اس چیلنج کو لے کر کہیں کوئی بےچینی نہیں!
سورس اسٹیٹ میں بھی چرچہ نہیں کہ لوٹنے والے کتنے ہو سکتے ہیں، اہم اسٹیشنوں سے انہیں اضلاع تک لے جانے کے لیے کتنی بسیں اور دوسرے ٹرانسپورٹ لگیں گے اور ضلع/بلاک/پنچایت میں ان کی جانچ اور کورنٹائن کے لیے ان کے رہنے کے لیے کس طرح قابل قدر انتظام کیا جائےگا۔
اگرآپ تعدادکا ااندازہ لگانا چاہتے ہیں تو ایک صرف ایک ریاست بہار کے اعدادوشمار دیکھ لیجیے۔بہار حکومت کے مطابق، اب تک 17 لاکھ 30 ہزار سے زیادہ بین ریاستی مزدوروں نے ایک ایپ کے توسط سے ریاستی حکومت سے 1000 روپے کی امداد کے لیے رجسٹریشن کرایا ہے اورابھی اوررجسٹریشن ہوں گے۔
یہ بھی طے ہے کہ کئی شرطوں کو پورا نہیں کر پانے کی وجہ سے سبھی مہاجررجسٹریشن کرا بھی نہیں پائیں گے۔ اب اس میں سے پورے ملک میں پھیلے 10 لاکھ بھی لوٹنا چاہیں تو ریاست اورمرکز کی حکومتیں اس چکرا دینے والی تعداد کے لیے کتنی تیاری کر رہی ہیں؟
مزدوروں کی گھر واپسی پرشبہ
جب 19 اپریل کےاحکامات آئے تو یہ شک پختہ ہو گیا کہ حکومتوں کی منشا مزدوروں کی گھر واپسی میں بالکل نہیں ہے۔ اگر وہ خود سے گرتے پڑتے کچھ کر پائیں تو کر لیں۔اس کے جو خطرے ہوں گے وہ خود جھیلیں۔ ہاں، حکومت ان کو کام میں لگانے میں ضروردلچسپی رکھتی ہے۔ اس میں کارپوریٹ ورلڈکی بھی دلچسپی ہوگی۔
ان کی دلیل ہوگی کہ اگرہم کام دے رہے ہیں تو بھوکوں مرنے سے کام کرنا اچھا ہی ہے۔ پردھان سیوک کی قیادت میں حکومت ایسےبحران میں بھی اتنا بڑا کام کر رہی ہے مزدوروں کو بھکاری نہیں بننا ہے، ریاست کے سہارے بالکل نہیں رہنا ہے۔انہیں بد سے بدتر حالات میں بھی اپنی محنت پر ہی جینا(یا مرنا)ہے۔ بیل آؤٹ کارپوریٹ کے لیے ہوتا ہے۔ بادشاہت جذبات سے نہیں چلتی۔
ٹھیک ہے کہ مہاجر مزدوروں نے اتنے دن پریشانیاں جھیلی ہیں اور انہیں اہل خانہ سے ملنے، بیوی بچوں کا منھ دیکھنے اور دکھ سکھ سننے سنانے کی جذباتی ضرورت ہے، لیکن ریاست کے فیصلے جذبات کی کسوٹی پر نہیں لیے جاتے۔اقتدار کا کام حکومت کرنا،ملکی مفاد(آپ چاہیں تو کارپوریٹ مفاد پڑھ لیں، بات تو ایک ہی ہے) میں مزدوروں کی مانگ اور فراہمی کا توازن بنانا اور اعلیٰ ا ور کچھ حد تک متوسط طبقے کی سہولیات اورتوقعات کو سہل بنانا ہے۔
مہاجر مزدوروں کے تناظر میں یہ اگر مستقبل کی آہٹ ہے تو یہ شدید تشویش ناک ہے۔
ویسے یہ احکامات عملی طور پر کیسے نافذ ہوں گے اور اس کے تجربے کیا ہوں گے اور خودمزدورں کا اس پر کیاردعمل ہوگا، یہ کچھ وقت کے بعد ہی پتہ چل پائےگا۔اسی بیچ کئی اور خطرناک اشارے ملتے رہے ہیں۔مثلاً، گجرات کے چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری نے مرکزی حکومت سے مانگ کی ہے کہ کسی بھی صنعت میں ایک ٹریڈ یونین کے لازمی ہونے پر کم سے کم ایک سال کے لیے روک لگا دی جائے۔
آپ کو یاد ہو کہ ماضی میں صنعت کاروں نے سپریم کورٹ میں ایک پی آئی ایل کے ذریعے کم از کم مزدوری دینے کے اہتمام کو چیلنج کیاتھا۔اسی طرح، مزدوری سے متعلق قوانین میں غیر معمولی تبدیلی کو لےکر مزدور تنظیموں اورمرکزی حکومت کے بیچ تنازعہ چل رہا ہے۔
اس پس منظر میں دیکھیں تو 19 اپریل کےاحکامات اس حکومت کی حساسیت،مزدوروں کےلیے اس کے رویے اور مساوات کی قدروں کے لیے اس کے عزم کے بارے میں بہت کچھ کہتے ہیں، بلکہ کہنے سے زیادہ خوف پیدا کرتے ہیں۔
(مضمون نگار ٹاٹا انسٹی ٹیوٹ آف سوشل سائنسز، پٹنہ سینٹر کے ڈائریکٹر ہیں۔)