سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای ) کے اعداد وشمار کے مطابق،ہندوستان میں سال 2006 سے 2016 کے بیچ 27.1 کروڑ لوگ غریبی سے باہر آئے ہیں، لیکن اب لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگی مشکل میں ہے۔ اس کی وجہ سے ہزاروں لوگ بے روزگار ہوئے ہیں اور اپنے گاؤں قصبوں کی طرف لوٹنے کو مجبور ہیں۔
نئی دہلی: گزشتہ 22 مارچ سے پانچ اپریل کے بیچ شہروں میں بےروزگاری 22 فیصدی بڑھ گئی ہے۔سینٹر فار مانیٹرنگ انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای ) کی جانب سے جاری اعداد میں شمار میں یہ بات سامنے آئی ہے۔سی ایم آئی ای کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ پانچ اپریل کو ختم ہوئے ہفتے میں شہری بےروزگاری کی شرح30.93 فیصدی تھی، جبکہ پچھلے مہینے 22 مارچ تک یہ شرح 8.66 فیصدی تھی۔ اس کے کافی برے اثرات مرتب ہونے کے امکان ہیں۔
جانکاروں کا ماننا ہے کہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہندوستان سے غریبی ختم کرنے کی کوششوں پر سخت جھٹکا لگ سکتا ہے۔ پچھلی تین دہائیوں میں چین کے علاوہ ہندوستان واحد ایساملک رہا ہے جس نے کئی لاکھوں لوگوں کو غریبی سے نکالا ہے۔انڈین ایکسپریس کے مطابق ،سال 2006 سے 2016 کے بیچ، 27.1 کروڑ لوگ ہندوستان میں غریبی سے باہر آئے ہیں۔ لیکن اب اس لاک ڈاؤن کی وجہ سے کئی لوگوں کی زندگی مشکل میں ہے کیونکہ کئی ہزاروں لاکھوں بے روزگار ہو گئے اور اپنے گاؤں قصبوں کی طرف لوٹنے کو مجبور ہیں۔
اندازہ ہے کہ لاک ڈاؤن کے دو ہفتوں میں پانچ کروڑ لوگوں کی نوکری چلی گئی ہے۔گزشتہ منگل کو انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او)کی جانب سے جاری رپورٹ میں کہا گیا کہ کووڈ 19 بحران کی وجہ سےہندوستان کے تقریباً 40 کروڑ مزدور، جن کی معیشت میں نمایاں خدمات ہیں، غریبی میں چلے جائیں گے۔
جانےمانے ماہر اقتصادیات اور پلاننگ کمیشن کے سابق ممبر ابھیجیت سین نے کہا، ‘ہندوستان میں غریبی ہٹانے کی بنیاد کنسٹرکشن ، ایکسپورٹ اور خدمات جیسے سیکٹر میں روزگارمیں اضافہ تھا۔ ان جگہوں پر کم مہارت رکھنے والے اور کم پڑھے لکھے لوگوں کو نوکری مل جاتی تھی۔ یہ سب یومیہ مزدوری ماڈل پر مبنی تھا۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘ہم نے صحت خدمات کے لیے کچھ خاص نہیں کیا۔ اگر کوئی شخص یومیہ مزدوری نہیں کما پاتا ہے تو بڑی تعداد میں غریبی بڑھنے کا خطرہ ہے۔’