کولکاتہ اور چنئی کے درمیان مین ٹرنک روٹ پر کورومنڈل ایکسپریس کی واپسی راحت کی حقیقی وجہ نہیں ہو سکتی ،کیونکہ ریلوے کے بوسیدہ نظام میں فی الوقت بہتری ناگزیر ہے اور اس کی خامیوں کو دور کیا جانا باقی ہے۔
پچھلے ہفتے کورومنڈل ایکسپریس دوبارہ پٹری پر لوٹ آئی۔اس دوران یہ بالاسور سے آرام سے گزرگئی، حالانکہ اس ماہ کے شروع میں ہونے والاتین ٹرینوں کا المناک تصادم ہمیں بہت دنوں تک پریشان کرے گا۔
یہ جاننے کے لیے دو الگ الگ انکوائری جاری ہے کہ یہ خوفناک حادثہ کیسے ہوا اور سگنلنگ سسٹم کی خرابی کی وجہ کیا ہے۔
تاہم،سسٹم اور بوسیدہ نظام سے متعلق مسئلے اب بھی جوں کے توں ہیں۔ کولکاتہ اور چنئی کے درمیان مین ٹرنک روٹ پر کورومنڈل ایکسپریس کے دوبارہ شروع ہونے سے زیادہ راحت نہیں مل سکتی کیونکہ ریلوےمیں موجود خامیوں کو دورنہیں کیا گیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا کہ یہ خامیاں کب سر اٹھالیں اور کسی حادثے یا ٹرین کے پٹری سے اترنے کی صورت میں ظاہر ہوجائیں!
سیسٹمیک سیفٹی کے مسئلے کی بنیادی وجہ کیا ہے؟حال ہی میں انڈین ایکسپریس نے انڈین ریلوے کی انجینئرنگ سروسز کے ایک ریٹائرڈ افسر آلوک ورما کے حوالے سے اس پہلو کو سامنے رکھا، جس میں انہوں نے دلیل دی کہ تقریباً 10000 کلومیٹر ٹرنک روٹ- دہلی، ممبئی، کولکاتہ اور چنئی کے درمیان ٹریفک کی بھیڑ سب سے زیادہ ہے اور اس کی صلاحیت کا 125 فیصد استعمال کیا جاتا ہے۔
ورما نے اسکرول ویب سائٹ کو بتایا کہ سیفٹی کے نقطہ نظر سے 90فیصد صلاحیت کے استعمال کی حد کو مناسب سمجھا جا سکتا ہے۔ زیادہ تر جدید ریل سسٹم اس اصول کی پیروی کرتے ہیں۔ مسئلہ 10000 کلومیٹر ٹرنک روٹ تک محدود ہے، حالانکہ ہندوستان کی مجموعی روٹ کی لمبائی تقریباً 70000 کلومیٹر ہے۔
ورما کا کہنا ہے کہ ان ٹرنک روٹ (کورومنڈل ایکسپریس ایسے ہی ٹرنک روٹ پر چلتی ہے) پر مرکوز اتنی زیادہ صلاحیت کے استعمال کی وجہ سے ٹریک، الیکٹرکل اور سگنل انفرااسٹرکچرکی باقاعدہ نگرانی اور دیکھ بھال میں شدید خلاف ورزی ہوتی ہے۔ مودی حکومت کو اس کا جواب دینا چاہیے۔
اگر ٹرینیں مسلسل پٹریوں پر ہوتی ہیں، تو فالٹ کو ڈھونڈنے اور دیکھ بھال کے لیے وقت نہیں بچتا۔ اس کامن سینس کی بات کو نظر انداز کر دیا گیا ہے اور ٹرنک روٹ پر صلاحیت کے استعمال میں زبردست اضافہ کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے۔ صلاحیت کے استعمال میں اس بڑے اضافے سے براہ راست منسلک ہے، مودی حکومت کا ریلوے میں غیرمعمولی طور پر سرمایہ کاری پر زور دینا، زیادہ سے زیادہ فاسٹ ٹرینیں بنانا، دور دراز علاقوں میں نئی ٹرین کااسٹاک اور نئے ٹریک بنانا۔ وزیر خزانہ نرملا سیتارمن نے ریلوے میں سرمایہ کاری کرنے کے وزیر اعظم نریندر مودی کے عزم پر زور دینے کی کوشش میں پارلیامنٹ کو بتایا تھا کہ 2023-24 میں ریلوے میں سرمایہ کاری 2013-14 کے مقابلے میں نو گنا ہے۔
لیکن بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کو بڑھاوا دینےکے باوجود سیکورٹی کو شدید دھچکا لگا ہے۔ سی اے جی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ سیکورٹی بجٹ یا تو ناکافی ہیں،یا بہت کم استعمال ہوئے، یا دونوں ہی وجہ ہیں۔ ریلوے کے اخراجات میں مجموعی اضافے کے تناسب سے سیکورٹی پر ہونے والے اخراجات میں واضح طور پرکمی آئی ہے۔
بنیادی مسئلہ بہت زیادہ استعمال کیے جانے والے ٹرنک روٹ پربنا ہوا ہے، مثلاً جہاں بالاسور حادثہ ہوا تھا۔ 8 فروری کو کرناٹک میں سمپورن کرانتی ایکسپریس سے متعلق ایک ایسا ہی حادثہ، جسے وارننگ کے طور پر دیکھا جانا چاہیے تھا، ٹل گیا۔ کرناٹک میں الرٹ ڈرائیور نے اپنی ٹرین کو لوپ لائن پر غلط موڑ لیتے ہوئے دیکھا، جہاں ایک مال ٹرین آ رہی تھی۔ ان کی ٹرین شاید کورومنڈیل ایکسپریس کے مقابلے بہت دھیمی رفتار سے چل رہی تھی اور ان کے پاس وقت پر بریک لگانے کی مہلت تھی۔ یہ معاملہ ریلوے بورڈ تک پہنچا تھا۔
لیکن ریلوے بورڈ 125فیصد صلاحیت کے استعمال کے بارے میں کیا کر سکتا ہے، جس کی وجہ سے حفاظت کے لیے بہت کم وقت بچتا ہے؟ آلوک ورما کہتے ہیں کہ چند دہائیاں قبل چین میں بھی یہی مسئلہ تھا۔ 1997 میں چین کے پاس 66000 کلومیٹر ریل روٹ تھا، جو 2022 تک بڑھ کر 155000 کلومیٹر ہو گیا تھا۔ چین 300-350 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے الٹرا ہائی اسپیڈٹرین چلانے کے لیے مزید متوازی ٹرنک روٹ بنا رہا ہے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں، اس نے بڑے شہروں کو جوڑنے والے اپنے پرانے ٹرنک روٹ نیٹ ورک کو بھی اپ گریڈ کیا ہے۔ اس سے چین الگ الگ سیگمنٹ میں الگ الگ ہائی اسپیڈ پر ٹرینیں چلا سکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ ہندوستان ابھی بھی 120-130 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار کے ساتھ جدوجہد کر رہا ہے، یہاں تک کہ ٹریک کی تجدید اور دیکھ بھال کو نظر انداز کیا جاتا ہے، خاص طور پر ٹرنک روٹ پر۔ جب تک ان راستوں پر ٹریفک کو کافی حد تک کم نہیں کیا جائے گا، سیفٹی سے سمجھوتہ ہوتا رہے گا اور پچھلے 10-15 سالوں کی طرح حادثات ہوتے رہیں گے۔ حکومت کا استدلال ہے کہ ایسے حادثات میں معمولی کمی آئی ہے، لیکن جدید ریل نظام میں ایسے حادثے کمیاب ہیں، چاہے مغربی ممالک کی بات ہویا چین اور جاپان کی۔
مودی کے ‘اسپیڈ اور اسکیل’ کے نعرے کا ریلوے کی جدید کاری کے تناظر میں جامع جائزہ لینے کی ضرورت ہے اور اس میں سیفٹی کو فوری طور پرترجیح دی جانی چاہیے۔
(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)