’یہ کہنا شاید صحیح نہیں کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔‘
زبان و ادب کی توسیع و اشاعت کے جنوں صفات جذبے کی ایک بڑی مثال نولکشور ہیں۔ منشی نولکشور نے اردو ،ہندی کے علاوہ فارسی ادبیات کے ذیل میں بھی اتنی کتابیں شائع کیں کہ وہ ایران میں بھی اسی طرح پہچانے گئے‘ جس طرح ہندوستان میں۔
ان کے مطبع کی کتابیں دنیا کی تمام اہم لائبریریوں میں موجود ہیں ‘ اور ان کی بیش بہا خدمات کو مؤ قر جریدہ اور جرنلLibriمیں بھی سراہا گیا ہے ۔ فارسی میں بھی ان پر کتابیں لکھی گئیں ۔ اُردو میں نورانی صاحب کی کتابیں اور سیمینار کے مقالات پر مبنی کتابوں کے علاوہ بعض رسائل کے خصوصی نمبر موجود ہیں ‘ اس کے باوجود منشی نولکشور کو جاننے والے بہت کم ہیں ‘اور ان کی بیش بہاخدمات کو جاننے والے اس سے بھی کم ۔
میں یہ نہیں کہنا چاہتا کہ ہمیں اپنے اسلاف کے کارناموں کا علم نہیں ‘ لیکن کیا کیجیے کہ ہم اپنے کلچر ہیرو کو کہانیوں میں تلاش کرتے پھرتے ہیں۔منشی نولکشورکو میں کلچر ہیرو کے طور پر جانتا ہوں کہ انہوں نے کتابوں کی صورت آب حیات کے چشمے جاری کیے۔آج بھی اس چشمے سے فیض حاصل کیا جا سکتا۔
وہ اُ ردو ،فارسی،سنسکرت اور بھاشا میں قابل قدر استعداد رکھتے تھے ۔ایک صحافی کے طور پر انہوں نے ملکی اور سیاسی صورت حال پر مضامین لکھے ۔اردو اور فارسی میں شعر کہے ۔ نادر العصر‘ لکھنؤ اور مشاہیر اودھ کے حالات جیسی کتابوں کے علاوہ فارسی کی بعض نصابی کتابوں کے ترجمہ و تالیف میں بھی ان کی علمی شخصیت کا سراغ ملتا ہے۔
1858میں منشی نول کشور نے لکھنو میں اپنا مطبع قائم کیا۔وہ اس قدر جوش و جذبہ سے کام کرتے تھے کہ کتابوں کی پروف خوانی کے علاوہ بعض کتابوں کا دیباچہ بھی تحریر کرتے تھے ۔انہوں نے ہر طرح سے اپنے مطبع کو علم و دانش کا مرکز بنایا ہوا تھا ۔آج منشی جی کی سالگرہ پر اردو کے بعض اہم ادیبوں کے تاثرات کو آپ کے سامنے پیش کر رہا ہوں۔
رام بابو سکسینہ؛
’منشی صاحب موصوف 1836میں بستوئی ضلع علی گڑھ میں پیدا ہوئے ان کے دادا منشی بالمکند آگرہ میں سرکاری خزانچی تھے اور والد منشی جمنا داس بھی کاروبار کرتے تھے ۔ منشی نولکشور ایک خود ساختہ آدمی تھے اور بچپنے ہی سے تجارت کی اعلیٰ قابلیت رکھتے تھے ۔ ان کو اخبارات سے بڑا شوق تھا منشی ہر سکھ رائے کی ماتحتی میں اخبار کوہ نور لاہور میں کچھ عرصہ تک رہے جہاں ان کو چھاپہ خانہ وغیرہ کے حالات کابہت وسیع تجربہ ہوگیا۔غدر کے بعد ملازمت ترک کرکے لکھنؤآگئے جہاں 1858میں سر رابرٹ منٹگمری اور کرنل ایبٹ کی سر پرستی میں اپنا مطبع کھولا ۔ تقدیر نے یاوری کی اور ان کے کام کو روز افزوں ترقی ہوتی گئی ۔ان کی قابلیت ان کی دیانت داری ان کی پابندی اصول سے یہ مطبع تھوڑے ہی عرصہ میں ہندوستان کیا بلکہ ایشیا کے سب سے بڑے مطابع میں شمار کیا جانے لگامنشی صاحب نے زر کثیر نادر قلمی کتابوں کی خرید میں صرف کیا جن میں سے اکثر کو شائع کر کے پبلک کو بہت بڑا فائدہ پہنچایا ۔اس مطبع سے ہزار ہا عربی فارسی سنسکرت اردو ہندی کتابیں بڑے صرف اور بڑے تکلف سے چھپ کر شائع ہوئیں مختلف قسم اور مختلف ہدیوں کے قرآن شریف شائع ہوئے جن سے اہل اسلام کو بہت بڑا نفع پہنچا ۔اودھ اخبار بھی 1858میں انہوں نے جاری کیا تھا … ‘
یہاں ضمناً عرض ہے کہ رام بابو سکسینہ سے الگ کچھ لوگوں نے لکھا ہے کہ منشی نول کشور3جنوری 1836کو متھرا ضلع کے ریڑھا نامی گاؤں میں پیدا ہوئے۔بہر کیف سکسینہ مزید لکھتے ہیں کہ؛
’مطابع کی تاریخ میں سب سے اہم واقعہ اس عہد کا یہ ہے کہ لکھنؤ میں منشی نولکشور صاحب نے اپنا مشہور مطبع جاری کیا۔ جس کی بدولت پرانی پرانی فارسی اور عربی نیز سنسکرت و ہندی کی وہ کتابیں چھپیں جو کسمپرسی کی حالت میں پڑی تھیں اور اگر شائع نہ ہوتیں تو معدوم ہوجاتیں ۔ اس مطبع نے علم کے محدود دائرے کو وسیع کر دیا اور اس کے فوائد ملک کے تمام طبقوں کو یکساں طور پر پہنچائے ۔ تعلیم و تعلم کی ارزانی ہوگئی ۔ اس میں حدیث و تفسیر ،قرآن شریف باترجمہ فقہ اصول وغیرہ جو علوم اہل اسلام و نیز وید پران بیدک وغیرہ علوم اہل ہنود یکساں طور پر نہایت فراخدلی سے شائع کیے گئے ۔ قرآن شریف کے مترجم چھپنے سے لوگوں کو اس کے مطالب سے آگاہی ہوئی اور اس سے وہی فائدہ مسلمانوں کو ہوا جو بائیبل کے ترجمے سے مسیحیوں کو پہنچا تھا۔‘
عبدالحلیم شرر لکھنوی بھی اسی طرح کی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں:
’شاہی کے آخر دور میں مصطفائی مطبع اپنی چھپائی کے لحاظ سے دنیا میں جواب نہ رکھتا تھا ۔انتزاع سلطنت کے بعد منشی نول کشور نے اپنا مطبع جاری کیا۔ گو وہ چھپائی کی خوبی میں مصطفائی مطبع کا مقابلہ نہیں کر سکا مگر تجارت کے اصول پر چل کے اس نے فارسی و عربی کی اتنی بڑی ضخیم کتابیں چھاپ دیں کہ آج کسی مطبع کو ان کے طبع کرنے کی جرأ ت نہیں ہو سکتی ۔ سچ یہ ہے کہ لکھنؤ میں اگلی شوقینی نے پریس کا ایسا مکمل سامان جمع کر رکھا تھا کہ اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے منشی نول کشور ہی کے ایسے بلند حوصلہ صاحب مطبع کی ضرورت تھی ۔آخر نول کشور پریس نے یہاں تک عروج پایا کہ سارے مشرقی لٹریچر کو اس نے زندہ کر دیا اور بہ اعتبار وسعت طبع کے جو فوقیت لکھنؤ کو حاصل ہوگئی ،اور کسی شہر کو نصیب نہیں ہو سکتی ۔ اور اسی کی برکت تھی کہ وسط ایشیا میں کا شغر و بخارا تک اور افغانستان و ایران کی ساری علمی مانگ لکھنؤ ہی پوری کر رہا تھا۔چنانچہ آج تک نول کشور پریس علمی تجارت کی کنجی ہے ‘ جس سے کام لیے بغیر کوئی شخص علمی دنیا میں قدم نہیں رکھ سکتا ۔‘
منشی نولکشور کا مطبع کس طرح کام کرتا تھا اس کی تفصیل کئی لوگوں کے ہاں موجود ہے ، لیکن خود ان کا لکھا ہوا مضمون جو اودھ اخبار میں 8جنوری1862کو اخبار نمبر2جلد4میں شائع ہوا تھا ایک اہم حوالہ ہے ۔اس میں انہوں نے لکھا تھا کہ؛
یہ مطبع ایسی ایک صحبت معقول ‘ انجمن گاہ علم و ہنر ہے جس کو اہل دانش غنیمت سمجھیں دیکھ کر خوش ہوں …تہذیب ،حسن ترتیب ،تصحیح ،چھاپے کی صفائی ،خوش خطی اور سب امور کچھ ہمارے بیان کے محتاج نہیں ۔ مثل مشہور ہے کہ ’’ عیاں را چہ بیاں‘‘
اس سے بھی بڑی بات یہ ہے کہ خود مرزا غالب اس مطبع کو اپنے خطوط میں خراج تحسین پیش کر چکے ہیں ۔ غالب نے یوں ہی نہیں کہا تھاکہ
’ خالق نے ان کو زہرہ کی صورت اور مشتری کی سیرت دی ہے۔گویا بجائے خود قران السعدین ہیں۔‘
انتظار حسین نے ایک جگہ لکھا ہے کہ؛
’منشی نول کشور ہی کے زمانے میں کتنے ناشر نمودار ہوئے، کتنی انھوں نے کتابیں چھاپیں، کتنی دولت کمائی مگر نول کشور میں وہ کیا وصف تھا کہ ان کا ادارہ ایک مثال بن گیا اور جو کتاب شائع کی اسے بامعنی کتاب ہونے کی سند مل گئی اور کیا کمال کا ادارہ تھا کہ مذہب اور ادب دونوں کے ذیل میں اتنا کچھ چھاپ ڈالا کہ مضامین نو کے انبار لگ گئے۔ خالی شاعری کے دیوانوں اور داستانوں پر مت جائیے۔ اسلامیات کے ذیل میں بھی اتنا کچھ چھاپ ڈالا ہے کہ کیا احادیث اور کیا ملفوضات اور کیا معقولات اور منقولات ہر قسم کی کتاب وہاں سے دستیاب تھی۔‘
شمس الرحمن فاروقی لکھتے ہیں:
’نول کشور پریس کا ایک بہت بڑا کارنامہ داستان امیر حمزہ کی چھیالیس جلدوں کی اشاعت ہے ۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ دوسرے متون جو پریس سے شائع ہوکر محفوظ ہوئے ان میں سے اکثر ایسی ہیں جنھیں کوئی نہ کوئی ادارہ یہاں سے یا ایران یا مصر و عرب سے شائع کر ہی دیتا ‘لیکن داستان امیر حمزہ ایسا متن جسے نول کشور کے سوا کوئی بھی شائع نہ کر سکتا تھا ‘لہذا اگر نول کشور پریس داستان امیر حمزہ شائع نہ کرتا تو یہ ہمیشہ کے لیے نا پید ہو جاتی اور ہم ایسی شے سے محروم رہ جاتے جسے دنیا کے تخیلاتی ادب کے عظیم ترین کارناموں میں شمار کرنا چاہیے ۔‘
منشی نولکشور کے اس عظیم ادبی کارنامے کی تحسین میں امتیاز علی عرشی نے بہت اچھی بات کہی ہے کہ؛
’منشی نول کشور مشرقی علوم کے ایک مشہور ناشر ہی نہیں ‘ ان علوم کے عموماً اور اردو زبان و ادب کے خصوصاًشیدائی بھی تھے ‘ خادم بھی اور محسن بھی ۔ان کے کارخانہ کتب نے لاتعداد اہم کتابوں کو شائع کر کے محفوظ کردیا ‘ ورنہ ان میں سے بیشتر کتابوں کے شاید نام بھی لوگوں کو معلوم نہ ہوتے ۔‘
منشی جی نے زبان و ادب کی توسیع و اشاعت میں خالص ادب کو اپنے مطبع میں جگہ نہیں دی بلکہ اسلامی ادبیات کی ترتیب و تہذیب اور اس کی اشاعت میں بڑے معرکے سر کیے ۔ یہی وجہ ہے ان کے مطبع سے قرآن بھی گھر گھر پہنچا ۔بعض لوگوں کے مطابق منشی جی قرآن کی اشاعت میں اس کی عظمت و حرمت کا پورا خیال رکھتے تھے ۔ شاید اس لیے بھی سوانح نگاروں نے ان کو ایک ناشر اور صنعت کار سے زیادہ اس ہندی معاشرت کا نمائندہ قرار دیا ہے ‘جس میں مذہب کی شدت پسندی نہیں بلکہ مذہب انسان کی صورت نظر آتی ہے۔
زبان و ادب کے اس محسن کی خدمات کا اعتراف الگ الگ انداز میں کیا گیا ‘لیکن عزیز احمدنے ایک نئے پہلو کی طرف اشارہ کیا ہے ان کے بقول :
1857’کی ناکام بغاوت کے بعد اگر …نول کشور ہندوستان کے تمدنی ورثہ اور ذہنی بیداری کی حفاظت نہ کرتے تو شاید ہندوستان آج ترقی کی دوڑ میں اس طرح جدید اقوام کے ساتھ شانہ جوڑ کر نہ بڑھ سکتا۔‘
ان باتوں پر سنجیدگی سے غور کیا جائے تو اندازہ ہوگا کہ کسی بھی قوم کے لیے کتاب کلچر کو بچائے رکھنے کی ضرورت کیوں ہے ؟
محمد حسن کی ان باتوں سےبھی اتفاق کرنا پڑے گا کہ؛
’اگر نول کشور پریس نہ ہوتا تو اردو ادبیات کی روایات نہ ہوتیں اور غالباً ہماری زبان ایک ایسی زبان ہوتی جو اپنا ماضی نہیں رکھتی ‘نول کشور پریس نے اردو ادب کو اس کا ماضی دیااور اس کی روایات کو زمانے کی دست برد سے محفوظ کر کے ہمیشہ کے لیے اردو ادب کے نئے رجحانات کی پشت پناہی کے لیے استوار کر دیا ۔فارسی اور عربی اثرات اردو نثر و نظم دونوں پر پڑے لیکن ان کا واضح راستہ اور ان کے تدریجی نشو نما کا اندازہ ہم نول کشور پریس کی چھاپی ہوئی داستانوں اور دیوان ہی سے کر سکتے ہیں۔‘
ایسا نہیں کہ انہوں نے اسلامی ادب اور اسلامیات کو ہی اپنے مطبع میں جگہ دی ۔ہم چاہیں تو کہہ سکتے ہیں کہ مذہبی لٹریچر کی اشاعت کے پس پردہ ایک ناشر کی اپنی معاشی ضرورت ہو سکتی ہے ۔ لیکن یہی بات تو ہم خالص ادبی کتابوں کے باب میں بھی کہہ سکتے ہیں ۔ دراصل موضوعات کی تخصیص میں ان باتوں کی کوئی اہمیت نہیں اس لیے ہم ان کتابوں کی اشاعت میں زبان کی تشکیل کو یوں دیکھتے ہیں کہ اہل ہنود کی مذہبی کتابوں میں سنسکرت کی اصطلاحات اور مسلمانوں کی کتاب میں اسلامی اور تصوف کی اصطلاحوں نے اردو زبان کے متحرک کردار کوقائم کیا ۔ اس طرح منشی جی کے اس کتاب کلچر میں زبان کے اس چہرہ کو بھی دیکھا جا سکتا ہے جس کی وجہ سے یہ زبان کبھی اپنے رسم خط کی صورت میں اور کبھی اپنے فنکشنل اظہار میں پسند کی گئی اور آج بھی اس کا جشن منایا جاتا ہے ۔
منشی جی کتابوں کی اشاعت میں صحت متن کا خاص خیال رکھتے تھے ۔زبان کو صحت متن کے ساتھ پیش کرنے کی وجہ سے ہی غالب نے نول کشور کو داد دی تھی ‘ اور یہ بھی چاہتے تھے ان کا کلام اس مطبع سے شائع ہو۔
بلا شبہ منشی جی کتابوں کی سماجیات کا علم رکھتے تھے اس لیے انہوں نے مسودات کی صحت اور حواشی کے لیے لائق ادیبوں کو بھی جگہ دی ۔کہتے ہیں انہوں نے باقاعدہ شعبہ تصنیف و ترجمہ قائم کیا ہوا تھا ۔ شاید اسی لیے یہ ایک محض چھاپہ خانہ نہیں بلکہ زبان و ادب کے فروغ کا اشاعتی ادارہ تھا ۔ہم جانتے ہیں کہ داستانیں حضرت انسان کے تخیل کی انتہا اور معراج ہے ۔لیکن اس کی بدولت ہم سماج کے فکری ڈھانچہ کو سمجھتے ہیں ۔ نول کشور کو بھی ان باتوں کا احساس تھا اس لیے انہوں نے داستانوں کو مرتب کیا اور اس کے لیے اس وقت کے داستان گویوں کو بھی اپنے مطبع میں عزت بخشی۔
یہ مضمون تین جنوری دو ہزار اٹھارہ کو شائع کیا گیا تھا۔