ہندوستانی تارکین وطن کی سیاست اب ہندوستانی صورت حال کا ہی عکس ہے۔ وہی پولرائزیشن، وہی سوشل میڈیا مہم، وہی سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور وہی تشدد۔ اختلاف تو دور کی بات ، کسی دوسرےنظریے کو برداشت بھی نہیں کیا جا رہا ہے۔
لیسٹر میں تشدد کے بعد کارکنوں نے ہندوستانی ہائی کمیشن کے باہر احتجاج کیا۔ (فوٹو بہ شکریہ: ساؤتھ ایشیا سالیڈیرٹی نیٹ ورک)
دوسرے ممالک میں طویل عرصے تک رہنے والے ہندوستانیوں کو ‘ماڈل مائنارٹی’ کہا جاتا تھا، جن کے پاس اعلیٰ تعلیم تھی، اچھی اوسط آمدنی اور پیشہ ورانہ کام کا کلچر تھا۔ وہ قانون کی پاسداری کرنے والے اور محنتی مانے جاتے ہیں۔ وہ اپنے بچوں کو نہ صرف تہذیب و ثقافت کا سبق دیتے ہیں بلکہ انہیں اچھی قدروں سے بھی آشنا کرتے ہیں اور تعلیم کی اہمیت کے بارے میں بھی بتاتے ہیں۔ وہ اسپیلنگ بی کے مقابلوں میں بھی سبقت لے جاتے ہیں۔
لیکن یہ امیج ٹوٹ رہی ہے اور وہ بھی بہت پرتشدد طریقے سے۔ ہندوستانیوں کا جو پہلوکبھی مشاہدے میں نہیں آیا تھا، وہ اچانک دھماکے کی طرح سب کے سامنے اظہر من الشمس ہوگیا اور مقامی انتظامیہ اور سیاست دانوں کو اس نے حیرت میں ڈال دیا ہے۔
گزشتہ ماہ برطانیہ کے شہر لیسٹر میں ہندو اور مسلم کمیونٹی کے درمیان
تشدد پھوٹ پڑا۔ آسٹریلیا میں ہندو گروپوں نے سکھوں پر حملہ کیا اور نیو جرسی کے ایک چرچ کو احتجاج کے بعد سادھوی رتمبھرا کا ایک
پروگرام ردکرنا پڑا۔ اسی ریاست میں مقامی ہندوستانی برادریوں کی طرف سے یوگی آدتیہ ناتھ اور نریندر مودی کے پوسٹروں سے مزین بلڈوزر کے ساتھ مارچ کی مقامی سیاست دانوں نے
شدید مذمت کی۔ مذمت کرنے والوں میں دو سینیٹر بھی شامل تھے۔
لیسٹر میں تشدد نے مقامی لوگوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ ان کاکہنا تھا کہ یہ ہمیشہ سے ایک پرامن شہر تھا، جس میں ہندو اور مسلمان ایک ساتھ مل جل کررہتے تھے۔ مقامی رکن پارلیامنٹ
کلاڈیا ویب نے اس طرح کے واقعات کو دوسری جگہوں پر پھیلنے کی وارننگ دیتے ہوئے اس کا الزام ایسے فرنج عناصر پر لگایا، جو انگلینڈ میں سر اٹھارہی دائیں بازو کےنظریات اور انتہا پسندی سے متاثر ہیں۔
شدت پسند ہندوتوا پر مرکوز ہندوستانی سیاست نے ڈائسپورہ (تارکین وطن کا گروپ) کو بھی متاثر کیا ہے۔ مقامی این آر آئی میں ہمیشہ سے برادری اور مذہبی اختلافات موجود رہے ہیں، لیکن یہ کبھی بھی اتنے شدید نہیں تھےکہ عوامی تشدد کا سبب بن جائے۔
دائیں بازو کے ہندو گروپ اب ہر ملک میں موجود ہیں، جو ہندوستانی تنظیموں کی برسوں سے کی جا رہی برین واشنگ کا نتیجہ ہے۔ ان اداروں کو ہندوستانی ثقافت کی تشہیر کے نام پر مقامی فنڈنگ ملتی ہے۔این آر آئی اکثر ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو برقرار رکھنا چاہتے ہیں اور اپنے بچوں کو رقص و موسیقی کی کلاسوں میں بھیجنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، جہاں مذہبی تعلیم بھی ملتی ہے، جو جلد ہی نظریاتی صورت اختیار کر لیتی ہے۔
اس میں سوشل میڈیا کو شامل کردیجیے، جو نفرت انگیز پیغامات اور جعلی خبروں (فیک نیوز) سے بھرا ہوا ہے – جس کو ہم اپنے ملک میں دیکھتے ہیں، وہی دوردور تک رہنے والی ہندوستانی کمیونٹی تک پہنچتا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یہ ان کے حساب سےڈھالا جاتا ہے۔
کلاڈیا ویب نے سوشل میڈیا کے کردار کا ذکر کیا ہے۔ دوسرے مشاہدین نے بھی اس کی نشاندہی کی ہے۔ کچھ ویڈیوز میں ایک ہندو مندر کے باہر ایک جھنڈے کونیچے کرتے ہوئے دکھایا جاتا ہے اور مقامی ہائی کمشنر کے ذریعے ‘ہندو مذہب کے احاطے اور علامتوں کو نقصان پہنچانے کی مذمت’ کی جاتی ہے۔
بیرونی ممالک میں ہندوستانی سفارتی مشنوں کی طرف سے ہندو گروپوں کو سرکاری تحفظات نے اس میں ایک نئی جہت کا اضافہ کیا ہے۔ یہ مشن غیر مقیم ہندوستانی برادریوں کو کو ہندوؤں پر خصوصی توجہ دیے جانے کو لے کر کوئی پچھتاوا نہیں رکھتے ۔ مختلف قسم کے یوگیوں اور سادھویوں کی میزبانی مشن کے ذریعے کی جاتی ہے اور مقامی ہندوستانیوں کے ایک منتخب گروپ کو ان سے ملنے کے لیے مدعو کیا جاتا ہے۔
ان سب کو ایک جگہ ملانے کا نتیجہ باہمی کشیدگی اور تنازعات کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ آسٹریلیا میں جدوجہد کی وجہ کسانوں کی تحریک تھی، خاص طور پر سکھوں کی طرف سے کی جارہی تحریک۔ لیسٹر میں چنگاری کا کام ایشیا کپ کے میچ نے کیا، جس میں ہندوستان نے پاکستان کے خلاف جیت حاصل کی۔ لیسٹر پولیس نے 18 افراد کو گرفتار کیا تھا، جن میں سے آٹھ کاؤنٹی سے ‘باہر’ سے آئے تھے، لیکن اندازے کے مطابق وہ بھی انگلینڈ کے رہائشی تھے۔
آسٹریلیا میں تشدد کے بعد ایک ہندو کو وہاں سے ڈی پورٹ کر دیا گیا۔ ہندوستان میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا،ٹھیک ویسے ہی جیسے بلقیس بانو کے ریپسٹوں کی گجرات میں ہندوؤں نے گلپوشی کی اور ان کی عزت افزائی کی تھی۔ کیا اس سے بھی زیادہ واضح کوئی پیغام ہو سکتا تھا؟
این آر آئیز اور ہندوستانی نژاد لوگ طویل عرصے سے سنگھ کے لیے زرخیز زمین رہے ہیں اور نریندر مودی ان کے سرکاری ہیرو ہیں۔ پہلی بار اقتدار میں آنے کے بعد مودی نے امریکہ، انگلینڈ، کینیڈا اور دیگر جگہوں پراسپورٹس اسٹیڈیموں میں جلسہ عام کیا تھا۔ وہ جہاں بھی گئے، ان کا شاندار استقبال کیا گیا،جن میں وہاں کے مقامی سیاستداں بھی شامل تھے، جیسا کہ 2014 میں نیویارک میں دیکھا گیا تھا۔ ہندوستانی میڈیا نے اپنے صحافیوں کو ان واقعات کی کوریج کے لیے بیرون ملک بھیجا تھا۔
اگرچہ اب وہ جوش اب تھوڑا سا کم ہو گیا ہے، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ زمینی تیاری رک گئی ہے۔ امریکی کارکنوں نے طویل عرصے سے یہ استدلال کیا ہے کہ بہت سے سیاست دانوں اور انتظامی عہدیداروں کو مقامی ہندوتوا گروپس کی حمایت اور فنڈنگ حاصل ہے اور وہ ہندو ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے کام کرتے ہیں۔
یہ نئی نئی جارحیت صرف دوسری برادریوں کے خلاف دشمنی تک محدود نہیں ہے۔ ماہرین تعلیم، خاص طور پر ہندوستان پر تحقیق کرنے والوں کو مسلسل بدسلوکی، گالی گلوچ اور دھمکی آمیز پیغامات کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بوسٹن میں ‘ ڈسمینٹلنگ گلوبل ہندتوا’ پر ایک کانفرنس پر ہندوتوا گروپوں نے حملہ کیا اور ان کے شرکاء کے ساتھ بدسلوکی کی گئی۔ آسٹریلیا میں13 ماہرین تعلیم نے ہندوستانی ہائی کمیشن کی مداخلت کے خلاف احتجاجاً آسٹریلیا انڈیا انسٹی ٹیوٹ سے استعفیٰ دے دیا۔
ہندوستانی تارکین وطن (ڈائسپورہ )کی سیاست ہندوستانی صورت حال کا ایک عکس ہے۔ وہی پولرائزیشن، وہی سوشل میڈیا مہم، وہی سیاسی اور سرکاری سرپرستی اور وہی تشدد۔ اختلافات، یہاں تک کہ دوسرے نظریے کو برداشت نہیں کیا جارہا ہے – نہ ہی مقامی ہندوستانی حکومت کے حامی گروپوں کے ذریعے اور نہ ہی سفارتی مشنوں کے ذریعے۔
لیسٹر میں تشدد شاید اس طرح کی مزید کشیدگی کا آغاز ہے۔ نہ صرف برطانیہ بلکہ دیگر جگہوں پر بھی ہندوتوا گروپ عسکریت پسندی کی شکل اختیار کر رہے ہیں۔ اس کا جواب دیا جائے گا اور ایک سرکل کی شروعات ہو جائے گی۔ یہ ایک ایسی چیز ہے جو مقامی حکومتوں سے مضبوطی سے حل کرنے کا مطالبہ کرتی ہے۔ اسے کثیر الثقافتی کے نرم رویہ یا برادری کے بزرگوں سے اپیل کرنے سے حل نہیں کیا جا سکتا۔ انہیں اس بارے میں خبردار کیا گیا ہے۔
(اس مضمون کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)