کرناٹک کے باگل کوٹ ضلع کے ٹیراڈل واقع گورنمنٹ ڈگری کالج کا معاملہ۔ یہ واقعہ اسی سال 18 فروری کو پیش آیا تھا۔ 19 سالہ طالبعلم نوید حسن صاب تھرتھاری نے الزام عائد کیا ہے کہ وہ ٹوپی پہن کر کالج گئے تھے، لیکن پرنسپل نے انہیں کالج میں داخل ہونے سے روک دیا۔ پولیس اہلکاروں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ان کے عقیدے کی توہین کی۔ مقامی عدالت کی ہدایت پر اس معاملے میں مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
(علامتی تصویر، فوٹو: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: کرناٹک کے باگل کوٹ ضلع کے ایک سرکاری ڈگری کالج کے کیمپس میں مبینہ طور پر ‘ٹوپی’ پہننے کی وجہ سے ایک طالبعلم کی پٹائی کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس معاملے میں کالج کے پرنسپل اور چھ پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
انیس سالہ طالب علم کی پہچان نوید حسن صاب تھرتھاری کے طور پر کی گئی ہے، جو کرناٹک کے باگل کوٹ ضلع کے ٹیراڈل میں فرسٹ کلاس گورنمنٹ ڈگری کالج میں پڑھتے ہیں۔
ایک مقامی جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پولیس کو اس کی تحقیقات کرنے کی ہدایت دیے جانے کے بعد 24 مئی کو ایک سب انسپکٹر اور پانچ دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا۔
ایف آئی آر کے مطابق، یہ واقعہ رواں سال 18 فروری کو پیش آیا تھا۔ ٹوپی پہننے کی وجہ سے مبینہ طور پر نوید کی تذلیل کی گئی، ان کے ساتھ مار پیٹ کی گئی اور انہیں کالج میں داخل ہونے سے روکا گیا۔
طالبعلم نے اپنی شکایت میں کہا کہ وہ ٹوپی پہن کر کالج گئے تھے، لیکن کالج کے پرنسپل نے انہیں داخلے کی اجازت نہیں دی، حالانکہ کالج کے اندر ٹوپی پہننے پر پابندی کا کوئی سرکاری حکم نہیں ہے۔
طالبعلم نے الزام لگایا کہ پولیس والوں نے ان کے ساتھ مار پیٹ کی اور ان کے عقیدے کی توہین کی۔ شکایت کے مطابق، یہ الزام ہے کہ نوید کے ساتھ چمڑے کی بیلٹ سے دو گھنٹے تک مار پیٹ کی گئی تھی۔
انڈین ایکسپریس کے مطابق، ٹیراڈل پولیس سب انسپکٹر راجو بلگی، پولیس افسران گنی پی ایچ، ملیکارجنا کینچنور، کلاٹھے ایس بی، مدن مٹی ایس سی، سناٹی اور سرکاری کالج کے پرنسپل اناپایا کو ایف آئی آر میں نامزد کیا گیا ہے۔
پولیس نے آئی پی سی کی دفعہ 109، 295 (اے)، 323، 324، 341، 342 اور 506 کے تحت مقدمہ درج کیا ہے۔
دریں اثناء منگلورو میں حجاب کا مسئلہ دوبارہ سامنے آنے کے بعد کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بسواراج بومئی نے 28 مئی کو کہا تھا کہ سب کو ہائی کورٹ اور حکومت کے احکامات پر عمل کرنا چاہیے۔
دراصل کرناٹک کےمنگلور یونیورسٹی نے یونیفارم کو لازمی قرار دینے کی ایڈوائزری جاری کرنے کے ایک دن بعد 28 مئی کوحجاب پہن کر لڑکیوں کا ایک گروپ کیمپس پہنچا تھا، جن کو انتظامیہ نے واپس بھیج دیا تھا۔
یہ کہتے ہوئے کہ منگلور یونیورسٹی میں سنڈیکٹ کی میٹنگ کے بعد اس مسئلہ کوبند کردیا گیا ہے، چیف منسٹر نے طلباء سے کہا کہ وہ ایسے مسائل میں پڑنے کے بجائے تعلیم پر توجہ دیں۔
اس سے پہلے حجاب کا مسئلہ 26 مئی کو ایک بار پھرسامنے آیا تھا، جب منگلورو کے ایک کالج کے طالبعلموں کے ایک گروپ نے کیمپس میں یہ الزام عائد کرتے ہوئے احتجاج کیا تھا کہ کچھ مسلم طالبات حجاب پہن کر کلاس میں جا رہی ہیں۔
معلوم ہو کہ حجاب کا تنازعہ سب سے پہلے کرناٹک کے اُڈپی ضلع کے ایک گورنمنٹ پری یونیورسٹی کالج میں اس وقت شروع ہوا جب پچھلے سال دسمبر میں چھ لڑکیاں حجاب پہن کر کلاس میں آئیں اور انہیں کالج میں داخلے سے روک دیا گیا۔
ان کے حجاب پہننے کے جواب میں ہندو طالبات بھگوا گمچھاپہن کر کالج آنے لگے۔ دھیرے دھیرے یہ تنازعہ ریاست کے دیگر حصوں میں بھی پھیل گیا، جس سے کئی مقامات پر تعلیمی اداروں میں کشیدگی پھیل گئی تھی۔
اس تنازعہ کے درمیان ان طالبات نے کرناٹک ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی تھی جس میں انہوں نے کلاس روم کے اندر حجاب پہننے کا حق دینے کی درخواست کی تھی۔
تعلیمی اداروں میں حجاب کو لے کر تنازعہ سے متعلق کیس کی سماعت کرتے ہوئے 15 مارچ کو کرناٹک ہائی کورٹ نے کہا تھا کہ حجاب پہننا اسلام میں لازمی مذہبی عمل کا حصہ نہیں ہے اوراس نے کلاسز میں حجاب پہننے کی اجازت دینے سے متعلق مسلم طالبات کی عرضیوں کو خارج کر دیا تھا اور ریاست کے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی کو برقرار رکھا تھا۔
مسلم لڑکیوں نے اس حکم کو کرناٹک ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا، جس پر ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ سنایا تھا۔ تاہم اسی دن اس حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا۔
گزشتہ 24 مارچ کو سپریم کورٹ نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کی فوراً سماعت کی درخواستوں کو خارج کر دیا تھا۔ درخواست کو مسترد کرتے ہوئے چیف جسٹس آف انڈیا این وی رمنا نے کہا تھا، اس کا امتحان سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ اسے سنسنی خیز مت بنائیے۔
(خبر رساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)