دینک بھاسکر کی تفتیش میں سامنے آیا ہے کہ مرکزی حکومت کی پالیسی کے تحت چھوٹی اور درمیانی صنعتوں کو سستے داموں میں فروخت کیے جانے والے کوئلے کو ریاستی حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایجنسیوں نے کئی گنا زیادہ قیمت پر دوسری ریاستوں کے تاجروں کوفروخت کیا اور دستاویزوں میں فرضی طریقے سے دکھایا گیا کہ یہ کوئلہ اسٹیک ہولڈرز کو ملا ہے۔
(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)
نئی دہلی: گجرات میں کوئلے کا ایک بڑا گھوٹالہ سامنے آیا ہے، جس کے تحت گجرات کے سرکاری افسران نے ڈمی یا ایسی کمپنیوں کے ساتھ مل کر ہزاروں کروڑ روپے کا کوئلہ ریاست سے باہر فروخت کردیا جن کا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔
دینک بھاسکر گروپ کے ایک گجراتی اخبار دیویہ بھاسکر کی تفتیش میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کول انڈیا کی مختلف کوئلہ کانوں سے گجرات کی چھوٹی اور درمیانے درجے کی صنعتوں کو کوئلہ دیا جانا تھا، لیکن اس کام کے لیے ریاستی حکومت کی طرف سے نامزد ایجنسیوں نے اس کوئلے کو دوسری ریاستوں کو بیچ کر موٹا منافع کمایا۔
تفتیش کے مطابق، یہ گھوٹالہ پانچ سے چھ ہزار کروڑ روپے کا ہے اور 14 سالوں سے چل رہا تھا۔
اخبار کا دعویٰ ہے کہ اس کی طرف سے چھان بین کیے گئے دستاویزوں سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ کول انڈیا کی کانوں سے گجرات کے تاجروں کو کم مارکیٹ ریٹ پر فروخت کرنے کے لیے 60 لاکھ ٹن کوئلہ بھیجا گیا۔ اوسطاً تین ہزار روپے فی ٹن کے حساب سے اس کی قیمت 1800 کروڑ روپے ہوتی ہے، لیکن گجرات کے چھوٹے تاجروں کو فروخت کرنے کے بجائے اسے دیگر ریاستوں میں 8 سے 10 ہزار روپے فی ٹن کے حساب سے فروخت کیا گیا۔
جس پالیسی کے تحت گجرات کی چھوٹی صنعتوں کو کول انڈیا کے ذریعے کوئلہ مل رہا تھا، وہ حکومت ہند نے 2007 میں وضع کی تھی اور یہ 2008 میں نافذ ہوئی تھی۔ اس پالیسی کا ہدف ملک بھر کی چھوٹی صنعتوں کو سستی قیمتوں پر اچھے معیار کا کوئلہ فراہم کرنا تھا۔
اخبار نے اطلاع دی ہے کہ جن صنعتوں کو اس پالیسی کا فائدہ ملنا تھا، ان کی فہرست گجرات حکومت کول انڈیا کو بھیجتی ہے۔ مذکورہ فہرست میں صنعت کا نام، کوئلے کی مطلوبہ مقدار، کس ایجنسی کے ذریعے کوئلہ لیا جائے گا، اس کی جانکاری ہوتی ہے۔ یہ فہرست حکومت کی محکمہ صنعت بھیجتی ہے۔ اس فہرست کے ساتھ ریاستی حکومت ان ایجنسیوں کے نام بھی بھیجتی ہے جو کول انڈیا سے کوئلہ لینے کےبعد مستفید ہونے والوں کو کوئلہ پہنچانے کی مجازہوتی ہیں۔
بھاسکر کا دعویٰ ہے کہ ان کی جانچ میں حکومت کی طرف سے بھیجی گئی یہ فہرست غلط پائی گئی۔ دستاویزوں میں جن صنعتوں کے نام پر کول انڈیا سےکوئلہ لیا گیا، وہ ان صنعتوں تک پہنچا ہی نہیں۔
اس حوالے سے اخبار نے اپنی رپورٹ میں بعض صنعتوں کی مثالیں بھی دی ہیں۔ مثال کے طور پر، شیہور کی صنعت میں جئے جگدیش ایگرو انڈسٹریز کوفائدہ اٹھانے والے کے طور پر دکھایا گیا ہے، لیکن انڈسٹریز کے جگدیش چوہان کا کہنا ہے کہ انہیں یہ بھی نہیں معلوم کہ انہیں حکومت سے کوئلہ ملتا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ مقامی بازار سے کوئلہ خریدتے ہیں۔
کچھ ایسا ہی،اے ایف ڈی ہائیڈریٹیڈ کے شانو بادامی نے کہا، ہمیں کوئلے کی ایسی کوئی کھیپ کبھی نہیں ملی۔ ہم اپنی ضرورت کا زیادہ تر کوئلہ جی ایم ڈی سی کی کانوں سے خریدتے ہیں یا ہم درآمد شدہ کوئلہ خریدتے ہیں، جو ہمارے لیے مہنگا ہے۔
وہیں، گجرات حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایجنسی گجرات کول کوک ٹریڈ ایسوسی ایشن کے ڈائریکٹر، علی حسنین دوسانی نے اس اخبار کو بتایا کہ وہ اپنا زیادہ تر کوئلہ جنوبی گجرات کی ٹیکسٹائل صنعتوں کو فراہم کرتے ہیں۔
لیکن، جنوبی گجرات ٹیکسٹائل پروسیسرز ایسوسی ایشن کے جتیندر وکھریا نے ان کے دعووں کو خارج کرتے ہوئے کہا، میں 45 سالوں سے اس کاروبار میں ہوں۔ ایسی اسکیم کے تحت کبھی کسی بھی طرح کاکوئلہ نہیں ملا۔
یہی نہیں گجرات حکومت کی طرف سے مقرر کردہ ایجنسیاں بھی جعلی پائی گئی ہیں۔ ایجنسیوں کی طرف سے رجسٹرڈ پتوں کی جانچ کرنے پر یہ بات سامنے آئی کہ مذکورہ جگہ پر اس نام کی کوئی ایجنسی ہی نہیں ہے۔ اخبار نے کچھ ایسی ایجنسیوں کے نام بھی دیے ہیں۔
اخبار کا کہنا ہے کہ جب اس نے اس حوالے سے سرکاری محکمے کے حکام اور کول ٹرانسپورٹ سسٹم سے وابستہ اہلکاروں سے کوئلے کے غائب ہونے کی حقیقت جاننے کی کوشش کی تو سب نے ‘نو کمنٹ’ کہہ کر خاموشی اختیار کرلی۔
وہیں مرکزی وزارت کوئلہ کے سکریٹری انل جین نے کہا کہ ریاست کی طرف سے مقرر کردہ ایجنسیوں کو کوئلہ دینے کے بعد ہمارا رول ختم ہو جاتا ہے۔
کول انڈیا کے ڈائریکٹر ستیندر تیواری نے کہا کہ ایجنسیوں کی تقرری کرنا ریاستی حکومت کے محکمہ صنعت کی ذمہ داری ہے۔
محکمہ صنعت کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری سے بات کرنے پر انہوں نے کہا کہ ایسا کچھ بھی ان کے علم میں نہیں آیا۔ کول انڈیا یا چیف سکریٹری سے پوچھیں۔
وہیں، انڈسٹریز کمشنر راہل گپتا نے کہا کہ پہلے یہ پالیسی انڈسٹریز کمشنر کے دفتر کے تحت تھی، لیکن اب یہ ایم ایس ایم ای کمشنر کے دائرہ اختیار میں ہے۔
ایم ایس ایم ای کمشنر رنجیت کمار نے کہا، یہ پالیسی حال ہی میں لاگو کی گئی ہے، میں اتر پردیش کے انتخابی نظام کو دیکھ رہا ہوں، اس لیے کچھ نہیں کہہ سکتا۔
وہیں جوائنٹ انڈسٹریز کمشنر سنجیو بھاردواج نے کہا کہ یہ جانکاری دینے میں کچھ وقت لگے گا، لیکن بعد میں اخبار کے بار بار رابطہ کرنے پر بھی انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔
اخبار کے مطابق،کول انڈیا میں اعلیٰ عہدوں پر رہ چکے ایک افسر نے گجرات حکومت کے کام کرنے کے طریقےسوال کھڑے کیے ہیں۔
انہوں نےگجرات میں بڑے پیمانے پر بدعنوانی کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ،گجرات حکومت کو دراصل کول انڈیا کو پوری جانکاری دینی ہوتی ہے، لیکن ریاستی حکومت اس معاملے میں گڑبڑی کرتی رہی ہے۔صحیح جانکاری اور تفصیلات کے باوجود گول مول جانکاری دی جاتی ہے۔
اس گھوٹالے میں گجرات حکومت کے افسران کے ملوث ہونے کے بارے میں بات کرتے ہوئے اخبار نے اطلاع دی ہے کہ کول انڈیا کی ویب سائٹ پر دیگر ریاستوں نے مالی سال کے مطابق کوئلے کی مقدار، متعلقہ ایجنسی/دفتر کا پورا نام، ٹیلی فون نمبر، ای میل ایڈریس وغیرہ کی جانکاری دی ہے،جبکہ حکومت گجرات نے محکمہ اطلاعات میں ایجنسی کے نام کے کالم میں اے بی سی ڈی، اے ایس ڈی ایف،999999999 لکھ کر خانہ پُری کی ہے۔
اس کے علاوہ دیگر ریاستوں کا حوالہ دیتے ہوئے اخبار نے کہا ہے کہ متعلقہ ریاستیں دیگر ریاستوں میں کوئلہ لانے کا کام اپنے اپنے ہی کسی محکمے کو سونپتی ہیں، جبکہ گجرات میں گزشتہ برسوں میں صرف چند منتخب ایجنسیوں کی ہی تقرری کی گئی ہے۔