اپوزیشن کا کہنا ہے کہ وہ اس بات سے مایوس ہے کہ سپریم کورٹ نے جموں و کشمیر ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت کو کم کرکے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کرنے کے سوال پر فیصلہ نہیں دیا۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 کو ہٹانے کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے سپریم کورٹ کے فیصلے پر کانگریس نے کہا کہ وہ ‘احترام کے ساتھ اس فیصلے سےمتفق نہیں’ ہے۔
کانگریس لیڈر پون کھیڑا، پی چدمبرم اور ابھیشیک منو سنگھوی 11 دسمبر 2023 کو نئی دہلی میں ایک پریس کانفرنس کے دوران۔ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)
نئی دہلی: سپریم کورٹ کی جانب سے سوموار (11 دسمبر) کو اپنے فیصلے میں جموں و کشمیر میں
آرٹیکل 370 کو ہٹانےوالے آئینی حکم کو برقرار رکھنے کے بعد اپوزیشن جماعتوں نے ملک میں وفاقیت کے مستقبل پر سوال اٹھائے ہیں۔
عدالت نے اگست 2019 میں جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کے ذریعے سابقہ جموں و کشمیر ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کے نریندر مودی حکومت کے اقدام کو چیلنج کرنے والی عرضیوں کی سماعت کے بعد اپنا فیصلہ سنایا تھا۔
قومی دارالحکومت میں سوموار کی شام (11 دسمبر) کانگریس نے کہا کہ وہ سپریم کورٹ کے فیصلےسے ‘احترام کے ساتھ متفق نہیں’ ہے۔
سابق مرکزی وزیر داخلہ پی چدمبرم نے پریس کانفرنس میں کہا، ‘جس طرح آرٹیکل 370 کو ہٹایاگیا تھا، اس طریقے پرہم فیصلے سے احترام کے ساتھ متفق نہیں ہیں۔’
انہوں نے کہا، ‘ہم اگست 2019 کی سی ڈبلیو سی (کانگریس ورکنگ کمیٹی) کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ آرٹیکل 370 اس وقت تک احترام کے لائق ہے جب تک کہ اس میں آئین ہند کے مطابق سختی سے ترمیم نہیں کی جاتی۔’
پارٹی نے یہ بھی کہا کہ وہ ‘مایوس’ ہے کہ عدالت نے اس سوال پر فیصلہ نہیں کیا کہ کیا پارلیامنٹ کسی ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ میں تبدیل کر سکتی ہے۔
لائیو لاء کے مطابق، جموں و کشمیر تنظیم نو ایکٹ 2019 کی قانونی حیثیت عدالت کے سامنے کئی معاملوں میں سے ایک تھا، لیکن عدالت نے سالیسٹر جنرل آف انڈیا کے اس استدلال کے پیش نظر اس پر کوئی فیصلہ نہیں دیا کہ جموں کشمیر کا ریاستی درجہ از جلد بحال کیا جائے گا۔
تاہم، عدالت نے آئین کے آرٹیکل 3، جو ریاست کے ایک حصے کو یونین ٹریٹری بنانے کی اجازت دیتا ہے— کا حوالہ دیتے ہوئے لداخ کے مرکز کے زیر انتظام علاقے کی تشکیل کو برقرار رکھا۔
چدمبرم نے کہا،’ہمیں اس بات سے بھی مایوسی ہوئی ہے کہ معزز سپریم کورٹ نے ریاست کو تقسیم کرنے اور اس کی حیثیت کو کم کر کے دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں کرنے کے سوال پر فیصلہ نہیں کیا۔’
پریس کانفرنس میں موجود راجیہ سبھا ایم پی اور وکیل ابھیشیک منو سنگھوی نے کہا کہ آرٹیکل 3 کے تحت پوری ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ نہیں بنایا جا سکتا۔
انہوں نے کہا کہ ‘ریاست کے درجے کے حوالے سے اس فیصلے میں عجیب تضاد ہے۔’
انہوں نے کہا، ‘آئین کے آرٹیکل 3 کے تحت آپ کسی ریاست کے حصے کو یونین ٹریٹری بنا سکتے ہیں، یا کسی ریاست کو دو یا تین ریاستوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ لیکن آرٹیکل 3 میں یہ شرط ہے کہ اس کا کچھ حصہ ریاست میں رہنا چاہیے۔ آپ پوری ریاست کو صرف یونین ٹریٹری نہیں بنا سکتے۔’
انہوں نے کہا، ‘اس فیصلے میں تضاد یہ ہے کہ آپ نے پوری ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کر دیا ہے۔ اور ایک یونین ٹریٹری کے بارے میں آپ نے کہا ہے کہ ہم قانونی حیثیت کے بارے میں کوئی فیصلہ نہیں لے رہے ہیں، کیونکہ ہمیں یقین دلایا گیا ہے کہ جلد از جلد مکمل ریاست کا درجہ بحال کر دیا جائے گا۔ دیگر مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے معاملے میں یہ مانا گیا ہے کہ یہ درست ہے۔ اس لیے جب تک اس پورے علاقے کا ایک حصہ ریاست نہیں بن جاتا، تب تک یہ آرٹیکل 3 کے تحت قابل قبول نہیں ہو سکتا۔’
انہوں نے فیصلے میں آئینی نقص کی بات کہی۔
دیگر اپوزیشن جماعتوں نے بھی سابقہ ریاست کو دو مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کی قانونی حیثیت پر فیصلہ دینے سے عدالت کے انکار پر سوال اٹھایا ہے۔
اس معاملے میں سپریم کورٹ میں درخواست گزار سی پی آئی (ایم) نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ یہ فیصلہ تشویشناک ہے اور ہمارے آئین کے وفاقی ڈھانچے پر اس سنگین نتائج دیکھنے کو ملیں گے، جو اس کی بنیادی خصوصیات میں سے ایک ہے۔
پارٹی کے پولت بیورو کے بیان میں تشویش کا اظہار کیا گیا ہے کہ یہ فیصلہ مرکزی حکومت کو یکطرفہ طور پر ‘نئی ریاستوں کی تشکیل، علاقوں، حدود یا موجودہ ریاستوں کے ناموں کو تبدیل کرنے’ کی اجازت دیتا ہے۔ اس سے وفاقیت اور منتخب ریاستی مقننہ کے حقوق کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔’
اے آئی ایم آئی ایم لیڈر اسدالدین اویسی نے کہا، ‘ریاست کو ڈی گریڈ کرکے یونین کے زیر انتظام علاقہ بنانا جموں و کشمیر کے لوگوں کے ساتھ بہت بڑا دھوکہ ہے اور یہ مرکزی حکومت کو دوسری ریاستوں کو یونین ٹریٹری بنانے سے نہیں روکے گا۔’
انہوں نے سوشل سائٹ پر لکھا، واضح کر دوں کہ بومئی فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہا تھا کہ وفاقیت آئین کے بنیادی ڈھانچے کا حصہ ہے۔وفاقیت کا مطلب ہے کہ ریاست کی اپنی آواز ہے اور اسے اپنے علاقے میں کام کرنے کی مکمل آزادی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ اسمبلی کے بجائے پارلیامنٹ بولے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ پارلیامنٹ اس قرارداد کوپاس کرے، جس کا آئین میں اسمبلی کے ذریعے منظور کیے جانے کا ذکر ہے؟ میرے لیے، جس طرح سےآرٹیکل 370 کو ہٹایا گیا وہ آئینی اخلاقیات کی خلاف ورزی تھی۔’
انہوں نے کہا، ‘میں یہ بات پہلے بھی ایک بار کہہ چکا ہوں اور پھر سے کہوں گا۔ ایک بار اسے قانونی حیثیت دے دی گئی ، تومرکزی حکومت کو چنئی، کولکاتہ، حیدرآباد یا ممبئی کو یونین ٹریٹری بنانے سے کوئی بھی نہیں روک سکتا۔ لداخ کو دیکھیے، اسے لیفٹیننٹ گورنر چلا رہے ہیں اور یہاں کوئی جمہوری نمائندگی نہیں ہے۔’
شیو سینا جیسی جماعتوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے، لیکن جلد از جلد انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل 2023 پر راجیہ سبھا میں بات کرتے ہوئے شیو سینا ایم پی پرینکا چترویدی نے کہا کہ ان کی پارٹی سپریم کورٹ کے فیصلے کا دل سے خیر مقدم کرتی ہے اور مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ کو یاد دلایا کہ 2019 میں یہ بل پیش کرتے ہوئے انہوں نے امن بحال کرنے اور جلد از جلد انتخابات کرانے کا وعدہ کیا تھا۔
ایکس پر ایک پوسٹ میں انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اب فوراً انتخابات کا اعلان کیا جانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنایا جانا چاہیے کہ شہریوں کے جمہوری حقوق اور آوازوں کو سنا جائے۔’
کانگریس نے بھی ستمبر 2024 تک اسمبلی انتخابات کرانے کے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کیا۔
چدمبرم نے کہا، ‘کانگریس نے ہمیشہ مرکز کے زیر انتظام جموں و کشمیر کو مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہم اس حوالے سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہیں۔ مکمل ریاست کا درجہ فوراً بحال کیا جائے۔ لداخ کے لوگوں کی خواہشات بھی پوری ہونی چاہیے۔ ہم اسمبلی انتخابات کرانے کے لیے سپریم کورٹ کی ہدایت کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ تاہم ہم سمجھتے ہیں کہ انتخابات فوراً ہونے چاہیے۔’
عام آدمی پارٹی (اے اے پی)، جس نے 2019 میں آرٹیکل 370 پر مرکزی حکومت کے اقدام کا خیرمقدم کیا تھا، مرکز کے زیر انتظام علاقوں پر سپریم کورٹ کے فیصلے پر کوئی رد عمل ظاہر نہیں کیا ہے۔
دریں اثنا، سوموا کو راجیہ سبھا میں جموں و کشمیر ریزرویشن (ترمیمی) بل 2023 پر بحث کے دوران کافی ہنگامہ ہوا۔
جب اپوزیشن ارکان نے سپریم کورٹ کے فیصلے پر سوال اٹھائے تو راجیہ سبھا کے چیئرمین اور نائب صدر جگدیپ دھنکھڑنے کہا کہ فیصلے کے خلاف بولنا ٹھیک نہیں ہے۔ جب عدلیہ نے کسی خاص معاملے پر ایک جامع اور فیصلہ کن نقطہ نظر اختیار کیا ہے تو ہمیں اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلے کے خلاف کوئی کیسے بول سکتا ہے؟ ہم اس طرح کے فیصلے کا مذاق نہیں اڑ سکتے۔
ادھر وزیر اعظم نریندر مودی نے اس فیصلے کی تعریف کی ہے۔
انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا، ‘ دفعہ 370 ختم کرنے سے متعلق سپریم کورٹ کا آج کا فیصلہ تاریخی ہے اوراس میں 05 اگست، 2019 کو بھارت کی پارلیمنٹ کی طرف سے کئے گئے فیصلے کو آئینی طور پر برقرار رکھا گیا ہے۔ یہ جموں و کشمیر اور لداخ میں ہمارے بہن بھائیوں کے لئے امید، ترقی اوراتحاد کا اعلامیہ ہے۔ عدالت نے اپنی تمام تر عقل و دانش کے ساتھ اتحاد کے جذبے کی حفاظت کی ہے، جسے ہم بھارتی شہری انتہائی عزیز رکھتے ہیں اور اسے سارے معاملات سے بالاتر سمجھتے ہیں۔
انہوں نے کہا، میں جموں و کشمیر اور لداخ کے، صبر کے حامل لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کے خوابوں کو پورا کرنے کا ہمارا عزم، غیر متزلزل ہے۔ ہم اس بات کو یقینی بنانے کا تہیہ کئے ہوئے ہیں کہ ترقی کے فائدے نہ صرف آپ تک پہنچیں بلکہ سماج کے ان سب سے زیادہ کمزور اور پسماندہ طبقات تک بھی پہنچیں، جنھوں نے دفعہ 370 کی وجہ سے مصیبتیں اٹھائی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ ،آج کا یہ فیصلہ محض کوئی قانونی فیصلہ نہیں ہے؛ یہ امید کی ایک کرن ہے۔ ایک تابناک مستقبل کا وعدہ ہے اور ایک مضبوط اور مزید متحد بھارت کی تعمیر کے تئیں ہمارے اجتماعی عزم کا ایک ثبوت ہے۔
انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔