چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع میں سیکورٹی فورسز نے 10 مئی کو ایک انکاؤنٹر میں 12 مبینہ ماؤنوازوں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔ اہل خانہ کا کہنا ہے کہ 12 میں سے 10 پیڈیا اور ایتوار گاؤں کے رہنے والے تھے اور کھیتی-باڑی کیا کرتے تھے۔
مبینہ انکاؤنٹر کے اگلے دن بیجاپور ضلع ہیڈکوارٹر پر احتجاج کرنے پہنچے لوگ۔ (تصویر: پشپا روکڑے)
نئی دہلی: چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع کے گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ ہفتے سیکورٹی فورسز کے ساتھ ہوئے انکاؤنٹر میں مارے جانے والے ‘نکسلی’ نہیں تھے، بلکہ جائے وقوعہ کے قریب واقع دو گاؤں کے رہنے والے تھے۔
اتوار کو بیجاپور ضلع ہیڈکوارٹر کے باہر گاؤں والوں نےاحتجاج کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کے خاندان کے افراد کو سیکورٹی فورسز نے ‘فرضی انکاؤنٹر’ میں مار دیا ہے۔ وہیں ، پولیس کا کہنا ہے کہ جمعہ 10 مئی کو ہونے والے انکاؤنٹر میں مارے گئے تمام افراد ماؤ نواز تھے۔
بیجاپور پولیس نے ایک فہرست بھی جاری کی ہے، جس میں تمام مہلوکین کے ناموں کے ساتھ ماؤنواز تنظیم میں ان کے مبینہ عہدوں اور ان پر اعلان کردہ انعامی رقم کا بھی ذکر ہے۔ پولیس کے مطابق مہلوکین کے نام یہ ہیں—
بدھو اویام، ملٹری کمپنی نمبر 2 ممبر، انعام کی رقم 8 لاکھ روپے
کلو پونیم، ملٹری کمپنی نمبر 2 ممبر، انعام کی رقم 8 لاکھ روپے
لکھے کنجام، ممبر گنگالور ایریا کمیٹی، انعام کی رقم 5 لاکھ روپے
بھیما کارم، ملٹری پلاٹون نمبر 12 ممبر، انعام کی رقم 5 لاکھ روپے
سنو لکوم، ملیشیا پلاٹون کمانڈر، انعام کی رقم 2 لاکھ روپے
سکھ رام اولم، جنتا سرکار، (آرپی سی) نائب صدر، پیڈیا، انعام کی رقم 2 لاکھ روپے
ان کے علاوہ، پولیس کی فہرست چھ دیگر مہلوکین کو ملیشیا ممبر قرار دیتی ہے – چیتو کنجام، سنو اولم، سنیتا کنجام، جاگے برسی، بھیما اویام اور دولا تامو۔
غور طلب ہے کہ ملیشیا ممبر سی پی آئی (ماؤسٹ) کے سرگرم رکن نہیں ہوتے۔ یہ وہ گاؤں والے ہیں، جو نکسلیوں کو کچھ مدد فراہم کرتے ہیں۔ جب پولیس کو کسی کو نکسلی ثابت کرنا ہوتا ہے تو وہ اسے ملیشیا قرار دیتی ہے۔
مہلوکین کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ ہلاک ہونے والے 12 میں سے 10 پیڈیا اور اتوار گاؤں کے تھے۔ ان کا ماؤنوازوں سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ وہ کھیتی باڑی کرتے تھے۔
گاؤں والوں نے پولیس کی فہرست میں درج باقی دو ناموں کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔
گاؤں والوں نے اس فہرست میں ایک نام پر سوال بھی اٹھایا ہے کہ پولس جس کو بھیما کارم کہہ رہی ہے، وہ دراصل چھوٹو نامی شخص تھا۔
دی وائر نے اس سلسلے میں کئی مقامی باشندوں سے بات کی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 10 مئی کی صبح پیڈیا کے جنگل میں پولیس اور ماؤنوازوں کے درمیان تصادم ہوا، جس میں دو مبینہ ماؤنواز مارے گئے۔ گنگالور پولیس اسٹیشن کے تحت آنے والا پیڈیا بیجاپور ضلع ہیڈکوارٹر سے تقریباً 50 کلومیٹر جنوب میں ہے۔
پیڈیا گاؤں کے لوگ۔ (تصویر بہ شکریہ:بستر ٹاکیز/یوٹیوب)
لوگوں نے بتایا کہ اس انکاؤنٹر کے چند گھنٹے بعد جب فورس واپس آرہی تھی تو انہوں نے کچھ آدی واسیوں کو دیکھا جو جنگل میں تیندو پتہ اکٹھا کرنے آئے تھے۔ گاؤں والوں کے مطابق، ‘پولیس نے انہیں دوڑا کر نالے کی طرف لے گئی جہاں ان پر فائرنگ کی گئی۔’
دی وائر نے بستر مرکوز خبروں کے لیے معروف ‘بستر ٹاکیز’ کے مدیر وکاس تیواری سے بات کی جو اس واقعے کے فوراً بعد موقع پر پہنچے تھے۔ ان کے مطابق، گاؤں والوں نے انھیں بتایا کہ ‘تقریباً تمام مہلوکین پیڈیا اور ایتوار گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ گاؤں والوں نے دو کو چھوڑ کر تمام مہلوکین کی شناخت کر لی ہے… انہوں نے ان میں سے کسی کے بھی ماؤ نواز ہونے کے دعوے کو یکسر مسترد کیا۔’
پیڈیا کے رہنے والے راکیش اولم نے وکاس تیواری کو بتایا، ‘گاؤں کے لوگ تیندو پتہ توڑنے کے لیے جنگل گئے ہوئے تھے، تبھی پولیس نے علاقے کو اپنے محاصرے میں لے لیا اور فائرنگ شروع کر دی۔ متعدد افراد ہلاک اور کئی زخمی ہوئے۔ زخمیوں میں سے ایک راکیش کا 15 سالہ بھائی موٹو اولم ہے، جس کے پیر میں تین گولیاں لگی ہیں۔ لیکن ان کے گھر والے ان کو ہسپتال نہیں لے جا رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘ہسپتال لے جانے پر پولیس اسے ماؤ نواز بتا کر گرفتار کر لے گی۔’
راکیش کا مزید کہنا ہے کہ فائرنگ کے بعد پولیس نے پیڈیا گاؤں سے 74 اور ایتوار گاؤں سے 29 لوگوں کو حراست میں لیا ہے۔
پولیس کی کارروائی پر شک ظاہر کرتے ہوئے وکاس تیواری نے کہا، ‘پولیس نے کہا ہے کہ 100 سے 150 مسلح ماؤنواز موقع پر موجود تھے۔ ان میں چیتو نامی ماؤنواز بھی تھا۔ چیتو بڑا نام ہے۔ اگر چیتو وہاں موجود تھا تو اس کے اردگرد آٹومیٹک ہتھیار والے ماؤنواز ہی ہوں گے، لیکن صرف چند بندوقیں ہی ضبط ہوئی ہیں۔’
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ‘نالے کے پاس کچھ خون آلود کپڑے پڑے تھے جو گاؤں والوں کے تھے۔ کچھ چپلیں تھیں، جنہیں گاؤں والے پہنتے ہیں۔ ماؤنواز اس قسم کے چپل اور کپڑے نہیں پہنتے۔’
وکاس تیواری گاؤں والوں کے ساتھ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)
پولیس کی فہرست میں
سنو اولم نامی شخص بھی شامل ہے۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اسے پولیس گرفتار کر کے لے گئی تھی، اور اس کے مارے جانے کی جانکاری انہیں پولیس کے جاری کردہ پریس نوٹ کے ذریعے ملی۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ شخص ٹھیک سے بول اورسن نہیں سکتا تھا۔ پولیس نے انہیں پہلے بھی تین بار پکڑا تھا، لیکن ٹھیک سے نہ بولنے- سننے کی وجہ سے چھوڑدیا گیا تھا۔
دوسری جانب بیجاپور کے ایس پی جتیندر یادو کا کہنا ہے،’گاؤں والوں کا دعویٰ نکسلی پروپیگنڈہ ہے۔ انکاؤنٹر میں نکسلیوں کو جو نقصان ہوا ہے ، وہ اس کو اجاگر نہیں کرنا چاہتے، اس لیے وہ گاؤں والوں کا سہارا لے رہے ہیں۔
پولیس نے یہ بھی دعویٰ کیا ہے کہ مارے گئے ماؤنوازوں کی شناخت ان کے ہی ایک ساتھی نے کی ہے جو اس واقعہ کے دوران گرفتار کیا گیا تھا۔ بیجاپور پولیس نے اس مبینہ نکسلی سے پوچھ گچھ کی ریکارڈنگ بھی مقامی صحافیوں کو جاری کی ہے۔
دی وائر نے بیجاپور کے ایس پی جتیندر یادو سے رابطہ کیا، لیکن کوئی جواب نہیں ملا۔
بیجاپور کے صحافی گنیش مشرا نے دی وائر کو بتایا کہ وہ جائے واردات پر گئے تھے۔ گنیش مشرا نے کہا، ‘یہ یقینی ہے کہ نکسلیوں اور سیکورٹی فورسز کے درمیان انکاؤنٹر ہوا تھا اور کچھ ماؤنواز مارے گئے تھے… لیکن یہ بھی لگ رہا تھا کہ انکاؤنٹر میں بے قصور گاؤں والےبھی مارے گئے ہیں۔’
دلچسپ ہے کہ مغربی بستر ڈویژن کمیٹی، سی پی آئی (ایم) (ماؤسٹ) کے سکریٹری موہن نے ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ پونیم کلو اور اوئیکا بدھو پی ایل جی اے (پیپلز لبریشن گوریلا آرمی) کے ممبر تھے، جبکہ باقی بے قصور آدی واسی تھے۔
مقامی سی پی آئی لیڈر کملیش جھاڑی نے دی وائر کو بتایا، ‘گاؤں والے تیندو پتہ توڑنے جنگل گئے رہتے ہیں، اور پولیس کو دیکھتے ہی بھاگنے لگتے ہیں۔ انہیں بھاگتے ہوئے دیکھ کر پولیس ان پر ماؤنواز ہونے کے شبہ میں گولی چلا دیتی ہے۔ جب یہ پتہ چلتا ہے کہ وہ گاؤں والے تھے، تو پولیس جھوٹے ہتھیار دکھا کر اور غلط ثبوت جمع کر کے خود کو بچانے کے لیے انھیں ماؤسٹ قرار دیتی ہے۔’
قابل ذکر ہے کہ دسمبر 2023 میں چھتیس گڑھ میں بی جے پی کی حکومت بننے کے بعد سے نکسل مخالف مہم میں کافی تیزی آئی ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس سال اب تک
103 ‘ماؤ نواز’ مارے جا چکے ہیں ۔ پچھلے سال یہ تعداد 30 تھی۔ 2019 کے بعد سب سے یہ اعداد وشمار سب سے زیادہ ہے۔
پولیس کی تازہ ریلیز کے مطابق، بیجاپور میں جنوری 2024 سے اب تک کل 180 نکسلیوں کو گرفتار کیا گیا ہے اور 76 نکسلیوں نے خودسپردگی کی ہے۔
یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔ بستر کی تاریخ ایسے سانحات سے بھری پڑی ہے جب معصوم آدی واسی سیکورٹی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بنے ہیں۔
بیجا پور کے
ایڈسمیٹا گاؤں میں مئی 2013 میں تقریباً 1000 سیکورٹی فورسز نے ‘بیجا پنڈم’ تہوار منانے والے آدی واسیوں پر فائرنگ کر دی تھی، جس میں 8 قبائلی مارے گئے تھے۔ سیکورٹی فورسز نے کہا تھا کہ یہ سبھی ماؤنواز تھے اور انہوں نے یہ کارروائی ماؤنوازوں کی فائرنگ کے جواب میں کی تھی۔ لیکن ہائی کورٹ کے ریٹائرڈ جج کی جانچ سے پتہ چلا تھا کہ انکاؤنٹر فرضی تھا اور ایک بھی مرنے والا ماؤ نواز نہیں تھا۔
ایک اور معاملے میں بیجاپور ضلع کے
سارکے گڑا میں سیکورٹی فورسز نے جون 2012 میں 6 نابالغوں سمیت 17 افراد ہلاک کر دیا تھا ۔ 28 جون کی رات کو قبائلی کسی تہوار کے لیے جمع ہوئے تھے۔ سیکورٹی فورسز نے اسے نکسلیوں کی بیٹھک سمجھ کر فائرنگ شروع کردی۔ جانچ میں سامنے آیا تھا کہ مرنے والا ایک بھی نکسلی نہیں تھا۔
(شروتی شرما میڈیا کی اسٹوڈنٹ ہیں اور دی وائر میں انٹرن شپ کر رہی ہیں۔)