ہسدیو ارنیہ علاقے کے سرپنچوں نے خط میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کے ‘آتم نربھر بھارت’والے خطاب کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہاں کی کمیونٹی کلی طور پر جنگل پر منحصر ہے، جس کی تباہی سے یہاں کے لوگوں کا مکمل وجود خطرے میں پڑ جائےگا۔
فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/@Savehasdeoaranya
نئی دہلی: چھتیس گڑھ میں ہسدیو ارنیہ علاقے کے کئی منتخب سرپنچوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کو خط لکھ کر مجوزہ کان کنی نیلامی کی مخالفت کی ہے۔سرپنچوں نے ماحولیات کے نظریے سے حساس اس علاقے میں کان کنی پر پابندی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ہسدیو ارنیہ علاقے میں شمالی چھتیس گڑھ کے تین اضلاع ؛سرگوجا، سورج پور اور کوربا آتے ہیں۔ وزارت کوئلہ کے حالیہ اقدام کے تحت جمعرات (18 جون)سے اس علاقے میں کان کنی کے لیے کوئلہ نیلامی کی کارروائی شروع ہونے والی ہے۔
اس کو لےکر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نو سرپنچوں نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر کہا ہے کہ ایک طرف وہ ‘آتم نربھرتا’ کی بات کرتے ہیں، وہیں دوسری طرف کان کنی کی اجازت دےکر آدیواسیوں اور جنگل میں رہنے والی کمیونٹی کے ذریعہ معاش، طرز معاشرت اور ثقافت پر حملہ کیا جا رہا ہے۔
گھاٹبرا(سرگوجا)کے سرپنچ جئے نندن سنگھ پورتے نے دی وائر سے فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ، ہم کسی طرح کی کان کنی نہیں چاہتے ہیں کیونکہ یہ ہمارے گزر بسر کے وسائل اورثقافت کو برباد کر دےگا۔ ان کا آگے کہنا تھا کہ ،قدرتی وسائل کی وجہ سے ہم پہلے سے ‘آتم نربھر’ہیں اور کان کنی سب کو برباد کر دے گی جیسا کہ ہم نے پاس کے ضلع رائےگڑھ میں دیکھا ہے۔
مدن پور(کوربا)کے سرپنچ دیوسائے نے دی وائر کو بتایا کہ گاؤں والے جل، جنگل اور زمین پر پوری طرح منحصر ہیں، جس کو کہ کان کنی ختم کر دے گی۔ یہ قدرتی وسائل ہی ہیں جو ہمیں ‘آتم نربھر’ بناتے ہیں۔ روپیہ پیسہ یا کسی اور طرح کا معاوضہ اس کی جگہ نہیں لے سکتا۔ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ کان کنی کی وجہ سے ندی نالے سوکھ جائیں گے جو کہ علاقے میں سینچائی کے اہم ذرائع ہیں۔
سرپنچوں نے وزیر اعظم کی توجہ اس جانب بھی مبذول کرائی ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب وہ اس طرح کی سرگرمیوں کی مخالفت کر رہے ہیں، بلکہ جب جب کان کنی کی صورت پیدا ہوئی ہے گاؤں کے نمائندوں نے اس کی مخالفت کی ہے۔مودی کو لکھے خط میں انہوں نے کہا، ‘ہمیں معلوم ہوا ہے کہ مذکورہ بالا حالات اور کورونا وائرس کی تباہی کے باوجود 18 جون کو ہمارے علاقےکی چھ کانوں کی نیلامی کی جا رہی ہے جو کہ بےحد حیران کن اورافسوسناک ہے۔ اس لیے ہم آپ سے ایک بار پھر سے گزارش کرتے ہیں کہ اس نیلامی کارروائی کو کلی طور پر روکا جائے اور ہسدیو ارنیہ علاقے میں کسی بھی کان کو الاٹ نہ کیا جائے۔’
Hasdeo Arand-Letter to PM F… by
The Wire on Scribd
سرپنچوں نے کہا کہ ہسدیو ارنیہ حیاتیاتی تنوع سے مالا مال ہاتھی سمیت کئی اہم جنگلی جانوروں کی رہائش ہے، جو چھتیس گڑھ ہی نہیں بلکہ پورے وسطی ہندوستان میں ماحولیات کے نظریے سے سب سے اہم علاقہ ہے۔ اسی وجہ سے سے اکثر اس علاقے کو ‘چھتیس گڑھ کے پھیپھڑوں’ کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔
انہوں نے آگے کہا، ‘ان حقائق کو سرکاری دستاویزوں میں بھی قبول کیا گیا ہے۔ وزارت ماحولیات کی جانب سے2010 میں اس پورے علاقے کو ‘نو گو’ قراردے کر کان کنی سے بچانے کی بات کہی گئی تھی، جو کہ پورے ملک کے کوئلہ سائٹ کے 10 فیصد سے بھی کم ہے۔ ہم اس علاقے کی نسلوں سے تحفظ و ترویج کرتے آئے ہیں۔ اگر اس علاقے میں کان کنی ہوئی تو نہ صرف پورا خطہ تباہ ہوگا بلکہ موسمیاتی تبدیلی سے ہندوستان کی لڑائی میں ایسی ٹھوکر لگےگی جس کی بھرپائی ناممکن ہے۔’
مقامی لوگوں نے وزیر اعظم کو ان کے ‘آتم نربھر بھارت’والے خطاب کی یاد دلاتے ہوئے کہا کہ یہاں کی کمیونٹی کلی طور پور جنگل پر منحصرہے، جس کی تباہی سے یہاں کے لوگوں کامکمل وجود خطرے میں پڑ جائےگا۔انہوں نے کہا، ‘ہمارا علاقہ آدیواسی اکثریت ہے جہاں پی ایس اے ایکٹ، ایف آر اے اور پانچویں شیڈول کے تحت پہلے سے ہی ‘آتم نربھرتا’ اورمقامی کمیونٹی کے نظم ونسق کے اہتمام متعین ہیں۔’
انہوں نے کہا کہ سرکار اس کورونا کا فائدہ اٹھاکر یہاں کے ذریعہ معاش پر حملہ کر رہی ہے اور ماحولیات کو شدید نقصان پہنچانے والی ہے۔سرپنچوں نے خط میں لکھا ہےکہ ، ‘فی الحال ہم کورونا وائرس بحران سے جوجھ رہے ہیں اور سرکار کی ہر ممکن مددکر رہے ہیں۔ ایسے میں یہ نیلامی ہماری کوششوں پر ایک کاری ضرب ہے اور کمیونٹی کی مایوسی کی بڑی وجہ بھی بنی ہے۔’
انہوں نے آگے کہا، ‘آئین میں دیے گئے اختیارات کے مطابق ہماری گرام سبھاؤں نے اتفاق رائے سے فیصلہ لیا ہے کہ نہ تو ابھی اور نہ ہی مستقبل میں کان کنی کی اجازت دیں گے۔ ایسے میں کانوں کی نیلامی بےوجہ مستقبل میں کان کنی کمپنیوں کی مخالفت اور ان کے ذریعے استحصال کاسبب بنےگی۔’
غور طلب ہے کہ یہ پہلا موقع نہیں ہے جب سرپنچوں نے اس علاقے میں کان کنی کی مخالفت کی ہے۔ اس سے پہلے 2015 میں جب کوئلہ بلاکوں کی پہلی بار نیلامی کی جا رہی تھی، تب اس علاقے کی 20 گرام سبھاؤں نے متفقہ طور پر کان الاٹ منٹ کے خلاف قرار داد منظور کی تھی۔
اس کے بعد پچھلے پانچ سالوں میں کئی بار اس طرح کی قرار داد منظور کی گئی ہے اور اس کی جانکاری متعلقہ وزارتوں کو بھی دی گئی ہے۔