چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع کے سرکےگوڈا گاؤں میں جون 2012 کو ہوئے مبینہ انکاؤنٹر میں چھ نابالغ سمیت 17 لوگوں کی موت ہو گئی تھی۔ جانچ رپورٹ میں سکیورٹی فورسز پر سنگین سوال اٹھائے گئے ہیں۔
(علامتی تصویر : پی ٹی آئی)
نئی دہلی: چھتیس گڑھ کے بیجاپور ضلع کے سرکےگوڈا گاؤں میں جون 2012 کو ہوئے مبینہ انکاؤنٹر کی تفتیش میں پتہ چلا ہے کہ گاؤں والوں کی طرف سے گولی باری نہیں کی گئی تھی۔ مارے گئے لوگوں کے ماؤوادی ہونے کے بھی ثبوت نہیں ملے ہیں۔
انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، 2012 میں ہوئے اس مبینہ انکاؤنٹر کی جانچ رپورٹ میں یہ انکشاف ہوا ہے، جس کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے سبکدوش جج جسٹس وی کے اگروال کی صدارت والے کمیشن نے اس مہینے کی شروعات میں ریاستی حکومت کو سونپ دیا۔ اس مبینہ انکاؤنٹر میں چھ نابالغ سمیت 17 لوگوں کی موت ہوئی تھی۔
ایک رکنی جوڈیشیل کمیشن کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گاؤں والوں پر ظلم و ستم کیا گیا اور بعد میں ان کو کافی قریب سے گولی ماری گئی۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے ہڑبڑاہٹ میں فائرنگ کی۔ رات میں کئی گھنٹوں کے مبینہ انکاؤنٹر کے بعد ان میں سے حراست میں لئے ایک گاؤں والے کو اگلی صبح گولی ماری گئی۔
اس رپورٹ میں کہا گیا کہ انکاؤنٹر کے دوران جو چھ سکیورٹی اہلکار ہ زخمی ہوئے ہیں، وہ شاید ساتھی سکیورٹی اہلکار کے ذریعے کی گئی کراس فائرنگ میں زخمی ہوئے ہیں۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ جانچ میں جان بوجھ کر گڑبڑی کی گئی۔ حالانکہ، گاؤں والوں کا یہ دعویٰ ہے کہ وہ تہوار کے بارے میں چرچہ کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے تھے، یہ بھی بےحد مشکوک ہے۔
غور طلب ہے کہ ماؤوادیوں کے ہونےکی اطلاع ملنے کے بعد 28 جون 2012 کی رات کو سی آر پی ایف اور چھتیس گڑھ پولیس کی ٹیموں نے آپریشن شروع کیا تھا۔ سکیورٹی فورسز کے مطابق، دو ٹیمیں باساگڈا سے روانہ ہوئیں اور تین کلومیٹر دور سرکےگوڈا میں ایک ماؤوادی میٹنگ میں پہنچی تھیں۔ اس میٹنگ میں حصہ لے رہے گاؤں والوں نے پولیس والوں کو دیکھکر ان پر گولیاں چلانی شروع کر دی تھی، جواب میں پولیس نے بھی ان پر گولیاں چلائیں۔
حالانکہ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ وہ ‘ بیج پنڈم ‘ تہوار پر گفتگو کرنے کے لئے اکٹھا ہوئے تھے کہ تبھی حفاظتی دستہ نے ان کو گھیر لیا اور ان پر گولیاں چلا دی۔ گاؤں والوں کا کہنا ہے کہ اگلے دن ارپا رمیش نام کے شخص کو پولیس نے اس کے گھر سے اٹھا لیا اور اس کا قتل کر دیا گیا۔ چھتیس گڑھ کی اس وقت کی رمن سنگھ حکومت نے 11 جولائی 2012 کو اس واقعہ کی جوڈیشیل جانچکے حکم دئے تھے۔
جسٹس اگروال کے ذریعے رپورٹ سونپنے کی تصدیق کرتے ہوئے چھتیس گڑھ حکومت کے ایک سینئر افسر نے کہا، ‘ ایک رپورٹ ملی ہے۔ اس کو اب کابینہ کے سامنے پیش کیا جائےگا۔ وہاں سے منظور ہونے کے بعد اس کو اسمبلی میں پیش کیا جائےگا۔ ‘ رپورٹ میں کہا گیا کہ دونوں فریقوں کی طرف سے گواہوں کے بیانات میں گڑ بڑی ہیں۔ ریکارڈ میں درج ثبوتوں اور حالات پر دوبارہ غور کرنے اور ان پر چرچہ کرنے کی ضرورت ہے۔