بی جے پی کرناٹک نے کہا ہے کہ ، ‘ٹیپو جینتی’ کی عوامی تقریبات کا خاتمہ کرکے ، ہمارے وزیر اعلی نے ریاست کی عزت بحال کی ہے۔اب اگلے قدم کے طو رپرہمارے بچوں کے سامنے اصلی ٹیپو سلطان کو سامنے لانے کے لیے درسی کتاب کوپھر سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ان کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ ٹیپو نے ہندوؤں کے خلاف ظلم کیا اور وہ کنڑ مخالف تھا۔
بی ایس یدورپا/ فوٹو: پی ٹی آئی
نئی دہلی : کرناٹک کے وزیر اعلیٰ بی ایس یدورپا نے بدھ کو کہا کہ ٹیپو سلطان کو عظیم بتانے والے تاریخ کے اسباق کو اسکول کی درسی کتابوں سے ہٹا جائے گا۔انہوں نے کہا ، ہماری حکومت ریاست میں ٹیپو سلطان سے متعلق تاریخ کے اسباق کو درسی کتابوں سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے۔اس طرح کے موضوعات کو درسی کتابوں میں جگہ نہیں ملنی چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ 101 فیصدی ہم اس طرح کی چیزیں ہونے نہیں دیں گے ۔
اس کے فوراً بعد بی جے پی کرناٹک نے ٹوئٹ کیا کہ ، ‘ٹیپو جینتی’ کی عوامی تقریبات کا خاتمہ کرکے ، ہمارے وزیر اعلی نے ریاست کی عزت بحال کی ہے۔اگلے قدم کے طو رپرہمارے بچوں کے سامنے اصلی ٹیپو سلطان کو سامنے لانے کے لیے درسی کتاب کوپھر سے لکھنے کی ضرورت ہے۔ان کو آگاہ کرنا ضروری ہے کہ ٹیپو نے ہندوؤں کے خلاف ظلم کیا اور وہ کنڑ مخالف تھا۔
غور طلب ہے کہ ریاست کے وزیر اعلیٰ یدورپا کا بیان کرناٹک کے بی جے پی ایم ایل اے رنجن کے اس
مطالبے کے بعد آیا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا ٹیپو سلطان سے متعلق سبق کو درسی کتاب سے ہٹایا جائے ۔
اس سے پہلےکرناٹک کے وزیر تعلیم سریش کمار نے افسروں سے کہا تھا کہ وہ 18 ویں صدی کے میسور ریاست کے متنازعہ حکمراں ٹیپو سلطان پر مشتمل باب کو تاریخ کی نصابی کتابوں سے ہٹانے کے بی جے پی ایم ایل کے مطالبے پر غور کریں اور تین دن میں رپورٹ دیں ۔پرائمری اورسکینڈری ایجوکیشن منسٹر نے کرناٹک ٹیکسٹ بک سوسائٹی کے مینجنگ ڈائریکٹر کو خط لکھ کر کہا تھا کہ وہ ایم ایل اے رنجن کو معاملے پر بات چیت کے لیے مدعو کریں۔
انہوں نے کہا ہے کہ ایم ایل رنجن سے اس معاملے میں میٹنگ کرکے طے کیا جائے کہ نصاب میں اس باب کی ضرورت ہے یا نہیں ۔ اس کو رکھنا ہے یا ہٹانا ہے ۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ ان کو اس بارے میں تین دن میں رپورٹ دی جائے۔کمار نے کہا ہے کہ ، ایم ایل اے کی گزارش کے مطابق، تاریخ کی نصابی کتاب میں ٹیپو سلطان پر باب کے بارے میں متعلقہ کمیٹی کی ایک میٹنگ بلائی جائے ۔ انہوں نے اپنے نوٹ میں کہا ہے کہ، بی جے پی ایم ایل اے رنجن کو میٹنگ میں بلائیے اور اس بارے میں رپورٹ کیجیے۔
واضح ہوکہ ایم ایل اے رنجن نے گزشتہ ہفتے وزیر کو خط لکھ کر مطالبہ کیا تھا کہ ٹیپو سلطان والے باب کو نصاب سے ہٹا دینا چاہیے۔صحافیوں سے بات چیت میں رنجن نے الزام لگایاتھاکہ ٹیپو نے ہزاروں عیسائیوں اور کوڈاوا لوگوں کو جبراً اسلام قبول کروایا تھا ۔ وہ اپنی حکومت فارسی میں چلاتے تھے اور وہ مجاہد آزادی نہیں تھے ۔ رنجن کا حوالہ دیتے ہوئے کمار نے اپنے نوٹ میں کہا ہے ، ایم ایل اے کا کہنا ہے کہ ریاستی حکومت کے مڈل اسکول کی تاریخ کی نصابی کتاب میں ٹیپو سلطان پر ایک باب ہے ۔ ان کی تاریخ کو جانے بغیر ان کو اس نصاب میں شامل کیا گیا ہے ۔ اس لیے باب میں پیش کی گئیں باتیں سچ نہیں ہیں ان کو اس میں عظیم بتایا گیا ہے۔
قابل ذکر ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد بی جے پی حکومت نے جولائی میں ٹیپو سلطان کی سالگرہ سے متعلق تقریب کو رد کر دیا تھا ۔ اس سالانہ تقریب کی بی جے پی 2015 سے مخالفت کر رہی تھی ۔ کانگریس کی حکومت میں اس مخالفت کی شروعات ہوگئی تھی ۔بی جے پی اور رائٹ ونگ تنظیمیں ٹیپو سلطان کی مخالفت کرتی ہیں اور ان کو مذہبی شدت پسند بتاتی ہیں ۔ واضح ہوکہ ٹیپو سلطان کو برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کا دشمن مانا جاتا ہے ۔ مئی 1799 میں برٹش فوج سے شری رنگا پٹنا کا قلعہ بچانے کے دوران ان کی موت ہو گئی تھی ۔ کئی مؤرخ مانتے ہیں کہ ٹیپو سلطان سیکولر اور ماڈرن حکمراں تھے جنہوں نے برٹش کا مقابلہ کیا تھا۔معلوم ہو کہ ‘حضرت ٹیپو سلطان جینتی’ 2015 کے بعد سے کرناٹک میں 10 نومبر کو باضابطہ طور پر منایا جاتا رہاہے۔