سپریم کورٹ کے کالیجیئم کی چار سفارشات میں سے مودی حکومت نے صرف جسٹس اے اے قریشی کےمدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر تقرری کو منظوری نہیں دی گئی ہے۔
نئی دہلی: دوسری باراکثریت پانے والی نریندر مودی حکومت میں مرکزی قانون وزیر کی کرسی پر بیٹھنے کے بعد روی شنکر پرساد نے کہا تھا کہ ان کی وزارت ایک’ڈاک خانہ ‘ نہیں ہوگا۔غالباً وہ عدالت سپریم کورٹ کالیجیئم کے ذریعے عدالت میں ججوں کی تقرری کے متعلق سفارشات کے ملنے کے بعد وزارت کے ذریعے ایک اہم حصےدار کے طور پر نبھائے جانے والے کردار کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔پرساد کے بیان کا ایک معنی یہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان کی وزارت کالیجیئم کی پہلی پسند کو آنکھ موندکر منظور نہیں کرےگی اور ہر نام کی تفتیش کرےگی۔ لیکن اس کو اس دعوے کے طور پر بھی لیا جا سکتا ہے کہ ان کی وزارت پسند نہ آنے والی سفارشوں کے لئے کوڑےدان کا کام کرےگی۔
ممبئی ہائی کورٹ میں جج جسٹس عقیل عبدالحمید قریشی کا مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر پروموشن کرنے کی کالیجیئم کی سفارش پر مرکزی حکومت جس طرح سے کنڈلی مارکر بیٹھی ہے، وہ اس بات کا خطرناک اشارہ بنکر سامنے آیا ہے کہ اپنی دوسری مدت میں مودی حکومت کالیجیئم کے ساتھ کیسا سلوک کرنے والی ہے۔واضح ہو کہ 2010 میں جسٹس قریشی نے موجودہ وزیر داخلہ امت شاہ کو سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں دو دنوں کی پولیس حراست میں بھیجا تھا۔10 مئی کو ہندوستان کے چیف جسٹس رنجن گگوئی، جسٹس ایس اے بوبڈے، جسٹس این وی رمنا کی رکنیت والی عدالت کے کالیجیئم نے گجرات ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش کے چیف جسٹس کے طور پر پروموشن دینے کی سفارش کی۔
فی الحال وہ تبادلے کے بعد ممبئی ہائی کورٹ میں کام کر رہے ہیں۔ کالیجیئم قریشی کوپرموشن دینے کا خواہش مند تھا، کیونکہ مدھیہ پردیش کے موجودہ چیف جسٹس ایس کے سیٹھ 9 جون کو سبکدوش ہونے والے تھے۔ کالیجیئم نے جسٹس قریشی کو ہر طرح سے جسٹس ایس کے سیٹھ کے بعد ان کی کرسی پر بیٹھنے کے لائق پایا۔جسٹس قریشی کے ساتھ، کالیجئیم نے پروموشن کے لئے تین اور ناموں کی سفارش کی۔ جسٹس راماسبرمنیم اور آر ایس چوہان کو بالترتیب ہماچل پردیش اور تلنگانہ ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔
مدراس ہائی کورٹ کے سینئر جج راماسبرمنیم تبادلے کے بعد تلنگانہ ہائی کورٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے۔ ان کو ہماچل پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سوریہ کانت کی سپریم کورٹ میں پروموشن کے بعد ان کی جگہ خالی ہونے پر پروموشن دےکر وہاں کا چیف جسٹس بنایا گیا تھا۔راجستھان ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس چوہان پہلے ہی تلنگانہ ہائی کورٹ کے گارگزار چیف جسٹس کے طور پر کام کر رہے تھے۔تیسرے جج جسٹس ڈی این پٹیل، جو گجرات ہائی کورٹ کے سینئر جونیئر جج تھے اور تبادلے کے بعد جھارکھنڈ ہائی کورٹ میں اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، ان کو جسٹس راجیندر مینن کی سبکدوشی کے بعد 22 مئی کو دہلی ہائی کورٹ کا چیف جسٹس مقرر کیا گیا۔
کالیجیئم کی سفارش ماننے سے انکار
لیکن، مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے معاملے میں مرکزی حکومت نے جسٹس قریشی کوپروموشن دینے کی سفارش کو ماننے سے انکار کر دیا اور 10 جون سے جسٹس روی شنکر جھا کی تقرری کارگزار چیف جسٹس کے طور پر کرنے کی نوٹیفکیشن جاری کر دی۔مرکز کے ذریعے 9 جون کو جسٹس سیٹھ کی سبکدوشی سے پہلے جسٹس قریشی کی تقرری نہیں کئے جانے سے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے بےحد سینئر جونیئر جج جسٹس جھا اس طرح سے پروموشن پانے کے حق دار ہو گئے۔
حالانکہ، جسٹس قریشی مارچ، 2022 میں سبکدوش ہو رہے ہیں، لیکن کالیجیئم کی سفارش کے باوجود ایک ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر ان کاپروموشن نہیں کئے جانے سے ان کے کیریئر کو غلط طریقے سے نقصان پہنچےگا۔میمورنڈم آف پروسیجر(ایم او پی)جس میں نیشنل جیوڈیشیل اپوائنٹمنٹ کمیشن معاملے میں سپریم کورٹ کی ہدایتوں کے بعد اب تک ترمیم نہیں کی گئی ہے، میں یہ اہتمام دیا گیا ہے کہ اگر کالیجئیم کے فیصلے کو مرکز کے ذریعے ازسرنو غور کرنے کے لئے لوٹائے جانے کے بعد اگر دوہرایا جاتا ہے، تو یہ مرکز کے لئے مجبوری ہوگی۔
لیکن کیا مرکز کے پاس سفارشوں کو، اگر وہ اس کے من کے مطابق نہیں ہیں، کالیجئیم کے پاس ازسرنو غورکرنے کےلئے لوٹائے بغیر، اس پر کنڈلی مارکر بیٹھنے کا اختیار ہے؟
ایم او پی میں کہا گیا ہے کہ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی تقرری کا عمل وقت رہتے شروع کیا جانا چاہیے تاکہ خالی ہونے والی اسامی کے کم سے کم ایک مہینے پہلے پوری ہو سکے۔ایم او پی میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے چیف جسٹس یہ یقینی بنائیں گے کہ جب ایک چیف جسٹس کا ایک ہائی کورٹ سے دوسرے ہائی کورٹ میں تبادلہ کیا جاتا ہے، تب اس کرسی پر اس کے قائم مقام کی تقرری بھی ساتھ ساتھ کی جانی چاہیے اور عام حالت میں کارگزار چیف جسٹس کی تقرری ایک مہینے سے زیادہ کے وقت کے لئے نہیں کی جانی چاہیے۔
آئین کا آرٹیکل 223، جو کارگزار چیف جسٹس کی تقرری سے متعلق ہے، کہتا ہے کہ جب کسی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی کرسی خالی ہے یا جب کوئی ایسا چیف جسٹس، غیرموجودگی کی وجہ سے یا کسی دیگر وجہ سے اپنی ذمہ داریوں کو نبھانےکی حالت میں نہیں ہے، تب اس کی ذمہ داریاں نبھانا عدالت کے کسی ایسے جج کے ذریعے کیا جائےگا، جس کو صدر کے ذریعے اس مقصدسے تقرری کی جائےگی۔جیسا کہ سمجھ میں آتا ہے مرکز نے اس آرٹیکل کے تحت ہی جسٹس جھا کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے کارگزار چیف جسٹس (اے سی جے) کے طور پر تقرری کی ہے۔
لیکن اس تقرری پر یقینی طور پر سوال اٹھایا جا سکتا ہے، کیونکہ جسٹس قریشی کو چیف جسٹس کے طور پر پروموشن دینے کی سفارش 10 مئی کو ہی کر دی گئی تھی اور 10 جون کو اسامی کی حالت صرف اس لئے پیدا ہوئی کیونکہ مرکز نےان کی تقرری کی نوٹیفکیشن جاری نہیں کی۔دلچسپ ہے کہ ایم او پی میں آرٹیکل 223 کے تحت اے سی جے کی تقرری کا تصور صرف اس حالت میں کیا گیا ہے جب عہدے پر مامور چیف جسٹس کے ذریعے اس کی چھٹی پر جانے یا چیف جسٹس کے طور پر اپنی ذمہ داریوں سے نباہ نہ کر پانے کی صورت حال کی اطلاع دی جائے۔
ایم او پی کا کہنا ہے کہ یہ اطلاع تمام متعلقہ اہلکاروں کو وقت رہتے کی جانی چاہیے تاکہ اے سی جے کی تقرری کا انتظام کیا جا سکے۔
امت شاہ معاملہ
جسٹس قریشی کے معاملے میں صرف مرکز کے ذریعے ایم او پی میں طے کیے گئے وقت کی مرکز کے ذریعے پابندی نہیں کیا جانا باعث تشویش نہیں ہے۔ گجرات ہائی کورٹ ایڈووکیٹس ایسوسی ایشن (جی ایچ اے اے) نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ میں کارگزار چیف جسٹس کی تقرری کو ‘ مجلس عاملہ کا غیرضروری مداخلت قرار دیا ہے۔ ‘ایک غیر معمولی جنرل میٹنگ میں جی ایچ اے اے نے چیف جسٹس کے طور پر جسٹس قریشی کی تقرری کی نوٹیفکیشن جاری کرنے کے لئے مرکزی وزیر سے ‘ ملکر درخواست کرنے ‘ کی تجویز منظور کی۔
جسٹس قریشی نے 14 نومبر، 2018 کو ممبئی ہائی کورٹ میں ذمہ داری سنبھالی تھی جب مرکز نے گجرات ہائی کورٹ کے کارگزار چیف جسٹس بنائے جانے کے ان کے دعوے کو ان کی سینئرہونے کے باوجود نظرانداز کر دیا تھا۔
گجرات ہائی کورٹ کے اس وقت کے چیف جسٹس سبھاش ریڈی کو ہائی کورٹ میں پروموشن دیے جانے کے بعد یہ امید تھی کہ ان کے بعد گجرات ہائی کورٹ کے سینئر جج جسٹس قریشی کو کارگزار چیف جسٹس کے طور پر پروموشن دیا جائےگا۔ لیکن اس کی جگہ ان کا تبادلہ ممبئی ہائی کورٹ میں کر دیا گیا اور جسٹس قریشی کے بعد سینئر جج اے ایس دوے کو کارگزار چیف جسٹس کی تقرری کر دی گئی۔مرکز کے اس قدم پر چیف جسٹس کے ذریعے ناراضگی ظاہر کئے جانے کے بعد مرکزی حکومت نے آناً فاناً میں اس نوٹیفکیشن کو منسوخ کر دیا اور جسٹس قریشی کو گجرات ہائی کورٹ کے کارگزار چیف جسٹس کے طور پر تقرری کر دی۔ مگر دو ہفتے کے اندر ہی ان کا تبادلہ ممبئی ہائی کورٹ میں کر دیا گیا۔
جی ایچ سی اےاے کے صدر یتین اوزا نے ایک تحریر میں یہ یاد دلایا کہ جسٹس قریشی نے ایک بار سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں امت شاہ کو دو دن کی پولیس حراست میں بھیجا تھا۔2011 میں جسٹس قریشی نے جسٹس آر اے مہتہ کو گجرات کا لوک آیُکت مقرر کرنے کے اس وقت کے گورنر کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا تھا، جس کو ریاست کی نریندر مودی حکومت کے ذریعے چیلنج دیا گیا تھا۔ اوزا 2010 میں شاہ کے وکیل تھے اور ان کو قریشی کے ذریعے شاہ کو دو دن کی پولیس حراست میں بھیجنے کے فیصلے میں کچھ بھی غلط نہیں لگا تھا۔
اوزا کا الزام ہے کہ مرکز کے ذریعے جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر پروموشن دینے کے معاملے میں فیصلے کو لٹکانا بدلے کے جذبہ سے کی گئی کارروائی جیسا ہے۔اس لئے اہم سوال یہ ہے کہ اگر مرکزی حکومت کالیجئیم کی سفارش کو ازسرنو غور کرنے کے لئے واپس نہیں لوٹاتی ہے، تو کیا کالیجئیم اپنی قوت دکھاتے ہوئے اپنی سفارشوں پر مرکز کی غیر فعال ہونے پر سوال اٹھا سکتا ہے؟
روسکے سوچی میں شنگھائی کارپوریشن آرگنائزیشن کے چیف جسٹسوں کی میٹنگ میں دئے گئے اپنی حالیہ تقریر میں، چیف جسٹس رنجن گگوئی نے ایک ادارہ کے طور پر عدلیہ کی آزادی کے لئے مضبوط اور آزاد ججوں کی اہمیت کو نشان زد کیا۔ کیا ادارہ کے صدر کے طور پر وہ اپنی باتوں پر عمل کریںگے؟