مرکز نے سپریم کورٹ میں کہا-شہریوں کا این آر سی تیار کرنا ضروری

03:49 PM Mar 19, 2020 | دی وائر اسٹاف

گزشتہ  سال دسمبر میں دہلی کے رام لیلا میدان میں وزیر اعظم نریندر مودی نےملک  بھر میں این آرسی نافذ کرنے کی بات کو خارج کرتے ہوئے کہا تھا کہ 2014 سے لےکر اب تک  کہیں بھی ‘این آرسی’ لفظ پربات نہیں ہوئی ہے۔

فوٹو: رائٹرس

نئی دہلی: پورے ملک بھر شہریت ترمیم قانون (سی اے اے) اور این آرسی کی مخالفت ہو رہی ہے۔ اس کے جواز کو چیلنج دیتے ہوئے کئی عرضیاں سپریم کورٹ میں داخل کی گئی ہیں۔ مرکزی حکومت نے جوابی حلف نامہ داخل کر کے غیر قانونی مہاجروں کی پہچان کے لئے این آر سی کو ضروری کارروائی بتایا ہے۔

لائیو لا کے مطابق، مرکزی حکومت نے جوابی حلف نامہ داخل کر کے کہاہے کہ شہریوں کا قومی رجسٹر تیار کرنا ضروری کام ہے اور غیر قانونی مہاجروں کی پہچان کرنا اور پتہ لگانا مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے۔حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ اقتدار کے ضابطےکے طور پر ملک میں رہ رہے غیر قانونی مہاجروں کی پہچان، حکومت کی ایک خودمختار، آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے۔ نیشنل رجسٹر آف سٹیزنس کے بارے میں قانونی اہتمام یعنی 1955 ایکٹ کی دفعہ14اے دسمبر 2004 سے 1955 ایکٹ کا حصہ ہے۔

حلف نامہ میں یہ دلیل دی گئی ہے کہ مذکورہ اہتماموں میں صرف قومی شہریت رجسٹر تیار کرنے کے عمل اور اتھارٹی سے متعلق حق شامل ہے۔ غیر-شہریوں اورشہریوں کی پہچان کے لئے شہریوں کا قومی رجسٹر تیار کرنا کسی بھی خودمختار ملک کےلئے ایک ضروری کام ہے۔

موجودہ آئینی حکومت کے مطابق ہندوستان میں رہائش پذیر افراد کے تین زمرے ہیں-شہری، غیر قانونی مہاجر اور قانونی ویزا پر رہ رہے غیر ملکی-اس لئےفارنرس ایکٹ، پاسپورٹ (ہندوستان میں داخلہ) قانون، 1920 اور 1955 ایکٹ کے مشترکہ مطالعہ سے مرکزی حکومت کو ذمہ داری دی گئی ہے کہ وہ غیر قانونی مہاجروں کی پہچان کرے / پتہ لگا سکے اور اس کے بعد قانون کے طےشدہ عمل پر عمل کر سکے۔

حکومت نے یہ بھی کہا کہ دفعہ 14اے اور اس کے اصول ہندوستانی شہریوں کی رجسٹریشن کی کارروائی  اور ان کو قومی شناختی کارڈ جاری کرنے کے عمل کو کافی حد تک منضبط کرتے ہیں۔دستیاب عوامی اطلاعات کے مطابق کئی ممالک میں شہری رجسٹر بنائےرکھنے کا نظام ہے۔ ان ممالک میں شہریوں کی پہچان‌کی بنیاد پر قومی شناختی کارڈجاری کئے جاتے ہیں۔ افغانستان، بنگلہ دیش اور پاکستان میں بھی اس طرح کے کارڈ جاری کرنے کانظام ہے۔

مرکزی حکومت نے کہا کہ فارین ایکٹ، 1946 غیر ملکیوں کو ہندوستان سےباہر نکالنے کا اختیارفراہم کرتا ہے ۔ یہ مرکزی حکومت کو مکمل اور آزادانہ شعورعطا کرتا ہے اور جیسا کہ آئین میں اس صوابدید پر روک  کا اہتمام نہیں ہے، اس لئےمرکزی حکومت کے پاس غیر ملکیوں کو نکالنے کا اختیار ہے۔

حلف نامہ میں ہنس مولر آف نورین برگ بنام سپرنٹنڈنٹ، پریسیڈینسی جیل، کلکتہ اور دیگر، اے آئی آر 1955 ایس سی 367 کے معاملے کا ذکر بھی ہے، جوقانون کا منصوبہ، دائرہ کار اور قانون کے دائرہ کار کی جانچ کرتے وقت اس میں دی گئی درجہ بندی کو صحیح ٹھہراتا ہے اور مرکزی حکومت کو دی گئی طاقتوں کی توسیع کرتاہے۔

حلف نامہ میں کہا گیا ہے کہ فارین ایکٹ، 1946 اور 1955 ایکٹ کےواضح حکم کے تحت کوئی بھی غیر قانونی مہاجر آرٹیکل 32 کے تحت ہندوستان میں بسنےاور رہائش کا حق نہیں مانگ سکتا اور آگے بھی شہریت کے لئے کوئی دعویٰ نہیں کرسکتا۔ مرکزی حکومت کے پاس قانون کی پروسس پر عمل کرتے ہوئے غیر قانونی مہاجروں کی جلاوطنی کا حق ہے۔

ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 258 (1) کے تحت مرکزی حکومت کو 1958 سےغیر قانونی غیر ملکی کو حراست میں لینے اور جلا وطن کرنے کی طاقتیں سونپی گئی ہیں۔آرٹیکل 21 کی تفصیل ہندوستان میں وسیع ہے اور یہ دلیل نہیں دی جا سکتی ہے کہ یہ پوری طرح غیر قانونی مہاجروں کے لئے دستیاب ہوگا۔

فارین ایکٹ کے تحت کورٹ نے مسلسل کارروائی  کی ہے، جو کہ مناسب ہے۔ آگےکہا گیا ہے کہ غیر ملکی، خاص طورپر غیر قانونی مہاجرین، مذکورہ قانون کے اہتماموں کو چیلنج دینے کے حقدار نہیں ہوں‌گے اس لئے اقتدارکے اصول کے طور پر ملک میں رہ رہے غیر قانونی مہاجروں کی پہچان کرنا، حکومت کی ایک خودمختار، آئینی اور اخلاقی ذمہ داری ہے اور آرٹیکل 21 کے مطابق ہے۔

بتا دیں کہ اس سے پہلے دہلی واقع رام لیلا میدان میں وزیر اعظم نریندر مودی نے ملک بھر میں این آر سی نافذ کرنے کی بات کو خارج کرتے ہوئے کہا تھاکہ 2014 سے لےکر اب تک کہیں بھی ‘این آر سی ‘ لفظ پر بات نہیں ہوئی ہے۔ یہ صرف سپریم کورٹ کی ہدایت پر آسام میں کیا گیا ہے۔ حالانکہ وزیر داخلہ امت شاہ اور دیگربی جے پی رہنما این آر سی کو پورے ملک میں نافذ کرنے کی بات کرتے رہے ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کےساتھ)