مرکزی حکومت نے 22 جولائی کو بامبے ہائی کورٹ کے جسٹس اے اے قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنائے جانے کی سپریم کورٹ کالیجئم کی سفارش پر فیصلہ لینے کے لئے دو ہفتے کا وقت مانگا تھا۔ مرکزی حکومت نے اب اور دس دن کا وقت مانگا ہے۔
یہ بھی پڑھیں:کیا امت شاہ کو حراست میں بھیجنے والے جسٹس قریشی کاپروموشن روک رہی ہے مودی حکومت؟
عرضی دائر کرنے والے جی ایچ سی اےاے کے صدر یتین اوزہ نے مبینہ طور پر کہا ہے کہ جسٹس قریشی کو صرف اس لئے الگ تھلگ کیا گیا ہے کیونکہ انہوں نے 2010 میں امت شاہ، جو اب وزیر داخلہ ہیں، کو پولیس حراست میں لینے کا حکم دیا تھا۔غور طلب ہے کہ 22 جولائی کو مرکزی حکومت نے بامبے ہائی کورٹ کے جج جسٹس اے اے قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنائے جانے کی سپریم کورٹ کی کالیجئم کی سفارش پر فیصلہ لینے کے لئے دو ہفتے کا وقت مانگا تھا۔ جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کا چیف جسٹس بنانے کے لئے سپریم کورٹ کالیجئم نے 10 مئی کو مرکز کو سفارش بھیجی تھی لیکن مرکزی حکومت نے اب تک اس پر کوئی فیصلہ نہیں لیا۔یتین اوزہ نے اپنے ایک مضمون میں کہا تھا کہ جسٹس قریشی نے ایک بار سہراب الدین انکاؤنٹر معاملے میں رول کی وجہ سے امت شاہ کو دو دن کی پولیس حراست میں بھیجا تھا۔ 2011 میں جسٹس قریشی نے آر اے مہتہ کو گجرات کا لوک آیکت بنانے کے اس وقت کے گورنر کے فیصلے کو صحیح ٹھہرایا تھا، جس کو ریاست کی نریندر مودی حکومت کے ذریعے چیلنج کیا گیا تھا۔ اوزہ 2010 میں شاہ کے وکیل تھے اور ان کو قریشی کے ذریعے شاہ کو دو دن کی پولیس حراست میں بھیجنے کے فیصلے میں کچھ بھی غلط نہیں لگا تھا۔اوزہ کا الزام ہے کہ مرکز کے ذریعے جسٹس قریشی کو مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کے طور پر پروموشن دینے کے معاملے میں فیصلے کو لٹکانا بدلے کے جذبہ سے کی گئی کارروائی جیسا ہے۔ (خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)