سی بی آئی نےبینکوں کےساتھ دھوکہ دھڑی کرنے کی ملزم کمپنیوں کے خلاف جانچ میں سمجھوتہ کرنے کے لیے مبینہ طور پر رشوت لینے کے معاملے میں اپنے چار عہدیداروں کے خلاف بدعنوانی کے معاملے درج کیے ہیں، ان میں دو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شامل ہیں۔
نئی دہلی واقع سی بی آئی کاہیڈکوارٹر۔ (فوٹو: رائٹرس)
نئی دہلی: سی بی آئی نے بینکوں کے ساتھ دھوکہ دھڑی کرنے کی ملزم کمپنیوں کے خلاف جانچ میں سمجھوتہ کرنے کے لیے مبینہ طور پر رشوت لینے کے معاملے میں اپنے چار افسروں کےخلاف معاملہ درج کیا ہے۔ ان میں دوڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس شامل ہیں۔
انڈین ایکسپریس کےمطابق، معاملہ سی بی آئی کے عہدیداروں، کچھ بچولیوں اور کچھ چارٹیڈ اکاؤنٹنٹس سے جڑا ہے، جس کو لےکر ایجنسی نے غازی آباد میں اپنی ٹریننگ اکادمی، دہلی میں سی جی او کامپلیکس میں واقع ایجنسی ہیڈکوارٹر سمیت 14دیگر مقامات پر سرچ آپریشن کیا۔
عہدیداروں نے کہا کہ ایجنسی نے معاملے کے بارے میں زیادہ جانکاری نہیں دی، جس میں اس کے خود کے افسر بینکوں سے دھوکہ دھڑی کرنے کی ملزم ان کمپنیوں سے مبینہ طورپررشوت لینے کو لےکر جانچ کے دائرے میں ہیں۔
ایک افسرنے بتایا کہ جن سی بی آئی افسروں کے خلاف ایجنسی نے معاملہ درج کیا ہے ان میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس آر کے رشی اور آر کے سانگوان، انسپکٹر کپل دھن کھڑ اور اسٹینو سمیر کمار سنگھ شامل ہیں۔
ایجنسی نے جب سی بی آئی اکادمی میں تعینات رشی کے کیمپس کی تلاشی لی توہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی کیونکہ اسی اکادمی میں مستقبل کے افسر تیار ہوتے ہیں۔ یہی نہیں، دیگرممالک کے کیڈیٹ کو بھی غازی آبادواقع جدیدترین اکادمی میں ٹریننگ دی جاتی ہے۔
اپنے افسروں کے علاوہ سی بی آئی نے کئی دیگر لوگوں کے خلاف بھی معاملے درج کیے ہیں جن میں وکیل بھی شامل ہیں۔ ان کے خلاف آئی پی سی کی متعلقہ دفعات،انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت معاملے درج کئے گئے ہیں۔
اس اخبار کے مطابق، ذرائع نے بتایا کہ معاملے میں نامزد دو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ میں سے ایک نے ایجنسی کے بینکنگ اور سکیورٹیز فراڈ سیل میں لمبے وقت تک کام کیا ہے۔
مشتبہ عہدیداروں نے مبینہ طور پر 3500 کروڑ روپے سےزیادہ کے ایک بینک دھوکہ دھڑی معاملے میں رشوت لی، جس میں ممبئی کی ایک کمپنی بھی شامل تھی۔ ان پر الزام ہے کہ انہوں نے ہر مہینے ملنے والی رشوت کے عوض میں کمپنی کو فائدہ پہنچایا اور معاملے کی جانکاریاں شیئر کیں۔
ذرائع نے کہا کہ افسر کمپنی کے پروموٹرز اور کئی بچولیوں کے رابطہ میں تھے جنہوں نے ان کی طرف سے بات چیت کی۔ جانچ ذرائع سے ملی جانکاری کی بنیاد پر شروع کی گئی تھی، جس کے بعد سی بی آئی کی اسپیشل یونٹ نےمشتبہ عہدیداروں کے فون کال پر نظر رکھی اور ان کے خلاف لگائے گئے الزام کو صحیح پایا۔
رپورٹ کے مطابق، دو سال پہلے سی بی آئی نے انسداد بدعنوانی کی اپنی ایک یونٹ کے پانچ فسروں کو ایجنسی کے ذریعے جانچ کیے جا رہے مشتبہ افراد کو مالی منافع کے بدلے مدد پہنچانے کے معاملے میں شک کے گھیرے میں رکھا تھا۔
ان کے نام سال 2018 میں چانکیہ پوری کے میونسپل سروس آفیسر انسٹی ٹیوٹ میں ایک کیٹرر کے چھاپے کے بعد سامنے آئے تھے۔ کیٹرر راکیش تیواری نے پہلے سی بی آئی کے کیٹرر کےطورپر کام کیا تھا۔اگست 2018 میں یہاں ہوئی چھاپےماریوں کے دوران سی بی آئی نے تیواری کے کمرے میں ایک الماری سے 20 رولیکس لگزری گھڑیاں، 3.6 کروڑ روپے نقد اور 1.6 کروڑ روپے کے زیورات برآمد کیے تھے۔
اس کے علاوہ سی بی آئی نے کئی کروڑ روپے کے مبینہ لین دین والے دستاویز سامنے آنے کا دعویٰ کیا تھا۔ذرائع نے کہا کہ ایجنسی کو شک تھا کہ کئی افسر غیرقانونی طور پردوسرے ملکوں میں پیسہ بھیجنے اور ان کے خلاف درج سی بی آئی کے معاملوں کو متاثر کرنے کے لیے تیواری کی خدمات لے رہے تھے۔
حالانکہ،اس معاملے میں ابھی تک کسی بھی افسر کو قصوروار نہیں ٹھہرایا گیا ہے، پر کارروائی کے نام پر کچھ ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ اور انسپکٹر کی رینک کے افسروں کے تبادلے کیے گئے ہیں۔
(خبررساں ایجنسی بھاشاکے ان پٹ کے ساتھ)