جون 2023 میں برٹش کولمبیا میں خالصتان کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کو گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا، جس کے متعلق کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے کینیڈین پارلیامنٹ میں انکشاف کیا ہے کہ اس کے پیچھے ہندوستانی حکومت کے خفیہ ایجنٹوں کا ہاتھ تھا۔
کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کی گزشتہ ہفتے دہلی میں جی–20 سربراہی اجلاس کے موقع پر بیٹھک۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر)
نئی دہلی: کینیڈین وزیر اعظم جسٹن ٹروڈو نے سوموار کو کینیڈا کی پارلیامنٹ میں
سنسنی خیز بیان دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ملک کی سیکورٹی ایجنسیوں کے پاس ‘قابل اعتماد’ خفیہ جانکاری ہے کہ جون 2023 میں برٹش کولمبیا میں خالصتان کے حامی رہنما ہردیپ سنگھ نجر کےقتل کے پیچھے ہندوستانی حکومت کا ہاتھ تھا۔اس سے نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات خراب ہونے کا خدشہ ہے، بلکہ ہندوستان کی بین الاقوامی ساکھ کو بھی نقصان پہنچے گا۔
ٹروڈو کے الزامات کے بعد
وہاں کے وزیر خارجہ میلانیا جولی نے باضابطہ طور پر اعلان کیا کہ کینیڈا نے ایک سینئر ہندوستانی سفارت کار کو ملک بدر کر دیا ہے۔
ٹروڈو نے ہاؤس آف کامنز کو بتایا،’گزشتہ کئی ہفتوں سے کینیڈین سیکورٹی ایجنسیاں ہندوستانی حکومت کے ایجنٹوں اور کینیڈین شہری ہردیپ سنگھ نجر کےقتل کے درمیان ممکنہ تعلقات کے قابل اعتماد الزامات کی سرگرمی سے تحقیقات کر رہی ہیں۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ انہوں نے اس مسئلےکووزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی اٹھایا تھا۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ‘کینیڈا کی سرزمین پر ایک کینیڈین شہری کے قتل میں کسی بھی غیر ملکی حکومت کا ملوث ہونا ہماری خودمختاری کی خلاف ورزی ہے، جو ناقابل قبول ہے۔’
ابھی تک، کینیڈین حکومت نے نجر کے قتل میں ہندوستانی حکومت کے ملوث ہونے کے اپنے دعوے کی حمایت میں اپنے پاس موجود کوئی بھی ثبوت عام نہیں کیا ہے۔
جولی کے دفتر نے کہا ہے کہ ملک بدر کیے گئے ہندوستانی سفارت کار پون کمار رائے ہیں،جن کی پہچان انہوں نے ہندوستان کی خفیہ ایجنسی ریسرچ اینڈ اینالیسس ونگ (را) کے کینیڈین سربراہ کے طور پر کی ہے۔
1997 بیچ کے آئی پی ایس افسر رائے کو ہندوستانی ہائی کمیشن میں وزیر (ماحولیات، رابطہ کاری، کمیونٹی امور) کے طور پر اوٹاوا میں تعینات کیا گیاتھا۔
دریں اثنا، منگل کو ہندوستان نے ایک ‘سینئر کینیڈین سفارت کار’ کو بھی ملک بدر کر دیا اور سفارت کار کو پانچ دنوں کے اندر اندر ہندوستان چھوڑنے کو کہا ہے۔ اس سے قبل ہندوستان میں کینیڈا کے ہائی کمشنر کیمرون میکے کو ساؤتھ بلاک بلایا گیا تھا۔
ہندوستانی وزارت خارجہ نے
کہا کہ ‘یہ فیصلہ ہمارے اندرونی معاملات میں کینیڈین سفارت کاروں کی مداخلت اور ہندوستان مخالف سرگرمیوں میں ان کے ملوث ہونے پر حکومت ہند کی بڑھتی ہوئی تشویش کو ظاہر کرتا ہے۔’
قبل ازیں، ہندوستانی وزارت خارجہ نے منگل کی صبح ایک بیان میں کہا کہ وہ کینیڈا کے وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی طرف سے لگائے گئے الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے، ‘کینیڈا میں تشدد کی کسی بھی کارروائی میں ہندوستانی حکومت کے ملوث ہونے کے الزامات مضحکہ خیز اور اسپانسرڈ ہیں۔’
بیان میں ٹروڈو کے اس دعوے کی بھی تصدیق کی گئی ہے کہ انہوں نے اس الزام کومودی کے ساتھ اٹھایا تھا۔ وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ‘ایسے ہی الزامات کینیڈین وزیر اعظم کی جانب سے ہمارے وزیر اعظم پر بھی لگائے گئے تھے اور انہیں پوری طرح سے خارج کر دیا گیا تھا’۔
ہندوستان نے یہ بھی الزام لگایا کہ کینیڈا خالصتانی دہشت گردوں سے ہمدردی رکھتا ہے اور ان الزامات کے ذریعے اصل موضوع سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔
بیان میں کہا گیا،’اس طرح کے بے بنیاد الزامات خالصتانی دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی جانب سے توجہ ہٹانا چاہتے ہیں، جنہیں کینیڈا میں پناہ دی گئی ہے اور جو ہندوستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کے لیے خطرہ بنے ہوئے ہیں۔ اس معاملے پر کینیڈین حکومت کی بے عملی ایک دیرینہ اور مسلسل تشویش رہی ہے۔ کینیڈا کی سیاسی شخصیات نے کھلے طور پر ایسے عناصر سے ہمدردی کا اظہار کیا ہے جوشدیدتشویش کا باعث ہے۔
ہندوستان کے بیان میں رائے کی ملک بدری کا کوئی ذکر نہیں ہے۔
ہندوستانی وزارت خارجہ کا مکمل بیان۔
دوسری جانب سی بی سی نیوز نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ
ٹروڈو پہلے ہی کینیڈا کے کچھ قریبی اتحادیوں کے رہنماؤں کو اس معاملے سےآگاہ کر چکے ہیں، جن میں برطانوی وزیر اعظم رشی سنک، فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور امریکی صدر جو بائیڈن شامل تھے۔
جولی نے یہ بھی کہا کہ وہ سوموار کی شام کونیویارک میں اقوام متحدہ میں اپنے جی –7 ہم منصبوں کے ساتھ اس قتل کے معاملے کو اٹھائیں گی۔
وہائٹ ہاؤس کی قومی سلامتی کونسل کی ترجمان ایڈرین واٹسن نے کہا کہ امریکہ کینیڈا کے الزامات سے ‘بہت فکر مند’ ہے۔ واٹسن نے کہا، ‘ہم اپنے کینیڈا کے شراکت داروں کے ساتھ مستقل رابطے میں رہتے ہیں۔ یہ ضروری ہے کہ کینیڈا کی تفتیش آگے بڑھے اور مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔’
اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے عوامی بیان سے پہلے گلوب اینڈ میل نے اطلاع دی تھی کہ ہندوستانی حکومت نے نجر کوگولی مار کر قتل کرنے کی تمام ذمہ داریوں سے انکار کر دیا ہے اور اس بات پر اصرار کیا ہے کہ کینیڈا میں خالصتان کے حامی کارکنوں نے کینیڈین تفتیش کاروں کو گمراہ کیا ہے۔
اس سے قبل جون میں خالصتان کی حامی تنظیم خالصتان ٹائیگر فورس اور سکھ فار جسٹس (ایس ایف جے) کی کینیڈین شاخ کے سربراہ ہردیپ سنگھ نجر کو کینیڈا کے شہر سرے میں ایک گرودوارے کی پارکنگ میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ وہ پنجاب میں ایک پجاری کو گولی مار کر ہلاک کرنے کے کیس میں مطلوب تھے اور ڈیڑھ ماہ میں بیرون ملک مرنے والے
تیسرے خالصتان حامی کارکن تھے۔ ان کی موت کے فوراً بعد ان کے حامیوں نے دعویٰ کیا تھاکہ اس قتل کے پیچھے ہندوستانی حکومت کا ہاتھ ہے۔
کینیڈا میں خالصتان کے حامی گروپوں کی سرگرمیوں اور وہاں کی حکومت کے اس تاثر کہ ہندوستان اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر رہا ہے، کو لے کر ہندوستان اور کینیڈا کے درمیان تعلقات کشیدہ رہے ہیں۔ حال ہی میں جی –20 کانفرنس کے دوران بھی ٹروڈو اور مودی کے درمیان ملاقات کشیدہ رہی۔
قتل کی بات تو چھوڑہی دیجیے، حالیہ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستان کے علاوہ کسی بھی غیر ملکی حکومت نے براہ راست ہندوستان پران کی سرزمین میں تشدد کے کسی واقعے میں ملوث ہونے کا الزام لگایا ہے۔
اس کے علاوہ، حال ہی میں دو ہائی پروفائل معاملوں میں الزامات لگائے گئے ہیں کہ ہندوستانی سیکورٹی فورسز اور خفیہ ایجنٹوں نے بیرون ملک بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کی ہے۔پہلا مارچ 2018 میں گوا کے سمندر میں ہندوستانی اسپیشل فورسز کے ذریعے دبئی کے حکمران کی بیٹی
شیخہ لطیفہ کوپکڑنے سے متعلق تھا اور دوسرا مئی میں2021 انٹیگوا میں مفرور ہندوستانی ہیرا تاجر
میہل چوکسی کے اغوا کی کوشش سے متعلق تھا۔
ٹروڈو نے کہا، ‘ہندوستان کو معاملے کی تہہ تک جانے میں ہماری مدد کرنی چاہیے’
کینیڈا میں گلوب اینڈ میل اخبار کے حوالے سے
سرکاری ذرائع نے نجی طور پر ہندوستان کے ساتھ سفارتی تعلقات منقطع کرنے کی بات سے انکار کیا ہے، لیکن کہا کہ اوٹاوا اسے کینیڈا کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی مانتے ہوئے اس کے جواب دینے کے لیے اقدامات پر غور کر رہا ہے۔
ٹروڈو نے کینیڈا کے ممبران پارلیامنٹ کو یہ بھی کہا کہ ہندوستان سے ‘معاملے کی تہہ تک جانے’ کی اپیل کی گئی ہے۔
شیڈو منسٹر آف فارن افیئرز
مائیکل چونگ نے کہا، ‘اگر یہ الزامات درست ہیں تو یہ کینیڈا کی خودمختاری کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ زیادہ پریشان کن بات یہ ہے کہ یہ کام کسی اور جمہوریت نے کیا ہے۔
نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما جگمیت سنگھ نے ٹروڈو کے انکشافات پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے ‘تقسیم، تشدد، جبر’ کیا ہے اور ‘ان لوگوں پر حملہ کر رہی ہے جو اس کے ناقد ہیں۔’
کینیڈا کے پبلک سیفٹی منسٹر ڈومینک لی بلینک نے
اعلان کیا کہ کینیڈین سکیورٹی انٹلی جنس سروس کے ڈائریکٹر ڈیوڈ وِگنیالٹ اور ٹروڈو کے قومی سلامتی کے مشیر جوڈی تھامس نے بھی اس قتل پر بات کرنے کے لیے حال ہی میں کئی بار ہندوستان کا دورہ کیا تھا۔
جب کینیڈین وزیر اعظم جی–20 سربراہی اجلاس میں شرکت کے لیے ہندوستان میں تھے تو ان کی ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی سے مختصر اور کشیدہ ملاقات ہوئی۔ وہ واحد رہنما تھے جنہوں نے سنیچر کی شام ہندوستانی صدر کی طرف سے دی گئی سرکاری ضیافت میں شرکت نہیں کی تھی۔
ہندوستانی ریلیز (ریڈ آؤٹ) میں کہا گیاتھا کہ اتوار (10 ستمبر) کو بیٹھک کے دوران مودی نے خالصتان کے حامی انتہا پسند گروپوں کی سرگرمیوں پر ‘سخت تشویش’ کا اظہار کیا تھا۔ ٹروڈو نے صحافیوں کو بتایا تھا کہ انہوں نے ہندوستانی رہنما کے ساتھ ‘غیر ملکی مداخلت’ کا معاملہ اٹھایا ہے۔
اس ماہ کے شروع میں، کینیڈا میں ہندوستانی سفیر نے انکشاف کیا تھا کہ اوٹاوا نے ‘گزشتہ ماہ’ آزاد تجارتی معاہدے کی بات چیت پر
روک لگانے کی مانگ کی تھی، لیکن اس نے کوئی وجہ بتانے سے انکار کر دیا تھا۔
پچھلے ہفتے کینیڈا نے پہلے سے طے شدہ
تجارتی مشن کو ملتوی کر دیا تھا جس کی قیادت وزیر میری این جی کے ذریعے9 اکتوبر سے پانچ دنوں کے لیے ممبئی میں کی جانی تھی۔ التوا کی کوئی سرکاری وضاحت نہیں دی گئی۔
کینیڈین حکومت کے ایک ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے سی بی سی نےاپنی رپورٹ میں بتایا کہ ٹروڈو کی این ایس اے، جو جی–20 کے لیے دہلی میں تھیں، ‘خاموشی سے’ اوٹاوا کے بجائے لندن چلی گئیں، جہاں انھوں نے ‘برطانیہ کی حکومت کو مطلع کیا کہ انڈیا کے ساتھ کینیڈا کے تعلقات اب خراب ہونے والے ہیں، کیوں کہ کینیڈا کے پاس نجر کی موت سے ہندوستانی حکومت کو جوڑنے کے قابل اعتماد ثبوت موجود ہیں۔’
بتادیں کہ ہندوستان نے کینیڈا میں خالصتان کے کارکنوں کی سرگرمیوں کے خلاف اس سال کم از کم دو بار کینیڈین ہائی کمشنر کو طلب کیا ہے۔
مارچ میں، ہندوستان نے ‘کینیڈا میں ہمارے سفارتی مشن اور قونصل خانوں کے خلاف علیحدگی پسند اور انتہا پسند عناصر کی کارروائیوں’ ان کے ذریعےریلیوں کے انعقاد کے بعد احتجاج کیا تھا۔
جولائی میں، وزارت خارجہ نے خالصتان کے حامی پوسٹروں– جن میں ہندوستانی سفارت کاروں کی تصاویر تھیں– کے معاملے پر کینیڈا کے
ہائی کمشنر کو دوبارہ طلب کیا تھا۔ پوسٹرز میں نجر کے قتل کے پیچھے ہندوستانی حکومت کا ہاتھ ہونے کا الزام لگایا گیا تھا۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔)