منی پور (آؤٹر) سے پہلی بار رکن پارلیامنٹ بنے کانگریس کے الفریڈ کان نگام آرتھر نے پارلیامنٹ میں یونین بجٹ پر ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ منی پور میں 60000 سے زیادہ لوگ گزشتہ 15 مہینوں سے خوفناک حالات میں ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں۔ کیا آپ ان عورتوں اور بچوں کی چیخیں نہیں سن سکتے جو اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے؟
نئی دہلی: حال ہی میں ہوئے عام انتخابات کے اہم نتائج میں سے ایک تشدد متاثرہ منی پور کا نتیجہ بھی ہے، جس نے پارلیامنٹ کے ایوان زیریں میں دو نئے چہرے بھیجے ہیں۔
حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے دونوں موجودہ ممبران پارلیامنٹ کو شمال-مشرقی ریاست کے رائے دہندگان نے پہاڑی اور وادی، دونوں اضلاع میں پوری طرح سے خارج کر دیا، کیوں کہ ان کی پارٹی مرکز اور ریاست دونوں میں ایک سال سے زائد عرصے جاری نسلی تشدد کے دوران ان کی سیکورٹی کو یقینی بنانے میں ناکام رہی۔
پہلی بار ایم پی بنےاے بمول آکوئی جام ایک ماہ قبل پارلیامنٹ کے خصوصی اجلاس میں
اپنی پہلی تقریر کی وجہ سے قومی سرخیوں میں آگئے تھے۔
اکوئی جام کو لوک سبھا سپیکر نے آدھی رات کا وقت شاید اس لیے دیا ہو گا کیونکہ اس وقت تک منی پور کے لوگ سو چکے ہوں گے، لیکن انہوں نے مضبوطی سے اپنا نقطہ نظر پیش کیا اور لوک سبھا میں اپنے انتخابی حلقے اورریاست میں عوام کی شدید مایوسی اور عدم اطمینان کو سب کے سامنے لانے میں کامیاب رہے، جس کو نریندر مودی حکومت مسلسل نظر انداز کرتی آئی تھی، اس کے باوجود کہ ریاست میں لوگوں کے گھروں کو جلایا گیا، ان کے عزیز و اقارب مار دیے گئے، ان کے کاروبار تباہ ہو گئے اور ریاست ذات پات کی بنیاد پر تقسیم ہو گئی۔
اکوئی جام نے ایوان کو یاد دلایا کہ منی پور کے 66000 سے زیادہ لوگ ایک سال سے زیادہ عرصے سے ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں، جبکہ وزیر اعظم نے ریاست کا دورہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق ، 30 جولائی کو، منی پور (آؤٹر) سے پہلی بار ایک اور رکن پارلیامنٹ، الفریڈ کان نگام آرتھر کو اپنے خیالات پیش کرنے کا موقع ملا۔ ان کی تقریر مرکزی بجٹ پر ردعمل تھی۔
آرتھر، جس نے اپنی حلف برداری کے دوران حکومت سے’منی پور کو بچا نے’ کے توسط سے ’ملک کو بچانے‘کی اپیل کی تھی، نے بحث میں حصہ لیتے ہوئے اسی معاملے کو آگے بڑھایا۔ انہوں نےاس بات پر روشنی ڈالی کہ مرکزی وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن نے منی پور کو کوئی مدد فراہم نہیں کی۔ انہوں نے کہا کہ تشدد کے ساتھ ساتھ ریاست کے لوگ گزشتہ 35 سالوں میں آئے ‘بدترین سیلاب’ سے دوچار ہیں۔
آرتھر نے کہا، ‘میری ریاست گزشتہ 15 ماہ سے تمام غلط وجوہات کی وجہ سے خبروں میں ہے۔ میں نے وزیر خزانہ نرملا سیتا رمن کے ذریعے ایوان کے سامنے پیش کردہ بجٹ کو پڑھا ہے۔ میرے خیال میں وہ یہ سمجھنے میں ناکام رہیں کہ اس وقت منی پور سب سے کم فی کس آمدنی والی ریاست ہے اور یہاں مہنگائی سب سے زیادہ ہے۔ آپ سب سے کم آمدنی والی ریاست سے سب سے زیادہ قیمتیں ادا کرنے کی توقع کیسے کر رہے ہیں؟’
ایوان کو یاد دلاتے ہوئے کہ 60000 سے زیادہ لوگ گزشتہ 15 مہینوں سے خوفناک حالات میں ریلیف کیمپوں میں رہ رہے ہیں، انہوں نے سیتا رمن سے پوچھا، ‘کیا آپ ان خواتین اور بچوں کی چیخیں نہیں سن سکتی ہیں جو اپنے گھروں کو واپس نہیں جا سکتے؟’
کانگریس ایم پی نے اپنی تقریر میں یہ بھی کہا، ‘میں منی پور کی ناگا برادری سے تعلق رکھتا ہوں۔ ہمارا موقف اس (نسلی) تنازعہ کے حوالے سے غیر جانبدار رہا ہے۔ ہم نے یہ سوچ کر کسی کی حمایت نہیں کی کہ غیر جانبدار رہ کر ایک دن امن قائم کر لیں گے۔‘
آرتھر نے ہندوستان کے لیے اپنے خاندان کی شاندار خدمات کو یاد کیا۔ انہوں نے منی پور کے تنگکھول ناگا اپنے چچا میجر رالینگ ناؤ (باب) کھاتھنگ کو یادکیا، جنہوں نے 1950 میں ایک قطرہ خون بہائے بغیر ہندوستان کے لیے توانگ کومحفوظ کر لیا تھا۔ کھاتھنگ، جنہیں بعد میں پدم شری سے نوازا گیا، مرکزی حکومت کی طرف سے (میانمار میں) سفیر بنائے جانے والے پہلے آدی واسی شخص بنے۔ انہوں نے کہا، ‘میرے خاندان نے یہ دن نہ دیکھنے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دیں۔ ہم سب ہندوستانی ہیں۔‘
آرتھر نے کہا، ‘مجھے میرے لوگوں نے پورے اعتماد کے ساتھ پارلیامنٹ میں بھیجا ہے، نہ کہ اس باوقار ایوان میں رکھے گئے خیالی اعداد وشمار پر توجہ دینے کے لیے۔’
دہلی کے سینٹ اسٹیفن کالج میں تعلیم حاصل کرنے والے رکن پارلیامنٹ نے یہ بھی کہا، ‘مجھے یہ یقین دلایا گیا ہے کہ ملک شخص سے بڑا ہے… میں مختلف ذاتوں، مختلف مذاہب، مختلف برادریوں کے دوستوں کے ساتھ پلا بڑھا ہوں، ان کے ساتھ کھیلا ہوں، ان کے ساتھ گھوما ہوں، ان کے ساتھ تعلیم حاصل کی ہے۔ اور پھر بھی، میں نے اپنی زندگی میں کبھی یہ کہنے کی ضرورت محسوس نہیں کی کہ میں ایک مسیحی ہوں۔ میں یہ کبھی نہیں کہنا چاہوں گا کہ میں عیسائی ہوں، ہندو ہوں یا مسلمان ہوں، مجھے ایسا کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی۔ آج مجھے اس ملک کے اصولوں اور قوانین کے اندر ایک آزاد ہندوستانی ہونے کی اپنی خواہشات کو بتانے کا یہ خوف اور ضرورت کیوں ہے ؟’
انہوں نے وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ پر سخت حملہ کیا، جنہیں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے پہاڑی اور وادی دونوں میں بڑھتی ہوئی مانگ کے باوجود تبدیل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘ان کے (سی ایم) کے منہ سے روزانہ جو الفاظ نکلتے ہیں وہ مارپیٹ، قتل اور تشدد کے ہوتے ہیں۔ یہ کیا ہے؟ کیا یہ میرا ملک ہے؟’
انہوں نے 2014 میں اقتدار میں آنے کے بعد سے مودی حکومت کے وزراء کی طرف سے منی پور کے پہاڑی اور وادی، دونوں علاقوں میں دکھائی جانے والی مستعدی پرطنز کیا۔ انہوں نے کہا، ‘ 2014 میں جب سے این ڈی اے حکومت اقتدار میں آئی ہے، ایک بھی دن یا ہفتہ ایسا نہیں گزرا جب کسی مرکزی وزیر نے منی پور کا دورہ نہ کیا ہو۔ 3 مئی 2023 کے بعد اب وہ کہاں ہیں؟‘
بعد میں، اپوزیشن کے ڈپٹی لیڈر اور شمال-مشرق سے رکن پارلیامنٹ گورو گگوئی نے ایکس پر کہا، ‘منی پور سے ہمارے دوسرے ایم پی نے پارلیامنٹ کے اندر منی پور پر ضروری اور طاقتور مداخلت کی۔ کانگریس منی پور اور شمال مشرق کے مسائل کو ایوان کے اندر اٹھاتی رہے گی۔ اس تقریر کو دیکھنا ضروری ہے۔‘
سرکاری ریکارڈ کے مطابق، 3 مئی 2023 کو شروع ہونے والے تشدد میں 224 افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔ اس سرحدی ریاست میں کم از کم 60000 لوگ بے گھر ہو چکے ہیں۔ ان کا ایک بڑا حصہ اب بھی ریلیف کیمپوں میں رہ رہا ہے۔ اس کے بعد سے بہت سے لوگ اپنی پڑوسی ریاستوں – میزورم، آسام اور میگھالیہ چلے گئے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ منی پور کے لوگوں کا مستقبل کسمپرسی کا شکار ہے۔