شہریت قانون کے خلاف لکھنؤ میں 19دسمبرکو ہوئے تشدد کے معاملے میں درج ایف آئی آر میں صدف جعفر کا نام بھی ہے۔ صدف کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے ان کی لاٹھیوں سے پٹائی کی۔ ان کے ہاتھوں اور پیروں پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور پیٹ پر لات بھی ماری گئی جس سے انہیں انٹرنل بلیڈنگ ہونے لگی۔
سماجی کارکن صدف جعفر، فوٹو بہ شکریہ : فیس بک
نئی دہلی :اتر پردیش کی راجدھانی لکھنؤ میں شہریت ترمیم قانون کے خلاف جمعرات کو ہوئے مظاہرے اور احتجاج میں 200 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے، جن میں خاتون سماجی کارکن صدف جعفر بھی ہیں۔شہریت قانون کے خلاف 19 دسمبر کو ہوئےتشدد کے معاملے میں لکھنؤ کے حضرت گنج پولیس تھانے میں درج ایف آئی آر میں 34 لوگوں کے نام ہیں، جن میں صدف جعفر، وکیل محمد شعیب، رشی منچ کے صدراور سماجی کارکن دیپک کبیر بھی ہیں۔ صدف کانگریس کی میڈیاترجمان بھی ہیں۔
دی کوئنٹ کے مطابق، صدف کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ پولیس نے ان کی لاٹھیوں سے پٹائی کی۔ ان کے ہاتھوں اور پیروں پر لاٹھیاں برسائی گئیں اور پیٹ پر لات بھی ماری گئی جس سے انہیں انٹرنل بلیڈنگ ہونے لگی۔ لکھنؤمیں گزشتہ 19 دسمبر کو ہوئے احتجاج اور مظاہرے کے دوران جب پری ورتن چوک پر شرپسند عناصروں نے پولیس پر پتھر پھینکنا شروع کیا تو صدف اس کو فیس بک پر لائیو ریکارڈ کر رہی تھیں، جب پولیس نے انہیں گرفتار کیا تب بھی وہ لائیو تھیں۔
ان میں سے ایک ویڈیو میں وہ یہ کہتی دکھ رہی ہیں یہاں تو پولیس اور مظاہرین کی ملی بھگت ہے۔ جو لوگ پتھر پھینک رہے ہیں پولیس ان کے خلاف کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ صدف کی بھتیجی سمرن راج ورما نے بتایا کہ انہیں لکھنؤ جیل میں ٹرانسفر کیا گیا ہے۔ انہیں پولیس نے بےرحمی سے پیٹا۔
سمرن نے یہ بھی کہا کہ صدف کے خلاف توڑ پھوڑ،قتل کی کوشش اور دھماکہ خیز اشیا رکھنے سے متعلق سنگین دفعات سمیت 14 دفعات لگائی گئی ہیں۔ جعفرکی بہن ناہید ورما نے کہا کہ پولیس نے ان کے ہاتھ اور پیروں پر لاٹھیاں برسائیں۔ ان کے پیٹ پر لاتیں برسائی گئیں۔ اس سے انہیں انٹرنل بلیڈنگ ہونے لگی۔
اہل خانہ کا کہنا ہے کہ پولیس کی پٹائی سے ان کا ماہواری شروع ہو گیا۔اہل خانہ کو شک ہے کہ پیٹ پر حملہ کرنے سے یہ سب ہوا۔
ہندوستان ٹائمس کی رپورٹ کے مطابق، حضرت گنج پولیس تھانے کے ایس ایچ او ڈی پی کشواہا نے کہا، ‘ہماری ٹیم نے پری ورتن چوک کے پاس دوسرے شرپسند مظاہرین کے ساتھ صدف کو بھی گرفتار کیا۔ انہیں جیل بھیجا گیا ہے۔ ہمارے پاس 19 دسمبر کو ہوئے احتجاج اور مظاہرے میں ان کی شمولیت کے خاطرخواہ ویڈیو ثبوت ہیں۔ وہ اپنی گرفتاری کے خلاف عدالت میں اپیل کر سکتی ہیں۔’
حالانکہ صدف کی بہن ناہید ورما نے کہا، ‘اس(صدف)کے پاس کوئی ہتھیار نہیں تھا اور نہ ہی وہ سرکار کے خلاف کوئی نعرہ لگا رہی تھی۔’صدف نے احتجاج اور مظاہرے کے دوران شر پسند عناصروں کے ذریعے کیے جانے والے تشدد اور اس پر پولیس کے نظرانداز کرنے والے رویےکواجاگر کرتے ہوئے دو ویڈیو بھی فیس بک پر پوسٹ کئے تھے۔
ناہید کہتی ہیں، ‘ان ویڈیو کلپ میں صدف پولیس اہلکاروں سے پتھراؤکر رہے لوگوں کو پکڑنے کو کہہ رہی ہیں جبکہ مردپولیس اہلکار صدف کے ساتھ بدتمیزی کر رہے ہیں اور بعد میں ایک خاتون پولیس اہلکار آکر ان کا ہاتھ پکڑ لیتی ہیں اور انہیں حراست میں لے لیتی ہیں۔ سب کچھ کیمرے میں قید ہے۔’
ناہید کے فیس بک پوسٹ کے مطابق،
‘میری بہن صدف کو 19 دسمبر کو پری ورتن چوک سے گرفتار کیا گیا۔ پولیس کی پوری طرح سے بزدلانہ کارروائی۔ انہوں نے تشدد کرنے اور قتل کی کوشش کا معاملہ درج کیا ہے جبکہ احتجاج اور مظاہرے کے دوران کیا ہو رہا تھا، صدف وہی لائیو رپورٹنگ کر رہی تھیں۔ ان کو حراست میں لیے جانے کو لےکر ہمیں نہیں بتایا گیا اور نہ ہی ان کی (صدف) اپنے گھروالوں سے بات کرائی گئی۔ بچے خوف میں ہیں اور ہم بھی۔ برائے مہربانی ان کی جلد رہائی کی دعا کریں۔’
جن لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی ہیں، ان میں فساد کرنے، غیرقانونی طور پراکٹھا ہونے، قتل کی کوشش، مجرمانہ طورپر دھمکی دینے، سرکاری اہلکاروں پر مجرمانہ حملے سمیت کئی دفعات لگائی گئی ہیں۔ ان پرمبینہ طورپرمجرمانہ سازش کرنے کا معاملہ بھی درج کیا گیا ہے۔ لکھنؤ کے چھ پولیس تھانوں میں 11 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔