گراؤنڈ رپورٹ : گورکھپور میں 20 دسمبر کو شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف ہوئے مظاہرے کے بعد پولیس نے کئی لوگوں کو گرفتارکیا تھا۔ ان میں سے کئی کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ گرفتار کئے لوگ مظاہرے میں موجود نہیں تھے، لیکن پولیس نے ان کو حراست میں لیااور بےرحمی سے مارپیٹ کی۔
پھیری لگاکر کپڑے بیچنے والے دو نوجوان پچھلے 10 دن سے گورکھپور کی جیل میں بند ہیں۔ سیتاپور کے ان دونو جوانوں کوگورکھپور کی کوتوالی پولیس نے 20 دسمبر کو شہریت قانون اور این آر سی کے خلاف ہوئے مظاہرہ کے بعد گرفتار کیا تھا۔مظاہرہ کے دوران دو مقامات-نخاس چوراہے اور مدینہ مسجد کے پاس مظاہرین کی پولیس سے جھڑپ ہوئی تھی۔ پتھراؤ، لاٹھی چارج میں ایک پولیس افسر کی گاڑی کا شیشہ ٹوٹ گیا تھا، ایک ملازم کے ہاتھ میں چوٹ آئی تھی۔ پولیس کے مطابق مظاہرین کے پتھراؤ میں تین داروغہ اور 12سپاہی زخمی ہوئے تھے۔
کوتوالی کے انچارج جئے دیپ ورما کے ذریعےدرج کرائی گئی ایف آئی آر میں کہا گیا ہے،دفعہ 144 نافذ ہونے کے باوجود قانون کے خلاف بھیڑ جمع ہوئی۔ پانچ سو آدمی اینٹ-پتھر، ڈنڈا لئے ہوئے بنے رہے۔ وارننگ کے بعد بھی یہ لوگ نہیں ہٹے۔ سرکاری ملازمین پر حملہ کیا گیا۔ پتھراؤ سے سڑکیں اینٹ-پتھروں سے پٹ گئیں۔ خوف سے عوام میں افراتفری مچی۔ عوام جوتے-چپل چھوڑ بھاگی۔ اے ایس پی پی ٹی ایس راجیش بھارتی کی گاڑی کا شیشہ توڑ دیا گیا۔ پولیس کا لاؤڈہیلر چھین لیا گیا، آنسو گیس والا بیگ چھین لیا گیا۔ پتھراؤ کیا گیا، ڈنڈاچلایا گیا۔
ایف آئی آر میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ بھیڑ کو قابو میں کرنے کے لیے ہلکی طاقت کااستعمال / لاٹھی چارج کیا گیا۔ آنسو گیس کے دس گولےچھوڑے گئے۔کوتوالی کے انچارج جئے دیپ ورما کی تحریر پر 36 نامزد اور سیکڑوں نامعلوم لوگوں کے خلاف 21 سنگین دفعات-تعزیرات ہند، نمبر 1860کی دفعہ 143، 145، 147، 148، 149، 151، 152، 153، 323، 333، 336، 337، 342، 353، 290، 188، 186، 427، 307،504 اور انڈین پینل کوڈ (ترمیم) 2013 کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔
اس معاملے میں اب تک پانچ لوگ گرفتار ہوئے ہیں۔ اس میں سے تین لوگوں-محمد شاداب (36)، حمزہ (21)، ایوب خان (36) کو گرفتار کیاگیا تھا۔ پولیس نے مبینہ شرپسندوں کی تصویریں میڈیا میں جاری کی ہیں اور اس کو جگہ جگہ چسپاں بھی کیا گیا ہے۔دنگا فساد میں پبلک پراپرٹی کو ہوئے نقصان کا تجزیہ کرایا گیا ہے جو تقریباً دو لاکھ روپے کا ہے۔ اس میں ایک پولیس افسر کی گاڑی کاشیشہ ٹوٹنا، آدھا درجن سی سی ٹی وی کیمرا برباد ہونا اور ایک بائیک کا غائب ہونا بھی شامل ہے۔ ضلع انتظامیہ نے ان کے نقصان وصول کرنے کےلئے نوٹس جاری کرنے کی بات کہی ہے۔
اس کے علاوہ 23 لوگوں کو دفعہ 107، 116، 151 میں گرفتار کیا گیا۔ ان 23 لوگوں میں سیتاپور کے راشد علی (22) اور محمد یاسین(23) بھی تھے۔ ان دونوں کو نخاس کے پاس ایک گلی سے گرفتار کیا گیا تھا۔راشد سیتاپور ضلع کے چراغ علی گاؤں اور یاسین دھنواپور گاؤں کے رہنے والے ہیں۔ دونوں کئی سال سے گورکھپور میں پھیری لگاکر چادریں بیچکر گزربسر کر رہے تھے۔ وہ نخاس کے پاس کرایہ کے ایک گھر میں رہتے تھے۔
راشد کے ایک رشتہ دار سلمان نے بتایا کہ ان کو دونوں کی گرفتاری کی اطلاع کئی دن بعد ملی۔ دونوں کا فون نہ ملنے پر رشتہ دار پریشان تھے۔اس بیچ راشد کے مکان مالک نے ان کو جانکاری دی کہ پولیس نے دونوں کو گرفتار کر لیا ہے۔سلمان نے بتایا کہ وہ کچھ دن پہلے جیل میں جاکر دونوں سے ملے۔ راشد اور یاسین نے بتایا کہ جس وقت ہنگامہ ہوا وہ اپنے کمرے میں تھے۔ جب ماحول نارمل ہو گیا تو وہ اپنے کمرے کے زینے سے اترکر پاس میں ہی واقع ایک دکان میں راشن لینے گئے۔
جب وہ دکان پر پہنچے تبھی پولیس والے وہاں آتے دکھے۔ دکاندار پولیس اہلکاروں کو دیکھکر ڈر گیا اور شٹر گرا دیا۔ وہ دونوں بھی دکان کے اندربند ہو گئے۔ اس کے باوجود وہ پولیس سے نہیں بچ سکے۔پولیس اہلکاروں نے دکان کھلواکر راشد اور یاسین کو جم کر پیٹا۔ پولیس نے دکاندار کی بھی پٹائی کی۔ پولیس راشد اور یاسین کو پکڑکے کوتوالی لے گئی اور رات بھر حوالات میں رکھا اور اگلے دن دفعہ 107، 116،151 میں چالان کر دیا۔
سلمان نے بتایا کہ راشد اور یاسین دونوں غریب فیملی کے ہیں اور بےحد سیدھے-سادے ہیں۔ زمین جائیداد نہیں ہے اس لئے وہ گورکھپورجاکر روزگار کر رہے تھے۔ وہ نہ تحریک میں شامل تھے نہ کسی طرح کے فساد میں۔ پھر بھی ان کو پکڑ لیا گیا۔ ان کی ضمانت ہو گئی ہے لیکن ابھی ان کو چھوڑا نہیں گیا ہے۔
راشد اور یاسین کے ساتھ گرفتار کئے گئے زیادہ تر لوگوں کی یہی شکایت ہے کہ ان کو بےوجہ گرفتار کر کے ان پر ظلم کیا گیا ہے۔دفعہ 107، 116 اور 151 میں گرفتار 23 لوگوں میں سے انس، صلاح الدین، محمد افغان، احمد علی، حسین احمد، اجمل، ارشد، محمد ابراہیم،ارشاد اور شمس تبریز کی ضمانت 26 دسمبر کو ہوئی۔ اگلے دن 27 دسمبر کو وقار صدیقی، سرفراز، ارشاد، حشمل عظیم، سلیم، محمد احمد،لطیف، نور الحق، محمد عدیل احمد، گلاب احمد کی ضمانت ہوئی۔
اسی دن راشد اور یاسین کی بھی ضمانت ہوئی لیکن تصدیق کے نام پر دونوں کی رہائی نہیں ہو رہی ہے۔ بتایا جارہا ہے کہ ان کے بارے میں سیتاپور پولیس سے جانکاری منگائی جا رہی اور اس کے بعد ہی رہائی کی جائےگی۔27 تاریخ کو جن لوگوں کی ضمانت ہوئی، ان میں سے ایک افغان بھی ہیں۔ ان کے بھائی پرویز صحافی ہیں۔ پرویز نے بتایا کہ 28 دسمبر کو ان کی بہن کی شادی تھی اور 20 دسمبر کو افغان کو تب گرفتار کیا گیا جب وہ شادی کے کارڈ بانٹنے گیا تھا۔
رشتہ داروں کا کہنا ہے کہ وہ اس کی بےگناہی کے ثبوت پولیس والوں کو دیتے رہے لیکن پولیس نے اس کو جیل بھیج دیا۔
اسی دن بینی گنج واقع مسجد کے نوجوان امام نور الحق (28) اور ان کے معاون ارشاد کو بھی ضمانت ملی۔ ان دونوں کو 20 دسمبر کو دوپہربعد تقریباً 4.30 بجے گرفتار کر لیا گیا۔ حق کے والد عبدالحق نے بتایا کہ نور نماز پڑھانے کے بعد موٹرسائیکل سے ارشاد کے ساتھ کچھ سامان لینے نخاس گئے تھے۔وہ بتاتے ہیں کہ ان دونوں کو نخاس پر ہوئے فساد کے بارے میں معلوم نہیں تھا۔ جب وہ نخاس پر پہنچے تب تک پولیس اور احتجاج کرنے والوں کے درمیان ٹکراؤ ہو چکا تھا۔ حالات عام ہو گئے تھے لیکن وہاں بڑی تعداد میں پولیس اہلکار تعینات تھے اور تمام دکانیں بند تھیں۔
عبدل نے آگے بتایا کہ یہ حالت دیکھ انہوں نے لوٹنا چاہا لیکن ایک پولیس اہلکار نے ان کو دیکھ لیا اور ان کی بائیک کے پہیے میں ڈنڈا پھنسا دیاجس سے وہ دونوں بائیک سے گر پڑے۔ اس کے بعد دونوں کو لاٹھیوں سے پیٹا گیا اور گرفتار کرکے کوتوالی لے جایا گیا۔ وہاں بھی ان کو پیٹا گیا۔ان کے مطابق اس کے بعد دونوں کو کھورابار تھانے بھیج دیا گیا۔ کوتوالی سے لے جاتے وقت پولیس کی گاڑی میں بھی ان کے ساتھ مارپیٹ کی گئی۔ دو دن تک دونوں کو کوتوالی، کھورابار اور کینٹ تھانے میں گھمایا جاتا رہا۔
عبدالحق بتاتے ہیں کہ اس بیچ امن خیرسگالی کمیٹی کے ایک ممبر نے پولیس سے سفارش کی کہ ان کا اس معاملےسے کوئی لینا دینانہیں ہے،پھر بھی ان کو نہیں چھوڑا گیا اور جیل بھیج دیا گیا۔گزشتہ سنیچر کوتقریباً نو دن بعد نور الحق اور ارشاد کو رہائی مل سکی۔ عبدل کہتے ہیں کہ ان کے بیٹے اور ارشاد کو بہت بےرحمی سے پیٹا گیا ہے۔
جیل سے چھوٹے لوگ ابھی بھی دہشت میں ہیں۔ زیادہ تر لوگ میڈیا سے بات کرنے سے بچ رہے ہیں۔ ان کو خدشہ ہے کہ کہیں ایک بار پھر وہ پولیس کی گرفت میں نہ آ جائیں۔
پولیس لائن واقع مسجد میں جمعے کی نماز پڑھنے سے روکا گیا
گزشتہ جمعہ یعنی 27 دسمبر کو پولیس نے پولیس لائن واقع مسجد میں جمعے کی نماز نہیں پڑھنے دی۔ پولیس اہلکاروں نے امام حافظ عظیم یارلوی کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے جا رہے لوگوں کو پولیس لائن کے گیٹ پر یہ کہہکر روک دیا کہ آج سب بند ہے۔
پولیس لائن میں موجود عید گاہ اور مسجد کافی پرانی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اس تاریخی مسجد میں جمعہ کی نماز نہیں پڑھی گئی۔ نماز روکےجانے کے بارے میں اب تک کسی پولیس افسر نے وضاحت نہیں دی ہے۔اس مسجد میں جمعے کی نماز پڑھانے والے امام حافظ عظیم یارلوی نے بتایا، اس مسجد میں دوپہر 1:15 بجے جمعے کی نماز ہوتی ہے۔جمعے میں تقریباً 300 لوگ یہاں نماز ادا کرتے ہیں۔ اب کی جمعے کو پولیس نے پولیس لائن گیٹ پر ہی مجھے اور نمازی کو روک دیااور پولیس نے کہا کہ یہاں سب آج بند ہے۔ نماز نہیں ہوگی۔
امام حافظ نے بتایا کہ ان کے ساتھ تقریباً پچاس لوگوں کو روکا گیا تھا۔
حافظ عظیم نے بتایا، میں یہاں نو مہینے سے نماز پڑھاتا ہوں۔ ایسا پہلے کبھی نہیں ہوا۔ میرے ساتھ ایسے لوگ بھی تھے جو 30 سالوں سےیہاں نماز پڑھتے ہیں۔ ان لوگوں نے کہا کہ اس کے پہلے کبھی ان کو یہاں نماز پڑھنے سے روکا نہیں گیا۔ جب ہمیں مسجد نہیں جانے دیا گیا تو ہم سبھی ناامید ہو گئے۔ مجھے ابھی تک یہ سمجھ میں نہیں آ رہا ہے کہ ہمیں کیوں روکا گیا۔
امام حافظ عظیم یارلوی نے کہا، جب ہمیں پولیس لائن والی مسجد میں جانے سے روک دیا گیا تو ہم پاس کے مسلم مسافر خانہ مسجد میں دوپہرپہنچے، تب پتہ چلا کہ وہاں جمعے کی نماز ہو چکی تھی۔ کچھ دیر بعد قریب بیس لوگوں کو مسلم مسافر خانہ مسجد کی چھت پر دوپہر 1:30بجے میں نے جمعے کی نماز پڑھائی۔
معلوم ہو کہ اتر پردیش میں شہریت ترمیم قانون کو لےکر تشدد کے مختلف واقعات میں اب تک 21 لوگوں کی موت ہوئی ہے۔ گزشتہ 26 دسمبر کوپولیس کی طرف سے دی گئی جانکاری کے مطابق، 288 پولیس اہلکار زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 61 گولی لگنے سے زخمی ہوئے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ 327 ایف آئی آر درج کی گئی ہیں۔ 1113 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے جبکہ 5558 لوگوں کو احتیاطاً حراست میں لیا گیاہے۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا پر اشتعال انگیز پوسٹ کے لیے 124 لوگوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ فیس بک، ٹوئٹر اور یوٹیوب پر 19ہزار سے زیادہ پروفائل بلاک کئے گئے۔اس سے پہلے وزیراعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ نے وارننگ دی تھی کہ پبلک پراپرٹی کو نقصان پہنچانے والوں کو بخشا نہیں جائےگا، ان سے بدلہ لیاجائےگا۔ نقصان کی بھرپائی کی جائےگی۔
(منوج سنگھ گورکھپور نیوزلائن ویب سائٹ کے مدیر ہیں۔ )