گزشتہ دنوں ایک ریلی میں وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا کہ مہاتماگاندھی نے 1947 میں کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والا ہندو، سکھ ہر نظریے سےہندوستان آ سکتا ہے۔ اس سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی بتایا تھا کہ گاندھی جی نے کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے ہندو اور سکھ ساتھیوں کو جب لگے کہ ان کوہندوستان آنا چاہیے تو ان کا استقبال ہے۔ کیا واقعی مہاتما گاندھی نے ایسا کہاتھا جیسا وزیر اعظم اور وزیر داخلہ کہہ رہے ہیں؟
وزیر اعظم نریندر مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ(فوٹو : رائٹرس)
ہمارے تین پڑوسی ممالک کی وہ اقلیت،جو استحصال کی وجہ سے بھاگکر ہندوستان آنے کے لئے مجبور ہوئے ہیں ان کو اس ایکٹ میں کچھ مدد کی گئی ہے، رعایت دی گئی ہے، کچھ ڈھیل دی گئی ہے اور یہ رعایت بھی مودی کی سوچ ہے ایسا ماننے کی ضرورت نہیں ہے، یہ راتوں رات مودی کو خیال آ گیا تو مودی نےکر دیا ایسا نہیں ہے۔ یہ رعایت مہاتما گاندھی کے جذبہ کے ہی تحت ہے۔ مہاتما گاندھی نے کہا تھا، کم سے کم یہ لوگ جو مہاتما گاندھی کو لےکر ملک پر باتیں کرتے رہے اورآج بھی گاندھی سرنیم کا فائدہ اٹھانے کی باتیں کرتے ہیں ذرا وہ کان کھولکر سن لو،گاندھی جی نے کہا تھا، مودی کو مانو یا نہ مانو ارے گاندھی کو تو مانو۔ مہاتماگاندھی جی نے کہا تھا کہ پاکستان میں رہنے والے ہندو اور سکھ ساتھیوں کو جب لگے کہ ان کو ہندوستان آنا چاہیے تو ان کا استقبال ہے، یہ میں نہیں کہہ رہا ہوں عزت مآب مہاتما گاندھی کہہ رہےہیں۔
یہ حصہ وزیر اعظم نریندر مودی کی تقریر کا ہے، جو انہوں نے دہلی واقع رام لیلا میدان میں دی تھی۔ اس ریلی کے ایک مہینے بعد آپ کو بتاتے ہوئے دکھ ہورہا ہے کہ ہمارے وزیر اعظم مہاتما گاندھی کو لےکر بھی جھوٹ بول سکتے ہیں۔جھوٹ بولنے میں ایک سیکنڈ نہیں لگتا، کئی بار اس جھوٹ کو پکڑنے میں ایک دہائی لگ جاتے ہیں۔ گاندھی نے اس طرح سے کبھی نہیں کہا تھا کہ پاکستان سے جب چاہے ہندو اور سکھ بھائی ہندوستان آ سکتے ہیں، بلکہ گاندھی تو بار بار یہی کہتےرہے کہ پاکستان اور ہندوستان میں اقلیتوں کو اپنے ساتھ ہونے والی ناانصافی کے لئےجدو جہد کرتے ہوئے مٹ جانا چاہیے، تو اس میں ان کو زیادہ خوشی ہوگی۔
وزیر داخلہ امت شاہ تو بہار کے ویشالی کی ریلی میں لکھکر لائے تھےاور پڑھکر بتا رہے تھے کہ گاندھی نے اسی طرح کی بات 26 ستمبر 1947 کو کہا تھا۔انہوں نے کہا؛
مہاتما گاندھی نے 26 ستمبر 1947 کو کہا کہ پاکستان میں رہنے والاہندو سکھ ہر نظریہ سے ہندوستان آ سکتا ہے۔ اس کو نوکری اور خوشحال زندگی ملے،شہریت ملے، آزاد ہندوستان کا پہلا فرض ہے۔
کیا واقعی مہاتما گاندھی نے ایسا کہا تھا جیسا وزیر اعظم مودی اوروزیر داخلہ امت شاہ کہہ رہے ہیں؟
میرے سامنے گاندھی کی نصیحت والی تقریروں کا ایک مجموعہ ہے۔ اس کواشوک واجپائی نے مرتب کیا ہے۔ اس میں 1 اپریل 1947 سے لےکر 29 جنوری 1948 کےدرمیان گاندھی جی کی تمام تقریروں کو شامل کیا گیا ہے۔رضا فاؤنڈیشن اور راج کمل پرکاشن نے ملکر اس کو ہندی میں چھاپا ہے۔اسی کتاب سے آپ 5 جولائی 1947 کا گاندھی جیکی تقریر کا ایک حصہ ملاحظہ کیجیے-
مگر پاکستان کا اصلی امتحان تو یہ ہوگا کہ وہ اپنے یہاں رہنے والے وطن پرست مسلمانوں، عیسائیوں، سکھوں اور ہندوؤںوغیرہ کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلمانوں میں بھی تو کئی فرقےہیں۔ شیعہ اور سنی تو مشہور ہیں اور بھی کئی فرقے ہیں جن کے ساتھ دیکھتے ہیں کیسا سلوک ہوتا ہے۔ ہندوؤں کے ساتھ وہ لڑائی کریںگے یا دوستی کے ساتھ چلیںگے؟
اس دن گاندھی صاف صاف کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں صرف شیعہ اورسنی نہیں ہیں۔ مسلمانوں میں اور بھی فرقے ہیں۔ وہ دیکھنا چاہیںگے کہ ان برادریوں کے ساتھ پاکستان کس طرح کا سلوک کرتا ہے۔اسی بات کو لےکر اپوزیشن نے پارلیامنٹ کی بحث میں حکومت سے کہا تھا کہ مذہب کا نام جوڑکر ایسے ستائے گئے لوگوں کے لئے آپ راستہ بندکر رہے ہیں۔ یہ آئین اور گاندھی جی کے جذبہ کے موافق نہیں ہے۔
مگر حکومت کو لگا کہ گاندھی کو کون آج کل پڑھتا ہوگا۔ ہندی اخباروں میں تو وہی چھپےگا جو ہم کہیںگے۔ پڑھنے والا اس کو ہی سچ مانکر پارکوں میں چرچہ کرےگا کہ مودی جی جو کر رہے ہیں، ملک کے لئے کر رہے ہیں۔ ایسا ہوا بھی۔ہندی اخبار ابھی بھی نہیں چھاپیںگے کہ مودی اور شاہ نے گاندھی کو غلط طریقے سےپیش کیا ہے۔
5 جولائی 1947 کی تقریر میں گاندھی جی سب سے پہلے نئے پاکستان میں وطن پرست مسلمانوں کے ساتھ سلوک کا ذکر کرتے ہیں۔ اب سوال اٹھتا ہے کہ پاکستان میں رہنے والا وطن پرست مسلمان کون ہے؟10 جولائی 1947 اور 12 جولائی 1947 کی دعائیہ تقریب میں گاندھی کی تقریر کے اس حصے کو دیکھتے ہیں جس میں گاندھی وطن پرست مسلمان کا نہ صرف ذکر کرتے ہیں بلکہ واضح بھی ہوتا ہے کہ یہ وطن پرست مسلمان کون ہے۔
(5 جولائی 1947)
لیکن اگر سندھ یا دیگر جگہوں سے لوگ ڈرکے مارے اپنے گھر-بار چھوڑکر یہاں آ جاتے ہیں تو کیا ہم ان کو بھگا دیں؟ اگرہم ایسا کریں تو اپنے کو ہندوستانی کس منھ سے کہیںگے؟ ہم کیسے جئے ہند کا نعرہ لگائیںگے؟ یہ کہتے ہوئے ان کا استقبال کریں کہ آئیے یہ بھی آپ کا ملک ہے اور وہ بھی آپ کا ملک ہے۔ اس طرح سے ان کو رکھنا چاہیے۔ اگر وطن پرست مسلمانوں کو بھی پاکستان چھوڑکر آنا پڑا تو وہ بھی یہیں رہیںگے۔ ہم ہندوستانی کی حیثیت سے سب ایک ہی ہیں۔ اگر یہ نہیں بنتا تو ہندوستان بن نہیں سکتا۔
(12 جولائی 1947)
میرے پاس ان دنوں کافی مسلمان ملنے آتے ہیں۔ وہ بھی پاکستان سےکانپتے ہیں۔ عیسائی، پارسی اور دوسرے غیر مسلمان ڈرے یہ تو سمجھ میں آ سکتا ہے،مگر مسلمان کیوں ڈرے؟ وہ کہتے ہیں کہ ہمیں غدار وطن کویسلنگ [Quisling] ماناجاتا ہے۔ پاکستان میں ہندوؤں کو جو تکلیف ہوگی اس سے زیادہ ہمیں ہوگی۔ پورااقتدار ملتے ہی ہمارا کانگریس کے ساتھ رہنا شریعت کے حساب سے گناہ مانا جائےگا۔
اسلام کے یہ معانی ہیں تو اس کو میں نہیں مانتا۔ قومی مسلمانوں کوکیسے کوسلنگ کہا جا سکتا ہے؟ مجھے امید ہے کہ جناح صاحب جہاں غیر مسلم اقلیتوں کی حفاظت کریںگے، وہاں ان مسلمانوں کو بھی پورا تحفظ دیںگے۔
12 جولائی کی تقریر کے سیاق و سباق سےصاف ہوتا ہے کہ وطن پرست مسلمان وہ ہے جو گاندھی کے راستے پر چلتا ہے۔ کانگریس سےجڑا ہے، لیکن اس کو ڈر ہے کہ نئے پاکستان میں کانگریس کے ساتھ رہنے کو شریعت کی روسے گناہ مانا جائےگا۔ اس کا پس منظر کانگریس حامی مسلمانوں اور مسلم لیگ کے حامی مسلمانوں کی جدو جہد میں ہے۔مؤرخ یاسمین خان نے اپنی کتاب دی گریٹ پارٹیشن دی میکنگ آف انڈیااینڈ پاکستان میں تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ برٹش حکومت نے آزادی کی بات چیت کے لئے طے کیا کہ اسی سے بات ہوگی جو چنکر آئیںگے۔ اس کے لئے دسمبر 1945سے مارچ 1946 کے درمیان انتخاب کرائے گئے۔
اس انتخاب میں مسلمانوں کے لئے سیٹیں ریزرو تھیں، جہاں پر مسلمان ہی مسلم امیدوار چن سکتے ہیں۔ ان سیٹوں پر لیگی مسلمان اور کانگریسی مسلمانوں میں زبردست جدو جہد ہوتی ہے۔ مسلم محلوں میں کانگریسی مسلمان اکیلے پڑ گئے۔ وہ لیگی مسلمانوں سے پٹتے رہے مگر گاندھی کے راستے پر ٹکے رہے۔ ان کو لیگ کے حامی مولاناکافر کہتے ہیں۔
جمیۃ العلماء کے صدر نے 1945 میں ایک فتویٰ دیا تھا۔ محمد علی جناح کو کافرِاعظم کہا تھا۔ گاندھی کی فکر میں یہی وطن پرست مسلمان ہیں جو جناح کو مسترد کرتے رہے۔ ہندوستان میں بھی۔ نئے پاکستان میں بھی۔یہ وہ دور تھا جب وطن پرست مسلمان جناح کو مسترد کرنے کے ساتھاپنے ہی گھروں اور رشتہ داروں میں جدو جہد کر رہا تھا۔ تقسیم کے بعد بہت سے وطن پرست مسلمان پاکستان رہ گئے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ ان کو جناح کے پاکستان میں یقین تھا۔ یہی وہ مسلمان ہیں جو گاندھی کے پاس آکر کہتے ہیں کہ جناح کے پاکستان میں ان کو ڈر لگتا ہے۔
بہت سے مسلمانوں جناح کے پاکستان کو مسترد کرکے ہندوستان بھی آئے۔ نہ آتے تو دلیپ کمار جیسا شاندار اداکار ہندی سینما کا سرتاج نہیں بنتا۔ آنےاور نہیں آنے کے درمیان ایک بات یاد رکھنی چاہیے کہ جب تقسیم ہوا تو کئی لوگوں کو لگاتھا کہ لوگ نہیں بنٹیںگے۔ لوگ پھر سے ایک دن جڑ جائیںگے۔وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ اپنی تقریروں میں جناح سےلڑنے والے وطن پرست مسلمانوں کو مسترد کر دیتے ہیں۔ ان کا ذکر تک نہیں کرتے۔ ان کےلئے سارے مسلمان کپڑے سے پہچانے جانے چاہیے اور وہ کپڑا ان کے حساب سے ایک جیساہی ہے۔
جبکہ اس ملک میں مسلمان دھوتی بھی پہنتے ہیں۔ 25 لاکھ کا نہ صحیح مگر سوٹ اور شیروانی بھی پہنتے ہیں۔ کیا آئین کے کسی تصور میں وطن پرست مسلمانوں کو مسترد کرنا گاندھی کی بات ہو سکتی ہے؟ میرا جواب ہے نہیں ہو سکتی ہے۔ویشالی ضلع میں وزیر داخلہ امت شاہ نے گاندھی کا حوالہ دیتے ہوئے تاریخ بھی بتائی کہ انہوں نے 26 ستمبر 1947 کو کہا تھا۔ میں نےاشوک واجپائی کے مرتبہ مجموعہ میں 26 ستمبر 1947 کا بھی تقریرپڑھا۔ وزیر داخلہ نے تاریخ تو صحیح بتائی مگر تقریر صحیح نہیں پڑھی۔
گاندھی اس دن اپنی تقریر میں پاکستان سے ملنے آئے ایک ویدھ گرودت کی بات چیت سناتے ہیں۔ گرودت گاندھی سے کہتے ہیں کہ میں نے آپ کی بات نہیں مانی،میں چلا آیا۔ وہاں کی حکومت پر اثر نہیں ہوتا ہے۔ ہم ہندو مسلمان کل تک دوست تھے،آج کسی پر بھروسہ ہی نہیں کرتے ہیں۔
گاندھی کی کون-سی بات گرودت نے نہیں مانی؟ کیونکہ گاندھی کہتے تھےجو جہاں ہیں وہ اپنی حکومت کی ناانصافی کے خلاف جدو جہد کرے۔ بھلےہی جدو جہد کی راہ میں مٹ جائے ان کو تکلیف نہیں ہوگی۔اس دن کی تقریر میں گاندھی ایک لفظ کا ذکر کرتے ہیں۔ پانچواں ستون۔پانچواں ستون ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جو دشمن کی مدد کرتے ہیں۔ گاندھی جی 26ستمبر 1947 کے جلسہ میں گاندھی کی تقریر کے اس حصے کا ذکر ضروری ہے تاکہ وزیر اعظم مودی اور وزیر داخلہ امت شاہ کو پتہ چلے کہ گاندھی نے کبھی ایسا نہیں کہا کہ جب چاہے ہندو اور سکھ اٹھکر پاکستان سے ہندوستان چلے آئیں۔
اگر پاکستان میں ہندو کو اورہندوستان میں مسلمانوں کو پانچواں ستون یعنی غدار سمجھا جائے، بھروسے کے قابل نہ سمجھا جائے تو یہ چلنے والی بات نہیں ہیں۔ اگر وہ پاکستان میں رہکر پاکستان سے بےوفائی کرتے ہیں تو ہم ایک طرف سے بات نہیں کر سکتے۔
اگر ہم یہاں جتنے مسلمان رہتے ہیں ان کو پانچواں ستون بنا دیتے ہیں تو وہاں پاکستان میں جو ہندو، سکھ رہتے ہیں کیا ان سب کو بھی پانچواں ستون بنانےوالے ہیں؟ یہ چلنے والی بات نہیں ہے۔
جو وہاں رہتے ہیں اگر وہ وہاں نہیں رہنا چاہتے تو یہاں خوشی سے آجائیں۔ ان کو کام دینا ان کو آرام سے رکھنا ہماری یونین حکومت کامذہب ہو جاتا ہے،لیکن ایسا نہیں ہو سکتا کہ وہ وہاں بیٹھے رہیں، اور چھوٹے جاسوس بنیں، کام پاکستان کا نہیں، ہمارا کریں۔ یہ بننے والی بات نہیں ہے اور اس میں میں شریک نہیں ہو سکتا۔
گاندھی نے پاکستان میں اقلیت ہندوؤں اور ہندوستان میں اقلیت مسلمانوں کی قومیت پر شک کرنے کی کسی بھی بات کی مخالفت کی تھی۔ گاندھی نے کبھی نہیں کہا کہ مسلمانوں کے کپڑے یاد رکھنا۔گاندھی نے اپنے 26 ستمبر 1947 کی تقریر کے آخر میں ایک بات اور کہی تھی جو شاید امت شاہ نے پڑھی نہیں۔ ستیہ میو جیتے، نانرتم۔ سچ کی جئے ہوتی ہے۔جھوٹ کی جئے نہیں ہوتی ہے۔انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ؛
اگر مان لیا جائے کہ پاکستان میں سب مسلمان گندے ہیں تو اس سے ہمیں کیا؟ میں تو آپ کو کہوںگا کہ ہندوستان کو سمندر ہی رکھیں، جس سے ساری گندگی بہہ جائے۔ ہمارا یہ کام نہیں ہو سکتا کہ کوئی گندا کرے توہم بھی گندا کریں۔
میں چاہتا ہوں کہ وزیر اعظم مودی گاندھی کی ان تقریروں کو پڑھتے ہوئے ان سے من کی بات کریں۔ ان کی تقریروں کو پڑھتے ہوئے ہاتھ کانپنےلگیںگے۔ ہونٹ تھرتھرانے لگیںگے۔ وہ دیکھ سکیںگے کہ کیسے گاندھی عوام اور رہنماسے ہار جانے کے بعد اکیلے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ دہلی سے نوواکھلی تو کبھی بہار جارہے ہیں۔ اپنے عدم تشدد اور سچ کو لےکر پھر سے ایک تجربہ کر رہے ہیں۔ جس کو پھر سےکھڑا کرنے کی آخری کوشش ان کی جان لے لیتی ہے۔
جو جان لیتے ہیں اس کو محب وطن بتانے والے کو وزیر اعظم مودی بھوپال سے لوک سبھا کا ٹکٹ دے رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کا ایک رہنما امیتابھ سنہا ٹی وی ٹوڈےچینل کی بحث میں کنہیا کے سوال کے جواب میں کہتا ہے کہ میں گوڈسے کی مذمت نہیں کروںگا۔میرا یقین ہے گاندھی کی ان تقریروں کو پڑھنے کے بعد وزیر اعظم مودی اسی رام لیلا میدان میں جائیںگے، کہیںگے کہ اس میدان کا نام رام سے جڑا ہے۔ رام کا نام سچ سے جڑا ہے۔ گاندھی کا نام بھی سچ سے جڑا ہے۔ میں نے رام اور گاندھی دونوں کا نام لےکر، دونوں سے جھوٹ بولا ہے۔ رویش کمار صحیح کہتا ہے۔ میں ہندوستان کی 130 کروڑ عوام سے معافی مانگتا ہوں۔