ورق در ورق:لنچ فائلز، محض وقتی اور ہنگامی مسئلے پر ایک کتاب نہیں ہے

ضیاء السلام نے محض وقتی اور ہنگامی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے توسط سے انسانی سرشت میں مضمر تشدد سے گہری دلچسپی کی روش کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔

ضیاء السلام نے محض وقتی اور ہنگامی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے توسط سے انسانی سرشت میں مضمر تشدد سے گہری دلچسپی کی روش کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔

Lynch files

رواداری، گہرے انسانی روابط اور باہمی یگانگت کو زمانہ قدیم سے ہندوستانی تہذیب کا شناس نامہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ یہاں کی تمام زبانیں علی الخصوص اردو اور ہندی میل جول، غم خواری اور بھائی چارہ کی تفصیلات سے اپنا وجود قائم کرتی ہیں۔ یہی سبب ہے کہ انتہائی مکروہ فعل جسے انگریزی میں لنچنگ کہا جاتا ہے، کے لیے اردو یا ہندی میں کوئی لفظ نہیں ہے اور نہ یہ لفظ بطور اصطلاح رائج ہو سکا ہے۔ پیٹ پیٹ کر مار دینے سے لنچنگ کے مفہوم کی ترسیل کی جاتی ہے۔

 پتھر مار مار کر ہلاک کرنے کے لیے’سنگسار’ کی اصطلاح موجود ہے کہ یہ شرعی سزا بھی ہے۔ ادھر گزشتہ پانچ برسوں سے ماہرین لغت لنچنگ کے اردو متبادل کے لیے سرگرداں ہیں کہ ملک کے مختلف حصوں میں گئو کشی کے مبینہ الزام میں متعدد مسلمانوں کومشتعل ہجوم نے زدو کوب کرکے ہلاک کر دیا۔ یہ ہندوستان کی معاصر سیاسی حقیقت کا ایک ایسا تاریک پہلو ہے جس نے انسانی سفاکی اور بربریت کا ایک نیا خوں آشام منطقہ قائم کیا ہے۔

 اس غیرانسانی اور مکروہ ترین بیانیہ کے خد وخال اور اس کے فکری اور تاریخی تناظر کی پوری معروضیت کے ساتھ نشان دہی سیاسی تجزیہ نگاروں، ادیبوں، معاصر مؤرخوں اور صحافیوں کی اولین ذمہ داری ہے۔ یہ امر باعث اطمینان ہے کہ یہ فریضہ انگریزی کے مشہور ادیب اور صحافی ضیاء السلام نے پوری پیشہ وارانہ دیانت داری کے ساتھ انجام دیا ہے اور اس کا ثبوت ان کی نئی کتاب لنچنگ فائلز ہے۔

زیر نظر کتاب کے ابواب کو مصنف نے’فائل’ کا نام دیا ہے۔ پانچ فائلوں پر مشتمل انسانی بربریت اور سفاکی کے مختلف پہلوؤں کو محیط یہ کتاب مذہبی تقدیس کی حامل’گائے’ کو ایک پرتشدد سیاسی حربے کے طور پر استعمال کرنے کی خونچکاں داستان پورے دستاویزی شواہد کے ساتھ بیان کرتی ہے۔ ضیاء السلام نے جن کی طلاق ثلاثہ سے متعلق کتاب کی صحافتی اورعلمی حلقوں میں بڑی پذیرائی ہوئی تھی، اب فرقہ وارانہ فساد کے متبادل کی صورت میں ہونے والے کہیں زیادہ غیر انسانی فعل لنچنگ کو اپنی صحافتی اور علمی تحقیق کا ہدف بنایا ہے۔

مصنف نے لنچنگ کے تاریخی پس منظر کی وضاحت کرتے ہوئے بجا طور پر لکھا ہے کہ اس کی ابتدا امریکی خانہ جنگی کے دوران (1861 میں) ہوئی تھی۔ امریکہ کے سیاہ فام باشندے جب غلامی کا طوق اپنے گلے سے اتار کر آزاد ہونے کی کوشش کرتے تھے تو انہیں سر راہ پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا جاتا تھا۔ مصنف کے مطابق خانہ جنگی کے بعد یعنی 1880 سے 1930 تک اس نوع کی ہلاکتوں کے 2400واقعات ہوئے اور پھر یہ سلسلہ منقطع ہو گیا۔ یہ لفظ اب برسوں بعد یعنی جون2014 میں پھر استعمال کیا گیا جب دادری میں محمد اخلاق کو گائے کا گوشت کھانے اور اسے اپنے گھر میں رکھنے کے مبینہ الزام میں پیٹ پیٹ کر ہلاک کر دیا گیا۔

لنچنگ کوئی اضطراری اور ہیجان انگیز جذباتی فعل نہیں ہے۔ یہ ایک سوچی سمجھی سازش ہوتی ہے۔مصنف کے مطابق اس مکروہ فعل کو انجام دینے والوں کو خوب معلوم ہوتا ہے کہ ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی اور سوشل میڈیا پر ان کی جانب سے جاری کیے گئے ویڈیو کی پذیرائی کی جائے گی۔ قانون کے ہاتھ ان تک نہیں پہنچ سکیں گے اور مقتول کے خلاف ایف آر آئی درج ہوگی۔

پہلے باب (فائل ایک) میں مصنف نے تفصیلی شواہد اور گہری سیاسی بصیرت کے ساتھ یہ واضح کیا ہے کہ کس طرح لنچنگ نے فرقہ وارانہ فساد کے متبادل کے طور پر خود کو قائم کیا ہے۔ ضیاء السلام نے صحیح لکھا ہے کہ لنچنگ کے اثرات فرقہ وارانہ فساد کے مقابلے میں کہیں زیادہ تباہ کن ہوتے ہیں۔ فرقہ وارانہ فساد میں دو فریق ملوث ہوتے ہیں اوردونوں کا نقصان ہوتا ہے اور پولیس اور حکومت اس پر قابو پانے کی کوشش بھی کرتی ہے کہ قانون کی بالادستی کا بھرم قائم رہے مگر لنچنگ کے نتیجے میں متعلقہ کنبہ اس علاقے کو خیر باد کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے اور اس کی داد رسی بھی نہیں ہوتی ہے۔

 مصنف نے اس طرح کے واقعات کی ضمن میں گئو کشی کے مبینہ سبب کے ضمن میں مشہور مؤرخ پروفیسر ڈی این جھا کے حوالے سے لکھا ہے کہ گائے کبھی روحانی مقصد براری کے لیے استعمال نہیں کی گئی اور19ویں صدی کے آخر اور بیسویں صدی میں اس کا سیاسی استعمال شروع کیا گیا۔ اس سلسلے میں پروفیسر جھا نے دیانند سرسوتی کا ذکر کیا ہے جنہوں نے گائے کو سیاسی مفادات کے سلسلے میں استعمال کیا۔

مصنف نے اسی باب میں بھارتیہ گئو رَکشا دَل کے قیام اوران کے مقاصد پر بھی تفصیلی روشنی ڈالی ہے اور گئو کشی کے الزام میں مسلمانوں کو سر عام ہلاک کرنے کے واقعات میں مماثلت کے پہلوؤں کو خاطر نشان کیا ہے۔ دوسرے باب (دوسری فائل) میں دادری، پونہ، الور، چتور گڑھ، راج سمند، بلب گڑھ، کُرُکشیتر، ہاپوڑ، رام گڑھ، گریڈیہ، لتیہر، جمو ں اورستنا کے واقعات کو ممکنہ پوری تفصیلات کے ساتھ درج کیا ہے۔ یہاں صرف اخباری رپورٹوں پر اکتفا نہیں کیا گیا ہے بلکہ اس سلسلے میں مختلف سیاسی تجزیہ کاروں کے بیانات کو بھی پیش نظر رکھا گیا ہے۔

اخلاق، جنید، مستحسن عباس، افضل، عثمان انصاری، مظلوم انصاری، امتیاز، نعمان، سمیع، سراج خاں، رضوان، شکیل، کامل اور اشفاق کی بہیمانہ ہلاکت اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خوف و ہراس کے ماحول اور حکومت کی سطح پر خطاکاروں کی پاسداری کے مختلف نکات تحقیقی دیانت داری کے ساتھ اجاگر کیے گئے ہیں۔ مصنف نے فرقہ وارانہ فساد اور لنچنگ کو انسانی بہیمیت، بربریت اور نفرت کا یکساں مظہر قراردینے کے باوجود آخرالذکر کو انسانیت کے لیے زیادہ بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔

انہوں نے ان انسانیت سوز واقعات کے تئیں وزیر اعظم کی خاموشی اور خطاکاروں کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے لیڈروں کے ہاتھوں پذیرائی کو ہندوستانی جمہوریت کے لیے ایک سنگین خطرہ ٹھہرایا ہے۔ انہوں نے اس ضمن میں آر ایس ایس کی فکر کے مبلغ ایم ایس گولوالکر کے اقوال کثرت سے نقل کیے ہیں۔ گولوالکر کے مطابق وہ لوگ جن کی پِتر بھومی (فادر لینڈ)اور پُنیہ بھومی (مقدس زمین) ایک نہیں ہے، ان کو اکثریتی فرقہ کے رحم وکرم پر زندہ رہنے کا حق دیا جائے گا۔

وہ لوگ یا تو قومی دھارے یا اکثریتی فرقہ کے تہذیبی ورثے کو پوری طرح قبول کرلیں اور اس میں ضم ہو جائیں یا پھر وہ شہری حقوق سے عاری ہو کر اکثریت کی صوابدید پر منحصر رہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق اکثریتی فرقہ کی فرقہ واریت Nationalism ہے اور اقلیتی فرقہ کی فرقہ واریت محض فرقہ واریت ہے۔ مصنف کے مطابق گرو گولوالکر کے اسی نقطہ نظر نے ملک میں فرقہ واریت کی لو کو بہت تیز کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں مسلمان اور دیگر اقلیتوں کا بری طرح استحصال کیا جارہا ہے۔

مصنف نے محض مسلمانوں کی لرزہ خیز داستان بیان نہیں کی ہے بلکہ دلتوں کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک اورتشدد کے واقعات کی روداد بھی پوری قوت کے ساتھ بیان کی ہے۔ باب سوم (فائل تین) میں ہمیر پور (ہماچل پردیش)اور اُونا میں اعلیٰ ذات کے افراد پر مشتمل ہجوم نے کس طرح دلتوں پر مظالم توڑے اور انہیں کس کس طرح ذلیل کرنے کی کوشش کی، یہ پوری تفصیل جامعیت کے ساتھ بیان کی گئی ہے۔

کتاب میں لنچنگ کے ان واقعات کو بھی توجہ کا مرکز بنایا گیا ہے جن سے واقفیت عام نہیں ہے۔ چوتھا باب (فائل چار)اسی اجمال کی تفصیل کو محیط ہے۔ مصنف سیاسی جماعتوں اورسرکاری اہلکاروں سے بجا طورپر نالاں نظر آتے ہیں اور ان کی امید کا مرکز عدلیہ ہے۔ سپریم کورٹ نے 17؍جولائی 2018 میں تحسین پونہ والا بنام حکومت ہند مقدمہ میں اپنے فیصلے میں ہندوستان میں2014کے بعد ہونے والے لنچنگ کے واقعات پر سخت نوٹس لیا تھا۔

مصنف کے مطابق 45 صفحے پر مشتمل سپریم کورٹ کا یہ فیصلہ اس نوع کے واقعات پر قدغن لگانے میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا ہے اور سپریم کورٹ کی مداخلت سے اقلیتوں میں تحفظ کا بجا طور پر احساس جاگا۔

اس کتاب کا پیش لفظ گجرات کے نوجوان دلت رہنما جگنیش میوانی نے لکھا ہے جس میں انہوں نے اس امر پر گہرے تاسف کا اظہار کیا ہے کہ 2014 میں وزیر اعظم نریندر مودی نے لال قلعہ کی فصیل سے ملک کو خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ دس سال کے لیے فرقہ وارانہ اور ذات پات پر مبنی تشدد پر پابندی لگا دی جائے گی، مگر یہ وعدہ ان کے دیگر وعدوں کی طرح پورا نہ ہوا۔ اس کا نتیجہ بالکل الٹا نکلا اور لنچنگ ایک نئی سیاسی حقیقت کے طور پر ہمارے سامنے آئی۔

ضیاء السلام نے محض وقتی اور ہنگامی مسئلے کو موضوع بحث نہیں بنایا ہے بلکہ انہوں نے اپنی اس کتاب کے توسط سے انسانی سرشت میں مضمر تشدد سے گہری دلچسپی کی روش کو بھی گرفت میں لینے کی کوشش کی ہے اور اس نوع کے واقعات کے تاریخی پس منظر کو بھی موضوع بحث بنایا ہے۔ اس لحاظ سے اس کتاب میں ایک لازمانی جہت بھی پیدا ہو گئی ہے۔

ضیاء السلام ایک کثیر التصانیف ادیب ہیں اور ان کی فکر انگیز تحریریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں مگر خدا سے دعا ہے کہ انہیں لنچنگ فائلزکی طرح کی دوسری کوئی کتاب نہ لکھنی پڑے۔

(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)

Next Article

ہریانہ: ٹوپی کو لے کر ہوئے جھگڑے میں مسلم نوجوان کی موت، پولیس نے کہا – کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں

گزشتہ دنوں ہریانہ کے پانی پت میں بہار کے کشن گنج سے تعلق رکھنے والے مزدورفردوس عالم کی مذہبی ٹوپی کو لے کر ہوئے تنازعہ کے دوران حملے کے بعد موت ہو گئی۔ اہل خانہ نے اس کی وجہ ان کی مذہبی پہچان  بتائی ہے، جبکہ پولیس نے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویے سے انکار کیا ہے۔

فردوس عالم (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: ہریانہ کے پانی پت میں 24 مئی کو ایک 24 سالہ مزدور فردوس عالم عرف اسجد بابو کی جان لیوا حملے میں موت ہوگئی۔ یہ واقعہ مذہبی ٹوپی کے حوالے سےہوئے جھگڑے کے بعد پیش آیا،  جو بعد میں پرتشدد ہو گیا۔

تاہم، پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعہ میں کوئی فرقہ وارانہ زاویہ نہیں ہے۔

فردوس بہار کے کشن گنج ضلع کا رہنے والا تھا اور پانی پت کی ایک فیکٹری میں درزی کا کام کرتا تھا۔ فردوس کے بھائی اسد نے بتایا کہ فردوس حال ہی میں شادی کرکے اپنی سسرال سے اپنے دوست شاہنواز کے ساتھ واپس لوٹ رہے تھے۔ رات 8 بجے کے قریب، سیکٹر 29 کے فلورا چوک کے پاس ان کی ملاقات ایک دکاندار شیشو لال عرف نریندر سے ہوئی، جو وہاں کریانہ کی دکان چلاتا ہے۔

اسد نے کہا، ‘اس نے میرے بھائی کی ٹوپی چھین کر پہن  لی اور مذاق اڑانے لگا۔ جب میرے بھائی نے اسے ٹوپی واپس کرنے کو کہا تو اس نے ٹوپی زمین پر پھینک دی۔’

اسد کے مطابق، فردوس نے لڑائی نہیں کی۔ اسد نے بتایا، ‘اس نے صرف غصے سے دیکھا اور پوچھا کہ ٹوپی کیوں پھینکی؟ اس پر نریندر غصے میں آگیا اور بولا، تو مجھ سے اس طرح  بات کیسے کر سکتا ہے؟’ اس کے بعد جب فردوس اپنی ٹوپی لینے کے لیے نیچے جھکے تو نریندر نے اس کے سر پر ڈنڈے سے وار کیا اور پوچھا کہ کیسا لگا۔ حملے کے بعد فردوس بے ہوش ہو گئے۔

شاہنواز نے بتایا کہ انہوں نے گھبراکر اسد کو فون کیا۔ اسد موقع پر پہنچے اور انہیں  مقامی سرکاری ہسپتال لے گئے، جہاں سے انہیں پی جی آئی روہتک ریفر کر دیا گیا۔ فردوس کی روہتک میں علاج کے دوران موت ہو گئی۔

اسد نے بتایا،’ میں 9 سال سے  درزی کا کام کر رہا ہوں، فردوس دو سال پہلے ہی آیاتھا۔ میں یہاں بہت زیادہ لوگوں کو نہیں جانتا ہوں ، تو فردوس اس دکاندار کو کیسے جانتا ہوگا۔’

اسد کا مانناہے کہ اس کے بھائی کو اس کی مذہبی پہچان  کی وجہ سے قتل کیا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘ان دنوں حالات ہی ایسے ہیں۔’

ملزم نریندر کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس کے خلاف بھارتیہ نیائے سنہتا (بی این سی) کی کئی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے،جس میں دفعہ 103(1) (جان بوجھ کر کیا گیا قتل) بھی شامل ہے۔

پولیس کا فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار

تاہم، انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق ، پانی پت پولیس نے اس واقعے کے پیچھے کسی بھی فرقہ وارانہ زاویہ سے انکار کیا ہے۔ رپورٹ میں انڈسٹریل سیکٹر 29 تھانے کے تھانہ انچارج (ایس ایچ او) سبھاش  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے،’بالکل نہیں (جب فرقہ وارانہ زاویہ کے بارے میں پوچھا گیا))۔ ملزم نے صرف ٹوپی پہن کر  دیکھنا چاہا تھا، اسے شاید یہ بھی معلوم نہ ہو کہ یہ مذہبی ٹوپی ہے۔ اس نے ٹوپی پہن کر پوچھا کہ یہ کیسی لگ رہی ہے، جس پر متوفی نے اسے لوٹانے کے لیے کہا۔اس کے بعد جھگڑا ہو گیا،معاملہ اس سے زیادہ کچھ نہیں ہے۔ تفتیش جاری ہے۔’

وہیں،کشن گنج کے کانگریس ایم پی محمد جاوید نے اس واقعہ کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس  پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں ہے، بلکہ ‘ریاستی سرپرستی ‘  میں دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ ہے۔

انہوں نے لکھا، ‘ہریانہ میں کشن گنج کے کوچادھامن کے اسجد بابو کو صرف اس لیے بے دردی سے قتل کر دیا گیا کیونکہ اس نے ٹوپی پہن رکھی تھی۔ یہ صرف ہیٹ کرائم نہیں، بلکہ ریاستی سرپرستی میں دہشت گردی ہے۔ اس ٹارگٹ کلنگ کے لیے ہریانہ حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا چاہیے۔ ہم تمام مجرموں کے خلاف سخت کارروائی اور متاثرہ خاندان کو 50 لاکھ روپے کے معاوضے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ یہ کسی بھی مہذب معاشرے میں برداشت نہیں کیا جا سکتا۔’

(انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں ۔)

Next Article

ہندوپاک کشیدگی کے درمیان ’بائیکاٹ ترکیہ‘ کا مطلب کیا ہے؟

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

سودیشی جاگرن منچ کے اراکین کا جمعہ 16 مئی 2025 کو نئی دہلی میں ترکی کے خلاف احتجاج۔ تصویر: پی ٹی آئی

جموں و کشمیر کے پہلگام پہاڑو ں میں سیاحوں کی ہلاکت اور اس کے بعد پاکستان کے ساتھ محدود جنگ میں عالمی حمایت حاصل کرنے میں ناکامی کی وجہ سے کھسیانی بلی کھمبا نوچے کے مصداق، ہندوستان میں سارا غصہ ترکیہ پر اتارا جا رہا ہے۔

کہیں تجارت یا سیاحت کا بائیکاٹ، تو کہیں ترکیہ کو فوجی طریقے سے گھیرنے کی باتیں ہو رہی ہیں۔

حیرت تو یہ ہے کہ سرکاری ترجمان نے اس پاگل پن کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ترکیہ نے پہلگام واقع کی مذمت نہیں کی۔ ایسی بے خبری بھی کیا۔ ترک وزارت خارجہ کی ویب سائٹ پر وہ بیان ا بھی بھی موجود ہے، جو 22اپریل کو ہی ریلیز کیا گیا تھا، جس میں پہلگام واقعہ کی  شدیدمذمت کی گئی تھی۔

وزیرا عظم نریندر مودی غالباًامریکی صدر جارج بش کے نو گیارہ حملوں کے بعد دنیا کو دیے پیغام کی کاپی کر رہے ہیں کہ یاتو آپ ہمارے ساتھ ہیں یا خلاف ہیں۔ غیر جانبدار رہنے کا سوال ہی نہیں ہے اور جو خلاف ہیں، ان کو اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ ایسی دوٹوک باتیں سفارتی طور پر تو کسی سپر پاور کو بھی زیب نہیں دیتی ہیں۔ ہندوستان جیسے درمیانہ درجے کے پاور کے لیے جو ابھی ایک موثر ایشیائی علاقائی طاقت بننے کے  ابتدائی مراحل میں ہی ہے، یہ غیر حقیقت پسندانہ رویہ انتہائی نقصاندہ ثابت ہو سکتا ہے۔

ہندوستان کے اندر گودی میڈیا کے ذریعے عوام کو اپنی فوجی اور سفارتی کامیابیا ں بتاکر ایک جنون تو پیدا کیا جاسکتا ہے، مگر بین الاقوامی طور پر حقائق کو چھپانا ناممکن ہوتا ہے۔

سال 2019میں پلوامہ کے واقعہ کے بعد جس طرح کی حمایت ہندوستان کو حاصل ہوئی تھی،اس وقت واضح طور پر مفقود ہے۔ دنیا بھر کے فوجی ماہرین متفق ہیں کہ اس محدود جنگ کے دوران ہندوستان کے چند انتہائی جدید رافیل طیارے چینی طیاروں اور ان کی فراہم کردہ تکنیک کی وجہ سے گرائے گئے ہیں۔

اس لیے اگر پاکستان کو دفاعی ساز و سامان دینے کا معاملہ ہے، تو یہ غصہ چین پر نکالنا چاہیے تھا۔ اس کے علاوہ یہ بھی واضح ہوتا جا رہا ہے کہ حملوں کی جانکاری ہونے کے باوجود اس کا سد باب کرنے کے بجائے، ہلاکتوں اور نقصان کے بعد ہی دنیا بھر میں پاکستان کو کٹہرے میں کھڑا کرنے کا ڈھونڈورا پیٹا جاتا ہے اور داخلی طور پر اس کا سیاسی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔

 ایک ملک میں حال ہی میں رپورٹروں اور تھینک ٹینک کے اسکالروں کے لیے ہندوستان نے بریفنگ کا انتظام کیا تھا۔  چونکہ اسی دن بائیکاٹ ترکیہ کا ٹرینڈ چل رہا تھا، اس لیے جب سوالات کیے گئے کہ اس ملک کو کیوں نشانہ بنایا جا رہا ہے، تو بتایا گیا کہ پاکستان نے جو 300 سے 400 ڈرونز استعمال کیے، وہ مبینہ طور پر ترکیہ کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔

اب اس محفل میں فوجی ماہرین بھی شامل تھے، تو انہوں نے ان ڈرونز کی تصویریں دکھانے کا مطالبہ کردیا۔ جو پریزنٹیشن دی جارہی تھی، اس میں صرف چینی ملٹری ڈرون نظر آرہے تھے۔

پوچھا گیا کہ کیا ترکیہ کے جدید ترین بیرکتر ٹی بی سیریز کا کوئی ملٹری ڈرون پاکستان نے استعمال کیا، تو جواب نفی میں تھا۔ لے دے کے بس اتنا پتہ چلا کہ پاکستان نے ترکیہ کے سونگر ڈرون نگرانی کے لیے استعمال کیے تھے۔ان کا رینج بھی زیادہ نہیں ہوتا ہے۔

اب اگر ان سے پوچھا جائے کہ نگورنو کاراباخ کی جنگ میں تو ہندوستان نے آکاش میزائل اور ڈیفنس سسٹم کے علاوہ جنگی جہاز اور دیگر ساز و سامان آرمینیا کو فراہم کر دیے تھے، وہ کس کھاتے میں آتا ہے؟ ترکیہ نہ آذربائیجان نے اس کو کبھی ایشو نہیں بنایا، تو بغلیں جھانکنے لگتے ہیں۔

 ویسے تو دنیا  بھر میں ترکیہ نے اپنے آپ کو ڈرون پاور کے بطور منوا لیا ہے۔ 15مئی کو جب یوکرین کے صدر ولادمیر زیلنسکی انقرہ میں تھے، تو اپنے ملک کے سفارت خانہ میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ 24فرروری 2022کو جب روس نے یوکرین پر حملہ کر دیا، تو انہوں نے دارالحکومت کیف کے ایر پورٹ پر تقریبا ً قبضہ کر لیا تھا اور اگلے چند گھنٹوں میں وہ دارالحکومت پر قبضہ کرکے پورے ملک کوکنٹرول کرنے کے قریب تھے۔ جس چیز نے یوکرین کو بچایا اور جنگ نے طول کھنچا وہ ترکیہ کے بیرکتر ڈرون تھے۔

انہوں نے روسی ایر ڈیفنس سسٹم کو چکمہ دیکر روسی ٹینکوں کو اس حد تک تہس نہس کر ڈالا کہ ان کو پسپا ہونا پڑا۔ انہی ڈرونز نے شام، لیبیا، آذربائیجان، ایتھوپیا سمیت کئی محاذوں پر جنگ جیتنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن یہ بات اب طے ہے کہ پاکستان نے یہ ڈرونز استعمال نہیں کیے اور چینی ڈرونز پر ہی انحصار کیا ہے۔  جبکہ نگرانی اور ڈیٹا اکٹھا کرنے کے مقصد سےترک ’سونگار‘ ڈرونز استعمال کیے۔

اس دعویٰ کی پو ل کھلنے کے بعد بتایا گیا کہ ناراضگی کی وجہ کراچی میں ترک جنگی بحری جہازوں کی آمد اور اسلام آباد میں ترک فوجی طیارے کی لینڈنگ ہے۔ جن کی تصاویر پاکستانی فوج کے ٹوئٹر ہینڈل سے شیئر ہوگئی۔ دراصل جنگی بحری جہاز کوریا سے روانہ ہوکر استنبول کی طرف رواں تھا اور ایندھن لینے کے لیے کراچی میں رک گیا تھا۔

انقرہ میں ذرائع کا کہنا ہے کہ 7 مئی کو جب ہندوستان نے پاکستان کے اندر میزائلوں سے حملہ کیا، تو تو ترک صدر رجب طیب اردوان نے جنوبی ایشیا کے امور سے متعلق اپنی حکمراں جماعت آق پارٹی اور قریبی مشیروں کے ساتھ ایک اہم اجلاس بلایا۔

ذرائع نے بتایا کہ یہ اجلاس محض 10 منٹ جاری رہا اور صدر کا پیغام نہایت واضح تھا: ضبط و تحمل اپنایا جائے اور خطے میں امن یقینی بنایا جائے۔

انقرہ اور استنبول میں موجود ذرائع کا کہنا تھا کہ اگرچہ ہندوستان اور پاکستان کے درمیان پرامن تعلقات ترکی کے اسٹریٹجک مفاد میں ہیں، لیکن اگر مکمل جنگ چھڑ جاتی ہے تو عسکری روابط کو مدنظر رکھتے ہوئے ترکیہ کے پاس پاکستان کی حمایت کے سوا کوئی چارہ نہ ہوگا۔ ماضی میں پاکستان کی فضائیہ نے ترکیہ کی مدد کی ہے، خواہ وہ 1973 میں یونان کے ساتھ قبرص کی جنگ ہو یا شام کے حالیہ تنازعات۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ ہندوستان کے ترکیہ کے ساتھ تجارتی بائیکاٹ کا شاید ہی کوئی اثر ترکیہ پر پڑے گا۔ کیونکہ ترکیہ کی کل درآمدات میں ہندوستان کا حصہ صرف 0.2 فیصد ہے۔اسی طرح ہندوستان سے ترکیہ جانے والے سیاح کل سیاحوں کا صرف 0.6 فیصد ہیں۔

جو چیزیں ہندوستان سے آتی ہیں جیسے باسمتی چاول وغیرہ، وہ پاکستان سے بھی دستیاب ہے۔ اگر ترکیہ جوابی اقدام کرتا ہے، تو اس سے ہندوستانی معیشت کو زیادہ نقصان ہو سکتا ہے کیونکہ تجارت کا  بیلینس ہی ہندوستان کی طرف ہے۔

مزید یہ کہ تقریباً 200 بڑی بھارتی کمپنیوں کے دفاتر استنبول، ازمیر اور انتالیہ میں ہیں، جہاں سے وہ یورپ میں اپنی تجارت کو کو کنٹرول کرتی ہیں۔ ترکی چونکہ یورپی کسٹمز یونین کا رکن ہے، اس لیے ہندوستانی کمپنیوں کو یہاں کام کرنے میں لاگت میں بچت ہوتی ہے۔

پندرویں صدی میں عثمانی اور مغلیہ سلاطین میں خط و کتابت سے لے کر مشترکہ صوفی روایات اور لسانی مماثلتوں تک،  غیر منقسم ہند-ترک تعلقات کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ 1912 میں بلقان کی جنگوں کے دوران،  ڈاکٹر ایم اے انصاری جو بعد میں مسلم لیگ اور پھر انڈین نیشنل کانگریس کے صدر بنے — زخمی ترک سپاہیوں کا علاج کرنے کے لیے ایک طبی مشن لے کر ترکیہ پہنچے۔

ان کے ساتھ علی گڑھ کالج کے طالبعلم  عبد الرحمان صمدانی عرف پشاوری بھی تھے — جنہوں نے اپنا سب کچھ بیچ کر ترکوں کی مدد کرنے کے لیے استبول جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ان کے باقی ساتھی مشن مکمل کرکے تو واپس ہندوستان آگئے، مگر وہ ترکیہ میں ہی مقیم رہے۔وہ مصطفیٰ کمال اتا ترک کے قریبی رفیق بنے اور گیلی پولی کی جنگ میں حصہ لیا۔

جب اتا ترک نے انادولو نیوز ایجنسی قائم کی تو وہ اس کے پہلے رپورٹر مقرر ہوئے۔ ان کا تعلق ایک ایسے کشمیری خاندان سے تھا جو بارہمولہ سے پشاور ہجرت کر گیا تھا۔

ان کے چھوٹے بھائی محمد یونس گاندھی خاندان کے قریبی تھے اورہندوستان میں کئی اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، کئی ممالک میں سفیر، اور انڈیا ٹریڈ پروموشن آرگنائزیشن کے سربراہ بھی رہے۔ غیر منقسم ہندوستان  میں ترکیہ کے لیے جو امدادی فنڈ جمع ہوا، اس سے ‘ایش بینک’قائم ہوا — جو آج بھی ترکیہ کے بڑے بینکوں میں شمار ہوتا ہے۔

کم لوگ  ہی جانتے ہوں گے کہ 20ویں صدی کے وسط تک لداخ میں لداخی کے بعد ترک زبان کا ہی استعمال ہوتا تھا۔  لیہہ کے ارغون مسلمان — جو ترک تاجروں کی نسل سے ہیں — آج بھی وسطی ایشیا اور ترک رسم و رواج، ناموں اور اشیاء کو سنبھالے ہوئے ہیں۔ترک ارغون  غلام رسول گلوَان کے  نام پر ہی  گلوَان وادی منسوب ہے، اور ترک سلطان سعید خان، کے نام پر  لق دق صحرا کا نام دولت بیگ اولدائی  رکھا گیا۔

چند ماہ قبل ترکیہ دورہ پر آئے ہندوستان کے  اسٹریٹجک امور کے معروف  ماہر سی راجہ موہن نے حقیقت پسندی اور فوری توجہ کی ضرورت پرزور دیتے ہوئے کہا تھا کہ ترکیہ اور ہندوستان دونوں اکیسویں صدی کی بااثر علاقائی طاقتیں ہیں، اس لیے دونوں ایک دوسرے سے دور نہیں رہ سکتی ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اگر چہ ترکیہ کی طرف سے کشمیر کے ذکر اور پاکستان کی حمایت کرنے سے ہندوستان میں ناراضگی پائی جاتی ہے، تو ترکیہ بھی ہندوستان کی طرف سے آرمینا کو ہتھیار سپلائی کرنے اور قبرص پر یونانی موقف کی حمایت کرنے سے تشویش ظاہر کرتا ہے۔

لہذاطویل مدتی مفادات کو سامنے رکھتے ہوئے، دونوں ممالک کو ان چپقلشوں کو درکنار کرتے ہوئے بین الاقوامی معاملات پر ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کی راہیں ڈھونڈنی ہوں گی۔سینئر سفارت کار ایم کے بھدرکمار، جو انقرہ میں ہندوستان کے سفیر رہے ہیں کا کہنا ہے کہ  ترکیہ اور پاکستان کے درمیان عسکری تعلقات واقعی موجود ہیں، مگر یہ تعلق ہندوستان کے لیے چین کی پاکستان کے ساتھ اسٹریٹجک قربت جتنا خطرناک نہیں۔ انہوں نے ہندوستانی لیڈروں پر واضح کیا کہ سفارتی امور پر جذباتی ردعمل سے اجتناب کرتے ہوئے اپنے تزویراتی مفاد کو مقدم رکھیں۔

ترکیہ کی ابھرتی عالمی حیثیت کے پیش نظر، دنیا کے لیے اسے نظرانداز کرنا تقریباً ناممکن ہو چکا ہے۔مثال کے طور پر، ترکیہ اس وقت روس اور یوکرین کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کر رہا ہے۔ باوجود اس کے کہ ترکیہ کے ڈرون نے روسی صدر ولادمیر پوتن کے یوکرین پر قبضہ کرنے کے پلان کو خاک میں ملا دیا۔ مگر وہ پھر بھی ترکیہ کو ہی قابل اعتماد ثالث گر دانتے ہیں۔وہ مودی کی طرح روٹھے نہیں۔

اردوان نے بیک وقت دونوں ملکوں سے دوستی برقرار رکھی ہے۔ شام میں بشارالاسد کی برطرفی اور جلاوطنی ترکیہ کی عسکری اور سفارتی حکمتِ عملی کی بڑی کامیابی مانی جاتی ہے۔ ترکیہ ایک یوریشیائی مرکز کے طور پر ابھر رہا ہے، یوکرین میں ثالثی کے علاوہ وہ وسطہ ایشاء نیز افریقہ اور جنوبی امریکہ میں ایک بڑے رول میں سامنے آرہا ہے۔ ہندوستان اگر اپنی معیشت اور اثر و رسوخ کو پر امن طور پر وسعت دینا چاہتا ہے تو اسے خارجہ پالیسی میں ردعمل سے ہٹ کر فعال حکمت عملی اپنانی ہوگی۔

 انقرہ یلدرم بیازیت یونیورسٹی میں بین الاقوامی امور کے اسکالراور مصنف پروفیسر عمیر انس کا کہنا ہے کہ ہندوستان-پاکستان کی حالیہ محدود جنگ ترکیہ کی پالیسی پر خاصی اثر انداز ہو گئی ہے۔ تر کیہ کی نظر میں اب جنوبی ایشیا ایک ‘سکیورٹائزڈ’ یعنی سکیورٹی مرکز خطہ ہے، جہاں اس کی اپنی سلامتی بھی جڑی ہوئی ہے۔

ان کے مطابق انقرہ اور ریاض میں خاموش اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ پاکستان کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور اس کی ملٹری پاور کا تحفظ ناگزیر ہے۔ اسلام آباد اب نیٹو سے باہر ترکی کا سب سے اہم دفاعی شراکت دار بن چکا ہے۔لیکن اس تعلق کی بھاری قیمت ہندوستان کی ناراضگی کی صورت میں ادا کرنا پڑتی ہے۔ترکیہ نے طویل عرصے تک پاکستان کے ساتھ تعلقات میں ابہام برقرار رکھا اور ہندوستان سے بھی قریبی روابط قائم رکھنے کی کوشش کی۔ ترکیہ نے ہندوستان کو ایک پیشکش کی تھی، کہ پاکستان سے تعلقات کی بحالی، بشمول کشمیر تنازع کا پرامن حل کے بدلے میں وہ ہندوستان کے ساتھ اسٹریٹجک شراکت داری میں حصہ لے گا۔ اس مقصد کے لیے صدر اردوان نے کئی سطحوں پر ہندوستان کو آمادہ کرنے کی کوشش کی، لیکن اکثر یہ کوششیں سفارتی تناؤ کی نذر ہوگئیں۔

پروفیسر انس کے مطابق 2019 سے 2022 کا عرصہ ترکی-ہندوستان تعلقات کابد ترین دور کہلایا جا سکتا ہے، جب دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے خلاف میڈیا مہمات چلا رکھی تھیں۔ یہ وہ وقت تھا جب ہندوستان نے جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کی تھی۔ ہندوستان کی حکمران جماعت کے نظریاتی بیانیے میں’انڈیا فرسٹ’ کا نعرہ گونجنا شروع ہو گیا تھا۔

مطلب یہ کہ ہندوستان کے مفادات ہر چیز پر مقدم ہیں۔ نئی دہلی کے حقیقت پسند تجزیہ کار اکثر اس نعرے کی تشریح ‘انڈیا اکیلا’ کے طور پر کرتے ہیں، یعنی ہندوستان تنہا اپنے مفادات کا تحفظ کرے گا۔

یہ موقف گجرال ڈاکٹرائن سے متصادم ہے، جو ہندوستان کے ہمسایہ ممالک کو بلا مشروط مدد فراہم کرنے کی بات کرتا تھا۔۔مگر 2022 کے بعد ہندوستان اور ترکیہ نے تعلقات پر از سر نو غور کرنا شروع کیا تھا۔تاہم حقیقت یہ ہے کہ ہندوستان کے پاس ترکیہ سے متعلق کوئی جامع پالیسی نہیں۔محض وقتی ردعمل اور لین دین پر مبنی تعلقات، جو ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

سفارت کاری کے آئینے میں دیکھا جائے، تو ترکیہ صرف پاکستان کا دوست نہیں، اور ہندوستان صرف یونان یا آرمینیا کا حلیف نہیں  ہوسکتا ہے۔ اب وقت ہے کہ بیانیہ بدلا جائے۔ ‘بائیکاٹ ترکی’ کے بجائے پیغام ہونا چاہیے؛ ‘روابط بحال کرو، مکالمہ کرو اور نئے تعلقات  تعمیر کرو۔’

آج دونوں — ہندوستان اور ترکیہ — خطے کی کلیدی طاقتیں ہیں جو عالمی نظام میں نئے کردار کی تلاش میں ہیں۔ ایک پر امن ہندوستان، جو علاقائی مسائل کا حل پر امن طریقے سے سلجھانے پر یقین رکھتا ہو، وقت کی ضرورت ہے۔

چین ایک معاشی پاورتبھی بنا جب اس نے اپنی سرحد پر بیشتر ممالک کے ساتھ تنازعات سلجھائے۔ہندوستانی لیڈروں کو جان لینا چاہیے کہ قدیم تہذیبیں وقتی تنازعات کی بنیاد پر خود کو محدود نہیں کر سکتیں۔ ان کے لیے ضروری ہے کہ ایک خول میں بند رہنے اور گھمنڈ و غرور میں مبتلا ہونے کے بجائے افکار و خیالات کے تبادلے سے اپنا مستقبل تراشیں۔

Next Article

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ

محمود آباد کے بہانے اب اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کیا جا رہا ہے۔ کیا ہم اس ادارے سےامید کر سکتے ہیں کہ یہ ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے اٹھ کرکھڑا ہوجائے؟ شاید وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ اس بار پھر سے اس ادارے کے آقا بی جے پی کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی نہ کوئی قربانی دے دیں گے۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: یوٹیوب/اشوکا یونیورسٹی)

اب یہ بات آہستہ آہستہ واضح ہوتی جا رہی ہے کہ علی خان محمود آباد کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کو گھیرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ کیا اس پر پوری طرح  قبضہ کر لیا جائے گا؟ کیا یہ جے این یو کی طرح برباد کر دیا جائے گا؟

اس خدشے کی  وجہ ہے۔ اس بار آر ایس ایس کی تنظیمیں، بی جے پی، سرکاری ادارے، سب مل کر اشوکا یونیورسٹی پر حملہ کر رہے ہیں۔ خبرہے کہ بچوں کے حقوق کے تحفظ کے قومی کمیشن نے تین ماہ قبل اشوکا یونیورسٹی کیمپس میں دو طالبعلموں کی موت کے معاملے میں وضاحت کے لیے ہریانہ پولیس اور انتظامیہ کو نوٹس بھیجا ہے۔ اس نے یہ کام کسی کی شکایت پر کیا ہے۔

کمیشن کے خط میں کہا گیا ہے کہ ‘شکایت کنندہ نے الزام لگایا ہے کہ 14 اور 15 فروری کو اشوکا یونیورسٹی کے دو طالبعلموں کی المناک موت نے ممکنہ ادارہ جاتی کوتاہی کے بارے میں شدید تشویش پیدا کی ہیں۔ اطلاعات کے مطابق، ایک طالبعلم کی خودکشی سے موت  کا اندازہ ہے، جبکہ دوسرے طالبعلم کی لاش چند ہی گھنٹے بعد یونیورسٹی کے گیٹ کے قریب غیر واضح اور مشتبہ حالات میں پائی گئی۔’

کمیشن کے مطابق، ‘شکایت کنندہ نے واقعات کے ارد گرد شفافیت کی تشویشناک کمی کو اجاگر کیا، جس میں مبینہ خودکشی نوٹ کے مواد کو ظاہر نہ کرنا بھی شامل ہے۔ مزید برآں، یونیورسٹی کے مینٹل ہیلتھ سپورٹ سسٹم، سیکورٹی پروٹوکول، اور کیمپس کے مجموعی ماحول سے متعلق اہم سوال  بھی تھے۔’

یہ سب کچھ نارمل لگ سکتا ہے اگر ہم یہ نہ دیکھنا چاہیں کہ مرنے والوں کی عمریں 21 اور 19 سال تھیں اور انہیں کسی بھی طرح بچوں کے زمرے میں نہیں رکھا جا سکتا۔ یہ کمیشن کے دائرہ اختیار سے باہر کا معاملہ ہے، حالانکہ یہ اپنے آپ میں تشویشناک ہے۔ پچھلے کچھ سالوں میں اس کمیشن نے بچوں کے حقوق کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتے ہوئے اس حکومت کے ناقدین پر بار بار حملہ کیا ہے۔ ہرش مندر کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ اس نوٹس کے بہانے اشوکا یونیورسٹی کے ادارہ جاتی عمل کی تحقیقات شروع کی جائیں گی اور اسے کنٹرول  میں لینے کی کوشش کی جائے گی۔

اس نوٹس کا وقت بھی کم اہم نہیں ہے۔ یہ علی خان کے مقدمے کے عین درمیان میں آیا ہے۔ اس طرح کے واقعات پچھلے 11 سالوں میں کئی کیمپس میں پیش آئے ہیں۔ کیا کمیشن نے ہر جگہ اس انداز سے متحرک ہونے کا ثبوت دیاہے؟

اس نوٹس سے پہلے راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے طلبہ ونگ اکھل بھارتیہ ودیارتھی پریشد نے یونیورسٹی کے خلاف احتجاج کیا۔ پریشداس بات پر ناراض ہے کہ یونیورسٹی نے علی خان کی رہائی پر راحت کا اظہار کیوں کیا اور اب تک ان کے خلاف کوئی کارروائی کیوں نہیں کی گئی۔ علی خان کو معطل یا برخاست کرنے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔

اگرچہ احتجاج میں بہت کم لوگ تھے، لیکن معلوم ہوا ہے کہ یونیورسٹی نے پریشد کو دو تین دن بعد جواب کی یقین دہانی کرائی ہے۔

یہ بات اہم ہے کہ آر ایس ایس کے ترجمان ‘آرگنائزر’ نے بھی اسی بہانے اشوکا یونیورسٹی کے خلاف لکھا ۔ علی خان کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا مطلب یہی ہوگا کہ اشوکا یونیورسٹی ان کے خیالات سے متفق ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حکومت ہند کی وزارت تعلیم نے اشوکا یونیورسٹی کے کچھ اکیڈمک پروگراموں میں ریزرویشن کو لے کر بھی سوال اٹھائے ہیں۔

علی خان کے خلاف برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ہریانہ اسٹیٹ ویمن کمیشن کی چیئرپرسن نے اشوکا یونیورسٹی کو کھری -کھوٹی سنائی تھی اور اسے دھمکی بھی دی تھی۔

یہ بھی یوں ہی نہیں ہوا کہ علی خان کے معاملےکی سماعت کے دوران جسٹس سوریہ کانت نے اشوکا یونیورسٹی کے طلبہ اور اساتذہ کو احتجاج کرنے پر دھمکی دی۔ اس کا کوئی موقع نہیں تھا۔ کیا اشوکا یونیورسٹی انتظامیہ اس زبانی دھمکی کو طلبہ  اور اساتذہ کو نظم و ضبط کے لیے استعمال کرے گی؟

علی خان محمودآباد کے تبصرے میں خیالی طور پرخاتون مخالف اور سیڈیشن ڈھونڈ کر ان پر حملہ کیا جا رہا ہے، وہ اب اشوکا یونیورسٹی پر حملے میں بدل گیا ہے۔ اس کا  مطلب کیاہے؟

ہندوتوا تنظیمیں اشوکا یونیورسٹی کو بھی اسی طرح شک و شبہ دیکھتی ہیں جس طرح جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو ۔ جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کو بھی ملک دشمن کہہ کر گھیر لیا گیا ۔ اس کے زیادہ تر اساتذہ آزاد خیال تھے، یہ حقیقت آر ایس ایس کو مسلسل پریشان کرتی رہی۔ اس کے نصاب نوجوانوں میں لبرل سوچ کی حوصلہ افزائی کرتے تھے اور وہ ہندو راشٹر واد کے ناقد تھے۔

جے این یو ہندوستان کی تمام یونیورسٹیوں کے لیے ایک ماڈل تھا۔ اگرچہ یہ تعداد اور حجم میں دہلی یونیورسٹی سے چھوٹا تھا، لیکن اس کا تعلیمی وقار زیادہ تھا۔ اسے ختم کرنا ضروری تھا۔ اسی طرح اشوکا یونیورسٹی بھی ایک بہت چھوٹا ادارہ ہے، لیکن کئی وجوہات کی بنا پر علمی اور اکیڈمک دنیا میں اس کی علامتی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے۔ یہ آر ایس ایس کے ثقافتی تسلط کے لیے اچھا نہیں ہے۔ اس علامت کو ختم کرنا ضروری ہے۔

جے این یو کو بھی ملک دشمن کہہ کر بدنام کیا گیا۔ اس کے بعد اس کے کردار کو بدلنے کی کوشش کی گئی۔ اسے سرکاری طور پر کنٹرول کیا جا سکتا تھا۔ ہندوتوا دی وائس چانسلر مقرر کرکے جے این یو کو تباہ کیا گیا۔ دہلی یونیورسٹی کو بھی آہستہ آہستہ تباہ کر دیا گیا ہے۔ یہ سب سے پہلے وائس چانسلر کی تقرری اور پھر اساتذہ کی تقرری کے ذریعے کیا گیا۔ اب، ایسے اساتذہ کی کافی تعداد ہے جو ہندوتوا یا دائیں بازو کے ہیں۔ طلبہ کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر نااہل بھی ہیں۔

اشوکا یونیورسٹی میں ایسے اساتذہ کی ایک بڑی تعداد ہے جنہیں اپنی سوچ میں ترقی پسند یا لبرل کہا جا سکتا ہے۔ ان کی وجہ سے یونیورسٹی کا نصاب بھی لبرل ازم کی اقدار کو فروغ دیتا ہے۔ اس کے طلبہ بھی زیادہ تر لبرل اقدار کی پیروی کرتے ہیں۔ ابھی انہوں نے علی خان کی حمایت کی ہے۔ لیکن اس کے منتظمین پر ترقی پسندی یا لبرل ازم کا الزام نہیں لگایا جا سکتا۔

پچھلے 10 سالوں میں انہوں نے بارہا ان اساتذہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا ہے جن کے خلاف بھارتیہ جنتا پارٹی یا آر ایس ایس نے ناراضگی ظاہر کی۔ 2016 میں انتظامیہ نے کشمیر سے متعلق ایک بیان پر دستخط کرنے پر راجندرن نارائنن اور دو اکیڈمک اہلکاروں سورو گوسوامی اور عادل مشتاق شاہ کو استعفیٰ دینے پر مجبور کیا تھا۔ اس کے بعد وائس چانسلر پرتاپ بھانو مہتہ کو بھی اشارہ کیا گیا کہ وہ عہدہ چھوڑ دیں کیونکہ ان کی موجودگی سے ادارے پر حکومت کی سفاک نگاہیں بنی رہیں گی اور وہ اس کے کام کاج میں  رکاوٹیں پیداکرے گی۔

ان کے استعفیٰ کے بعد انتظامیہ یہ کہتی رہی کہ پرتاپ نے یہ کام اپنی مرضی سے کیا ہے۔ اس کے بعد، ابھی کچھ دن پہلے، اقتصادیات کے پروفیسر سبیہ ساچی داس کو ان کی ملازمت سے اس لیے نکال دیا گیاکہ انہوں نے 2019 کے لوک سبھا انتخابات پر ایک اکیڈمک پیپر جاری کیا تھا، جو بی جے پی کوناگوار گزرا تھا۔

اساتذہ کو سزا دیتے ہوئے انتظامیہ نے ہر بار یہ دلیل دی کہ اشوکا یونیورسٹی کی بقا ہندوستان کے لیے بہت ضروری ہے اور اگر اس کے لیے اساتذہ کو قربانی دینی پڑتی ہے تو یہ جائز ہے کیونکہ اشوکا یونیورسٹی ہندوستان کے نالج کیمپس کے لیے ضروری ہے۔ بڑے مقصد کے لیے سب کی قربانی ضروری ہے۔ یعنی یونیورسٹی بذات خود ایک ایسا مقدس مقصد ہے کہ اس کے لیے ان اقدار کو بھی نظر انداز کیا جا سکتا ہے جن کا اشوکا یونیورسٹی دعویٰ کرتی رہی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ اسے اپنی ترقی کے لیے، زمین، پانی اور بجلی کے لیے سرکار کے تعاون کی ضرورت ہے۔ ایک دو اساتذہ نہ ہوں تو کیا تبدیلی آ جائے گی؟

تو کیا اس بار بھی علی خان کی قربانی دے کر اشوکا یونیورسٹی اپنے لیے کچھ اورمہلت طلب کر لے گی؟ یا اس بار بی جے پی اور آر ایس ایس اس سے مطمئن نہیں ہوں گے اور ان کا مطالبہ کچھ اوربڑا ہوگا؟ کیا وہ انتظامیہ کے لیے اپنا آدمی چاہیں گے؟ کیا وہ یونیورسٹی کی فکری سمت میں تبدیلی کا مطالبہ کریں گے؟ یونیورسٹی انتظامیہ کا کیا موقف ہوگا؟

ہم اشوکا یونیورسٹی کے بورڈ سے ہارورڈ کی طرح حکومت کے سامنے کھڑے ہونے کی امید نہیں کر سکتے۔ وہ روایت یہاں نہیں ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس بار پھر سے وہ بی جے پی یا حکومت کو مطمئن کرنے کے لیے کوئی قربانی دیں گے۔

وہ یہ نہیں بھی کر سکتے ہیں۔ میں کم از کم ایک ایسے اسکول منتظم کو جانتا ہوں جس نے دائیں بازو کے دباؤ کے سامنے جھکنے سے انکار کیا، اسکول پر حملہ اس لیے کیا گیا تھاکہ اس نے اپنے طلبہ کو پڑھنے کے لیے کچھ کتابیں تجویز کی تھیں اور ہندوتوا کے حامیوں کواس پر اعتراض تھا۔ اسکول میں توڑ پھوڑ کی گئی۔ دھمکیاں دی گئیں۔ لیکن اسکول کے منتظم نے کہا کہ وہ کتابوں کی فہرست میں کوئی تبدیلی نہیں کریں گے۔ اگر انتظامیہ نے اسے سکیورٹی فراہم نہیں کی تو وہ اسکول بند کرنے کو ترجیح دیں گے۔ ابھی اسکول چل رہا ہے۔

کیا اشوکا یونیورسٹی کے سرپرستوں میں یہ کہنے کی ہمت ہے کہ اگر انہیں ان کے مقاصد کے مطابق کام کرنے کی اجازت نہیں دی گئی تو وہ ادارے کو بند کرنے کو ترجیح دیں گے؟ وہ شاید ہی ایسا کر سکیں۔

لیکن ہم ان کی بزدلی پر کتنی ہی لعنت بھیجیں، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی اور آر ایس ایس نے یہ صورتحال پیدا کی ہے۔ اگر اشوکا یونیورسٹی بچ جاتی ہے اور جے این یو کی طرح ختم ہوجا تی ہے تو اس کے ذمہ دار وہی  ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)

Next Article

کرناٹک میں بی جے پی لیڈر نے ڈپٹی کمشنر سے پوچھا – کیا وہ پاکستان سے ہیں؛ کیس درج

کرناٹک میں ایک احتجاج کے دوران بی جے پی لیڈر این روی کمار نے ڈپٹی کمشنر فوزیہ ترنم پر کانگریس کے اشارےپر کام کرنے کا الزام لگایا اور کہا کہ لگتا ہے کہ وہ پاکستان سےآئی ہیں۔ ان پرمسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے اور دیگر الزامات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

کرناٹک بی جے پی لیڈر این روی کمار۔تصویر: X.com/@nrkbjp

نئی دہلی: کرناٹک قانون ساز کونسل میں اپوزیشن کے چیف وہپ اور بی جے پی لیڈر این روی کمار پر ڈپٹی کمشنر فوزیہ ترنم کے خلاف ان کے ‘پاکستان’ سے متعلق تبصرے پر مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے سمیت مختلف الزامات کے تحت معاملہ درج کیا گیا ہے۔

دکن ہیرالڈ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، 24 مئی کو بی جے پی کے احتجاج کے دوران روی کمار نے آئی اے ایس افسر ترنم پر کانگریس پارٹی کے اشارے  پر کام کرنے کا الزام لگایا تھا اور کہا تھا کہ ‘ وہ پاکستان سے آئی ہوئی لگتی ہیں۔’

بی جے پی نے قانون ساز کونسل میں قائد حزب اختلاف چالاوادی نارائن سوامی کے ساتھ ‘بدسلوکی’کے الزامات کے خلاف احتجاج کا اہتمام کیا تھا۔ بی جے پی نے دعویٰ کیا کہ انہیں ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس میں بند کر دیا گیا تھا جبکہ کانگریس کے حامیوں نے انہیں  گھیر لیا تھا۔

احتجاج میں حصہ لیتے ہوئے روی کمار نے ڈپٹی کمشنر ترنم سے پوچھا کہ کیا وہ پاکستان سے آئی ہیں۔

ان کے بیان کے بعد دتاتریہ اکلاکھی نامی شخص کی شکایت پر روی کمار کے خلاف مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے اور پولیس افسران کو غلام کہتے ہوئے توہین آمیز زبان استعمال کرنے کے الزام میں  مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

ان پر درج فہرست ذات کے لوگوں اور ضلع انچارج وزیر پریانک کھڑگے کو دھمکی دینے اور ان کی توہین کرنے کا بھی الزام ہے۔

سوموار (26 مئی) کو مسلم خواتین لیڈروں نے کلبرگی کے پولیس کمشنر شرنپا ایس ڈی کو ایک میمورنڈم پیش کیا اور پولیس سے بی جے پی لیڈر کے خلاف کارروائی کرنے کی اپیل کی۔

مسلم خواتین رہنماؤں کے وفد نے کہا، ‘یہ نفرت اور تعصب کا معاملہ ہے۔ یہ ان کے وقار اور حب الوطنی پر براہ راست حملہ ہے۔’

Next Article

راہل گاندھی نے کہا – ’ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل‘ کہہ کر ایجوکیشن اور قیادت سے دور رکھنا ایک نیا منوواد

دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین کے طلبہ کے ساتھ ایک ملاقات کے دوران راہل گاندھی نے کہا کہ ڈی یو میں 60 فیصد سے زیادہ پروفیسر کے ریزرو عہدوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل’ (این ایف ایس) قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ پسماندہ طبقات کے اہل امیدواروں کو جان بوجھ کر ‘نااہل’ ٹھہرایا جا رہا ہے۔

راہل گاندھی نے کہا کہ ‘دہلی یونیورسٹی میں پروفیسروں کے 60 فیصد سے زیادہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کے 30 فیصد سے زیادہ ریزرو عہدوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سوٹیبل(این ایف ایس)قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔’ (تصویر بہ شکریہ: ایکس)

نئی دہلی:  لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے دہلی یونیورسٹی اسٹوڈنٹس یونین(ڈی یو ایس یو) کے طلبہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ ‘ شیڈیولڈ کاسٹ (ایس سی)، درج فہرست قبائل (ایس ٹی) اور دیگر پسماندہ طبقات (اوبی سی) کے اہل امیدواروں کو جان بوجھ کر ‘نااہل’ ٹھہرایا جا رہا ہے – تاکہ وہ ایجوکیش اور قیادت سے دور رہیں۔’

راہل گاندھی نے اپنے ایکس ہینڈل پر اس ملاقات کا ویڈیو ٹوئٹ کیا ہے۔ ویڈیو میں کانگریس ایم پی طلبہ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔

ویڈیو کے ساتھ ڈالے گئے کیپشن میں وہ لکھتے ہیں، ‘دہلی یونیورسٹی میں پروفیسروں کی 60 فیصد سے زیادہ اور ایسوسی ایٹ پروفیسروں کی 30 فیصد سے زیادہ ریزرو پوسٹوں کو ‘ناٹ فاؤنڈ سویٹبل (این ایف ایس)’قرار دے کر خالی رکھا گیا ہے۔ این ایف ایس اب نیا منوادہے۔’

بتادیں کہ ‘منواد’ کا مطلب ہے وہ سوچ یا نظام، جو پرانے’منوسمرتی’ کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔

طلبہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ‘یہ کوئی استثنیٰ نہیں ہے، یہی سازش ہر جگہ چل رہی ہے، آئی آئی ٹی ہو یا سینٹرل یونیورسٹی، این ایف ایس آئین پر حملہ ہے۔ این ایف ایس سماجی انصاف کے ساتھ دھوکہ ہے۔ ‘

ویڈیو میں وہ طلبہ سے کہہ رہے ہیں کہ ہندوستان کی تاریخ دلتوں، قبائلیوں اور پسماندہ طبقات کی بھی تاریخ ہے۔ انہیں اپنی پہچان کے لیے جو کچھ برداشت کرنا پڑا وہ بھی تاریخ کا حصہ ہے۔ لیکن ہندوتوا کےمنصوبے کی بنیاد ہی یہی ہے کہ ایس سی، ایس ٹی اور او بی سی برادریوں کی تاریخ کو مٹا  دیا جائے۔’

راہل گاندھی نے امبیڈکر کے اس بیان کو دہراتے ہوئے – مساوات کے لیے تعلیم سب سے بڑا ہتھیار ہے – کہا کہ ‘مودی حکومت اس ہتھیار کو کند کرنے میں لگی ہوئی ہے۔’

جب ایک طالبعلم نے ریزرویشن پر سوال پوچھا تو اپوزیشن لیڈر نے کہا کہ ‘ریزرویشن ایک حق ہے۔ اور کانگریس کے اقتدار میں آنے کے بعد اس پر لگائی گئی 50 فیصد پابندی ہٹا دی جائے گی۔’