سفلہ پروری اور علم دشمنی کے دور میں جب سیاسی لیڈروں کا قرطاس و قلم سے رشتہ بڑی حد تک منقطع ہو چکا ہے، ہاشم قدوائی صاحب کو یاد کرنا دراصل اپنے گم شدہ متاع کی بازیافت کرنا ہے اور یہی اس کتاب کی اشاعت کا جواز بھی ہے۔
انسانی زندگی یادداشت اور فراموشی کی مسلسل آویزش سے نمو پذیر ہوتی ہے اور اس کا اختتام موت (فراموشی)پر ہوتا ہے۔ تاہم قوت حافظہ کی، جو انسان کو دیگر مظاہر فطرت سے ممتاز و ممیز کرتی ہے، مدد سے ماضی کی بازیافت کی جا سکتی ہے۔ میلان کنڈیرا کے نزدیک حافظہ انسان کو زماں ومکان کے قیود سے آزاد کر دیتا ہے اور گزرے ہوئے واقعات کو محیط تابندہ لمحات وجود کی ناقابل برداشت لطافت (Unbearable Lightness of Being) کی صورت میں ہمارے سامنے آتے ہیں۔
انتظار حسین یاد رکھنے کی بیش از بیش صلاحیت کے حصول کو لازمی انسانی فعل سمجھتے ہیں۔ انہوں نے لکھا ہے کہ دنیا میں صرف دو مثالیں ایسی ہیں جن کی زبردست قوتِ حافظہ کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا۔ اولاً تو مہاتما بدھ جنہیں اپنے تمام سابقہ جنم پوری تفصیلات کے ساتھ یاد ہیں اور دوسرا ہاتھی جو کبھی کسی بات کو نہیں بھولتا ہے۔
انتظار حسین نے اپنے مخصوص اسلوب میں بطور تفنن طبع لکھا کہ مہاتما بدھ ہونا تو ممکن نہیں ہے مگر انسان چاہے تو ہاتھی ہو سکتا ہے۔ یعنی انسان اپنی قوت یادداشت کے تمام امکانات کو بروئے کار لاکر گزرے ہوئے واقعات کی مکمل بازآفرینی کر سکتا ہے۔ ذہن میں اکثر خیال آتا تھا کہ یہ ایک نوع کی خوش فہمی ہے کہ حقیقی زندگی میں ایسے اشخاص نظر نہیں آتے جنہیں گذشتہ واقعات مع دن تاریخ ازبر ہوں اور جن کے حافظہ میں لوگوں کے صحیح نام،کتابوں کے عنوانات اور ان کے مندرجات کی پوری تفصیل موجود ہو۔
مگر یہ تاثر اس وقت پوری طرح زائل ہوگیا جب ممتاز اسکالر اور علم سیاسیات کے ماہر اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے مایہ ناز استاد ڈاکٹر ہاشم قدوائی کی انگریزی اور اردو تحریریں ملک کے اہم اخبارات اور جرائد میں نظر سے گذریں۔ ڈاکٹر ہاشم قدوائی صاحب نے اپنی قابل رشک یادداشت کی بنیاد پر ملک کے بعض معروف مؤرخوں، سیاست دانوں اور ادیبوں کی تحریروں میں تاریخی تسامحات اور واقعاتی غلطیوں کی برملا اور مصدقہ نشان دہی کو اپنا شعار بنا لیا تھا اور اکثر اپنے تبصروں میں کتابوں میں موجود لاتعداد اغلاط کو نشان زد کرتے تھے۔
پروفیسر ہاشم قدوائی گئے زمانوں کے عالموں کی طرح صلہ کی پروا اور ستائش کی تمنا سے بے پروا ہو کر نہ صرف علم و ادب کی آبیاری کرتے تھے بلکہ طلبہ کی ذہن سازی بھی کرتے تھے اور سیاست میں عملی دلچسپی لے کر ایک عوامی دانش ور ( Public Intellectual) کے فرائض بھی بڑی تندہی سے انجام دیتے تھے۔وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبۂ سیاسیات سے سبکدوشی کے بعد راجیہ سبھا کے ممبر منتخب ہوئے تھے۔ ان کی ایک درجن سے زائد کتابیں اورانگریزی میں ان کی آپ بیتی The Life and Times of a Nationalist Muslim ملک کے علمی، صحافتی اور سیاسی حلقوں میں بڑی مقبول ہوئی تھی۔ پروفیسر قدوائی نے جنگ آزادی کے دوران اور پھر آزاد ہندوستان میں ایک سچے قوم پرست مسلمان کے طور پر صبر آزما جدو جہد کا بڑا پُر اثر بیانیہ آپ بیتی کی صورت میں مرتب کیا ہے۔
اس سفل پروری کے عہد میں جسے مابعد صداقت دور سے تعبیر کیا جاتا ہے، کسی ایک شخص کے اسلوب زیست کو مرکز توجہ بنانا، جس کی زندگی ہر قسم کی فرقہ پرستی کے خلاف مزاحمت سے عبارت تھی اور جس نے میدان سیاست میں صدق گوئی، وضع داری، علم پروری اور جرأت اور بے باکی کے لازوال نقوش ثبت کیے، اجتماعی احسان مندی کا ایک پسندیدہ فعل ہے جسے جواہر لعل نہرو یونیورسٹی کے سابق استاد ڈاکٹر سلیم قدوائی نے بحسن و خوبی انجام دیا ہے۔
ان کی مرتبہ کتاب ‘ڈاکٹر محمد ہاشم قدوائی: افکار و حیات’ ہاشم قدوائی کے علمی اور مسلمانوں کی اجتماعی زندگی کی فلاح و بہبود کے لیے ان کی گراں قدر خدمات کا احاطہ کرتی ہے اور ان کے شخصی کوائف سے بھی قارئین کو واقف کراتی ہے۔ ملک کی ممتاز علمی، ادبی اور سیاسی شخصیتوں مثلاً مولانا رابع حسنی، پروفیسر ریاض الرحمان شیروانی، عبد العلیم قدوائی، پروفیسر عبد الرحیم قدوائی، ڈاکٹر سلیم قدوائی، محمد عمیر الصدیق ندوی، خواجہ محمد شاہد، مفتی عطاء الرحمان قاسمی، معصوم مرادابادی، احمد مشکور، عارف اقبال، یعقوب الرحمان اور اسعد فیصل فاروقی وغیرہ کے علاوہ انگریزی کے اہم قلم کاروں انصر قدوائی، پرینکا کوٹم راجو، محمد سجاد، رشید قدوائی، سید خورشید انور اور جاوید بدایونی کے مضامین اور تبصرے شامل ہیں۔
گہری علمیت اور مستحضر مطالعہ نے ڈاکٹر ہاشم قدوائی کی تحریروں میں بلا کی کاٹ پیدا کر دی تھی اور اس کا سب سے بہتر اظہار ان کے تفصیلی تبصروں میں ہوتا تھا جو انگریزی اور اردو میں تواتر کے ساتھ شائع ہوتے تھے۔ ڈاکٹر ہاشم قدوائی صاحب غلطیوں اور تسامحات کو پوری دیانت داری اور معروضیت کے ساتھ اجاگر کرتے تھے اور اس ضمن میں مصنف کی شہرت یاان کے علمی وقار سے بھی متاثر نہیں ہوتے۔ اس ضمن میں ان کے لائق فرزند ڈاکٹر سلیم قدوائی نے ایک دلچسپ حکایت بیان کی ہے؛
ان کا مطالعہ نہایت وسیع تھا۔ بحیثیت تبصرہ نگار ان کا اپنا مقام تھا اور ان کے تبصرے بڑی دلچسپی سے پڑھے جاتے تھے۔ ان کو اس کی شکایت رہتی تھی کہ موجودہ دور کے مصنفین، مورخین اور صحافی اکثروبیشتر واقعات کی صحت اور حقائق سے نابلد ہیں۔ مشہور صحافی درگاداس نے جب سردار پٹیل کی خط و کتابت کی جلدیں شائع کیں تو نیشنل ہیرالڈ کے ایڈیٹر چیلاپتی راؤ نے ریویو کے لیے ہاشم قدوائی کو منتخب کیا اور انہوں نے اپنے ریویو میں اتنی فاش غلطیاں گنائیں کہ درگا داس پریشان ہو گئے اور وہ پہلے ایڈیٹر اور پھر نیشنل ہیرالڈ کے چیرمین کرنل زیدی کے پاس فریاد لے کر پہنچے کہ اگر باقی جلدوں پر اسی طرح کا ریویو شائع ہوگا تو ان کی عزت خاک میں مل جائے گی، اس لیے ریویو کسی دوسرے شخص سے کرایا جائے۔یہ دوسری بات ہے کہ ذاتی تعلقات کے باوجود نہ ایڈیٹر نے یہ بات مانی اور نہ ہی کرنل زیدی نے دخل دینا مناسب سمجھا اور ریویو شائع ہوئے۔
ڈاکٹر ہاشم قدوائی پسند اور ناپسند کے معاملے میں خاصے سخت تھے اور کبھی کبھی ان کی رائے سوادِ اعظم سے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔ اس سلسلہ کی ایک کڑی سر سید سے متعلق ان کی رائے ہے جو زیادہ مثبت نہیں تھی۔ ہاشم قدوائی صاحب سرسید کے سیاسی نظریات اور مذہبی عقائد سے خود کو ہم آہنگ نہیں پاتے تھے اور اپنی اس رائے کا اظہار بھی کرتے رہتے تھے۔اسی طرح علی گڑھ میں بائیں بازو کی سیاست سے بھی وہ نالاں رہتے تھے۔ پ
روفیسر ریاض الرحمان شیروانی نے لکھا ہے کہ ان کے ہاشم قدوائی سے گہرے مراسم تھے کہ وہ دونوں نیشنلسٹ نظریات کے حامل تھے لیکن آزادی کے بعد ملک میں اور علی الخصوص علی گڑھ میں جس طرح کی صورت حال سامنے آئی اس سے عہدہ برآ ہونے کی حکمت عملی کے ضمن میں دونوں کی رائے مختلف تھی۔پروفیسر ریاض الرحمان شیروانی نے لکھا ہے؛ حصول آزادی کی کچھ مدت کے بعد علی گڑھ کے نیشنلسٹ خیالات کے افراد دو طبقے میں بٹ گئے۔ ایک طبقہ کی رائے تھی کہ مسلم فرقہ پرستی زہر نکلا ہوا سانپ ہے، اصلی خطرہ اشتراکیت سے ہے۔ اس کے برخلاف دوسرے طبقے کا خیال تھا کہ فرقہ پرستی چاہے جس کی بھی ہو، کل بھی خطرہ تھی ، آج بھی خطرہ ہے اور آئندہ بھی خطرہ رہے گی۔ ایک فرقہ کی فرقہ پرستی دوسرے فرقہ کی فرقہ پرستی کو تقویت پہنچاتی ہے۔
یہ بات کہنے کی ہے کہ ہاشم قدوائی صاحب بھی ہر طرح کی فرقہ پرستی کے خلاف تھے اور انہوں نے اس سلسلے میں کبھی سمجھوتہ نہیں کیا اور وہ مسلم فرقہ پرستی کے ہمیشہ مخالف رہے۔ ڈاکٹر ہاشم قدوائی کے والد ڈپٹی عبدالمجید ایک اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز تھے اور ان کے گھر کے بیشتر افراد بقول سلیم قدوائی مسلم لیگ کے حامی تھے۔بزرگوں کا انتہائی احترام بھی ہاشم قدوائی کو اپنے سیاسی نظریات سے متزلزل نہ کر سکا۔ ڈاکٹر سلیم قدوائی نے لکھا ہے کہ ؛
جب سنٹرل اسمبلی کے انتخاب میں راجہ محمد آباد (جن سے خاندانی تعلقات تھے) مسلم لیگ کے ٹکٹ پر امیدوار ہوئے تو ہاشم قدوائی کے والد ڈپٹی عبد المجید پرچہ بھرنے والوں میں تھے لیکن ہاشم قدوائی نے راجہ صاحب کے مخالف کانگریسی امید وار منشی احترام علی کا کھل کر کام کیا جو اس زمانہ کے ماحول میں بڑی ہمت کا کام تھا۔
پروفیسر ہاشم قدوائی نے علی گڑھ میں طلبہ کی کئی نسلوں کی ذہنی آبیاری کی اوران کے متعدد شاگردوں نے بڑی ناموری حاصل کی۔ ان کے اہم شاگردوں میں حامد انصاری سابق نائب صدر جمہوریہ ہند، سابق مرکزی وزیر عارف محمد خاں، سابق ریاستی وزیر اعظم خاں اور متعدد اعلیٰ سرکاری افسران بشمول خواجہ محمد شاہد (آئی اے ایس) شامل ہیں۔ خواجہ محمد شاہد نے جو مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے پرووائس چانسلر بھی رہ چکے ہیں، اپنے طویل تاثراتی مضمون ’’استاد محترم‘‘ میں ہاشم قدوائی کے طریقہ تدریس اور اپنے طلبہ سے گہرے تعلق کو بڑے دلکش انداز میں بیان کیا ہے۔
خواجہ شاہد نے یہ بھی لکھاہے کہ ہاشم قدوائی نے جو کچھ کلاس میں پڑھایا تھا، اس کی بدولت انہیں آئی اے ایس کے امتحان میں کامیابی حاصل کرنے میں بڑی آسانی ہوئی۔ مضمون نگار نے اپنے استاد کے ہاتھوں شاگردوں کی حوصلہ افزائی کے متعدد واقعات بیان کیے ہیں۔ خواجہ صاحب نے لکھاہے کہ ان کے افغانی طالب علم افضل ناصری (افغانستان) علی گڑھ میں ان کے ہم جماعت تھے۔ افضل ناصری کو زمانہ طالب علمی سے لکھنے سے دلچسپی پیدا ہو گئی تھی ۔ اس سلسلے میں قدوائی صاحب نے ان کی بہت حوصلہ افزائی کی۔ خواجہ شاہد لکھتے ہیں؛
افضل ناصری جب طالب علم تھے تو انہوں نے اخباروں کے مدیروں کو خط لکھنا شروع کیا۔ لیکن شروع شروع میں ان کو کوئی کامیابی نہیں حاصل ہوتی تھی تو قدوائی صاحب جو بذات خود اخباروں کے مدیروں کو لگاتار خطل لکھتے رہتے تھے، انہوں نے افضل ناصری کی بہت ہمت افزائی کی۔ 1970ء میں ان کا ایک خط ہندوستان ٹائمس میں شائع ہوا۔ بقول افضل ناصری یہی چیز ان کے جرنلزم میں کام کرنے کی پیش رو بنی اور بعد میں وہ کابل ٹائمس کے ایڈیٹر بنے۔
اس واقعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ قدوائی صاحب صحافی گر بھی تھے۔انگریزی ادبیات کے نامور استاد پروفیسر عبد الرحیم قدوائی جن کے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے تعلق کی مدت نصف صدی سے زائد کو محیط ہے، نے ہاشم قدوائی صاحب کے سلسلے میں لکھا ہے کہ اپنے مشاہدے میں طلبہ سے ایسی بے لوث محبت، ایسے والہانہ تعلق اور ایسی قلبی نسبت اور انسیت مجھے مرحوم کے سوا کہیں اور نظر نہیں آتی۔ طلبہ سے یہ رشتہ زہد و ہدایت تک محدود نہ تھا، وہ ان کی مالی اعانت کرنا بھی اپنا فرض سمجھتے تھے اور ان کے لیے وظائف کا نظم کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی آمدنی کا معتد بہ حصہ اسی مد میں خرچ کرتے اور زیر بار ہوتے‘‘۔
مبادی سیاسیات، اسول سیاسیات، اسول مدنیت، تاریخ افکار سیاسی اور یورپ کے عظیم سیاسی مفکرین ڈاکٹر ہاشم قدوائی کی گرانقدر علمی تصانیف ہیں۔ انہوں نے اردو کے صاحب طرز ادیب اور عالم مولانا عبد الماجد دریابادی کے مکاتیب کی سات جلدیں حواشی اور تعلیقات کے ساتھ مرتب کیں۔ یہ ان کا ایک اہم تحقیقی کارنامہ ہے۔
ڈاکٹر ہاشم قدوائی کی شخصیت کے متعدد تابناک گوشے ان کے چھوٹے بھائی اور ادیب عبد العلیم قدوائی نے اپنے مضمون ’’تلخی غم کہی نہیں جاتی‘‘ میں بڑی دقت نظری کے ساتھ واضح کیے ہیں۔ انصر قدوائی، رشید قدوائی اور محمد سجاد کے انگریزی مضامین ہاشم قدوائی کی علمی اور سیاسی اکتباسات کو روشن کرتے ہیں۔
سفلہ پروری اور علم دشمنی کے دور میں جب سیاسی لیڈروں کا قرطاس و قلم سے رشتہ بڑی حد تک منقطع ہو چکا ہے، ہاشم قدوائی صاحب کو یاد کرنا دراصل اپنے گم شدہ متاع کی بازیافت کرنا ہے اور یہی اس کتاب کی اشاعت کا جواز بھی ہے جس کے لیے ڈاکٹر سلیم قدوائی کی سعی کی پذیرائی کرنا ضروری ہے۔
(تبصرہ نگارعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے شعبہ ماس کمیونیکیشن میں پروفیسر ہیں۔ ان کے ہفتہ وار کالم ورق در ورق کی ساری قسطیں آپ یہاں پڑھ سکتے ہیں۔)