تنازعہ کے بعد پبلی کیشن ہاؤس نے دہلی فسادات پر مبنی کتاب کی اشاعت کو رد کیا

‘دہلی رائٹس2020:د ی ان ٹولڈ اسٹوری’ کتاب کے رسم اجرا میں بی جے پی رہنما کپل مشرا، فلم ڈائریکٹر وویک اگنی ہوتری، آپ انڈیا ویب سائٹ کی مدیر نوپر جے شرما وغیرہ کے شامل ہونے کی اطلاع کےبعد سےتنازعہ شروع ہوا تھا۔ یہ کتاب پبلی کیشن ہاؤس بلومسبری انڈیا کی جانب سے ستمبر مہینے میں آنے والی تھی۔

‘دہلی رائٹس2020:د ی ان ٹولڈ اسٹوری’ کتاب کے رسم اجرا میں بی جے پی رہنما کپل مشرا، فلم ڈائریکٹر وویک اگنی  ہوتری، آپ انڈیا ویب سائٹ کی مدیر نوپر جے شرما وغیرہ کے شامل ہونے کی اطلاع کےبعد سےتنازعہ شروع ہوا تھا۔ یہ کتاب پبلی کیشن ہاؤس بلومسبری انڈیا کی جانب  سے ستمبر مہینے میں آنے والی تھی۔

کتاب کا کور۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

کتاب کا کور۔ (فوٹوبہ شکریہ: ٹوئٹر)

نئی دہلی: تنازعہ کے بعد پبلی کیشن ہاؤس بلومسبری انڈیا نے سنیچر کو ایڈووکیٹ مونیکا اروڑہ، سونالی چتلکراور پریرنا ملہوترا کی دہلی فسادات کے موضوع پر کتاب ‘دہلی رائٹس 2020:دی ان ٹولڈ اسٹوری’کی اشاعت  سے اپنے قدم پیچھے کھینچ لیے ہیں۔پبلی کیشن ہاؤس کی جانب سے ایک بیان جاری کرکے کہا گیا ہے، ‘بلومسبری انڈیا نے ‘دہلی رائٹس 2020:دی ان ٹولڈ اسٹوری’ نام کی کتاب کو ستمبر میں شائع کرکے منظر عام پر لانے کا منصوبہ بنایاتھا۔ اس سال فروری میں دہلی میں ہوئے فسادات کے سلسلےمیں مصنفین  کے ذریعےکی گئی جانچ پڑتال اور انٹرویو پر مشتمل یہ کتاب مبینہ طور پر حقائق پر مبنی کتاب ہے۔’

بیان میں آگے کہا گیا ہے، ‘حالانکہ حالیہ واقعات کو دیکھتے ہوئے جس میں ہماری جانکاری کے بنامصنفین کی جانب سے ایک ورچوئل پری پبلی کیشن لانچ بھی شامل ہے، جس میں کچھ ایسے لوگ بھی شامل ہیں، جنہیں پبلی کیشن ہاؤسز کی طرف سے اجازت نہیں دی گئی تھی، اس لیے ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم اس کتاب کو شائع  نہیں کریں گے۔’

پبلی کیشن ہاؤس کی جانب  سے کہا گیا ہے، ‘بلومسبری انڈیا مضبوطی کے ساتھ اظہار رائے کی آزادی کی حمایت  کرتا ہے، لیکن اس میں سماج کے لیے  ذمہ داری کا بھی احساس ہے۔’

انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، سوشل میڈیا پر کتاب کے اجرا سےمتعلق خبر آنے کے بعد تنازعہ شروع ہو گیا۔ ایسی اطلاع ہے کہ کتاب کے اجرا میں بی جے پی رہنما کپل مشرا، فلم ڈائریکٹروویک اگنی ہوتری، آپ انڈیا ویب سائٹ کی مدیر نوپر جے شرما وغیرہ  شامل ہوں گے۔

کتاب کے اجرا  سے متعلق سوشل میڈیا میں شیئر کی گئی تصویر۔

کتاب کے اجرا  سے متعلق سوشل میڈیا میں شیئر کی گئی تصویر۔

سوشل میڈیا پر پھیلائی گئی جانکاری  کے مطابق، سنیچر شام چار بجے کتاب کا رسم اجرا تھا، جس میں کپل مشرا، وویک اگنی ہوتری، نوپر جے شرما گیسٹ آف آنر تھے۔اس اطلاع کے بعد سے تنازعہ شروع ہوا۔ تمام لوگوں کا کہنا ہے کہ پبلی کیشن ہاؤس ایک فرقہ وارانہ ایجنڈے کوآگے بڑھا رہا ہے۔

بڑی تعدادمیں قلمکاروں،پبلشرز اورہیومن رائٹس کارکنوں نے بی جے پی رہنما کپل مشرا کو پروگرام  میں مدعوکرنےکو لےکر بلومسبری کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ شیم آن بلومسبری بھی ٹرینڈ ہوا تھا۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق، اس کے بعد بلومسبری انڈیا نے ایک اوربیان جاری کرکے واضح کیا ہے کہ وہ اس پروگرام  سے جڑا ہوا نہیں ہے۔

ناول نگار مینا کنڈاسوامی نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے، ‘پروگرام منعقد نہ کرنے کا دعویٰ کرکے آپ (بلومسبری انڈیا)بچ نہیں سکتے۔سچائی یہ ہے کہ مسلمانوں اور دلتوں کے خلاف تشددکا مطالبہ کرنے والے اور دنگا بھڑ کانے کےکلیدی کردارکپل مشرا نے اس کتاب کی حمایت کی ہے، جو آپ کے فاششٹ  چہرے کو دکھاتا ہے۔’

لیفٹ آرگنائزیشن آئسا نے ٹوئٹ کرکے کہا ہے، ‘کتاب کی شکل میں نفرت سےمتعلق  منصوبوں کی  اشاعت پبلی کیشن ہاؤس نہیں کرتے ہیں۔ ایسا جھوٹا پروپیگنڈہ کرنے والے کرتے ہیں۔ یہ نفرت پھیلانے کا ہٹلرگوئیبل ماڈل ہے۔’آگے کہا گیا ہے، کتاب اوراداروں کا استعمال نفرت پھیلانے کے لیے کرنا۔ یہ شرمناک ہے کہ بلومسبری نفرت پھیلانے کے اس منصوبے میں شامل ہو رہا ہے۔

اس سلسلے میں بی جے پی رہنما کپل مشرا نے ٹوئٹر پر لکھا ہے، ‘ایک کتاب سے ڈر گئے اظہار رائے  کی آزادی کے فرضی ٹھیکیدار،یہ کتاب چھپ نہ جائے، یہ کتاب کوئی پڑھ نہ لے۔ تمہارا یہ ڈر اس کتاب کی جیت ہے۔ تمہارا یہ ڈر ہماری سچائی کی جیت ہے۔’

Next Article

پنجاب کے صحافیوں پر خفیہ پولیس کی دستک، بے وجہ مانگی جا رہی نجی جانکاری

ان دنوں پنجاب پولیس آزاد صحافیوں کو پریشان کر رہی ہے۔ ان سے تمام طرح کی ذاتی معلومات طلب کی جا رہی ہے۔ اس کے باعث صحافیوں میں غصہ ہے۔ ان کے مطابق یہ صحافیوں کو ڈرانے کی کوشش ہے۔

چنڈی گڑھ: پنجاب کے برنالہ ضلع کے کھڈّی گاؤں کے  صحافی گرپریت کو جب 6 جون کو اسٹیٹ انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک افسر نے پولیس اسٹیشن بلایا تو انہیں ایک بارکو لگا کہ یہ کوئی عام سی کارروائی ہے۔ لیکن جب افسر نے گرپریت سے سوال پوچھنا شروع کیا تو انہیں تھوڑا شک ہوا۔

اس افسر نے گرپریت سے پوچھا؛


کہاں سےپڑھائی کی ہے؟

صحافت کی ڈگری کہاں سے حاصل کی؟ کس سال حاصل کی؟

زمین کتنی ہے، بینک اکاؤنٹ کی تفصیلات؟

کن کن ممالک کا دورہ کیا ہے؟ پاسپورٹ کی تفصیلات؟

کار کا رجسٹریشن نمبر کیا ہے؟

گھر والے کیا کرتے ہیں؟


افسر انتہائی ذاتی معلومات کے بارے میں تقریباً بیس سوال پوچھتا رہا اور گرپریت سہمے ہوئے جواب دیتے رہے۔ گرپریت گزشتہ 8 سال سے صحافت کر رہے ہیں اور گزشتہ 4 سالوں سے وہ ‘پنجابی نیوز کارنر’ کے نام سے اپنا ایک آزاد ویب چینل چلا رہے ہیں۔

گرپریت نے دی وائر کو بتایا، ‘یہ پہلا موقع تھا جب اس طرح سے میری ذاتی معلومات مانگی جا رہی تھیں۔ آدھار کارڈ نمبر، پاسپورٹ نمبر، خاندان میں کون کون ہیں اور کیا کرتے ہیں؟ زمین کتنی ہے؟ ایسے کئی سوالات پوچھے گئے۔’


یہ صرف گرپریت ہی نہیں تھے، جن سے ریاستی انٹلی جنس محکمہ نے ذاتی تفصیلات طلب کی ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران، پنجاب کے صحافیوں کو پریشان  کرنے والاپیٹرن سامنے آیا ہے، جس میں پنجاب کے مالوا علاقے سے تعلق رکھنے والے پانچ دیگر صحافیوں — منندرجیت سنگھ (لوک آواز)، سکھویندر سنگھ سدھو (لوک ناد)، منٹو گروسریا، سندیپ لادھوکا (اے بی سی پنجاب)، اور جسگریوال (آر ایم بی ٹیلی ویژن) — کی ذاتی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں۔


مالوا کے بٹھنڈہ ضلع سے اپنا آزاد چینل چلا رہے صحافی منندر سدھو کے دفتر پر 5 جون کو انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے ایک اہلکار نے دستک دی  اور چائے پینے کے بعد منندر پر ایسے ہی سوالات کی بوچھاڑ کردی۔

منندر سدھو۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

منندر نے دی وائر کو بتایا، ‘جب انٹلی جنس والےنے مجھ سے سوال پوچھنا شروع کیا تو مجھے لگا کہ سسٹم (ریاست) کے پاس پہلے سے ہی ہماری بنیادی معلومات موجود ہیں، پھر اس کی کیا ضرورت ہے۔ لیکن سوال جب پڑھائی-لکھائی کے سال ، زمین، پاسپورٹ نمبر تک پہنچے تو مجھے احساس ہوا کہ یہ نارمل نہیں ہے۔ آج تک پنجاب میں کسی حکومت نے صحافیوں کی اتنی ذاتی معلومات اکٹھی نہیں کیں۔’

منندر سنگھ گزشتہ چار سالوں سے ‘لوک آواز ٹی وی’ کے نام سے اپنا ویب چینل چلا رہے ہیں۔ وہ اپنی تنقیدی رپورٹنگ کے لیے مالوا خطے میں کافی مقبول ہیں اور اس سے قبل بھی ریاستی حکومت کے نشانے پر رہے ہیں۔

اس سال فروری میں بھی ان کے خلاف عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے بلکار سنگھ سدھو کے پی اے کی شکایت پر بٹھنڈہ ضلع کے رام پورہ سٹی پولیس اسٹیشن میں بی این ایس کی دفعہ (4)(کسی کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کے ارادے سے کی گئی جعلسازی) اور انفارمیشن ٹکنالوجی ایکٹ 2000 کی دفعہ 66ڈی کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی تھی، لیکن ریاستی سطح پر ہوئے صحافیوں کے احتجاج کے دباؤ میں ایف آئی آر رد کر دی گئی تھی۔

منندر اس واقعے کو صحافیوں پر دباؤ ڈالنے کی کارروائی تصور کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا، ‘اگر آپ غور سے دیکھیں تو معلوم ہوگا کہ سی آئی ڈی نے ان صحافیوں کی معلومات اکٹھی کی ہیں جو نہ تو حکومت سے اشتہار لیتے ہیں اور نہ ہی ان  کے مطابق خبریں کرتے ہیں۔ یہ صرف ہم صحافیوں کو ڈرانے کے لیے کیا جا رہا ہے تاکہ ہم سب خاموش  بیٹھ جائیں ۔’

(مائیک تھامے ہوئے) منندر سنگھ سدھو، سکھویندر سدھو، منٹو گرسریا، (نیچے) جسگریوال، سندیپ لادھوکا، گرپریت سنگھ۔ (تصویر: ارینجمنٹ)

بھٹنڈہ سےہی ‘آر ایم بی ٹیلی ویژن’ نامی ویب چینل کے لیے صحافت کرنے والے جسگریوال سے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار نے  فون پر بات کی، جس میں ایسے ہی سوالات ان سے بھی پوچھے گئے۔ جسگریوال نے کہا، ‘مجھے انٹلی جنس ڈپارٹمنٹ کے اہلکار کی کال موصول ہونے سے پہلے ہی پتہ چل گیاتھا کہ وہ ہماری معلومات اکٹھا کرتے پھر رہے ہیں۔ دراصل،انہوں نے میرے گاؤں کے لوگوں سے معلومات اکٹھی کرنے کی کوشش کی تھی۔’

افسر نے جس کو دفتر آنے کو کہا، لیکن انہوں نے انکار کر دیا اور صاف کہہ دیا کہ جو کچھ پوچھنا ہے، فون پر ہی پوچھ لیجیے۔ اس کے بعد افسر نے ان سے بھی کئی ذاتی سوال  پوچھے۔

یہ پہلا موقع نہیں تھا جب آر ایم بی ٹیلی ویژن اور اس کے صحافیوں کو ہراساں کیا جا رہا ہو۔ جس بتاتے ہیں، ‘اس سے پہلے بھی حکومت دو بار ہمارے ویب چینل کے سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو بند کر چکی ہے۔ ایک بار تو سال بھر کے لیے بند رکھا۔ 2022 کے انتخابات کے دوران بھی مجھے ان کی میڈیا پی آر والی میڈم کا فون آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے ملنے کو کہا لیکن میں نے منع  کر دیا تھا۔

اسی طرح صحافی سندیپ اور سکھویندر کو بھی فون کرکے ان کی تمام ذاتی تفصیلات طلب کی گئی تھیں۔ صحافی سندیپ نے بتایا، ‘انٹلی جنس افسر نے فون پر کہا کہ آپ فاضلکا میں میرے دفتر آئیں تاکہ ہم یہ جانچ سکیں کہ آپ اصلی صحافی ہیں یا نہیں۔ ہم فاضلکا ضلع کے صحافیوں سے تفتیش کر رہے ہیں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں فاضلکا میں کام ہی نہیں کرتا۔ میں چندی گڑھ سے کام کرتا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے مجھ سے ذاتی تفصیلات پوچھنا شروع کر دیں۔’

سندیپ اس کارروائی کو صحافیوں کو دھمکانے کی کوشش سمجھتے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل بھی سندیپ کو پنجاب اسمبلی کی کوریج سے روک دیا گیا تھا اور ان کا پاس لے  لیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ عام آدمی پارٹی کے ایم ایل اے ہرمیت سنگھ پٹھان ماجرا نے بھی سندیپ کے ساتھ ایک بار بدسلوکی کی تھی۔

صحافی سکھویندر سدھو کو بھی پچھلے تین سالوں میں کئی بار ہراساں کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا، ‘حکومت ہماری ذاتی معلومات اکٹھی کرکے کیا کرے گی۔ خیر، اس سے پہلے بھی وہ کئی بار مجھ پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر چکے ہیں۔ تقریباًسوا سال پہلے کی بات ہے۔ پٹیالہ پولیس نے مجھے حراست میں لیا تھا، اس وقت ایس ایس پی نے خود مجھ سے کہا کہ بھگونت مان کے بارے میں کچھ بھی رپورٹ نہ کرنے کا تحریری حلف نامہ دیں۔ میں نے صاف منع کر دیا تھا۔


 مالوا کے مکتسر ضلع کے ایک صحافی منٹو گرسریا کی ذاتی معلومات بھی انٹلی جنس اہلکاروں نے اس ہفتے اکٹھی کی ہیں۔


انہوں نے کہا، ‘مجھ سے براہ راست پوچھنے کے بجائے اہلکاروں نے میرے محلے سے میرے بارے میں معلومات اکٹھی کی ہیں۔ میں جس دفتر میں کام کرتا ہوں وہ کس کے نام ہے، میرے پاس کتنی زمین ہے۔ یہاں تک کہ انہوں نے گاؤں میں کوآپریٹو سوسائٹی کے میرے بینک اکاؤنٹ کی بھی تلاشی لی ہے۔ ایسا ہم نے یوپی میں سنا تھا کہ صحافیوں کے ساتھ ایسے واقعات ہوتے ہیں۔ لیکن تحریکوں سے ابھرنے والی جماعت پنجاب میں یوپی ماڈل کو براہ راست کاپی پیسٹ کر رہی ہے۔ اس سے زیادہ افسوسناک اور کیا ہو سکتا ہے؟’

صحافیوں کی حمایت میں اپوزیشن

دریں اثناپنجاب کے ان صحافیوں کی ذاتی معلومات اکٹھا کرنے کے حوالے سے گزشتہ ہفتے اپوزیشن جماعتوں نے صحافیوں کی حمایت میں بیانات دیے ہیں۔

شرومنی اکالی دل کے سربراہ سکھبیر بادل نے اس معاملے کو نمایاں طور پر اٹھایا اور کہا، ‘حکمران پارٹی اور وزیر اعلیٰ کو پریس کی آزادی کو سلب کرنے کی کوششوں سے باز آنا چاہیے۔ پولیس کی جانب سے صحافیوں کے گھروں پر جانے اور ان سے گھنٹوں پوچھ گچھ کرنے کی خبریں انتہائی تشویشناک اور ناقابل قبول ہیں۔ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے چوتھے ستون پر ایک زبردست حملہ ہے اور حکومت کو جوابدہ ٹھہرانے والوں کو ڈرانے اور خاموش کرانے کی منصوبہ بند حکمت عملی کا حصہ ہیں۔ پریس کو ہراساں کرنے سے سچائی کو دبایا نہیں جا سکتا، بلکہ اس سےصرف ان صحافیوں کے عزم کو تقویت ملے گی جو سچ کے لیے پرعزم ہیں۔’

اس معاملے پر دی وائر نے پنجاب میں عام آدمی پارٹی حکومت کے ترجمانوں سے بات کرنے کی کوشش کی، لیکن صرف ایک ترجمان بلتیج پنوں نے ہمارا فون اٹھایا۔ انہوں نے اس معاملے پر تبصرہ کرنے سے اپنی نااہلی کا حوالہ دیا اور دوسرے شخص کا فون نمبر دیا۔ اس نمبر پر بار بار کال کرنے کے باوجود ابھی تک کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

(مندیپ صحافی ہیں اور ‘گاؤں سویرا’ نام کا ویب پورٹل چلاتے ہیں۔)

Next Article

راجستھان میں سولر پاور پلانٹس کا قہر

راجستھان میں آ رہے سولر پاور پلانٹس کی وجہ سے قدرتی نباتات تباہ ہو رہی ہیں، چراگاہیں ختم ہو رہی ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات لاحق ہیں۔ راجستھان کا فخر سمجھے جانے والے کھیجڑی کے درخت بڑے پیمانے پر کاٹے جا رہے ہیں۔

راجستھان کے دور دراز علاقوں میں سولر پاور پلانٹس کے لیے بڑے پیمانے پر زمین مختص کیے جانے کی وجہ سے چراگاہوں اور جنگلات کا بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ/وکی میڈیا کامنز)

جئے پور: جیسلمیر کے دھولیا گاؤں کے رہائشی رادھےشیام پیمانی شوقیہ فوٹوگرافر تھے۔ (بدقسمتی سے 23 مئی کو رات گئے وہ ایک ہرن کو شکاریوں سے بچانے کی کوشش میں سڑک حادثے میں ہلاک ہو گئے۔) گزشتہ چند سالوں میں ان کے علاقے میں کئی سولر پاور پلانٹس آگئے تھے، جس کے بعد ان کے کیمرے میں بعض عجیب وغریب مناظر قید ہونے لگے۔

ایک رات انہوں  نے شمسی پینل سے لیس ایک میدان پر  پیلیکن پرندےکے ایک جھنڈکواترتے دیکھا۔ پہلے یہاں تالاب ہوا کرتے تھے، لیکن اب سولر پلانٹس آگئے تھے۔ رات کے وقت شمسی پلیٹوں کو چمکتے دیکھ کر ان پرندوں کو لگا کہ  جھیل ہے۔ کانچ کو پانی سمجھ کر ‘یہ پرندہ کانچ پر پھسل گیا اور اس کے پاؤں زخمی ہو گئے،’ انہوں نے بتایا تھا۔

سولر پلیٹوں کی نیلی چمک ایک سراب پیدا کر رہی ہے۔

§ 

اسی علاقے میں بھیڑ، بکریاں، گائے اور اونٹ چرانے والے امیدرام اور ہنومان رام بتاتے ہیں کہ پہلے روہی (وہ علاقہ، جہاں جانور اور پرندے گاؤں سے تھوڑی دور گھومتے نظر آتےہیں) پر کچھ خاص پرندے نظر آتے تھے لیکن اب نظر نہیں آتے۔ جب سے اس علاقے میں بجلی کی تاریں بچھائی گئی ہیں اور سولر لائٹس آئی ہیں، آپ پہلے کی طرح جانوروں کونہیں چرا سکتے۔

راجستھان کے دور دراز علاقوں میں بڑے پیمانے پر سولر پاور پلانٹس کے لیے زمین مختص کرنے سے چراگاہوں اور  جنگلات کی زمین (اورن) پر بحران شدید ہوتا جا رہا ہے۔ یہ مسئلہ باڑمیر، جیسلمیر، بیکانیر اور جودھپور کے دیہی علاقوں میں طویل عرصے سے گونج رہا ہے۔ اس معاملے نے راجستھان اسمبلی میں بھی طول پکڑا، جہاں 21 مارچ کو لینڈ ریونیو اور قانون کی توثیق بل 2025 پر بحث کے دوران باڑمیر کی شیو سیٹ سے آزاد ایم ایل اے رویندر سنگھ بھاٹی نے حکومت پر سخت حملہ کیا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ ریاستی حکومت مغربی راجستھان کی زمین کو ملٹی نیشنل کمپنیوں کے قدموں میں ڈال رہی ہے۔

چراگاہوں اور جنگلات پر منڈلا تے خطرے

باڑمیر اور جیسلمیر کی چراگاہ اور اورن پر سب سےزیادہ خطرہ  منڈلا رہا ہے۔ شیو، بھیرو پورہ، ہڑوا، دیوکا، منیہاری، متی کا گول، جھلوڑا بھاٹیان، موکلا سمیت کئی گاؤں میں شمسی توانائی کے منصوبوں کے خلاف وسیع پیمانے پر احتجاج ہوئے ہیں۔

اس تحریک کی قیادت کرنے والے ایک مقامی کارکن بھوپال سنگھ بھاٹی کہتے ہیں، ‘یہ سلسلہ 2010-11 سے ہی چل رہا ہے۔ اب تک 1.57 لاکھ بیگھہ سے زیادہ زمین مختلف کمپنیوں کو دی جا چکی ہے۔’

رویندر سنگھ بھاٹی کہتے ہیں، ‘ترقی کے نام پر ہمارے ساتھ غیر منصفانہ سلوک نہیں ہونا چاہیے۔ اگر پورا علاقہ سولر پلانٹس سے بھر جائے گاتو ہمارے جانور کہاں جائیں گے؟ ہماری چراگاہ اور اورن کا کیا ہو گا؟’

اکھل بھارتیہ جیو رکشا بشنوئی سبھا کےاراکین نے اس ہفتے اس مسئلہ پر وزیر داخلہ امت شاہ سے ملاقات کی۔ سبھا کے ترجمان شیوراج بشنوئی نے بتایا کہ ا راجستھان میں جہاں بھی سولر کمپنیاں پلانٹ لگا رہی ہیں وہاں نہوں نے درختوں کی کٹائی کو روکنے کا مطالبہ کیا۔

شمسی توانائی کے منصوبوں سے ماحولیاتی خطرات

ماہرین کے مطابق، سولر پلانٹس کی وجہ سے جانوروں کی چراگاہیں ختم ہو رہی ہیں اور حیاتیاتی تنوع کو شدید خطرات کا سامنا ہے ۔ راجستھان کے سینئر ویٹرنری ڈاکٹر ایم ایل پریہار نے خبردار کیا، ‘سولر پلانٹس جانوروں کی قدرتی نباتات کو تباہ کر رہے ہیں۔ کھیجڑی کے درخت، جو صحرائی ماحولیات کی بنیاد ہیں، بڑے پیمانے پر کاٹے جا رہے ہیں۔’

وائلڈ لائف کے ماہر مردل ویبھو کہتے ہیں، ‘راجستھان میں وائلڈ پگ، لنگور، کالا ہرن، صحرائی بلی، صحرائی لومڑی، چنکارا، گوڈاون سمیت جانوروں کی کئی نسلیں اپنی بقا کی آخری جنگ لڑ رہی ہیں۔’

سولر پلانٹ میں پیلیکن۔ (تصویر: رادھے شیام پیمانی)

راجستھان کے ان علاقوں میں جانور اور پرندوں کی کئی نسلیں پہلے ہی اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہیں۔ وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیا نے 2018 کی ایک تحقیق میں بتایا ہے کہ راجستھان کے بسٹرڈس کےلیے بجلی کی تاریں مہلک ثابت ہو رہی ہیں، اورجیسلمیر کے ڈیزرٹ نیشنل پارک اور اس کے آس پاس کے 4200 مربع کلومیٹر کے علاقے میں ہر سال 84000 پرندے ہلاک ہو رہے ہیں ۔ ماضی قریب میں بسٹرڈز کی اتنی زیادہ شرح اموات اس نسل کے لیے غیر مستحکم ہے اور معدومیت کی یقینی وجہ ہے۔’

مردل ویبھو نے وائلڈ لائف انسٹی ٹیوٹ آف انڈیاکی ‘ پاور-لائن مٹیگیشن ٹو کنزرو بسٹرڈز’ اور ‘سروے رپورٹ: اسٹیٹس سروے آف مائگریٹری برڈز اینڈ کی وائلڈ لائف ان بیکانیر راجستھان’ جیسی رپورٹس کا حوالہ دیتے ہیں اوربتاتے ہیں کہ ان رپورٹس کے مطالعہ کے وقت سے صورتحال مزید خراب ہوئی ہے۔

§ 

ایسا نہیں ہے کہ اس معاملے پر صرف آزاد یا کانگریس ایم ایل اے اور لیڈر ہی الزامات لگا رہے ہیں۔ بی جے پی کے ایم ایل اے بھی آواز اٹھا رہے ہیں۔

جیسلمیر کے بی جے پی ایم ایل اے چھوٹو سنگھ نے 31 جولائی 2024 کو اسمبلی میں یہ مسئلہ اٹھایا تھا ۔


‘نہری علاقے کی کمانڈ لینڈ اور ونڈ اینڈ سولر انرجی کے لیے لاکھوں ایکڑ اراضی مختص کرنے کی وجہ سے سیون گھاس ختم ہو گئی ہے۔ لاکھوں جانور کی زندگی خطرے میں ہیں۔ چراگاہیں کم ہو گئی  ہیں۔ جانور چرانے والے یا تو نقل مکانی پر مجبور ہیں یا یہ کام ہی چھوڑ رہے ہیں۔ اگر یہی صورتحال رہی تو وہ دن دور نہیں جب اس علاقے میں اپنی نوعیت کا منفرد مویشی معدوم ہو جائے گا۔ صحرائی اضلاع کے قدرتی چراگاہوں اور اورن کو محفوظ قرار دے کر فوری طور پر ریکارڈ میں نشان زد کیا جانا چاہیے اور مختلف توانائی کمپنیوں کو ہوا کی توانائی اور شمسی توانائی کے پلانٹس کے لیے قدرتی سیون گھاس کے علاقوں، چراگاہوں اور اورن سے الگ ہٹ کر صرف چٹانی، پہاڑی اور بنجر زمینیں دی جائیں۔’


جس راجستھان کا تصورکھیجڑی کے بغیر نہیں کیا جا سکتا،اس کے تئیں موجودہ  نظام کی سنگدلی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے سال بیکانیر کے ایک علاقے میں سولر پاور پلانٹ کے لیے 60 ہزار کھیجڑیاں کاٹ دی گئی تھیں۔

کھاجو والا کے ایم ایل اے وشوناتھ میگھوال کا کہنا ہے کہ توانائی پیدا کی جانی چاہیے، لیکن بغیر اجازت 50000 سے 60000 کھیجڑیوں کو کاٹنا تباہی ہے۔

وہ کہتے ہیں، ‘کہاں تو 1730 میں ایک کھیجڑی کے لیے 363 مرد و خواتین نے اپنی جانیں قربان کی تھیں اور کہاں اب سب کچھ بے دردی سے تباہ کیا جا رہا ہے۔’

کھیجڑی کو راجستھان کا لائف لائن کہا جاتا ہے۔ یہ صوبے کا ریاستی درخت ہے اور اسے ‘مرودھر کا کلپ ورکش’ کہا جاتا ہے۔ یہ خشک آب و ہوا میں بھی پروان چڑھتا ہے اور زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے۔ اس کے پتے اونٹوں، بکریوں، بھیڑوں وغیرہ کے چارے کے طور پر مفید ہیں، جبکہ پھل (سانگری) مشہور پنچکوٹا سبزی میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ برسوں سے چارے اور انسانوں کےکھانے کی خشک سبزی کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔

کھیجڑی ماحولیاتی تحفظ میں اہم کردار ادا کرتا ہے اور بشنوئی برادری کے لوگ اس کی پوجاکرتے ہیں۔ 1730 میں بشنوئی برادری کی امرتا دیوی اور دیگر افراد نے جودھ پور کے کھیجڑی کے درختوں کو بچانے کے لیے اپنی جانیں قربان کر دی تھیں۔ یہ درخت راجستھان کی ثقافت، زراعت اور ماحولیات کے لیے بہت اہم ہے۔ کھیجڑی کی لکڑی کا استعمال ویدک زمانے سے ہی یگیہ میں ہوتا رہا ہے، کیونکہ صرف دو یا تین درختوں کی انواع ہیں، جن کی لکڑی پر کیڑے مکوڑے نہیں لگتے۔ اسی لیے اسے یگیہ اور دیگر رسومات میں سمیدھا کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا۔

بیکانیر علاقے میں لاکھاسر سولر پلانٹ میں حال ہی میں کاٹے گئے کھیجڑی کے درخت ۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

کھیجڑی سے کسی راجستھانی کا کیا رشتہ ہو سکتا ہے، اس کو سمجھنے کے لیے یہ قصہ مشہور ہے۔


بیکانیر کے مہاراجہ گنگا سنگھ کے پاس ‘اونٹوں کی فوج’ تھی، جسے گنگا رسالہ کہا جاتا تھا۔ اونٹ کی پسندیدہ خوراک کھیجڑی کی کچی -پکی ٹہنیاں ہیں۔ مہاراجہ گنگا سنگھ نے پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں حصہ لیا تھااور گنگا رسالہ نے سلطنت عثمانیہ کو شکست دینے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس دوران مہاراجہ نے یورپ کے کسی حصے میں کھیجڑی کا درخت دیکھا تو وہ اسے دیکھ کر بہت جذباتی ہو گئے اور اسے اس طرح گلے لگا لیا گویا یہ ان کی ماں ہو۔


وشو ہندو پریشد کے پرتھوی سنگھ نے حال ہی میں ایک بیان دیا ہے کہ سولر انرجی کمپنیوں نے باڑمیر کی شیو تحصیل میں جوراناڈا روڈ پر ہزاروں کھیجڑی کے درخت کاٹ دیے ہیں۔

ندیوں کا وجود خطرے میں

محکمہ جنگلات کے ایک پرانے افسر کہتے ہیں، ‘ایسا لگتا ہے جیسے صحرا کو ایک خاص قسم کا جنگلاتی علاقہ بنانے کی کوششیں ناکام ہو گئی ہیں۔ اب لالچی نظریں صحرا کے ہر حصے پر جمی ہوئی ہیں۔ اب لوگ پریشان ہیں کہ اس لونی ندی کا کیا ہو گا، جس کے لیے یہ کہاوت مشہور تھی کہ لونی علاقے کی ضرورت کا آدھا اناج ک لے کر آتی ہے۔ اب مانسون میں بھر نے والی چھوٹی ندیاں جیسے لک، رانیگاؤں نالہ، کواس نالہ، کھورایل نالہ خطرے میں ہیں۔ باڑمیر ضلع کی جغرافیائی ساخت ریگستانی ہونے کے باوجود، یہ سرزمین کئی اہم ندیوں، نالوں اور موسمی پانی کی ندیوں سے مالا مال  رہی ہے۔’

غور طلب ہے کہ لونی اس علاقے کی سب سے بڑی اور تاریخی ندی ہے، جو اجمیر سے نکل کر کئی اضلاع سے ہوتی  ہوئی باڑمیر میں داخل ہوتی ہے اور اسے یہاں کی زراعت، آبپاشی اور روایتی طرز زندگی کی لائف لائن سمجھا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ چرواہے اور گاؤں والےموسمی ندیوں جیسے سکڑی اور میٹھڑی کے لیے تشویش میں مبتلا ہیں۔

دلت کارکن بھنور میگھونشی کا کہنا ہے کہ شمسی توانائی کے نام پر ان آبی ندیوں کے کیچمنٹ ایریاز، تلہٹی اور آس پاس کی زمینیں بڑی مقدار میں نجی کمپنیوں کو الاٹ کی جارہی ہیں۔ ایک بڑا بحران دروازے پر دستک دے سکتا ہے کیونکہ زمین کو برابر کرنے، باؤنڈری والز کی تعمیر اور سولر پروجیکٹ کے لیے بھاری مشینری کے ساتھ تعمیراتی کام کی وجہ سے دریاؤں کے قدرتی بہاؤ میں خلل پڑتا ہے۔

اب خطرہ اس قدر بڑھ گیا ہے کہ آنے والے برسوں میں باڑمیر کی روایتی آبی ثقافت، چراگاہوں پر مبنی مویشی پروری اور دیہی طرز زندگی مکمل طور پر غیر متوازن ہو سکتی ہے۔ ان حالات میں سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ شمسی توانائی کی ترقی کی دوڑ میں ماحولیاتی توازن اور آبی وسائل کے تحفظ کو ترجیح دی جائے۔

جانوروں اور پرندوں کو بچانا ہوگا

جب دی وائر نے چرواہوں سے بات کی تو انہوں نے بتایا کہ سندیشرا، مورلی، ارانی، فراش جیسے درخت شدید خطرے میں ہیں۔ سولر کمپنیوں کی تار بندی میں آنے سے دھامن، بھورٹ، بھانکھڑی، بیلڑی، ٹانٹیا، بکاریا، سیون، ماکڑا، موٹھیا، لانپ، کُڑی، گرامنا، دھماسہ، کامی جیسی گھاس بھی دستیاب نہیں ہوں گی، جس پر یہاں کے مویشی مکمل طور پر منحصر ہیں۔

پرندوں سے محبت کرنے والے بھی فکرمند ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے نیل کنٹھ، ہدہد، بلبل، رابن، گوڈاون، سینڈ گراؤز، چکوا، چکور، بطخ، گڈوال، پنٹیل، وگیون، پوچارڈ، ٹیل، سوان، امپیریل سینڈ گراؤز، وور، بٹیر، بارش بٹیر،فلوریکن، سارس کرکرے،اسٹارلنگ جیسےپرندوں کی نسلیں خطرے میں ہیں۔

باڑمیر-جیسلمیر کے باشندوں نے صدیوں تک  قحط، خشک سالی اور شدید گرمی کو جذب کیا ہے۔ لیکن اب وہ ٹوٹ رہے ہیں، گویاہوا کے چلنے پر علاقے کے ریت کے ٹیلے بکھرنے لگتے ہیں، بغیر آواز اور امید کے۔

(تریبھون سینئر صحافی ہیں۔)

Next Article

طیارہ حادثہ یا کمپنیوں کی لاپرواہی؟ اے آئی 171کا سانحہ اور بوئنگ ڈریم لائنر پر اٹھنے والے سوال

بارہ جون 2025 کو احمد آباد سے لندن جا رہی ایئر انڈیا کی پرواز اے آئی 171 گر کر تباہ ہو گئی، جس میں 241 افراد ہلاک ہو گئے۔ حادثے کا مرکز بنا ڈریم لائنر طیارہ  برسوں سے کوالٹی، اسمبلی کی خامیوں اور سابق ملازمین کی وارننگ کے حوالے سے تنازعات میں رہا ہے۔ یہ سانحہ اب ان تمام انتباہات کا بھیانک نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔

ایئر انڈیا کے تباہ شدہ طیارے کا ملبہ۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: 12 جون 2025 کی دوپہر۔ احمد آباد سے لندن گیٹ وِک کے لیے روانہ ہوئی ایئر انڈیا کی پروازاے آئی 171 کچھ ہی سیکنڈ بعد شہر کے باہری علاقے میں ڈاکٹروں کے لیے ایک گیسٹ ہاؤس پر گر گئی۔ حادثے میں 241 مسافروں کی موت ہو گئی۔ 242 میں سے صرف ہندوستانی نژاد برطانوی شہری کو زندہ نکالا گیا۔ یہ حادثہ نہ صرف ہندوستان بلکہ عالمی ہوا بازی کی دنیا کے لیے بھی ایک صدمہ ثابت ہوا۔

اس وقت حادثے کی وجوہات کے بارے میں تحقیقات جاری ہیں، لیکن جس طیارے سے یہ اڑان بھری گئی تھی، وہ بوئنگ 787 ڈریم لائنر اب پوری دنیا میں شکوک و شبہات کی زد میں ہے۔

حادثے سے پہلے دی گئی وارننگ

اے آئی 171میں استعمال ہوا طیارہ 12 سال پرانا بوئنگ 787-8 ڈریم لائنر تھا، جسے جنوری 2014 میں امریکہ کے ایوریٹ پلانٹ سے ایئر انڈیا کو سونپا گیا تھا۔ اس کے درمیانی اور پچھلے حصے کی اسمبلی چارلسٹن، ساؤتھ کیرولینا کے اس پلانٹ میں ہوئی تھی، جس کی کوالٹی پر برسوں سے سوال اٹھ رہے ہیں۔

دی امریکن پراسپیکٹ کی ایک رپورٹ کے مطابق ، جان بارنیٹ، بوئنگ کے ایک سابق کوالٹی منیجر، جنہوں نے چارلسٹن میں ڈریم لائنر کی تیاری کے دوران بے قاعدگیوں کو بے نقاب کیا تھا، اکثر کہتے تھے- ‘بس تھوڑا انتظار کیجیے۔’ ان کا خیال تھا کہ ان طیاروں کی تیاری میں خامیاں ایک دن مہلک حادثے کا باعث بنیں گی۔ مارچ 2024 میں ان کی موت پراسرار حالات میں ہوئی تھی۔ وہ اپنی موت سے دو دن پہلے اس طیارے کے حوالے سے ایک گواہی کی کارروائی  میں شامل ہو رہے تھے۔

‘ہم اپنے اہل خانہ کو ان طیاروں میں کبھی نہیں بٹھائیں گے’

چارلسٹن پلانٹ کے ایک نامعلوم کارکن کی جانب سے بنائی گئی ایک خفیہ ویڈیو میں ریکارڈ کیا گیا ہے کہ فیکٹری کے کئی کارکنان ان طیاروں کے بارے میں شکوک و شبہات کا شکار تھے۔ ایک کارکن نے کہا، ‘میں اپنے خاندان کو کبھی اس میں نہیں بٹھاؤں گا۔’

سنتھیا کچنز، جو 2009 سے 2016 تک بوئنگ میں کوالٹی منیجر تھیں، نے بتایا کہ انہوں نے 11 طیاروں کی فہرست بنائی تھی، جس کے بارے میں وہ سب سے زیادہ فکر مند تھیں۔ ان 11 میں سے 6 ایئر انڈیا کو دیے گئے تھے۔ ان میں سے ایک وہی تھا جو 12 جون کو گر کر تباہ ہوا ۔

بناوٹ میں خامی یا رکھ رکھاؤ میں لاپرواہی؟

ڈریم لائنر کی بناوٹ میں ہلکے وزن کے مرکب فائبرکا استعمال کیا جاتا ہے۔ اس کی سطح چکنی ہوتی ہے، جس سے اندرونی ساختی دراڑیں چھپ سکتی ہیں۔ سابق ملازمین نے الزام لگایا ہے کہ بوئنگ نے بار بار’فارن آبجیکٹ ڈیبرس’ (ایف او ڈی) — جیسے دھات کے ٹکڑے، گندگی وغیرہ — ہوائی جہاز کے حصوں میں رہ جاتےہیں، جس کی وجہ سے انجن شارٹ سرکٹ یا فیل ہو سکتے ہیں۔

اے آئی 171کے پائلٹ نے ٹیک آف کے چند سیکنڈ بعد ‘انجن فیل ہونے’ کی ہنگامی رپورٹ دی تھی۔ فوٹیج میں طیارہ ٹیک آف کی پوزیشن میں آہستہ آہستہ نیچے گرتا ہوا دیکھا گیا۔ اس سے انجن یا برقی نظام میں سنگین خرابی کا اندیشہ جتایا جا رہا ہے۔

نارویجن ایئر لائن اور 787 کی تاریخ

سال 2020میں، دیوالیہ ہوچکی نارویجن ایئر لائنز نے بوئنگ پر مقدمہ دائر کرتے ہوئے کہا تھاکہ ڈریم لائنر طیاروں کے بار بار انجن بدلنے پڑےاور پروازیں رد کرنا پڑیں۔ 2023 میں ان کا ایک  10 سال پرانا 787 طیارہ اسکریپ کر دیا گیا- جو کہ ایک انتہائی غیر معمولی اور بے مثال واقعہ تھا۔

نئی شکایات

سال2025کے اوائل میں بوئنگ کے انجینئر اور وہسل بلوور سیم صالح پور نے امریکی فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹریشن (ایف اے اے) سے شکایت کی کہ 787 اور 777 طیاروں میں سنگین تکنیکی خامیاں ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا کہ کمپنی نے ان طیاروں کے مختلف حصوں کو صحیح طریقے سے اسمبل نہیں کیا تھا۔

ایف اے اے نے پہلے 787 میں اس قسم کے ‘گیپ’ کے مسئلے کی تحقیقات کی تھی اور 2021-2023 کے درمیان دو سال کے لیے اس کی ڈیلیوری روک دی تھی۔ لیکن صالح پور کے مطابق، مسئلہ اب بھی اپنی جگہ قائم تھا۔

صالح پور نے یہ بھی کہا کہ جب انہوں نے 787 میں مینوفیکچرنگ کے نقائص کی شکایت کی تو انہیں نظر انداز کیا گیا اور پھر انہیں 777 پروگرام میں ٹرانسفر کر دیا گیا۔وہاں بھی انہوں نے خراب اسمبلی اور انجینئروں  پر دباؤ جیسے مسائل کو اجاگر کیا۔

کیا اس بار تبدیلی آئے گی؟

بوئنگ نے ان تمام الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے طیاروں کی کوالٹی ور طویل مدتی سکیورٹی کو یقینی بنایا جاتا ہے۔ لیکن ایک کے بعد ایک حادثے، ملازمین کی شکایات، قانونی چارہ جوئی اور صحافیوں کی رپورٹس ایک وسیع تر تشویش کی علامت ہیں—خاص طور پر ان ممالک کے لیے جو امریکی طیارہ ساز کمپنی سے ‘معیاری مصنوعات’ کی توقع رکھتے ہیں۔

ایئر انڈیا کے حادثے نے اس بحث کو ایک ہندوستانی تناظر دیا ہے۔ ایک ‘پریسٹیج’ ہوائی جہاز – جو ہندوستان کی بین الاقوامی فضائی سروس کا چہرہ تھا – نے سینکڑوں جانیں لے لی ہیں۔

اے آئی 171حادثہ محض تکنیکی خرابی نہیں بلکہ ادارہ جاتی لاپرواہی کا عکاس بھی ہو سکتاہے۔ یہ ایک تکلیف دہ لمحے کی نمائندگی کرتا ہے جب انسانی زندگی کی بجائے منافع اور کارپوریٹ شہرت ترجیحات بن جاتی ہے۔

جیسے جیسے تحقیقات آگے بڑھے گی، ہندوستان اور دنیا امید کرے گی کہ اس سانحے سے سبق حاصل کیا جائے گا—نہ صرف ایئر انڈیا یا بوئنگ کے لیے، بلکہ پورے عالمی ہوا بازی کے نظام کے لیے۔

Next Article

ایئر انڈیا حادثہ: پی ایم مودی نے جائے حادثہ کا دورہ کیا، کئی ممالک کے سربراہان نے تعزیت کا اظہار کیا

جمعرات کو ایئر انڈیا کا طیارہ گر کر تباہ ہونے کے بعد پی ایم مودی نے جمعہ کو جائے حادثہ کا دورہ کیا۔ دریں اثناء امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، پاکستان، بنگلہ دیش اور مالدیپ سمیت کئی ممالک کے سربراہان نے اس حادثے پر افسوس کا اظہار کیا ہے۔

پی ایم مودی جائے حادثہ کا دورہ کرتے ہوئے۔تصویر بہ شکریہ: ایکس

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی نے جمعہ (13 جون) کو گجرات کے احمد آباد میں جائے حادثہ کا دورہ کیا، جہاں ایک دن پہلے ایئر انڈیا کا مسافر طیارہ گر کر تباہ ہو گیا تھا۔ اس دوران وزیراعظم نے سول اسپتال کا بھی دورہ کیا، جہاں اس حادثے میں زخمی ہونے والوں  کا علاج کیا جا رہا ہے۔

معلوم ہو کہ جمعرات (12 جون) کو ایئر انڈیا کا  طیارہ لندن کے لیے ٹیک آف کرنے کے فوراً بعد ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا تھا، جس کے بعد رات دیر گئے ایئر انڈیا نے طیارے میں سوار 242 میں سے 241 افراد کی موت کی تصدیق کی ۔ طیارے میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔

اس واقعے میں ایک ہندوستانی نژاد برطانوی مسافر بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔ وہیں، گجرات کے سابق وزیر اعلیٰ وجئے  روپانی  کی بھی موت ہوگئی۔

جمعرات کو واقعہ کے بعد احمد آباد پہنچے  وزیر داخلہ امت شاہ نے کہا، ‘تقریباً تمام مسافروں کی لاشوں کو نکالنے کا کام مکمل ہو گیا ہے۔ 1.25 لاکھ لیٹر ایندھن کی  وجہ سے درجہ حرارت اتنا زیادہ تھا کہ کسی کو بچانے کا کوئی امکان نہیں تھا۔’

اس حادثے پر ملک اور بیرون ملک سے تعزیت کا اظہار کیا جا رہا ہے ۔ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ اور برطانوی وزیراعظم کیئر اسٹارمر نے کہا ہے کہ وہ حادثے کی تحقیقات میں ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔

روس کے صدر ولادیمیر پوتن، کینیڈا کے وزیر اعظم مارک کارنی، پاکستان کے وزیر اعظم شہباز شریف ، بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر محمد یونس، مالدیپ کے صدر محمد معیزو سمیت کئی سربراہان مملکت نے تعزیت کا اظہار کیا ہے۔

وہائٹ ہاؤس میں ایک تقریب کے دوران طیارہ حادثے پر بات کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا،’ حادثہ خوفناک تھا، میں نے ان سے کہا ہے کہ ہم جو کچھ کر سکتے ہیں کریں گے، ہندوستان ایک بڑا اور مضبوط ملک ہے، مجھے یقین ہے کہ وہ اسے سنبھال لیں گے۔’

ایئر انڈیا نے تصدیق کی ہے کہ 12 جون 2025 کو احمد آباد سے لندن گیٹوک جانے والی پرواز اے آئی171حادثے کا شکار ہوگئی۔ 12 سال پرانا بوئنگ 787-8 طیارہ احمد آباد سے دوپہر 1:38 پر روانہ ہوا تھا۔ اس میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔ طیارہ ٹیک آف کے کچھ دیر بعد گر کر تباہ ہو گیا۔ ہمیں یہ بتاتے ہوئے انتہائی دکھ ہورہا ہے کہ کل 242 میں سے 241 کی موت ہو چکی ہے۔ واحد زندہ بچ جانے والا ہسپتال میں زیر علاج ہے۔ طیارے میں 169 ہندوستانی، 53 برطانوی، 7 پرتگالی اور 1 کینیڈین شہری سوار تھے۔ زندہ بچ جانے والے ہندوستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔

‘ایئر انڈیا مرنے والوں کے اہل خانہ کے تئیں اپنی گہری تعزیت کا اظہار کرتا ہے۔ ہماری توجہ اس وقت متاثرہ افراد، ان کے اہل خانہ اور پیاروں کی مدد پر ہے۔ ضرورت مندوں کو ہر ممکن مدد فراہم کرنے کے لیے ایئر انڈیا کی ایک خصوصی ٹیم احمد آباد میں موجود ہے۔ ہم واقعے کی تحقیقات کرنے والی ایجنسیوں سے مکمل تعاون کر رہے ہیں۔ ایئر انڈیا نے خصوصی ہیلپ لائن نمبر 1800 5691 444 جاری کیا ہے۔ ہندوستان سے باہر سے کال کرنے والوں کے لیے یہ نمبر ہے: +91 8062779200۔’ ایئر انڈیا نے ایکس پر لکھا ہے ۔

ایئر انڈیا نے ایک اور پوسٹ میں کچھ اور معلومات دی ہیں۔ لکھا ہے ، ‘ایئر انڈیا نے احمد آباد، ممبئی، دہلی اور گیٹوک ہوائی اڈوں پر ‘فرینڈز اینڈ ریلیٹیو اسسٹنس سینٹرز’ قائم کیے ہیں، تاکہ فلائٹ اے آئی171 کے مسافروں کے اہل خانہ اور پیاروں کو مدد کی جاسکے۔ ان مراکز کے ذریعے رشتہ داروں کے احمد آباد جانے کے انتظامات بھی کیے جا رہے ہیں۔’

حادثے کے بارے میں ایئر انڈیا کے چیئرمین این چندر شیکھرن نے کہا، ‘انتہائی دکھ کے ساتھ میں تصدیق کرتا ہوں کہ احمد آباد سے لندن گیٹوک جانے والی ایئر انڈیا کی پرواز نمبر 171 آج حادثے کا شکار ہو گئی ہے۔ ہماری تعزیت اس ہولناک حادثے سے متاثر ہونے والوں کے خاندانوں اور پیاروں کے ساتھ ہے۔ اس وقت ہماری ترجیح تمام متاثرہ افراد اور ان کے خاندانوں کو امداد فراہم کرنا ہے۔ ہم موقع پر موجود ایمرجنسی ریسپانس ٹیموں کی مدد اور حادثے کے متاثرین کو ضروری مدد فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔’

معلوم ہو کہ ایئر انڈیا کا بی 787 ڈریم لائنر طیارہ جو احمد آباد سے لندن کے گیٹوک ہوائی اڈے کے لیے اڑان بھر رہا تھا وہ ایک رہائشی علاقے میں گر کر تباہ ہو گیا۔ اس طیارے کے مین پائلٹ سمت سبھروال تھے اور کو پائلٹ کلائیو کندر تھے۔ طیارے میں 230 مسافر اور عملے کے 12 ارکان سوار تھے۔

ایئر لائن کے مطابق، گر کر تباہ ہونے والے بوئنگ 787-8 طیارے میں 169 ہندوستانی، 53 برطانوی، ایک کینیڈین اور سات ڈچ شہری سوار تھے۔

Next Article

راہل گاندھی نے وزیر اعظم کو خط لکھ کر محروم طبقات کے طلبہ کے ہاسٹل اور اسکالرشپ کے معاملے پر تشویش کا اظہار کیا

راہل گاندھی نے 10جون کو لکھے اپنے خط میں پی ایم مودی سے کہاہے کہ دلت، شیڈول ٹرائب (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے   ہاسٹلوں کی حالت ‘قابل رحم’ ہے۔ اس کے علاوہ ان طلبہ  کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ  کی فراہمی میں تاخیر ہو رہی ہے۔

لوک سبھا میں اپوزیشن لیڈر راہل گاندھی۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب/انڈین نیشنل کانگریس سے اسکرین شاٹ)

نئی دہلی: لوک سبھا میں قائد حزب اختلاف راہل گاندھی نے وزیر اعظم نریندر مودی کو ایک خط لکھا ہے، جس میں دلت، درج فہرست قبائل (ایس ٹی)، انتہائی پسماندہ طبقہ (ای بی سی)، دیگر پسماندہ طبقہ (او بی سی) اور اقلیتی طلبہ کے ہاسٹلوں کی’قابل رحم’حالت کی جانب  توجہ مبذول کروائی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، راہل گاندھی نے اپنے خط میں محروم طبقات کے طلبہ کو پوسٹ میٹرک اسکالرشپ فراہم کرنے میں تاخیر کے معاملے کو بھی اٹھایا ہے اور وزیر اعظم سے ان اہم مسائل پر توجہ دینے کی گزارش  کی ہے۔

دی ہندو کے مطابق ، انہوں نے کہا کہ ان مسائل کی وجہ سے ان طبقات کے 90 فیصد طلبہ کے تعلیمی مواقع متاثر ہو رہے ہیں۔

معلوم ہو کہ راہل گاندھی نے یہ خط 10 جون کو لکھا ہے۔ اس میں انہوں نے کہا ہے، ‘پہلا مسئلہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے رہائشی ہاسٹل کی قابل رحم حالت ہے۔ بہار کے دربھنگہ میں امبیڈکر ہاسٹل کے حالیہ دورے کے دوران طلبہ نے شکایت کی کہ وہاں ایک کمرہ ہے، جس میں 6-7 طلبہ کو رہنے پر مجبور  ہونا پڑتا ہے۔ اس کے علاوہ بیت الخلاء گندے ہیں، پینے کا پانی صاف نہیں ہے، میس کی سہولت نہیں ہے اور لائبریری یا انٹرنیٹ تک رسائی نہیں ہے۔’

راہل گاندھی نے مزید کہا، ‘دوسرا مسئلہ محروم طبقات کے طلبہ کے لیے پوسٹ میٹرک اسکالرشپ میں تاخیر اور ناکامی ہے۔’

بہار کی مثال دیتے ہوئے اپوزیشن لیڈر نے دعویٰ کیا کہ وہاں کا اسکالرشپ پورٹل تین سال سے بند ہے اور 2021-22 میں کسی بھی طالبعلم کو اسکالرشپ نہیں ملی ہے۔

گاندھی نے خط میں لکھا، ‘اس کے بعد بھی اسکالرشپ حاصل کرنے والے دلت طلبہ کی تعداد تقریباً آدھی رہ گئی ہے، جو مالی سال 23 میں 1.36 لاکھ سے مالی سال 24 میں 0.69 لاکھ تک پہنچ گئی۔ طلبہ کی شکایت ہے کہ اسکالرشپ کی رقم ذلت آمیز حد تک کم ہے۔’

راہل گاندھی نے کہا ہے کہ یہ ‘مسئلہ’ پورے ہندوستان میں پھیلا ہوا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے پی ایم مودی سے مطالبہ کیا کہ وہ دلت، ایس ٹی، ای بی سی، او بی سی اور اقلیتی برادریوں کے طلبہ کے لیے ہر ہاسٹل کا آڈٹ کرائیں تاکہ ان طلبہ کے لیے اچھا انفراسٹرکچر، صفائی ستھرائی اور خوراک اور تعلیمی سہولیات کو یقینی بنایا جاسکے اور کوتاہیوں کو دور کرنے کے لیے مناسب فنڈز مختص کیے جاسکیں۔

اس کے علاوہ راہل گاندھی نے اسکالرشپ کی بروقت تقسیم، اسکالرشپ کی رقم میں اضافہ اور پوسٹ میٹرک اسکالرشپس کو بہتر طریقے سے نافذ کرنے پر بھی زور دیا ہے۔

راہل گاندھی کا کہنا ہے کہ انہیں یقین ہے کہ پی ایم مودی اس بات سے اتفاق کریں گے کہ ہندوستان اس وقت تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک کہ محروم طبقات کے نوجوان آگے نہیں بڑھتے۔ انہوں نے اس سلسلے میں وزیراعظم سے مثبتردعمل کی توقع ظاہر کی ہے۔