اتر پردیش کے سیتاپور سے بی جے پی ایم ایل اے راکیش راٹھور نے یہ بھی الزام لگایا کہ یوپی سرکار کے کام کاج میں ایم ایل اے کاکوئی رول نہیں ہے اور ان کے مشوروں پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔
بی جے پی ایم ایل اے راکیش راٹھور۔ (فوٹو: ٹوئٹر)
نئی دہلی: اتر پردیش سے بھارتیہ جنتا پارٹی(بی جے پی)کے ایم ایل اے راکیش راٹھور نے صوبے میں اپنی ہی پارٹی کی سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایاہے اور یہ بھی کہا ہے کہ وہ بہت زیادہ کہنے سے ڈرتے ہیں کیونکہ اس سے ان کے خلاف سیڈیشن کا الزام لگ سکتا ہے۔
این ڈی ٹی وی کی
رپورٹ کے مطابق، راٹھور نے یہ بھی الزام لگایا کہ یوپی سرکار کے کام کاج میں ایم ایل اے کا کوئی رو ل نہیں ہے اور ان کے مشوروں پر دھیان نہیں دیا جاتا ہے۔ راٹھور سیتاپور سے ایم ایل اے ہیں۔
انہوں نے کہا، ‘میں نے کئی قدم اٹھائے ہیں، لیکن ایک ایم ایل اے کی حیثیت کیا ہے؟ اگر میں زیادہ بولتا ہوں تو مجھ پر سیڈیشن کا الزام لگ سکتا ہے۔’راٹھور سیتاپور میں ایک سرکاری ٹراما سینٹر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جس کی تعمیر تو ہوئی لیکن ابھی تک شروع نہیں ہوا ہے۔
یہ پوچھے جانے پر کہ کیا وہ کہہ رہے ہیں کہ ایم ایل اے کا سرکار میں کوئی حق نہیں ہے، راٹھور نے کہا، ‘کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایم ایل اے اپنے من کی بات کہہ سکتے ہیں؟ آپ جانتے ہیں کہ میں نے پہلے بھی سوال اٹھائے ہیں۔’
یہ پہلی بار نہیں ہے جب راٹھور نے اتر پردیش میں یوگی آدتیہ ناتھ حکومت یا مرکزمیں نریندر مودی کوکھلے طور پرتنقید کا نشانہ بنایاہے۔پچھلے سال اپریل میں مبینہ طور پر ان کا ایک
آڈیو کلپ وائرل ہونے کے بعد انہیں بی جے پی کی جانب سے نوٹس دیا گیا تھا۔
اس آڈیو میں مبینہ طور پر یہ کہتے ہوئے ان کی آواز سنی جا سکتی تھی،‘کیا آپ تالی بجاکر کورونا وائرس بھگا دو گے؟ آپ بیوقوفی کے ریکارڈ توڑ رہے ہو۔ کیا کورونا شنکھ بجانے سے چلا جائےگا۔ آپ کے جیسے لوگ احمق ہیں۔ وہ آپ کا روزگار لے لیں گے۔’
یہ مودی کے اس اعلان کے ردعمل میں تھا جس میں کہا گیا تھا کہ فرنٹ لائن کے جاں بازوں کا ایک ساتھ شکریہ ادا کرنے کے لیے سب کو اپنے برتن بجانے چاہیے۔
بتا دیں کہ کورونا وائرس کی دوسری لہر کا قہر ہندوستان میں بہت تیز ہے۔ اتر پردیش میں بالخصوص دیہی علاقے بری طرح متاثر بتائے جا رہے ہیں۔ لاشوں کو بھی گنگا میں بہایا جا رہا ہے یا ندی کے کنارے دفن کیا جا رہا ہے، کیونکہ بہت سے لوگوں کے پاس آخری رسومات کے لیے پیسے نہیں ہے یا پھر انہیں شمشان گھاٹوں پر لمبا انتظار کرنا پڑ رہا ہے۔
حالاں کہ سپریم کورٹ نے بارباردہرایا ہے کہ سیڈیشن کے الزام صرف تبھی لگائے جانے چاہیے جب تحریری یا بولے گئے لفظوں میں ہتک عزت یا عدم اطمینان یاپرتشدد طریقوں سے سرکار کو توڑنے کاخیال ہو لیکن ملک کے کئی حصوں میں پولیس اور سرکار اس کا استعمال سرکار کی تنقید کرنے والوں کو پریشان کرنے کے لیے کرتی ہے۔