گزشتہ 13 اکتوبر کو بہرائچ کے مہاراج گنج علاقے میں ہوئے فرقہ وارانہ تشدد میں گوپال مشرا نامی ایک ہندو نوجوان کی گولی لگنے سے موت ہوگئی اور کئی دیگرزخمی ہو گئے۔ سوموار کو مشتعل ہجوم نے مشرا کی موت کے خلاف احتجاج کیا اور دکانوں، گاڑیوں، ایک نجی اسپتال اور دیگر املاک کو آگ کے حوالے کر دیا۔ اسی دوران، بی جے پی ایم ایل اے نے سوشل میڈیا پر مسلمان صحافیوں کی فہرست شیئر کرتے ہوئے ایک اور فرقہ وارانہ آگ بھڑکا دی۔
نئی دہلی: اتر پردیش پولیس اور انتظامیہ جہاں درگا مورتی وسرجن جلوس کے دوران بہرائچ میں بھڑکے فرقہ وارانہ تشدد کو روکنے کی کوشش میں تھی، وہیں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے ایک ایم ایل اے نے سوشل میڈیا پر ایک اور فرقہ وارانہ آگ بھڑکا دی۔ انہوں نے مسلمان صحافیوں کی ایک فہرست شیئر کی، اور ان کی کوریج کی غیرجانبداری پر سوال اٹھایا۔
گزشتہ 13 اکتوبر کی شام کو بہرائچ کی مہسی تحصیل کے مہاراج گنج علاقے میں بھڑکے فرقہ وارانہ تشدد میں گوپال مشرا نامی ایک ہندو نوجوان کی گولی لگنے سے موت ہوگئی اور کئی دیگر زخمی ہو گئے ۔
ان واقعات کے درمیان دیوریا سے بی جے پی ایم ایل اے شلبھ منی ترپاٹھی، جو وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے سابق میڈیا صلاح کار ہیں، نے ایکس پر پوسٹ کیا ، ‘بہرائچ سے خبریں بھیجنے والے صحافیوں کے نام پڑھیے، آپ سمجھ جائیں گے کہ خبریں کتنی غیرجانبداراور سچی ہیں۔یو ٹیوبرس کا ایک گروپ بھی لگا ہوا ہے۔ پورا سسٹم دنگائیوں کو بچانے اور جھوٹ پھیلانے میں مصروف ہے۔’
ترپاٹھی، جو بی جے پی میں شامل ہونے سے پہلے خود ایک ٹیلی ویژن صحافی تھے، نے اپنی پوسٹ کے ساتھ 13 صحافیوں کی فہرست منسلک کی۔ تمام صحافی مسلمان ہیں۔ انہوں نےان میڈیا گروپوں کے نام بھی بتائے ہیں جن سے یہ صحافی وابستہ ہیں۔ این ڈی ٹی وی، پی ٹی آئی، انڈیا ٹی وی، اے این آئی، نیوز 24، بھاسکر ٹی وی اور بھارت سماچار سے وابستہ صحافی اس فہرست میں شامل تھے۔ جبکہ ہندو برادری سے تعلق رکھنے والے سمیت کئی دیگر صحافی ضلع کے واقعات کی رپورٹنگ کر رہے ہیں، ترپاٹھی نے اپنی پوسٹ میں صرف مسلمان صحافیوں کا نام لیا ہے۔
واقعے کی تفصیلات اور اس کی صحیح ترتیب ابھی تک واضح نہیں ہے، لیکن اب تک موصولہ جانکاری کے مطابق ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اس وقت شروع ہوا جب کچھ مقامی مسلمانوں نے اپنے گھروں کے باہر جلوس میں تیز آواز میں موسیقی بجانے پر اعتراض کیا۔
پولیس کے مطابق، تشدد اس وقت شروع ہوا جب مورتیوں کو لے جانے والا جلوس مہاراج گنج میں مسلم آبادی والے علاقے میں ایک مسجد کے قریب سے گزرا۔ بہرائچ کی پولیس سپرنٹنڈنٹ ورندا شکلا نے بتایا کہ دونوں برادریوں کے گروپ آمنے سامنے آگئے جس کے بعد حالات کشیدہ ہوگئے۔
شکلا نے بتایا، ‘کچھ لوگوں نے فساد بھڑکانا شروع کر دیا۔ ہندو فریق کے ایک شخص پر حملہ کر کے اس کاقتل کر دیا گیا۔’
افسر نے بتایا کہ اس کے بعد صورتحال مزید خراب ہوگئی۔
مقامی ہندوؤں کی طرف سے ٹیلی ویژن چینلوں کو دیے گئے انٹرویو میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ تیز آواز میں موسیقی بجانے پر دونوں فریقوں کے درمیان شروعاتی بحث کے بعد، کچھ مقامی مسلمانوں نے جلوس پر پتھراؤ کیا اور اپنے گھروں کو واپس بھاگ گئے۔
ابھیشیک، جس نے خود کو عینی شاہد بتایا، نے اے بی پی نیوز کو بتایا، ‘انہوں نے اپنے دروازے کے باہر موسیقی بجانے پر اعتراض کیا اور ہم سے اسے بند کرنے کو کہا۔ ہم نے کہا ہم بند نہیں کریں گے۔ انہوں نے ہم پر پتھر برسائے اور واپس اپنے گھروں کو بھاگ گئے۔ جس کے بعد ہم موقع پر ہی دھرنے پر بیٹھ گئے اور انتظامیہ سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس کے بجائے پولیس نے ہم پر لاٹھی چارج کیا۔’
ایس پی شکلا نے بتایا کہ مشرا پر گولیاں چلائی گئیں، جس کی وجہ سے ان کی موت ہوگئی۔ سماج وادی پارٹی (ایس پی) نے کہا کہ مشرا کے قتل کے بعد کشیدہ صورتحال کی وجہ سے مختلف مقامات پر مورتیوں کا وسرجن روک دیا گیا۔ انہوں نے کہا، ‘اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے کچھ شرپسند عناصر نے فساد پھیلانے کی کوشش کی۔’پولیس کے مورچہ سنبھالنے کے بعد جلوس دوبارہ شروع ہو گئے۔
سوشل میڈیا پر بڑے پیمانے پر شیئر کیے جانے والے ایک ویڈیو میں گوپال کو ایک عمارت کی چھت پر ہرے جھنڈے کو توڑتے ہوئے اور پھر جارحانہ انداز میں بھگوا جھنڈا لہراتے ہوئے دکھایا گیا ہے، جبکہ نیچے سڑک سے ایک بھیڑ اس کو اکسا رہی ہے اور ‘جئے بجرنگ بلی ‘ اور ‘ جئے شری رام’ جیسے نعرے لگارہی ہے ۔ کئی صحافیوں کے ذریعے سوشل میڈیا پر شیئر کیے گئے ایک اور ویڈیو میں ایک شخص مشرا کی لاش کو گھر کی چھت سے نیچے گھسیٹتے ہوئے نظر آرہا ہے جبکہ اس پر پتھر پھینکے جارہے ہیں۔ دی وائر نے آزادانہ طور پر ویڈیو کی صداقت کی تصدیق نہیں کی ہے۔
شکلا نے بتایاکہ پولیس نے مشرا کے قتل کے سلسلے میں 30 لوگوں کو گرفتار کیا ہے۔ پولیس نے کہا کہ کلیدی ملزم سلمان کی تلاش جاری ہے، جس کے گھر سے مشرا پر گولیاں چلائی گئی تھیں۔
سوموار کو مشتعل ہجوم نے مشرا کی موت کے خلاف احتجاج کیا اور دکانوں، گاڑیوں، ایک نجی اسپتال اور دیگر املاک کو آگ لگا دی۔ اس تشدد کے بعد پولیس نے حالات کو قابو میں لانے کے لیے لاٹھی چارج اور فلیگ مارچ کا سہارا لیا۔
گزشتہ 14 اکتوبر کو خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی نے اطلاع دی،’لاٹھی اور لوہے کی راڈ سے لیس کچھ لوگ سڑکوں پر گھوم رہے تھے اور بہرائچ میں کشیدگی بڑھنے پردکانوں کو آگ لگا دی گئی۔’ خبر رساں ایجنسی نے بتایا کہ کچھ دکانوں، گھروں اور گاڑیوں میں آگ لگنے سے کالا دھواں آسمان کی طرف بلند ہو رہا تھا۔
زمینی سطح پر صورتحال ابھی تک واضح نہیں ہے۔
سوموارکو ایکس پر ایک اور پوسٹ میں، ایم ایل اے ترپاٹھی نے مسلمان صحافیوں کو مزید نشانہ بنانے کے لیےاس ویڈیو کا حوالہ دیا،جس میں مشرا ایک عمارت کے اوپر لگے ہرے جھنڈے کو توڑتے ہوئے نظر آ رہے تھے۔
ترپاٹھی نے کہا، ‘گوپال مشرا کاہرا جھنڈااتارنے کا ویڈیو توسامنے آیا، لیکن درگا کی مورتی پر حملہ، فائرنگ، پتھراؤ اور پھر اسی گھر سے گوپال مشرا کے بے رحم قتل کا ویڈیو کیوں غائب کر دیا گیا؟ اس کا جواب بہرائچ کے صحافیوں کی اس فہرست میں پوشیدہ ہے۔’
مسلمان صحافیوں کے نام ظاہر کرنے پر کئی سوشل میڈیا صارفین کی جانب سے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا گیا، حالانکہ وہ اس سے بے فکر نظر آئے۔ جب ایس پی کے مسلم ترجمان عمیق جامعی نے ترپاٹھی کے ٹوئٹ پر توجہ مبذول کرانے کے لیے پریس کلب آف انڈیا کو ٹیگ کیا تو ایم ایل اے نے فرقہ وارانہ طنز کے ساتھ جواب دیا،’کیا آپ اس میں پچھڑے اور دلتوں کو نہیں دیکھیں گے؟ کیا اس لیے کہ یہ سب آپ کے رشتہ دار ہیں؟ میں ایسی فہرستیں جاری کروں گا۔ آپ روتے رہیے!’
دریں اثنا مہسی سے مقامی بی جے پی ایم ایل اے سریشور سنگھ نے فیس بک پر ایک پوسٹ پوسٹ ڈال کر ہندوؤں سے امن برقرار رکھنے کی اپیل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ‘تمام ہندو بھائیوں سے عاجزانہ درخواست ہے کہ آپ امن و امان برقرار رکھیں، انتظامیہ مسلسل قانونی کارروائی کر رہی ہے۔’
وزیر اعلیٰ آدتیہ ناتھ نے کہا کہ مہسی میں ماحول خراب کرنے والوں کو بخشا نہیں جائے گا۔ انہوں نے حکام کو ہدایت دی ہے کہ وہ شرپسندوں کے ساتھ ساتھ ان لوگوں کی بھی نشاندہی کریں جن کی لاپرواہی سے یہ واقعہ پیش آیا اور ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔
ایس پی صدر اکھلیش یادو نے اس واقعہ کو ریاست کی 10 اسمبلی سیٹوں کے ضمنی انتخابات سے جوڑتے ہوئے کہا، ‘انتخابات کا آنا اور فرقہ وارانہ ماحول کا بگڑنا محض اتفاق نہیں ہے۔ عوام سب کچھ سمجھتی ہے۔ سب جانتے ہیں کہ شکست کے خوف سے تشدد کا سہارا لینا کس کی پرانی حکمت عملی ہے۔ یہ ضمنی انتخابات کی دستک ہے۔’
انہوں نے کہا کہ حکومت دکھاوٹی لاء اینڈ آرڈر کے بجائے حقیقی اور ٹھوس انتظامات کرے تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا، لیکن ایسا تبھی ہو گا جب حکومت چاہے گی۔
(انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں ۔)