حکومت نے 6 سال کے بعد اسسٹنٹ لوکو پائلٹ یعنی ریلوے ڈرائیوروں کی بھرتی نکالی ہے، وہ بھی محض 5696 عہدوں کے لیے۔ بہار میں نوجوان ان عہدوں کی تعداد بڑھانے کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ خبر ہے کہ ان مظاہروں کو کور کرنے والے کچھ چینلوں کے ویڈیو کو حکومت کی جانب سے قومی سلامتی کا حوالہ دینے کے بعد یوٹیوب نے بلاک کر دیا ہے۔
پٹنہ میں حالیہ احتجاج کے دوران سڑکوں پر نکلے نوجوان۔ (تصویر بہ شکریہ: یوٹیوب ویڈیو گریب)
نئی دہلی: قومی سلامتی کے نام پر
مودی حکومت نے کئی بار شہری حقوق کو کچلا ہے۔ اس بار ریلوے امیدواروں کے احتجاج کے ویڈیو کو مودی حکومت نے قومی سلامتی کے نام پر بلاک کرنے کا فرمان یوٹیوب کو جاری کیا ہے۔
معاملہ کچھ یوں ہے کہ ریلوے میں نچلی سطح کی نوکریوں کے لیے زیادہ تر غریب گھروں سے آنے والے نوجوان تیاری کرتے ہیں۔ حکومت نے 6 سال بعد اسسٹنٹ لوکو پائلٹس یعنی ریلوے ڈرائیوروں کی بھرتی نکالی ہے اور وہ بھی محض
5696 عہدوں کے لیے ۔
اس کے خلاف احتجاج میں 30 جنوری کو بہار کی راجدھانی پٹنہ میں ریلوے کی تیاری کرنے والے ہزاروں امیدوار سڑکوں پر نکل آئے۔ ریلوے ڈرائیوروں کی آسامی بڑھانے کا مطالبہ کرنے لگے۔ کئی رپورٹ آئی ہیں، جن سے پتہ چلتا ہے کہ ریلوے میں ڈرائیوروں کی شدید کمی ہے۔
ریلوے رننگ اسٹاف ایسوسی ایشن نے ریلوے بورڈ کو ایک خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ
ریلوے ڈرائیوروں کی کم از کم 16373 آسامی ہونی چاہیے ۔ اگر خالی آسامیاں شامل کی جائیں تو مطلوبہ ریلوے ڈرائیوروں کی تعداد میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
اس کے باوجود ریلوے کی جانب سے کم آسامیاں جاری کی گئی ہیں۔ اس خط میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ریلوے ڈرائیوروں کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے دیگر ڈرائیوروں پر دباؤ ہے۔ انہیں 12 سے 20 گھنٹے کام کرنا پڑتا ہے۔ انہیں چھٹیاں بھی کم ملتی ہیں۔
مین اسٹریم میڈیا تو نریندر مودی کی گود میں کھیل رہے ہیں۔ وہ ایسے اہم مسائل کو کور کرنے نہیں پہنچتے۔ چنانچہ ان مسائل کو اٹھانے کا بیڑا یوٹیوبروں نے اٹھایا ہے۔
مین اسٹریم میڈیا کے مقابلے ان کے پاس وسائل کی کمی ہے، لیکن وہ عوام کی آواز بن رہے ہیں۔ جن یوٹیوب چینلوں نے ریلوے امیدواروں کے پٹنہ کے احتجاج کو کور کیا ہے ان میں ‘آن ڈیوٹی’، ‘کیا کہتی ہے پبلک’، ‘سچ بہار’، ‘چمپارن درپن’، ‘کابل نیوز’ شامل ہیں۔
‘آن ڈیوٹی’ کے نام سے برجیش کمارایک چینل چلاتے ہیں۔ برجیش کا کہنا ہے کہ وہ ریلوے امیدواروں کے احتجاج کو کور کر رہے تھے۔ نوجوانوں کے پرامن مطالبات کو نظر انداز کرنے کے لیے پولیس نے لاٹھی چارج کا سہارا لیا۔ کئی امیدواروں کو شدید چوٹیں بھی آئی ہیں۔
اس پورے معاملے کو برجیش کے ‘آن ڈیوٹی’ چینل سمیت کئی یوٹیوب چینلوں نے دکھایا ہے۔
برجیش کا کہنا ہے کہ اس احتجاج کوجن یوٹیوب چینلوں نے پوسٹ کیا ہے، اس کے لیے انہیں یوٹیوب کی طرف سے ایک نوٹیفکیشن موصول ہوا ہے۔
نوٹیفکیشن میں لکھا ہے؛
‘YouTube video blocked: government complaint. We received an order from the government related to National security or public order regarding your content. After review the following content has been blocked from view on the YouTube country sites on listed below India.’
آن ڈیوٹی چینل کو یوٹیوب کی جانب سے ملا ویڈیو بلاک کرنے کے حوالے سے ای میل۔
مطلب مودی حکومت نے امیدواروں کے احتجاج کے ویڈیو کو بلاک کرنے کے لیے یوٹیوب سے شکایت کی۔ یوٹیوب کو حکم دیا گیا کہ قومی سلامتی یا امن عامہ کو مدنظر رکھتے ہوئے ویڈیو بلاک کر دینا چاہیے۔ یوٹیوب نے ویڈیو کا جائزہ لیا اور اسے ہندوستان میں بلاک کردیا۔
قومی سلامتی بہت سنگین معاملہ ہے۔ ہمارا آئین کہتا ہے کہ حکومت قومی سلامتی کے پیش نظر کسی فرد کے حقوق کو محدود کر سکتی ہے۔ لیکن نوجوانوں کا پرامن احتجاج ملکی سلامتی کو کس طرح بگاڑ سکتا ہے؟ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے۔
قانونی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں لگائی جا سکتی ہیں لیکن اس کی بنیاد منطقی اور عقلی ہونی چاہیے۔
امیدواروں کے احتجاج اور قومی سلامتی کے درمیان کوئی تعلق نظر نہیں آتا۔ یہ حکومت کا آمرانہ رویہ ہے۔ اس کی مخالفت ہونی چاہیے۔ اگر حکومت کے ایسے اقدامات کو نظر انداز کیا جاتا ہے اور رضامندی دی جاتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ قومی سلامتی کے نام پر اسے ہر قسم کے جائز مطالبے کو مسترد کرنے کی ترغیب دی جاتی رہے گی۔ قومی سلامتی کے نام پر عوام کی آواز کو دبانا سراسر غلط ہے۔ یہ آئین کے خلاف ہے۔
برجیش کمار بتاتے ہیں کہ ان کی عمر 24 سال ہے۔ 2022 سے، وہ ‘آن ڈیوٹی’ یوٹیوب چینل چلا رہے ہیں۔ وہ زیادہ تر اپنے یوٹیوب چینل پر تعلیم سے متعلق مسائل دکھانے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر کہیں کوئی پیپر لیک ہو جائے اور بے روزگار نوجوانوں کی آواز بننے کی بات ہو تو ہم اسے اپنے چینل پر جگہ دیتے ہیں۔ انہوں نے اس پورے احتجاج کو کور کیا۔
ان کا کہنا ہے کہ جب پولیس نوجوانوں پر لاٹھی استعمال کرتی ہے تو ہماری روح نہیں مر سکتی۔ یہ ممکن نہیں کہ ہم اسے نہ دکھائیں۔ ایک ویڈیو کا کلپ تو ایسا ہے،جس میں ایک پولیس اہلکار امیدوار کو ڈنڈے سے مار رہا ہے اور امیدوار کہہ رہا ہے، ‘کہ دکھائیے سراسے دکھائیے،ہم نے کیا کیا ہےکہ آپ لاٹھی مار رہے ہیں؟ اور پولیس اہلکار امیدوار کو لگاتارلاٹھی سے مار رہا ہے۔ پولیس اہلکار نے اتنی بے حسی کا مظاہرہ کیا ہے کہ دیکھنے والے شرمندہ ہو جائیں گے۔
برجیش کا کہنا ہے کہ پولیس نے اس معاملے میں ان کے ساتھ کچھ صحافیوں کو بھی حراست میں لیا تھا۔ ان سے کچھ پوچھ گچھ کی۔ ان کے والد سے بات کی اور انہیں چھوڑ دیا۔ جب انہوں نے گھر آکر اپنا یوٹیوب چینل چیک کیا تو پایا کہ حکومت کے حکم پر ان کے ویڈیو کو بلاک کرنے کا نوٹیفکیشن آیا ہے۔
چونکہ یہ حکومت کا آرڈر تھا اس لیے وہ ڈر گئے۔ انہوں نے ویڈیو ڈیلیٹ کر دیا۔ وہ اب بھی خوفزدہ ہیں، کیونکہ ان کی زندگی اسی یوٹیوب چینل پر منحصر ہے۔ انہیں ڈر ہے کہ کہیں ان کے چینل پر پابندی نہ لگ جائے۔
اسامیوں میں اضافے سے متعلق اس احتجاج پر وزیر ریلوے نے جواب دیا کہ پچھلے ایک سال میں ڈیڑھ لاکھ نوکریاں دی گئیں۔ اب بھرتیاں ہر سال کی جائیں گی۔
اس پر ‘یووا ہلہ بول’ کے قومی صدر انوپم نے کہا کہ ریلوے کے وزیر کے جواب کا طلباء کے مطالبات سے کوئی لینا دینا نہیں لگتا ہے۔ اس کے علاوہ ان کی دلیل میں دو بڑی خامیاں ہیں۔ سب سے پہلی بات کہ یہ 1.5 لاکھ نوکریاں پانچ سال پرانی بھرتیوں کی ہیں، پچھلے ایک سال کی نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسسٹنٹ لوکو پائلٹ کی صرف 5696 آسامیوں کو پر کرنے کی وضاحت یہ نہیں ہو سکتی کہ بھرتی ہر سال کی جائے گی۔ وہ بھی جب لاکھوں عہدے خالی پڑے ہیں اور ریلوے میں بالاسور جیسے حادثات ہو رہے ہیں۔ ویسے بھی بھرتی ہر سال ہونی چاہیے۔
ان کے مطابق، ایسا کرکے حکومت کوئی احسان نہیں کرے گی، کیونکہ ہر سال نہ صرف بڑی تعداد میں اسامیاں خالی ہو رہی ہیں بلکہ آبادی کے ساتھ ساتھ محکمے کا کام بھی بڑھ رہا ہے۔ ملک بھر کے ریلوے امیدوار ریلوے کے وزیر کے اس جواب سے مطمئن نہیں ہیں اور اب بھی مطالبہ کر رہے ہیں کہ اسسٹنٹ لوکو پائلٹ کی بھرتی میں اسامیوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے۔
انوپم کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے پتہ چلتا ہے کہ امیدواروں کے احتجاج کو کمزور کرنے کے لیے پٹنہ میں
دفعہ 144 لگائی گئی ہے۔ اطلاع ملی ہے کہ پولیس ٹیم ہاسٹلوں میں گھوم رہی ہے اور امیدواروں کو نشان زد کر کے دھمکیاں دے رہی ہے۔