خصوصی رپورٹ: ملک اور بیرونِ ملک بہار کو مزدوروں کی ریاست کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔بہار کی اسی شناخت کو بدلنے کے لیے ریاستی حکومت نے کئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے، اور بہار میں ادیوگ – دھندے لگانے کے لیے کئی خوش آئند اقدام کیے ہیں، لیکن ان کے نفاذ کے لیے جن ایجنسیوں کو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ اپنے لال فیتہ شاہی والے رویے کو بدلنے میں ناکام ہیں۔
تصویر: پی ٹی آئی / رائٹرس
سروج کمار (بدلا ہوا نام) سوپول شہر کے رہائشی ہیں اور بہار میں معاشی ترقیات کے لیے سرگرم ہیں۔ اپنی انہی کوششوں کے تحت انھوں نے کئی نوجوانوں کوسرکاری نوکریوں کے چکر میں اپنی جوانی کے سنہرے دنوں کو برباد کرنے سے روکنے کی کوشش کی، انھیں کاروبار کی طرف متوجہ کیا اور خود بھی اس کا عملی نمونہ بننے کے لیے بہار میں چل رہی سرکاری اسکیموں کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کی تاکہ اپنے کاروبار کے جذبے کو عملی جامہ پہنا سکے۔ لیکن وہ بہار میں چل رہی اسکیموں کے انتظامی ایجنسیوں کے رویوں سے نالاں ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ،سرکارنے بہار میں ادیوگ–دھندے لگانے کے لیے کئی خوش آئند اقدام کیے ہیں، لیکن ان کے نفاذ کے لیے جن ایجنسیوں کو ذمہ داری دی گئی ہے، وہ اپنے لال فیتہ شاہی والے رویے کو بدلنے میں ناکام ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اب تک مجھے جس سرکاری اسکیم (ادیمی یوجنا)کے مستفید کے طور پر چنا گیا تھا، تقریباََ دو سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ساری قسطوں کا پیسہ میرے اکاؤنٹ میں کریڈٹ نہیں ہو پایا ہے۔ ایسے میں بہار کے نوجوان ادیوگ–دھندے کی طرف کیسے متوجہ ہوپائیں گے اور بہار میں اُدیم (صنعت) کا ماحول کیسے بن پائے گا۔
اسی طرح کے تجربے درجن بھر سے زائد لوگوں نے شیئر کیے۔
یہ حقیقت سب پر آشکارا ہے کہ آج ملک اور بیرونِ ملک میں بہار مزدوروں کی ریاست کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ بہار کی اسی شناخت کو بدلنے کے لیے ریاستی حکومت نے کئی اسکیموں کا اعلان کیا ہے، اور اسٹارٹ اپ بہار،مکھیہ منتری ادیمی یوجنا اور مکھیہ منتری اقلیتی روزگار قرض یوجنا، جیسی اسکیموں کے ذریعے بہار میں معاشی ترقیات کے دعوے کیے جا رہے ہیں اور بہار میں مینوفیکچرنگ، پروسسنگ اور سروس سیکٹر کے روزگاروں کے بہتر مواقع کی بات کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں 3مارچ 2022 کواس وقت کے وزیرِ صنعت سید شاہنواز حسین نے بہار ودھان سبھا میں ان اسکیموں کا ذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ ،ہمارا ٹارگیٹ آٹھ ہزار ادییمیوں کو
دس دس لاکھ روپے دے کر بہار میں ادیمیوں کی نئی کھیپ تیار کرنے کا تھا۔ لیکن اس یوجنا کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ باسٹھ ہزار اپلیکیشن آگئے۔
انھوں نے اپنی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہاتھا کہ، ہم نے بیالیس ہزار لوگوں کو اہل پایا۔ اب ان میں سے آٹھ ہزار لوگوں کو چننا تھا۔ہم نے مکھیہ منتری جی سے گزارش کرکے آٹھ ہزار کے بجائے سولہ ہزار لوگوں کو دس دس لاکھ روپے فراہم کیا ہے۔ ان سولہ ہزار ادیمیوں نے صرف دس دس لوگوں کو بھی روزگار دیا ہوگا تو سوچیے کتنے لوگوں کو بہار میں روزگار مل گیا ہوگا۔
انہوں نے اپنے تئیں بات کو مدلل بناتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ، چار لاکھ اڑتالیس ہزار پانچ سو اکتیس لوگوں کا تو پی ایف کٹ رہا ہے۔
وزیر موصوف ایسا کہہ کر بہار میں معاشی ترقی کو بہت صاف شفاف اور تیز رفتار بھی بتانا چاہ رہے تھے۔ لیکن بہار ادیمی یوجنا کی
ویب سائٹ پر شائع 4 اپریل 2022 کو جاری کیے گیے پریس ریلیز سے اس دعوے کا ملان کیا گیا تو فائنل کیے گئے ناموں کی کل تعداد 3050 ہی پائی گئی۔
جس میں سے ایس سی- ایس ٹی ادیمی یوجنا کے تحت سب سے زیادہ 1382، خواتین کے زمرے سے 853، انتہائی پسماندہ طبقے کے زمرے سے 463، اور جنرل نوجوان ادیمیوں کے زمرے سے محض 352 درخواستوں کے منظور کیے جانے کی بات کی گئی ہے۔
ایس سی- ایس ٹی ادیمی یوجنا کے تحت سب سے زیادہ 1382؛
SC/ST Udyami Yojna by
The Wire
خواتین کے زمرے سے 853؛
Mahila Udyami Yojna by
The Wire
انتہائی پسماندہ طبقے کے زمرے سے 463؛
EBC Udyami Yojna by
The Wire
جنرل نوجوان ادیمیوں کے زمرے سے محض 352؛
Yuva Udyami Yojna by
The Wire
جس پر کل خرچ کی گئی رقم محض 3023673753 روپے ہے۔ اس پریس ریلیز سے پہلے اور اس کے بعد منظور شدہ ناموں کی کوئی اور پریس ریلیز ویب سائٹ پر دستیاب نہیں ہے۔
جب ہم نے بہار میں ادیوگ دھندے سے جڑے لوگوں سے بات چیت کی توانھوں نے معاشی ترقی کی راہ میں اس طرح کی سرکاری اسکیموں کا خاطرخواہ فائدہ زمین پر اترتا ہوا نظر آنے سے انکار کیا۔
وجہ پوچھے جانے پربہار انٹرپرینیور ایسوسی ایشن ، پٹنہ کےسکریٹری جنرل جناب ابھیشیک سنگھ نے کہا کہ ،ان اسکیموں کے ذریعے سرکار نے جن لوگوں کو یہ پیسے بانٹے ہیں ، جب تک ان کو پورا پورا ہینڈ ہولڈنگ سپورٹ نہیں دیا جائے گا تو اس طرح کی کسی بھی اسکیم کابھرپور فائدہ بہار کو نہیں مل پائے گا۔
وہ اس اسکیم کے مستفیدین کی ٹریننگ اسٹرکچر پر سوال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ، تیرہ دن کی ٹریننگ سے کسی بارہویں پاس نوجوان کو کیسے کوئی اُدیمی بنا سکتا ہے۔ اور جب ٹریننگ میں بزنس کے طریقے سکھانے کے بجائے فوکس مشینوں کی سپلائی سے کمیشن پر ہو تو یہ تیرہ دن کی ٹریننگ بھی ایک مذاق بن کر رہ جاتا ہے۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ، یہ پیسے ایسے لوگوں کو بانٹےگئے ہیں جن کو یہ شعور ہی کم ہے کہ وہ صنعت لگانے کے دوران آنے والے مسائل کو کیسے حل کریں۔ ایسے میں اور بھی ضروری ہو جاتا ہے کہ سرکار ان کی مستقل ہینڈ ہولڈنگ سپورٹ پر توجہ دے۔ بہار انٹرپرینیور ایسو سی ایشن ، بہار کے ادیمیوں کو اسی طرح کی اسسٹنٹ دینے کے لیے2011 میں بنایا گیا تھا ۔ بہار کے بہت سے بیوپاریوں کو ہم اسسٹ بھی کر رہے ہیں لیکن عمومی طور پر بہار کے ساشن، پرساشن اور ادیمیوں میں ٹریننگ کو لے کر ایک طرح کی اُداسینتا پائی جاتی ہے۔
جب اس سلسلے میں ادیوگ وبھاگ ، پٹنہ میں نوڈل آفیسر سدھانشو شیکھر سے پوچھا گیا کہ محکمہ نے انٹرمیڈیٹ پاس کی شرط کس منشا سے رکھی تو ان کا جواب تھا کہ، سرکار یہ چاہتی ہے کہ باشعور اور سنجیدہ لوگ ہی اپلائی کریں تاکہ وہ اپنی صنعت کو اچھے سے چلا سکیں اور سرکار کے پیسے ڈوبنے کا خطرہ کم سے کم ہو۔ اس سے کم پڑھے لکھے لوگوں پر بھروسہ کرنے کا آدھار نہیں بنتا۔
بہار انڈسٹریز ایسوسی ایشن ، پٹنہ کے تحت چلنے والے انکیوبیشن سینٹر’وینچرپارک’ کے سابق ڈائریکٹر جناب ارچن دیب سے جب پوچھا گیا کہ آپ بہار میں سرکار کے معاشی ترقیاتی اسکیموں کو کس نظر سے دیکھتے ہیں اور اس کے کتنے اثرات مستقبل قریب میں نظر آنے کی امید کرتے ہیں؟ تو سوال سنتے ہی انھوں نےپہلے تو کہا کہ بہار کی بات مجھ سے کرو ہی نہیں ۔ بہار میں کچھ نہیں ہو سکتا ۔ یہاں پر سبھی کرپٹ اور نااہل لوگ بیٹھے ہوئے ہیں، سکریٹری سے لے کر عام کلرک تک۔ اور جو قابل لوگ ہیں ان کو یہ لوگ کام کرنے نہیں دینا چاہتے ہیں۔
لیکن جب ان کا غصہ تھوڑا شانت ہوا تو پھر انھوں نے بہار کےعام نوجوانوں کی قابلیت کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ،بہار کے محنتی اور جفا کش نوجوان اچھا اور نیا کرنا چاہتے ہیں، ان میں پوٹینشیل بھی ہے۔ لیکن بہارکے ایڈمنسٹریشن میں ابھی بھی ایسے لوگوں کی بہتات ہے جو ان نوجوانوں کے حوصلے کو توڑنے کا سبب بن رہے ہیں۔ مکھیہ منتری ادیمی یوجنا ہویا کوئی اور یوجنا ، یہ سبھی سرکاری خانہ پری کا ذریعہ بن کر رہ گیے ہیں۔ سرکار جب تک اس طرف دھیان نہیں دے گی اس وقت تک بہار کی دَشا نہیں سدھر سکتی۔
بہار میں ادیمی یوجنا کے تحت بنائے گئے ایک کارخانے کے شیڈ کی تصویر
سرکار کئی سال سے اعلان کرتی آر ہی ہے کہ مکھیہ منتری ادیمی یوجنا کے تحت صنعت لگانے کےلیے دس دس لاکھ روپے دیے جائیں گے جس میں پانچ لاکھ سبسڈی اور پانچ لاکھ غیر سودی قرض کے طور پر ہوگا۔جب ہم نے اس سلسلے میں اس اسکیم کے مستفیدین سے اب تک کے تجربے کو شیئر کرنے کے لیے کہا توکئی لوگوں نے بات کرنے سےیہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ ابھی اہم کسی میڈیا سےبات کریں توامکان ہے کہ ہمیں اسکیم سے باہر کردیا جائے۔
نام نہ بتانے کی شرط پر تین الگ الگ لوگوں نے اپنے تجربے بیان کیے۔سوپول ضلعے کے بیرپور تھانہ حلقہ کے رہائشی ادیمی یوجنا کے ایک مستفید نے کہا کہ، ہم نے درخواست ڈالتے وقت ریڈی میڈ گارمنٹس کا آپشن چنا تھا ، اس وقت یہ سوچ تھی کہ باہر سے ریڈی میڈ کپڑے لاکر یہاں بیچنے کا کام کروں گا اور روزی روٹی کا انتظام کروں گا۔ لیکن ضلع ادیوگ وبھاگ میں فارم جمع کرنے گیا تو وہاں پر بتایا گیا کہ مجھے اپنے تئیں کپڑے بنانے ہوں گے اور مشین بھی خریدنی ہوگی تو میرے ہوش اڑ گیے۔ دس لاکھ میں مشین اور پھر ساری مارکیٹنگ اور سیلز کو سنبھالنا مجھے اپنے بس سے باہر کا لگا۔
وہ آگے کہتے ہیں، پھر سوچا چلو، جو ہوگا دیکھا جائے گا، پہلے تو پیسہ مل جائے۔ لیکن جب جب مجھے ضلع ادیوگ وبھاگ میں بلایا گیا تو ہر بار کلرکوں کو چائے پانی کے نام پر ہزار دو ہزار دینے پڑے، ورنہ فائل آگے نہ بڑھانے کی بات اشاروں اشاروں میں کہہ دیا جاتا۔ اب جب رقم کی پہلی قسط چار لاکھ روپے میرے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہوئی تو آدیش یہ ملا کہ ڈھائی لاکھ روپے سے پہلے کارخانہ کی شیڈ بنائیے اور ڈیڑھ لاکھ روپے دے کر آتھورایزڈ ڈیلر سے مشین بُک کرائیے اور اُن سب کی رسید ضلع اُدیوگ وبھاگ میں جمع کرائیے تو باقی چھ لاکھ روپے آپ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دیئے جائیں گے۔
وہ مزید کہتے ہیں، میں نے اپنا شیڈ تیار کرکے اور مشین کی بکنگ اماؤنٹ ڈیڑھ لاکھ روپے جمع کر کے اس کا انوائس ضلع اُدیوگ وبھاگ میں جمع کرایاتو اب یہ حکم مل رہا ہے کہ ڈیڑھ لاکھ روپے بکنگ اماؤنٹ نہیں ہے بلکہ ڈیڑھ لاکھ میں جتنی مشین مل پا رہی ہیں، اتنی لے کر آئیے اور کام شروع کیجئے۔ پھر ہم ایک ساتھ شیڈ اور مشین کے انسپیکشن کے لیے آئیں گے اور تبھی آپ کا بقیہ اماؤنٹ ریلیز کیا جائے گا۔ اب جب ہم نے آتھورائزڈ ڈیلر سے ڈیڑھ لاکھ کی مشین بھیجنے کے لیے کہا تو انھوں نے کہا کہ ،ہم ساری مشینیں ایک ساتھ ہی بھیجیں گے، الگ الگ نہیں بھیج سکتے۔ ایسے میں ہم جیسے نوآموز صنعتکار بیچ میں پِس کر رہ گیے ہیں ۔ہمارے پاس پیسے بھی نہیں ہیں کہ ہم اپنی طرف سے پیسے لگا کر ساری مشینیں ایک ساتھ منگوا لیں۔ اگر مشین ایک ساتھ منگوا بھی لیں تو ہمارے پاس ورکنگ کیپٹل نہیں ہے کہ ہم کام کو آگے بڑھا سکیں۔
غورطلب ہے کہ 9 اگست کوبہار میں سرکار بدلنے کے بعد تازہ صورتحال کے بارے میں ان سے جاننے کی کوشش کی گئی تو انھوں نےاس سلسلے میں کسی بھی قسم کے بدلاؤ سے انکار کیا اور کہا کہ ہم نے اس تعلق سےنئے ادیوگ منتری جناب
سمیر مہاسیٹھ کو بھی میل لکھ کر متوجہ کیا لیکن ابھی تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ۔
ہم نے اس بابت جب بہار انڈسٹریز ایسوسی ایشن کے جنرل سیکریٹری جناب گورَو شاہ سے بات کی تو انھوں نے سرکاری انداز میں جواب دیتے ہوئے کہاکہ یہ بہت اچھی اسکیم ہے۔ کرائٹیریا تو کچھ نہ کچھ بنانا ہی پڑے گا۔ اگر کسی کو اس اسکیم کا پورا فائدہ نہیں مل پا رہا ہے تو ہمیں بتائیں ، ہم سرکار اور وِبھاگ سے بات کر کے ان کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کریں گے۔
لیکن اسی طرح کی پریشانیوں کا ذکر کرکے’جیم، جیلی اور ساس مینوفیکچرنگ’کے مَد کےادیمی یوجنا کے ایک اور مستفید نے ہمیں بتایا کہ، ہماری ٹریننگ 13 دن کی ہوئی، سوپول کے بی ایس ایس کالج میں۔ ان تیرہ دنوں کی ٹریننگ کے لیے ہمیں اپنی رہائش اور خورد و نوش کا انتظام خود کرنا تھا۔ سوپول ضلع کے سبھی 49 مستفیدین کو بی ایس ایس کالج کی اس ٹریننگ میں صد فیصد حاضری دینی لازمی تھی۔ ہم سبھی ایک نئے جذبے سے اس ٹریننگ میں پہنچے۔ ہمارے ٹرینر تھے اونیش سر۔ سر نے اپنے تئیں اچھی معلومات فراہم کرائی۔ لیکن جو چیز کھٹکی، وہ یہ تھی کہ جگہ جگہ ہمیں کلرکوں کی طرف سے اشارے کیے جا رہے تھےکہ ان کے ہاتھ گرم کیے جائیں۔
وہ کہتے ہیں، ڈی پی آر (ڈیٹیلڈ پراجیکٹ رپورٹ) کی تیاری کے لیے تو کھل کر بول بھی دیا گیا۔ حالانکہ محکمہ کی طرف سے ٹریننگ اور ڈی پی آر سبھی کچھ مفت کرائے جانے کا اعلان کیا گیا تھا۔ لیکن جب ڈی پی آر کے لیے کھل کر پیسے مانگ لیے گیے تو ہم نے جم کر مخالفت کی اور بات جب مینجمنٹ کے اعلیٰ افسروں تک پہنچی تو پیسے مانگنے والے ُمکر گیے اور تب جاکر ہمیں مفت میں ڈی پی آر تیار کروا کر دیا گیا۔
انھوں نے مزید کہا کہ، ڈی پی آر کی تیاری کے دوران مشینوں کے ڈیلرز بھی آئے ہوئے تھے اور وہ اپنا کمیشن چارج کر کے ڈی پی آر کی تیاری میں ہماری مدد کر رہے تھے جو ہمیں اچھا نہیں لگا۔ اگر ہم مشین اوپن مارکیٹ سے اچھی اور سستے داموں میں خرید کر لے آئیں تو اس میں ہمارا زیادہ فائدہ ہوگا۔چونکہ پیسہ ہمارے نام سے ریلیز ہوگا اور ہمیں ہی بعد میں 86 قسطوں میں واپس بھی کرنا ہے تو اس کے استعمال میں ہمیں آزادی بھی ملنی چاہیے تھی، نا کہ اس کی بندر بانٹ اور کمیشن خوری کی نذر کو ہم برداشت کرنے پر مجبور ہوں۔
ریڈی میڈ گارمنٹس کے َمد کےادیمی یوجنا کے ہی ایک اور مستفید سے جب ہماری بات ہوئی تو انھوں کہا کہ، مجھے بھی ریڈی میڈگارمنٹس کے کام کی نوعیت کی سمجھ نہیں تھی اور جب بعد میں سمجھ آئی تو ہم نے کہا کہ ہم اس کام کو اچھے سے نہیں کر پائیں گے ، اس لیے ہمیں ٹور اینڈ ٹراولس کے َمد میں ٹرانسفر کر دیا جائے ۔ اس پر ہمیں کہا گیا کہ ٹریننگ کے دوران چینج کروا دیا جائے گا، چینج کا آپشن ہے ابھی آپ کے پاس۔ میں مطمئن ہو گیا۔ لیکن ٹریننگ کے دوران ڈی پی آر ٹور اینڈ ٹراولس کے مَد کا بننے کے باوجود ہمارے مد میں تبدیلی نہیں ہو سکی۔
ان کا کہنا ہے کہ ، حالانکہ اس کے لیے ہم نے کلرک کو دس ہزار روپے بھی دیے تھے۔ چینج نہ ہونے کی وجہ پوچھے جانے پر کلرک اپنی بے بسی کا اظہار کر رہا ہے اور ہمارے پیسے واپس کرنے میں بھی آنا کانی کر رہا ہے۔ ایسے میں ہم نے پہلی قسط کا پیسہ لوٹانے کی بات کہہ کر اسکیم سے باہر ہو جانا چاہا، لیکن اب تک معاملہ کلیئر نہیں کیا جا رہا ہے۔ جس کی وجہ سے میں ذہنی مشکلات کا شکار ہو کر رہ گیا ہوں۔
بہار میں ادیمی یوجنا کے تحت بنایے گیے کارخانے کے شیڈ کی تصویر
جب ان سے پوچھا گیا کہ آپ سرکار سے کچھ مطالبہ کرنا چاہیں گے؟ تو انہوں نے کہا کہ، ایک ہی بات کہنا چاہوں گا کہ کلرکوں کے ذریعے مختلف سطحوں پر پیسوں کے اشارے کیے جانے کو سرکار سختی سے روکے، ورنہ ہم جیسے بہت سے نئے صنعتکار پہلے ہی ہمت توڑ کر بیٹھ جائیں گے اور بہار کبھی بھی صنعتکاروں کی پہلی پسند نہیں بن پائے گا۔ جس کی وجہ سے یہاں کے مزدوروں کا دوسرے پردیشوں میں روزی روٹی کے لیے جانے کا سلسلہ کبھی بھی رک نہیں پائے گا۔
ان سب مسائل کے حوالے سے جب بہار اسٹارٹ اپ پروگرام سے متعلق ایک افسر جناب شیویندرکمار سے بات کی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ یہ اسکیم ان لوگوں کے لیے شروع کی گئی ہے جو بہت بڑی انڈسٹری چلانے کی چھمتا (صلاحیت) نہیں رکھتے۔ سرکار نے معاشی ترقی میں ان کی حصے داری کوبھی یقینی بنانے کے لیے ادیمی یوجنا جیسی فائدے مند اسکیم کی شروعات کی ہے۔ اس اسکیم میں کئی خامیاں ہو سکتی ہیں۔ آگے چل کر ان فیڈبیک کو دھیان میں رکھ کر اس میں کئی طرح کے سدھار کیے جارہے ہیں۔ لیکن صرف بھرشٹاچار کی آشنکا (بدعنوانی کے خدشات)کی وجہ سے اس یوجنا کو ہی روک دینا عقلمندی کی بات تو نہیں ہو سکتی۔
وہ کہتے ہیں، کم از کم اس اسکیم کا یہ فائدہ تو بہار کو مل ہی رہا ہے کہ ایک نوجوان کو اپنے گھر سے پیسہ لینے کے بجائے سرکار کی مدد پاکر وہ اپنے پیروں پہ کھڑا ہو رہا ہے۔
اس پر جب ان سے پوچھا گیا کہ سرکار نے اس اسکیم کی تشہیر کے وقت بہار واسیوں کو کیا اتنا بھر کا ہی سپنا دکھایا تھا توانھوں نے خاموشی اختیار کر لی مگر ان کے چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ کہنا چاہ رہے ہوں کہ ، ظاہر ہے،صرف اتنا تو نہیں تھا۔
(شاہد حبیب، لکھنؤ میں مقیم آزاد صحافی اور ریسرچ اسکالر ہیں۔ انھوں نے یہ رپورٹ نیشنل فاؤنڈیشن فار انڈیا کی آزاد صحافیوں کے لیے فیلوشپ پروگرام کے تحت تیارکی ہے۔)